تذکرہ حضرت مہدی علیہ الرضوان
مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
حضرت مہدی علیہ الرضوان کے لیے امام کا خطاب
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب شہید رحمہ اللہ ایک سائل کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
”جناب کو حضرت مہدی علیہ الرضوان کے لیے ”امام“ کا لفظ استعمال کرنے پر بھی اعتراض ہے اور آپ تحریر فرماتے ہیں کہ ”قرآنِ مقدس اور حدیثِ مطہرہ سے امامت کا کوئی تصور نہیں ملتا“۔ اگر اس سے مراد ایک خاص گروہ کا نظریہ امامت ہے تو آپ کی یہ بات صحیح ہے، مگر جناب کو یہ بد گمانی نہیں ہونی چاہیے تھی کہ میں نے بھی ”امام“ کا لفظ اسی اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا ہو گا، کم سے کم حضرت مہدی کے لیے ”رضی اللہ عنہ“ کے الفاظ کا استعمال ہی اس اَمر کی شہادت کے لیے کافی ہے کہ ”امام“سے یہاں ایک خاص گروہ کا اصطلاحی امام مُراد نہیں“۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل،علاماتِ قیامت،الامام المہدی…سنی نظریہ:2/362،مکتبہ لدھیانوی،تخریج شدہ ایڈیشن)
حضرت مہدی علیہ الرضوان کے نام ایک عجیب خط
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی صاحب رحمہ اللہ کے خطبات میں ایک عجیب قصہ لکھا ہوا ہے، جس میں نیکی کی حرص اور جستجو کی ایک ایسی مثال ہے، جس کی نظیر ملنا مشکل ہے، ان اکابر علماء رحمہم اللہ کا ذہن نیکی کے معاملات میں وہاں تک پہنچا جہاں ہر ایرے غیرے کی رسائی ممکن نہیں، ذیل میں وہ قصہ جوں کا توں نقل کیا جاتا ہے:
”دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے مہتمم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ ظاہری و باطنی علوم کے جامع تھے، نقشبندیہ خاندان کے اکابر میں سے تھے،آخر عمر میں ہجرت فرما کر مکہ مکرمہ آئے، وہیں ان کی وفات بھی ہوئی اور وہیں ان کی قبر بھی ہے، آپ کو آخر زمانے میں علاماتِ قیامت کے ظہور خصوصاً حضرت مہدی کی قیادت میں عالمی ایمانی جدوجہد سے خصوصی دلچسپی تھی، حضرت مہدی کا ظہور مکہ مکرمہ میں ہونا تھا، دوسری طرف انہیں یہ حدیث بھی معلوم تھی کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے شیبی خاندان کو فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ کی کنجیاں (چابیاں) سپرد کی ہیں اور بیت اللہ چوں کہ قیامت تک باقی رہے گا، اس لیے مکہ میں چاہے سارے خاندان اجڑ جائیں، لیکن شیبی کا خاندان قیامت تک باقی رہے گا۔
چناں چہ! مولانا رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ کی جب آخری عمر ہوئی اور انہیں شدید اشتیاق تھا کہ حضرت مہدی کے ہاتھ پر بیعت اور ان کی قیادت میں جہاد نصیب ہو جائے، تو ان کو ایک عجیب ترکیب سوجھی کہ جب یہ خاندان قیامت تک باقی رہے گا ، تو لا محالہ ظہورِ مہدی کے زمانے میں بھی رہے گا، جب حضرت مہدی کا ظہور ہو گااور وہ کعبة اللہ کی دیوار سے ٹیک لگائے مسلمانوں کو بیعت کریں گے، تب کعبة اللہ کی کنجیاں شیبی خاندان کے کسی فرد کے ہاتھ میں ہوں گی۔ چناں چہ اسی کے پیشِ نظر انہوں نے ایک حمائل شریف اور ایک تلوار لی اور ایک خط حضرت مہدی علیہ الرضوان کے نام لکھا۔
