Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

9 - 12
مخالفت سلف سے اجتناب تفسیر قرآن کا ایک بنیادی اصول
مخالفت سلف سے اجتناب
تفسیر قرآن کا ایک بنیادی اصول

حق تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوکہ انہوں نے ”کلالہ“ کی صدیقی تفسیر میں ایک تفسیری اصول بیان فرمادیا‘ یعنی قرآن کریم کی تفسیر میں ایسے نظریہ کا اختراع کرنے سے آدمی کو کچھ حیا کرنی چاہئے جس سے سلف کے اصول ونظریات سے مزاحمت لازم آتی ہے‘ اس لئے صرف وہی تفسیر لائقِ اعتماد ہوگی جو صحابہ کرام‘ تابعین اور ائمہ ٴ امت کے ذوق کے ہم آہنگ ہوگی۔
خلیفہٴ راشدحضرت عمر بن عبد العزیز کا یہ زریں قول کتنا وزنی ہے؟ وہ فرماتے تھے (خطاب اہل علم سے تھا)
”خذوا من الرأی مایصدق من کان قبلکم ولاتاخذوا الخلاف لہم فانہم اخیر منکم واعلم ․․․“۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطی)
ترجمہ:․․․”صرف وہی (نظریہ) اور رائے اختیار کرو جو تم سے پہلے لوگوں (یعنی صحابہ کرام اور اکابر تابعین) کی تصدیق کرے‘ ایسی رائے نہ لو جو ان کے خلاف ہو‘ اس لئے کہ وہ تم سے بہتر بھی تھے اور زیادہ علم والے بھی“۔
بلاشبہ اپنے سے پہلے لوگوں کے متعلق ”ہم اخیر واعلم“ کا نظریہ جب تک قائم رہے گا‘ امت میں خیر باقی رہے گی‘ کیوں نہ ہو‘ جن کے سامنے وحی نازل ہوتی رہی‘ جن کو اول وحی کی کیفیات واحوال کے مشاہدہ کے مواقع نصیب ہوئے‘ قرآن کی کونسی آیت: کس وقت‘ کس جگہ نازل ہوئی اور کب نازل ہوئی‘ کس کے حق میں نازل ہوئی‘ سفر میں نازل ہوئی یا حضر میں‘ حجرہٴ عائشہ میں نازل ہوئی یا تبوک سے واپسی پر۔ الغرض اسی قسم کے جزئیاتی امور ایک ایک کر کے جن کے حافظہ میں نقش تھے‘ قرآن کے ایک ایک حرف پر جن کو صاحبِ قرآن ا کی نگرانی میں عملی مشق کی سعادت میسر آئی‘پھر جن کے علم وتقویٰ‘ فضل وکمال‘ زہد وورع اور فہم وذکاء کی قرآن ہی نے شہادت دی‘جن کی جان بازی اور سرفروشی‘ ایثار اور قربانی کی نظیر پیش کرنے سے اولین وآخرین عاجز رہے‘ جن کی عفت وپارسائی‘ توکل اور قناعت جبرئیل ومیکائیل کے لئے باعثِ رشک بنی رہی‘ اگر ان کی اور ان کے تربیت یافتہ شاگردوں کی تفسیر پر اعتماد نہ ہوگا تو ان کے بعد اللہ کی کتاب کو سمجھنے اور سمجھانے کا سلیقہ کس کو نصیب ہوسکتاہے؟
فقیہ الامت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
”والذی لا الہ غیرہ ما نزلت آیة من کتاب اللہ الا وانا اعلم فیمن نزلت‘ واین نزلت‘ ولو اعلم احداً اعلم بکتاب اللہ منی تنالہ المطایا لاتیتہ “۔ (ابن کثیر :ج:۱‘ ص:۵)
ترجمہ:․․․”معبودِ حقیقی کی قسم‘ کتاب اللہ کی جو آیت بھی نازل ہوئی‘ مجھے اس کے متعلق علم ہے کہ کس کے حق میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی اور اگر میری دانست میں کتاب اللہ کا مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی موجود ہوتا اور وہاں تک سواری جاسکتی تو میں ضرور اس کی خدمت میں حاضر ہوتا“۔
