Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1435ھ

ہ رسالہ

17 - 17
مبصر کے قلم سے

ادارہ
	
تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)

الله تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ اور خدا
مؤلف: رشیدالله یعقوب
صفحات:272 سائز:23x36=16
ناشر: رحمة للعالمین، ریسرچ سینٹر ، مکان نمبر8، زمزمہ اسٹریٹ نمبر3، کلفٹن، کراچی

جناب رشید الله یعقوب صاحب اگر چہ باقاعدہ کسی دینی ادارے سے فارغ التحصیل اور عالم نہیں ہیں لیکن انہوں نے درود شریف ، دعاء واستغفار اور اسماء باری تعالیٰ سے متعلق بعض اچھے مجموعے تیار کیے، مستند علماء کرام سے ان پر تقاریظ اور دعائیہ کلمات بھی لکھوائے اور اس کالم میں ان کی بعض کتابوں پر تبصرہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ زیر نظر کتاب بھی ان کی ایک تالیفی کاوش ہے جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ الله تعالیٰ کی ذات پر لفظ ”خدا“ کا اطلاق جائز نہیں ہے ۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کرکے پہلے اور دوسرے حصّے میں چوبیس ابواب قائم کیے گئے ہیں، جن کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ شرعی نقطہٴ نظر سے اگرچہ الله تعالیٰ کی ذات پر لفظ ”خدا“ کا اطلاق جائز نہیں لیکن امت کے علماء نے شاہی ڈر، خوف یا کم علمی اور دینی منصب میں کوتاہی کا ارتکاب کرتے ہوئے الله تعالیٰ کی ذات پر لفظ ”خدا“ کا اطلاق کیا اور اس کے استعمال پر نکیر نہیں کی، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس لفظ کے اطلاق اور رواج کو عجمی سازش قرار دیا ہے کہ عجمی بادشاہوں کے ایماء پر لکھے جانے والے ”شاہنامہ“ کے ذریعے اس لفظ کے استعمال کو فروغ دیا گیا،اس طرح انہوں نے فارس وخراساں اور افغانستان وہندوستان کے مسلم حکمرانوں اور علماء کو اس سازش کا حصہ اور مورد الزام ٹھہرایا ہے ۔

حالاں کہ یہ ایک عام فہم اور سیدھی سادی بات ہے لیکن اردو کی چند کتابوں کے مطالعے سے علمی خبط میں مبتلا ہو کر عام مسلمانوں کے ذہنوں کو الجھن وپریشانی میں ڈالنے، علماء ودین دار طبقے پر طعن وتشنیع کرنے اور ان سے بد اعتمادی کی فضا پیدا کرنے کے لیے اسے پیچیدہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور زیر نظر کتاب کے مطالعے سے بھی یہی عیاں ہوتا ہے۔ حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی رحمة الله علیہ نے ”آپ کے مسائل او ران کا حل“ میں اس طرح کے کئی سوالوں کا جواب دیا ہے ، جو عام فہم اور معقول ومدلل انداز میں لکھے گئے ہیں اور موضوع کی مناسبت سے ایک سوال کے جواب کو یہاں تبصرہ میں نقل کیا جاتا ہے۔ چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

”الله کے لیے لفظ”خدا“ کااستعمال جائز ہے اور صدیوں سے اکابرین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں اورکبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے ، انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں ”عجمی سازش“ نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور ان کے ہم نواؤں نے پیدا کیا اور بہت سے پڑھے لکھے ، شعوری وغیر شعوری طور پر اس کا شکار ہو گئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے کی ہے ۔ عربی لفظ میں ” رب “ مالک اور صاحب کے معنی میں ہے، اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ ”خدا“ کے ساتھ کیا گیا ہے، چناں چہ جس طرح لفظ ”رب“ کا اطلاق بغیر اضافت کے غیر الله پر نہیں کیا جاتا اسی طرح لفظ ”خدا“ بھی جب مطلق بولا جائے تو اس کا اطلاق صرف الله تعالیٰ پر ہوتا ہے ، کسی دوسرے کو خدا کہنا جائز نہیں۔

غیاث اللغات میں ہے : ”خدا بالضم بمعنی مالک، صاحب، چوں لفظ خدا مطلق باشد برغیر ذات باری تعالی اطلاق نکنند مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود، چوں کدخدا، ودہ خدا۔(غیاث اللغات، ص:185)ٹھیک یہی مفہوم اور یہی استعمال عربی میں لفظ ”رب “ کا ہے ۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ ” الله“ تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے ، جس کا نہ کوئی ترجمہ ہو سکتا ہے نہ کیا جاتا ہے ، دوسرے اسمائے الہٰیہ صفاتی نام ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے ۔ اب اگر الله تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیر عربی میں کر دیا جائے و راہلِ زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے او راس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ اور جب لفظ”خدا“ صاحب اور مالک کے معنی میں ہے اور لفظ ”رب“ کے مفہوم کی ترجمانی کرتا ہے تو آپ ہی بتائے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا؟ کیا انگریزی میں لفظ ” رب“ کا کوئی اور ترجمہ نہیں کیا جائے گا؟ اور کیا اس ترجمے کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گی؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خودرائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گم راہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں، یہی خودرائی انہیں جہنم کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے ، الله تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔ ( آپ کے مسائل او ران کا حل:561,560/2)

کتاب میں کئی جگہ جذبانی اور غیر سنجیدہ طرز واسلوب بھی اختیار کیا گیا ہے ۔ چناں چہ ایک جگہ تنقید کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ :
” ایک یہودی کاہن، ربی، یا عیسائی پادری کا لباس پہن کر، ڈاڑھی منڈوا کر چرچ میں جہاں خدا یا اس کے تصور کے مطابق خدا کے بیٹے عیسی کا ایک بڑا بت ایک صلیب پر برہنہ لٹکا ہوا ہے ، نماز پڑھ سکیں گے اس لیے کہ نیت اور مکمل عمل تو نماز کا ہے ۔ “ ( ص:30)

ایک اور جگہ لکھا گیا ہے کہ:
” کیا عمامہ باندھ کر ، شلوار ٹخنوں سے اوپر چڑھا کر، کندھے پر عربی رومال ڈال کر، کندھے سے کندھا ملا کر کسی بھی مندر میں رام، کرشن اور سرستی دیوی کی مورتیوں کے سامنے نماز باجماعت کر لیں کہ نیت تو باری تعالیٰ کے لیے نماز پڑھنے کی ہے۔“ ( ص:30)

کتاب پر ایک تبصرے کے متعلق کہا گیا ہے کہ:
”مجھے اندازہ ہے کہ میرے الفاظ کو توڑا موڑا جائے گا، مگر میں اس کے لیے تیار ہوں۔ ”فرعونی“ تبصرے کو پڑھ کر ملتان سے آیا ہوا خط میرے لیے اطمینان کا باعث ہے۔“

کتاب کا انداز واسلوب اپنی بات کو زبردستی مسلط کرنے کا ہے،کتاب میں جس منطق اور فلسفے کے ذریعے اپنے موقف کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس منطق کے تحت تو پورے دین کو مشکوک بنایا جاسکتا ہے جیسا کہ منکرین حدیث اور تجدد پسند اس طرح کے الزامات لگا کر احادیث کے ذخیرے کو مشکوک بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں او را سمیں سب سے اہم کردار علمائے دین سے بد اعتمادی کی فضا کو پیدا کرنا ہے۔

یہ کتاب رنگین وعمدہ کاغذ پر معیاری طباعت واشاعت کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔

Flag Counter