اس خط کا مضمون یہ ہے:
”فقیر رفیع الدین دیوبندی مکہ معظمہ میں حاضر ہے اور آپ جہاد کی ترتیب کر رہے ہیں ، ایسے مجاہدین آپ کے ساتھ ہیں، جن کو وہ اجر ملے گا، جو غزوہ بدر کے مجاہدین کو ملا تھا، سو! رفیع الدین کی طرف سے یہ حمائل تو آپ کے لیے ہدیہ ہے اور یہ تلوار کسی مجاہد کو دے دی جائے کہ وہ میری طرف سے جہاد میں شریک ہو جائے اور مجھے بھی وہ اجر مل جائے۔ “
اور یہ تینوں چیزیں شیبی خاندان والوں کے سپرد کی اور ان سے کہا کہ تمہارا خاندان قیامت تک رہے گا، یہ حضرت مہدی کے لیے امانت ہے، جب تمہارا انتقال ہو تو تم اپنے قائم مقام کو وصیت کر دینا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے قائم مقام کو وصیت کرے اور ہر ایک یہ وصیت کرتا جائے، یہاں تک کہ یہ امانت حضرت مہدی علیہ الرضوان تک پہنچ جائے۔“(خطبات حکیم الاسلام: 2/98)
حضرت مہدی علیہ الرضوان کا ساتھ کون لوگ دیں گے؟
احادیث میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ قرب ِ قیامت میں حضرت مہدی علیہ الرضوان کا وظیفہ وکام جہاد بصورتِ قتال ہو گا اور یہ مبارک عمل زمانہ نبوت سے چلا آرہا ہے اور تا قیامت جاری و ساری رہے گا، گردشِ زمانہ اور تغیر ِ حالات کے پیشِ نظر اس کی صورتوں اور رفتار میں کمی بیشی کے ساتھ یہ عمل جاری رہے گا ، زوال پذیر نہ ہوگا، یہاں تک کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ببانگِ دہل اس مقدس فریضے کو لے کر کھڑے ہوں گے اور اس زمین سے غیر مسلم کا صفایا کریں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں حضرات کا ساتھ دینے والے کون لوگ ہوں گے؟ اس کا سیدھا سادھا اور سامنے کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں حضرات کا ساتھ دینے والے وہی لوگ ہوں گے، جو نظریاتی اور عملی اعتبار سے جہاد کوحضرت مہدی علیہ الرضوان کے نزول سے قبل اُسی طرح تسلیم کرنے والے ہوں (جس طرح سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین تسلیم کرنے والے تھے، نہ کہ اپنی ذہنی اختراع اور فاسد و من مانی رکیک تاویلات کے ذریعے جہاد کا حلیہ توڑ مروڑ کر تسلیم کرنے والے )اور عملی اعتبار سے بھی اپنے مال و دولت ، ذہن و بیان ، تعلیم وتربیت اور عملی اقدامات کے ساتھ مقدور بھر شریک ہونے والے ہوں اور یہ وہی لوگ ہوں گے، جو مذکورہ صفات کے ساتھ ساتھ اپنی ظاہری و باطنی تربیت کی درستگی کے لیے فکر مند اور ساعی و کوشاں ہوں گے،فطری طور پر بزدل، ڈرپوک اور عملی و ایمانی طور پر کم زور لوگ یا نظریہ ٴ جہاد میں من مانی وفاسد تاویلات کرنے والے اور عملی طور پر جہاد و مجاہدین کے راستے میں روڑے اٹکانے والے لوگ حضرت مہدی علیہ الرضوان اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخالف اور دشمنوں میں سے تو ہو سکتے ہیں ، دوستوں اور ساتھ دینے والوں میں سے نہیں۔ اللہم احفظنا منہم، ولا تجعلنا منہم․
ہمارے لیے کرنے کا کام
تذکرہ مہدی علیہ الرضوان کے بعد ہمارے سوچنے اور کرنے کی بات یہ ہے کہ :
1... ہم ایمانی اور عملی اعتبار سے اپنا جائزہ لیں اورایمان و اعمال کے اعتبار سے اپنی ہر طرح کی کمزوری کو دور کریں، اس لیے کہ ُاس زمانے میں ہر کمزور ایمان و اعمال والا پھسل جائے گا، وہ حق کا ساتھ دینے کے بجائے باطل کے ساتھ مل جائے گا۔ اللہم احفظنا منہ
