Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1435ھ

ہ رسالہ

15 - 17
ایک نابغہ روزگار شخصیت

مسعود عظمت کشمیری
	
کشمیر، جو چوراسی ہزار (84000)سے زائد مربع کلو میڑ پر مشتمل ایک زرخیز خطہ ہے، جو سر سبز وشاداب وادیوں اور بلند بالا پہاڑوں پر مشتمل ایک خوب صورت وحسین علاقہ ہے ۔یہ خطہ اپنے حسن وخوب صورتی کی بنا پر دنیا میں مشہور ہے۔

اس مردم خیز خطے میں بڑے بڑے اولیاء ،صوفیاء،علماء اور شاعر گزرے ہیں، ان صوفیائے کرام واولیائے کرام نے یہاں پر اپنے حسن سلوک، اخلاق کریمانہ اور پیار ومحبت سے لوگوں کے دل جیتے یہاں کے لوگ جو پہلے کفروشرک کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے اب اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر جوق در جوق اسلام میں داخل ہو نے لگے، کچھ ہی عرصہ گزرا ہوگا کہ کشمیر کا یہ خطہ جو اپنی خوب صورتی کی وجہ سے دنیا میں توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا اور یہاں صبح وشام مندروں کی گھنٹیاں اس کی خوب صورتی کو گہنا رہی تھی ا ب اسلام کی آمد کے بعد توحید کی صداوٴں سے گونجنے لگا۔

انھی صوفیاء واولیاء اور علمائے کرام نے اپنی محنت وکوشش کے ذریعے سینکڑوں لوگوں کو اسلام میں داخل کیا،اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت وخدمت اور ان کی نشرواشاعت کے لیے مختلف ادوار میں مختلف شخصیات کو پیدافرماتے ہیں، جو اس دین مبین کو بڑی محنت وقربانی ،مجاھدات وریاضات کے ساتھ حاصل کرتے ہیں، پھر اس سے زیادہ قربانی ومحنت سے وہ مقدس علوم کو اگلی نسل تک منتقل کردیتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں حق تعالیٰ قبولیت کا ایسا سلسلہ جاری فرمادیتے ہیں جو امت میں قرآن وحدیث اور اس کے متعلقہ فنون کو فروغ دیتے ہیں، جن کی وجہ سے عام لوگوں کو شریعت کی راہوں پر چلنا آسان ہوجاتا ہے، انھی عظیم شخصیات میں سے ایک شخصیت حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف خان  کی ہے۔

حضرت مولانا محمد یوسف ایک متبحر عالم ،زاہد ،متقی، قرآن وحدیث سے زندگی بھر شغف رکھنے والے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی اتباع کرنے والے اور بے باک سیاسی راہ نما تھے۔انہوں نے ہمیشہ حق کا بول بالا کیا،ذاتی مفادات سے ہٹ کر ہمیشہ قومی وملی مفادات کو ترجیح دی۔

حضرت شیخ الحدیث نے1918ء آزاد کشمیر کے مردم خیز علاقے ”منگ“میں آنکھ کھولی۔ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد جب دینی تعلیم حاصل کرنے کا وقت آیا تو حضرت شیخ الحدیث نے عالم اسلام کے عظیم ادارے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔

اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے وقت کے جبال العلمسے کسب فیض کیا، بڑے بڑے اساتذہ ومشاہیر، جنہوں نے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپاکیا ،ان کے سامنے زانوتلمذ تہہکیا۔اس وقت کے جبال علم وعمل میں، ملک وملت کے عظیم رہنما ،اسیر مالٹا حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، حضرت مولانا شبیر احمدعثمانی اور حضرت مولانا ابراہیم بلیاوی  سے علم حاصل کیا۔

