Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1435ھ

ہ رسالہ

1 - 17
مگر موت سے بچ نہیں سکتے

مولانا عبید اللہ خالد
	
ہیں۔ جیسے گزشتہ سال ختم ہواتھا، ایسے نیا سال بھی ختم ہوجائے گا۔ جیسے آج گزشتہ سال کا کوئی وجود نہیں، ویسے ہی نیا سال کچھ دن میں بے وجود ہوگا۔

یہ اللہ کا نظام ہے، صرف ماہ و سال ہی کے لیے نہیں، انسان کے لیے بھی ہے۔ یہاں جس انسان نے سانس لی، اسے موت بھی آنی ہے۔ انسان کو زندہ ہی مرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

لیکن انسان جتنا موت سے گھبراتا ہے، شاید ہی کسی اور شے سے خوف زدہ ہوتا ہو۔ انسان زندہ رہنا چاہتا ہے․․․․ انسان موت سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہے․․․ اسی لیے وہ اپنے تئیں ہر ہر جتن کرتا ہے کہ موت سے خود کو محفوظ رکھ سکے۔ مگر زندگی فانی ہے اور موت لازمی!

موت سے بچنے کی ایک تدبیر کے طور پر کچھ عرصے سے پاکستان میں مجرم کے لیے موت کے شرعی حکم پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ یہ اقدام پچھلی حکومت نے اٹھایا تھا اور موجودہ حکومت نے اس کو جاری رکھا ہے۔ الٰہی حکم کو روکنے اور اس پر پابندی لگانے کا جواز خواہ کچھ ہی ہو، یہ بات طے شدہ ہے کہ اس کے پیچھے لوگوں کا وہ خوف ہے کہ اگر ہم مرگئے تو کیا ہوگا؟ لیکن صاحبانِ اختیاراس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے موت کے شرعی حکم کو توکالعدم قرار دے سکتے ہیں، مگر موت سے نہیں بچ سکتے۔

اللہ کا قانون ہے کہ ہر انسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے․․․ ہرفرد جو پیدا ہوا، اسے مرنا ہے۔ اور یہ محض دعویٰ نہیں، دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے تلخ حقیقت ہے جسے کسی کی خواہش پر کوئی بدل نہیں سکتا۔

دوسری جانب، کسی ایسے معاشرے میں کہ جہاں مجرم کو اپنے جرم کی سزا کا ڈر نہ ہو، وہاں ہر شخص جرم کے ارتکاب کے لیے جری ہوجاتا ہے۔ قرآن نے بہ طور سزا، موت کے حکم کو انسان کی زندگی سے تعبیر کیا ہے۔ فطری بات ہے کہ جس معاشرے میں مجرم کو سزا اور سخت سے سخت سزا کا خوف ہوگا، وہاں کسی کو جرم کرنے کی ہمت نہ ہوگی۔ لیکن جہاں لاقانونیت ہی قانون بن جائے اور مجرم کو تحفظ فراہم کیا جانے لگے تو ایسے معاشرے میں ہر شخص جرم کرنے میں بے باک ہوجاتا ہے۔

یاد رکھیے، جہاں موت کا قانون نافذ نہیں ہوگا، وہاں ہر شخص موت کو اپنے ہاتھ میں لیے پھرے گا اور اموات کی کثرت ہوگی۔ ایسا معاشرہ ہی سب سے غیر محفوظ معاشرہ ہوگا، نہ کہ پُر امن اور بے خوف معاشرہ!

Flag Counter