اسی قسم کا مضمون حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی منقول ہے:الغرض تفسیرِ قرآن کے سلسلہ میں ان ہی دو قاعدوں کو جو حضرت ابوبکر صدیق کے ”طرز عمل“ سے میں نقل کرچکا ہوں‘ اگر سامنے رکھا جائے تو کجراہی کا راستہ بڑی حد تک بند ہوسکتاہے۔
تفسیر کا اصل سرمایہ صحابہ اور تابعین کے آثار ہیں
یہاں ایک اور نکتہ پر تنبیہ ضروری ہے ‘ وہ یہ کہ یوں تو کتاب اللہ کے اسرار کا سلسلہ غیر متناہی ہے‘ ایک عامی سے لے کر ایک اعلیٰ درجہ کے مفکر‘ فلسفی‘ ادیب اور عالم تک سب ہی اس میں غور کرتے رہے ہیں اور کرہے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے اور ہرایک اپنی اپنی استعداد اور فراخ دامنی کے بقدر اس خزانہٴ عامرہ سے استفادہ کرتا رہے گا‘ لیکن جہاں تک اس کے نفسِ مفہوم کا تعلق ہے اور اس کی وضاحت جہاں تک انسانی وسعت کے دائرہ میں آسکتی ہے‘ اس سے صحابہ کرام اور ثقات تابعین کے علوم نے بعد میں آنے والے تمام انسانوں کو مستغنی کردیا ہے‘ اس لئے قرآن کی شرح وتفسیر میں آنحضرت اکے بعد صحابہ کرام اور ان کے تربیت یافتہ شاگردوں کے آثار جو صحیح اور مقبول اسناد کے ساتھ مروی ہیں‘ اصل سرمایہ ہیں۔ کوئی آیت ایسی نہیں جسے ان حضرات نے آنحضرت ا کی منشا کے موافق نہ سمجھا دیا ہو‘ قرآن سے متعلقہ اشکالات میں سے کوئی دشواری ایسی نہیں جسے ان ”نفوس قدسیہ“ نے جزئیاتی یاکلیاتی انداز میں حل نہ کردیا ہواور قرآن سے پیدا ہونے والے علوم کی طرف اشارہ نہ کردیا ہو۔
الغرض جس طرح قرآن کے الفاظ ان حضرات نے امت کو بلا کم وکاست پہنچا دیئے ہیں‘ ان میں نہ ان حضرات نے بخل سے کام لیا‘ نہ ہوا وہوس کی آمیزش ہونے دی‘نہ اوہام وظنون کی تایکی میں ان کو گم کیا‘ بلاشبہ اسی طرح قرآن کے مفاہیم اور معانی کی امانت بھی انہوں نے کامل طور پر امت کے سپرد کردی ۔ اس ”جنون“ کی کوئی گنجائش نہیں کہ الفاظِ قرآن میں ان کو قابل اعتماد قرار دیا جائے‘ مگر الفاظ کی شرح وتفسیر میں ان کی امانت کو مشتبہ بنا ڈالنے پر مغربی فوج (مستشرقین) کا تمام اسلحہ استعمال کیا جائے۔
بہرحال صحابہ کرام اور اکابر تابعین سے جو تفسیری سرمایہ منقول ہے‘ وہ قرآن فہمی کے لئے قطعاً کافی ہے‘ بعد میں آنے والوں کا کام اس قیمتی سرمایہ کی حفاظت اور اس کی پرورش کرنا تو ہوسکتا ہے‘ لیکن باپ دادا کے محنت کے ساتھ جمع کئے ہوئے سرمایہ کو گلی کوچہ میں پھینک کر خود قلاش اور مفلس ہوجانا اور جن خزانوں میں آباء واجداد کے جواہر ریزے بھرے ہوئے تھے‘ ان میں خزف ریزوں کو بھر لینا‘ قرآنی خدمت نہیں بلکہ حماقت ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کے ملفوظات میں کہیں دیکھا تھا کہ ذہن میں جب کوئی تازہ مضمون آجاتا ہے پھر اتفاق سے وہی بات پہلے کے کسی بزرگ کے کلام میں دیکھ لیتا ہوں تو قلب میں عجیب انشراح پیدا ہوجاتاہے کہ الحمد للہ! فقیر کو بھی اکابر کے علوم کی موافقت نصیب ہوگئی‘ جو سلامتی ذہن کی دلیل ہے۔ اگر غور کروگے تو بعد کے اختلاف اور احزابی جنگ کا بنیادی نقطہ ”انکار سلف“ اور کتاب اللہ کے مطالب بیان کرنے میں جذبہ ”خود فہمی“ نظر آئے گا‘ ان تمام گروہی عناصر کا مشترک سرمایہ اہلِ حق سے عناد اور صلحائے امت سے بے اعتمادی کا ہے‘ ستم بالائے ستم یہ کہ جو طاغیہ اٹھتا ہے وہ سب سے پہلے اختلافِ امت کا ڈھول پیٹتا ہے اور اپنے الحادی ذہن سے ایک نئے دین‘ نئی فکر اور جدید فرقہ کا اضافہ کرجاتاہے۔
اسی سلسلہ کی ایک اور مثال
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جن ”صدیقی اصولِ تفسیر“ کو ذکر کرتا چلا آرہا ہوں‘ اسی سلسلہ کی یہ روایت خاص اہمیت کی حامل ہے یعنی حضرت ابوبکر صدیق نے ایک دفعہ حاضرین سے دریافت فرمایا کہ قرآن کی ان دوآیتوں کا کیا مطلب سمجھے ہو؟
۱-”ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا“۔
۲-” الذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانہم بظلم“ ۔
مطلب یہ کہ پہلی آیت میں استقاموا کے معنی اور دوسری آیت میں ظلم کا مفہوم حضرت ابوبکر صدیق نے حاضرین سے دریافت کرناچاہا۔
جواب میں ان کی طرف سے عرض کیا گیا: ”ثم استقامواای فلم یذنبوا‘ ولم یلبسوا ایمانہم ای بخطیئة“ یعنی ثم استقاموا کے معنی یہ کہ ”پھر گناہ نہ کیا“ اور ظلم سے مراد بھی ”گناہ“ ہے۔ آیت کے ظاہری الفاظ سے یہی معنی مفہوم ہوتے ہیں جو انہوں نے بیان کردیئے‘ لیکن قرآن ہی میں دوسری آیتیں ایسی بھی ہیں جن کو سامنے رکھنے کے بعد یہ معنی درست نہیں رہتے‘ بہرحال ان کی اس تفسیر کے سن لینے کے بعد خودحضرت ابوبکر نے ان دونوں آیتوں کی تفسیر فرمائی‘ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا:
”لقد حملتموہما علی غیر المحمل۔ قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا‘ فلم یمیلوا الی الہ غیرہ‘ ولم یلبسوا ایمانہم بظلم بشرک“۔
ترجمہ:․․․” تم نے دونوں آیتوں کو غیر محمل پر حمل کردیا (ان دونوں آیتوں کے یہ معنی نہیں) بلکہ ثم استقاموا کے معنی تو یہ ہیں کہ پھر اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کی طرف مائل نہ ہوئے اور ظلم سے مراد شرک ہے“
اس مقام پر قابل توجہ امر یہی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق  نے کس بنیاد پر ان حضرات کی تفسیر کو ”بے محل“ قرار دیا؟ اور ان حضرات کی تفسیر میں کیا گنجلک پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے ان کی تفسیر غیر صحیح قرار پائی؟ روایت کے الفاظ میں چونکہ اس سوال سے تعرض نہیں‘ اس لئے قرائنِ خارجیہ کی طرف رجوع کرنے کے بعد ہی ان کا سراغ لگایاجاسکتا ہے۔
امام بخاری  نے حضرت عبد اللہ بن مسعود  کی روایت جو
”ولم یلبسوا ایمانہم بظلم“