آپ کے ہم سبق وہم درس حضرت مولانا سرفراز خان صفدر  جیسی بزرگ ہستی تھی۔1943ء کے سال دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب اپنے علاقہ میں تشریف لائے تو یہاں ڈوگرہ نظام رائج تھا۔تخت وتاج کے بھوکے اور ہوا وہوس کے پجاری ڈوگرہ شاہی نظام نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا تھا ،ظلم وستم کا وہ کون سا طریقہ تھا جو ان پر آزمایا نہیں جارہا تھا،مسلمان غلاموں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔اگر کہیں اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی جاتی تو اس کو بلند ہونے سے پہلے ہی دبادیا جاتا۔اس وقت کی ڈوگرہ حکومت نے قانون بنا رکھا تھا کہ ”جوشخص گائے کو ذبح کرے گا اس کو سات سال قید اور جو کسی مسلمان کو قتل کرے گا اس کو تین سال قیدہو گی “یہی وہ مظالم تھے جن کی وجہ سے حضرت شیخ الحدیث نے ان ظالمانہ قوانین اور حکومتی سلوک کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا،ان ظالمانہ قوانین کے خلاف آپ نے رائے عامہ کو منظم کیا، جس کی پاداش میں ڈوگرہ حکومت نے آپ کو تین ماہ کی قید سنائی۔

1947ء میں جب پاکستان آزاد ہوچکا تو اس وقت مسلمان اکثریت والے علاقے بھی پاکستان کے اندر شامل ہوئے، لیکن کشمیر کی حکومت نے بھارت کے ساتھ الحاق کردیا،جس کی وجہ سے عوام کے اندر بے چینی کی لہر اٹھی ،اسی وجہ سے کچھ عرصہ کے اندر ہی کشمیر کے اندر تحریک آزادی شروع ہوگئی جس میں حضرت شیخ الحدیث نے بھی شرکت کی ۔

مسلمانوں نے جب جہاد کے ذریعے کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کرالیا تو وہاں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی اسی دوران آپ نے نفاذ اسلام کے لیے کوشش اس طرح کی کہ وہاں شریعت کورٹس کا قیام عمل میں لایا، آپ کا لگایا ہوا پودا آج بھی آزادکشمیر میں اسی طرح برگ وبار لارہا ہے کہ جہاں ایک طرف جج بیٹھتا ہے تو دوسری طرف شریعت کورٹس میں قاضی بیٹھتا ہے اور عوام کے مسائل کو حل کرتا ہے ۔

حضرت مولانا نے 1975ء کے الیکشن میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت کے ذریعے کا م یابی حاصل کی، آپ نے اسمبلی میں پہنچ کر دین اسلام کی سچی نمائندگی اور ترجمانی کی اور اسلام کی وہ خصوصیات بیان کیں جو ممبران اسمبلی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھیں ۔

لاء کمیشن جب بنایا گیا تو آپ نے اس کی مرتب کردہ رپورٹ پر 75 پچھہتر گھنٹے بحث کی اور اپنے جامع ومانع دلائل کے ذریعے اسمبلی کے اشکالات کو دور کردیا۔

اس کے ساتھ ساتھ آپ نے قرآن وحدیث کی درس وتدریس کو بھی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا، اس کے لیے آپ نے پلندری شہر میں اپنا مرکز بنایا، 65سال تک آپ درس بخاری دیتے رہے اور لوگوں کے دلوں میں علم کی شمعیں روشن کرتے رہے اور 35 سال تک آپ جمعیت علمائے اسلام آزاد کشمیر کے امیر رہے۔

یہ انھی لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کے لیے وقف کی ہوتی ہیں ان لوگوں نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا ہو، یہی اللہ کہ وہ برگزیدہ بندے ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہیں، جب یہی بندے اس دنیا میں اپنی زندگی پوری کرلیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے دیدار کے لیے اور اپنے قرب کے لیے ان کو اپنے پاس بلا لیتا ہے ۔

حضرت مولانا یوسف خان صاحب 12ستمبر2010ء بمطابق 2شوال1431ھ کو اللہ کو پیارے ہوگئے اور اللہ کی جوار رحمت میں چلے گئے۔
        آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

Flag Counter