Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1435ھ

ہ رسالہ

3 - 17
العظیم جل جلالہ

ڈاکٹر محمد اشرف کھوکھر
	
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۔
العظیم جل جلالہ اللہ رب العزت کے اسماء الحسنیٰ میں سے ایک ہے۔لغت میں عظمت ،بزرگی ،بڑائی،شان وشوکت اور قدرومنزلت کو کہتے ہیں،اہل دنیا کی زبان میں عظمت کا اطلاق لمبائی ،چوڑائی، گہرائی اور اونچائی پر ہوتاہے،جب ان میں سے کسی ایک کی دوسری شے پر بڑائی بیان کرنی ہو تو عظمت کا استعمال کیا جاتا ہے ۔عظمت کی مختلف اقسام ہیں ۔1..حقیقی عظمت   2..غیر حقیقی عظمت۔

حسی مثال
جب کوئی ایک انسان دامن کوہ میں کھڑے ہو کر سرسبز وشاداب پہاڑ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہے تو کہتا ہے بہت بڑا پہاڑ ہے، پہاڑ کی بڑائی کا اعتراف کرتا ہے ،پھر جب ذرا اوپر نظر اٹھا کر دیکھتا ہے، نیلگوں آسمان کی بے چھید چھت بغیر ستونوں کے نظرآتی ہے تو آسمان کی عظمت کے سامنے پہاڑ کی عظمت ہیچ ہو جاتی ہے اور اسی طرح جب انسان آسمان کی وسعت کو بنظر غور دیکھ کر صحت مند دل ودماغ کے ساتھ غور وفکر کرتا،بصیرت اور بصارت سے دیکھتا ہے تو وہ اس کے حقیقی صانع کی عظمت وبڑائی کا اعتراف کیے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا اور ایک ایمان والا انسان پر خلوص ہو کر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے پکار اٹھتا ہے ﴿وھو العلی العظیم﴾(البقرة)ترجمہ:”اور وہ اللہ عالی شان ہے،عظیم الشان ہے۔“

حقیقی عظمت
یہصرف اور صرف اللہ رب العزت کے لیے ہے، جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ،کرہ ارض کی رعنائی وخوب صورتی ،ایک ذرہ سے لے کر پر بت تک ،ایک قطرہ سے لے کر سمندر تک، بڑے سے بڑے پھل،بیج اور بیج سے ایک ننھی سی کو نپل تک اور ایک جسمیہ سے لے کر بڑے سے بڑے جاں دار تک ،یہ آگ اور مٹی،ہوا اور پانی،یہ زمین کے ثریٰ سے ثریا تک اور سیار گان افلاک پر موجود مرئی وغیر مرئی مخلوقات تک ،سبھی کا جوخالق ومالک حقیقی، جو رحیم وکریم رب،تمام زمینی ،بری ،بحری ،فضائی مخلوقات کی جملہ ضروریات کو پورا کرنے والارب ہے،تمام فانی عظمتیں اس کے سامنے پست ہیں اور وہ العظیم جل جلالہ ہے، وہی رب العرش العظیم ہے ،وہی فضل عظیم ،عظمت وکبریائی اور جبروت وملکوت کا حقیقی مالک ہے ۔العظیم جل جلالہ نے محض اپنے فضل وکرم سے بنی آدم کو شرف اور عظمت سے نوازاہے ،العظیم جل جلالہ کی عظمت کسی وصف وصفت کی مرہون منت نہیں ہے جب کہ العظیم جل جلالہ نہ صرف خالق کائنات ہونے کی وجہ سے عظیم ہے، بلکہ اگر وہ بالفرض کائناتوں کو تخلیق نہ بھی کرتا تب بھی عظیم ہی ہوتا ہے ،عظمت وبزرگی اللہ رب العزت کا ذاتی وصف ہے، معلوم ہوا حقیقی عظمت صرف اور صرف اللہ رب العزت کے لیے ہے۔

غیر حقیقی عظمت
حقیقی عظمت ،بزرگی وبڑائی ،شان وشوکت اور قدرومنزلت صرف اور صرف العظیم جل جلالہ کے لیے ہے ۔رب عظیم نے اپنے دیگر اوصاف کے پرتو سے اپنی مخلوق کو نوازا ہے ،اسی طرح مختلف قسم کی عظمتیں دی ہیں، جن کو غیر حقیقی عظمت کہا جاسکتا ہے ۔دنیا کا کوئی انسان اپنی بادشاہت ،اقتدار ،عہدہ ومنصب، مال ودولت ،جسمانی قوت و طاقت اور بوجہ کثیر الاولاد یا فن کی بنا پر معزز،معتبر اور عظیم جانا جاتا ہے ۔لوگ درج بالاعارضی ،غیر حقیقی اور زوال پذیر ہونے والے اوصاف کی بنا پر اس کو عظیم الشان انسان سمجھتے یا کہتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی ایک یا سارے غیر حقیقی اسباب عظمت العظیم جل جلالہ سلب کرلے تو وہی انسان عظیم نہیں سمجھایا جانا جاتا ،معلوم ہوا کہ حقیقی عظمت،شان وشوکت، بڑے مرتبے اور طاقت والا صرف اور صرف وہی العظیم جل جلالہ ہے۔