2... وہ زمانہ دجال کذاب کا زمانہ ہو گا، اس کے شرور سے امن کے لیے احادیث میں ذکر کردہ عمل یعنی ہر جمعة المبارک کو سورہ کہف کی تلاوت کا معمول بنایا جائے۔
3... کسی باشریعت اور متبع سنت شیخ کی نگرانی میں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کا خوب عادی بنایا جائے، کہ اس دور میں دجال کے مخالفین کی غذا ذکر اللہ ہی ہو گی۔ کم از کم درجہ یہ ہے کہ روزانہ تیسرے کلمہ ، درود شریف اور استغفار کی خوب کثرت کی جائے، یعنی ہر تسبیح کم از کم تین سو بار تو ضرور کی جائے۔
4... ہم اس موضوع پراکابر کے قلم سے تصنیف ہونے والی مستند کتب مثلاً علامات قیامت از شاہ رفیع الدین محدث دہلوی وغیرہ کا بغورمطالعہ کریں، تاکہ ہمارے سامنے کاذبین اور صادق کی صفات اورحضرت مہدی علیہ الرضوان، دجال لعین اور سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تذکرے اور ان کی علامات وغیرہ پوری طرح کھل کر سامنے آجائیں، جس کی بنا پر ہم کاذبین کے کذب سے اپنے آپ کو بچا سکیں گے اور سچے (مہدی) کا ساتھ دے سکیں گے۔
مشاہدہ ومطالعہ میں یہ بات آئی ہے کہ نئے زمانے کے مصنفین ومرتبین پہلے اپنی رائے قائم کرتے ہیں او رپھر ان کے لیے دلائل وواقعات تلاش کرتے ہیں۔ جب کہ ہمارے اکابرین کا طریقہ یہ تھا کہ قرآن وحدیث کی تعلیمات اور اپنے اکابر کی آراء پیش کرکے ان کی روشنی میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ اس لیے پرانی کتب ہی سے رجوع بہتر ہے۔
5... البتہ ظہور مہدی علیہ الرضوان کی تعیین اور تصدیق کے لیے اپنے آپ کو علمائے حق کی جماعت سے مکمل وابستہ رکھے،کسی بھی وجہ سے اپنے آپ کو جماعت حقہ سے سرِ مو بھی نہ نکلنے دے اور جماعت حقہ موجودہ دور میں علمائے دیوبند کی جماعت ہے، جو عقائد و اعمال میں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ پر گام زن ہے۔
6... اپنے جسم کو ابھی سے مشقت برداشت کرنے کا خوب عادی بنایا جائے، تا کہ اگر ہماری زندگی میں حضرت مہدی علیہ الرضوان کا ظہور ہو جائے تو ان کی معیت کی مبارک سعادت کا حصول احسن طریقے سے ممکن ہو سکے۔
7... اُس دور کے فتنوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور خوب گڑگڑا کر دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے فتنوں کا شکار بننے سے بچائے اور اہلِ حق کے گروہ میں شامل ہونے کے بجائے اہلِ باطل کے ساتھ شامل ہونے کے عذاب سے محفوظ فرمائے، جیسا کہ حدیث ِ مبارکہ میں موجود ہے کہ ”لا یخلص من شرھا إلا من أخلص الدعاء کدعاء الغرق في البحر“․
ترجمہ:”ان فتنوں کے شر سے وہی نجات پائے گا جو سمندر میں ڈوبنے والے کی طرح خلوص سے دعا مانگے گا۔“ (کتاب الفتن لنعیم بن حماد، العصمة من الفتن، وما یستحب فیھا من الکف، والإمساک عن الفتنة:1/147،مکتبة التوحید، القاہرة)․
اللہ عز و جل کی بارگاہِ اقدس میں التجا ہے کہ اگر ہمیں حضرت مہدی علیہ الرضوان کا زمانہ نصیب ہو تو ہمیں ان کا ساتھ دینے والے خوش نصیبوں میں سے بنائے اور ان کے مخالفین سے کوسوں دور رکھے اور ان بد نصیبوں کے شرور سے محفوظ رکھے، آمین !