کے جواب میں نقل کی ہے‘ اس سے یہ اشکال رفع ہوجاتاہے یعنی یہ آیت جب نازل ہوئی تو اصحابِ رسول اللہ ا نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ ا ! اس آیت میں امن اور اہتداء کو ایمان اور ترکِ ظلم پر معلق کیا گیاہے‘ اور ہم میں ایسا کون ہے جس نے ظلم بمعنی کوئی گناہ نہ کیا ہو؟ اس پر آیت
”ان الشرک لظلم عظیم“
نازل ہوئی‘ جس کا حاصل یہ ہوا کہ ظلم سے مراد آیت زیر بحث میں شرک ہے‘ مطلق گناہ مراد نہیں۔ بلکہ مسند احمد کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آنحضرت ا نے صحابہ کی عام بے چینی جو اس آیت سے ان کو لاحق ہوئی تھی‘ اسے سن کر فرمایا:
”انہ لیس الذی تعنون‘ الم تسمعوا ما قال العبد الصالح ”یابنیّ ان الشرک لظلم عظیم‘ انما ہو الشرک“ ۔ (ابن کثیر :ج:۲‘ص:۱۵۳)
یعنی :اس کا یہ مفہوم نہیں جو تم مراد لے رہے ہو‘ کیا تم نے عبد صالح (لقمان علیہ السلام) کا قول نہیں سناکہ بیٹا! واقعةً شرک ہی سب سے بڑا ظلم ہے‘ پس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے۔
اس روایت سے واضح ہوا کہ یہ آیت جس کے متعلق حضرت ابوبکر صدیق اپنی عام روش کے خلاف لوگوں کو چھیڑ چھیڑ کر ان کے علم کی تصحیح فرمارہے تھے‘ اس کی تفسیر خود قرآن ہی میں دوسری جگہ کی جا چکی ہے اور آنحضرت ا صحابہ کرام کے استفسار پر اس آیت کا حوالہ بھی دے چکے ہیں‘ جس میں اس آیت کی تفسیر قرآن میں کی گئی ہے (یعنی ان الشرک لظلم عظیم) اس لئے اس سوال کے جواب میں جو اوپر عرض کرچکا ہوں‘ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کی طرف سے ان حضرات کی تفسیر کے غیر صحیح قرار دیئے جانے کی بنیاد یہی آیت ہے جس کا حوالہ خود آنحضرت ا نے صحابہ کرام کے سامنے پیش فرمایا‘ اور یہیں سے دوسرے سوال کا جواب بھی نکل آیا کہ ان بزرگوں کی تفسیر میں جس کو حضرت ابوبکر صدیق نے ”بے محل“ قرار دیا‘ بنیادی نقص یہی تھا کہ ان حضرات نے صرف اسی مقام کو سامنے رکھ کر تفسیر فرمادی‘ دوسرے مقام پر ان کی نظر نہیں گئی‘ جہاں اس اجمال کو مفصل کردیا گیا تھا۔
بہرحال! اگر اس صدیقی روایت کامطلب یہی ہے جو میں نے عرض کیا‘ (یہ خدا ہی جانتا ہے کہ میں اس روایت کے سمجھنے اور سمجھی ہوئی بات کے صحیح ادا کرنے میں کامیاب ہوسکا ہوں یا حضرات اہلِ علم سے توقع ہے کہ وہ تصحیح فرمادیں) تو اس میں جس اصول کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے‘ اس پر ہمیں غور کرنا چاہئے۔ آپ مجھ ہی سے سن چکے ہیں کہ کتاب اللہ کے معاملہ میں ”صدیقی ذوق“ احتیاطی دقائق رکھتا تھا‘ وہ لوگوں کے بار بار سوال کرنے پر بھی تفسیرِ کتاب اللہ پر حرف زنی کے لئے حتی الوسع تیار نہ ہوتے تھے‘ لیکن یہاں آپ دیکھ رہے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق از خود لوگوں سے سوال کرتے ہیں‘ پھر ان کے علم کی تصحیح فرماتے ہیں اور اپنے علم کو پیش فرماتے ہیں‘ کہنے کو تو یہ ایک جزئی واقعہ ہے جو شاید اپنی جزئیت ہی کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک زیادہ توجہ کا مستحق نہ ہو‘ لیکن اگر یہ صحیح ہے کہ ہرجزئیہ کسی کلیہ کے تحت مندرج ہوتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری اصلاح کو جزئیہ تک ہی محدود مانا جائے اور صدیقی نظر کو اس جزئیہ سے کلیہ کی طرف متعدی نہ مانا جائے۔