العظیم جل جلالہ نے کائنات کا دولہا انسان کو بنایا ہے اور وہی فضل عظیم کا مالک ہے ،جس نے تمام بنی نوع انسان کی طرف اپنے عظیم الشان پیغمبر کو مبعوث فرما کر صراط مستقیم دکھایااور اپنے بندوں کو فوز عظیم کی طرف لے جانے والا وہی ہے ۔العظیم جل جلالہ کے تمام انبیاء ورسل علیہم السلام کے آخر میں تکمیل دین اسلام کے لیے اپنے ذی قدر اور عظیم الشان پیغمبر ،رسول آخر ی صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کی انسانی عظمت ورفعت ،اعلیٰ اخلاق وکردار کی تعلیم دی اور خود عظیم اخلاق وکردار کا عملی نمونہ پیش فرمایا جو تمام بنی نوع انسان کے لیے مشعل راہ ہے۔

العظیم جل جلالہ نے قرآن عظیم کو رسول آخری صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرماکر بھولی بھٹکی انسانیت کو صراط مستقیم دکھایا،قرآن عظیم میں ایمانیات، عقائد، نظریات ،اجتماعی، انفرادی عبادات،معاملات ،عدل وانصاف، جملہ معاشی ومعاشرتی قوانین اورمادہّ پرستی سے ہٹاکر خداپرستی ،مخلوق خداکے ساتھ حسن سلوک ،انسانی ہمدردی، اخوت ،مساوات، بھائی چارہ، غرضیکہ انسان کو عظیم بنانے کے تمام اصول وضوابط بیان فرما کر انسانیت پر احسان عظیم فرمایا۔

ماضی میں بہت سے ایسے عظیم انسان اس دنیا میں گزرے ہیں جن سے ہمیں غائبانہ طور پر محبت ہے ان کے کار ہائے نمایاں ،کارہائے عظیم کی وجہ سے ہم ان کا نام بہت عزت واحترام سے لیتے ہیں تو ان کے ذاتی کمالات، علم وبزرگی، نیکی اور پارسائی کی بنا پر تقویٰ اور پرہیز گاری کی بنا پر ان کی عزت احترام ہمارے دل میں جاگزیں ہے، ا س لیے کہ العظیم جل جلالہ کی توفیق سے انہوں نے اپنے گزرتے ہوئے وقت سے فائدہ اٹھایا،برائی سے بچے ،نیکی اور پرہیز گاری کی راہوں پر گام زن ہوئے اور تقویٰ کی راہ اختیار کی، اخلاق حسنہ سے اپنے باطن کو مزین کیا،اخلاق رذیلہ سے اجتناب کیا ،حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بحسن وخوبی پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش اور جدوجہد کی، العظیم جل جلالہ اور اس کے عظیم تر پیغمبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرماں برداری کی تو وہ عظیم انسان بن گئے،اگر چہ وہ عظیم انسان ہم میں موجود نہیں ہیں، لیکن ان کے کارہائے عظیم ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

عصر حاضرمیں مسلمانوں نے اپنی عظمت رفتہ کو فراموش کردیا ہے،ایک وہ وقت تھا کہ پوری دنیا میں اسلام اور اہل اسلام کا طوطی بولتا تھا۔ہر طاغوتی قوت مسلمانوں کے سامنے سرنگوں تھی،شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک اسلام کا پرچم بلندتھا،لیکن جب ہم نے اپنی عظمت رفتہ کو فراموش کردیا تو مشرق سے مغرب میں اور بحروبر میں فساد نے سر اٹھالیا، یہود وہنود اور قادیانیوں نے اپنے طاغوتی پنجے مسلمانوں پر گاڑھ دیے،آج مسلمان ہر جگہ مظلوم ومقہور ہیں، اس کا اصل سبب العظیم جل جلالہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرماں برداری سے روگردانی اور اپنے اسلاف کی عظمت رفتہ کو فراموش کرنا ہے ۔اگرہم دین ودنیا کی کام یابیوں اور کامرانیوں کو سمیٹنا چاہتے ہیں ،اسلام کی نشأة ثانیہ ہمارا نصب العین ہے تو انفرادی وگروہی اختلافات کو پس پشت ڈال کرایک اللہ العظیم جل جلالہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ،اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کردار وعمل میں پوری طرح اپنائیں ۔العظیم جل جلالہ کی نازل کردہ کتاب عظیم کو اپنے سینے سے لگائیں، قرآن وسنت کے نظام کو انفرادی اور اجتماعی معاملات میں نافذ کریں تو پھر کام یابی وکامرانی ،فتح ونصرت ہمارے قدم چومے گی۔ہم انفرادی طورپر پکے اور سچے مسلمان بن جائیں ،اجتماعی طور پر اسلام کا نظام نافذکریں تو پھر ہم عظیم انسان بن سکتے ہیں۔

دیکھیے!انفرادی اور شخصی اعتبار سے ،ملکی اور قومی سطح پر انسانی عظمت سے روگردانی ہمارے اطمینان ،چین وسکون کے دیوالیہ پن کا باعث ہے۔

آج اصحاب اقتدار اپنے وقتی اور عارضی نفع اور طول اقتدار کی خاطر درودیوار کی ملمع سازی پر،ظاہری چمک ودمک پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، لیکن حقیقی ترقی،پائیدار امن وعافیت کے استحکام کی ضمانت تو باطنی ترقی میں مضمر ہے۔جب ہم صحیح عقائد واعمال ،کردار اور مستحسن اقدامات اٹھانے میں ”أطیعو اللہ وأطیعو الرسول“پر کار بند ہوں گے تو دارین کی فوز وفلاح ہمارے قدم چومے گی۔

العظیم جل جلالہ ہمیں انفرادی اور شخصی اعتبار سے قومی وملکی سطح پر عظیم کام یابیوں سے ہمکنار فرمائے۔(آمین)
Flag Counter