تفسیر القرآن بالقرآن
معروضہ بالاشواہد کی روشنی میں بھی معلوم ہوتا ہےکہ حضرت ابوبکر صدیق اس موقع پر لوگوں کو تفسیر القرآن بالقرآن کا تفسیری اصول ذہن نشین کرانا چاہتے تھے‘ یعنی قرآن کے کسی لفظ کی شرح کرتے وقت پہلے خود قرآن ہی میں اس کے مواقع استعمال کو تلاش کیا جائے۔ بسااوقات ایک مقام میں کلام عام رنگ میں ہوتا ہے‘ لیکن دوسری جگہ اس کے قیود سے تعرض کیا جاتا ہے۔ ایک موقع پر اجمال ہوتا ہے‘ دوسری مقام میں اس کی تفصیل ہوتی ہے۔ ایک آیت میں مضمون کو استعارہ اور کنایہ کے انداز میں ذکر کیا جاتا ہے اور دوسری آیت میں صریح الفاظ میں حقیقت کو واضح کیا جاتاہے ۔ مجھے اس پر طویل بحث کی ضرورت نہیں‘ اصولِ تفسیر کی کتابوں میں اس پر شافی بحث موجود ہے‘ اور یوں بھی اہلِ دانش کے لئے یہ کوئی جدید علم نہیں‘ بتلانا چاہتاہوں کہ حضرت ابوبکر صدیق کے ارشاد :
”ولقد حملتموہما علی غیر المحمل“
میں اسی قاعدہ پر تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ اس آیت کا محمل دوسری آیت میں تلاش کرنا چاہئے تھا۔ قرآن کے ایک لفظ کو لے کر اس پر عقائد ونظریات کی عمارت استوار کرلینا اور بقیہ تمام آیات سے صرفِ نظر کرلینا اہلِ زیغ کا خاص امتیازی نشان ہے‘ اہلِ بدعت اور اصحابِ ہوا کی جانب سے کتنے نظریات قرآن ہی کی آیات پڑھ پڑھ کر پیش کئے جاتے ہیں‘ جن کے خلاف قرآن بار بار اعلان کرتا ہے۔ خود ہمارے دور کا جدید نظریہ اس کی زندہ مثال ہے یعنی قرآن کے ایک لفظ ”اضعافا مضاعفة“ کی آڑلے کر ”روشن خیال“ طبقہ‘ زبان اور قلم‘ پریس اور پلیٹ فارم کی پوری توانائی کے ساتھ چیخ رہاہے کہ قرآن نے مطلق سودکو حرام نہیں کہا‘ بلکہ ایک ”خاص قسم“ کے سود پر پابندی عائد کی ہے:
بریں فہم و سودا بباید گریست
لطف یہ کہ قرآن کے نام سے لغویات کے طور مار جمع کرنے والوں کے یہاں قرآن سے استدلال کا نہ کوئی قاعدہ ہے نہ احوال نہ زبانِ عرب کی باریکیوں کو جاننے کی ضرورت ہے‘ نہ کسی مثال کی حاجت‘ نہ علوم سلف سے استفادہ کی ہمت نہ عقل صحیح سے کام لینے کی توفیق۔ بس جس کے جی میں جو آیا اسے بلادریغ قرآن کی طرف منسوب کردیا‘ اگر لغت عرب سے ان کے مزعوم غل غپاڑے کی تائید نہ ہوئی تو ”لغات القرآن“ کے نام سے ایک سیاہ دفتر تصنیف کرلیا‘ بقول اقبال مرحوم:
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفی را
اس ظلم اور غباوت کی انتہاء ہے کہ قرآن مجید آج سے چودہ سو سال پہلے محمد عربی ا پر زبان عربی میں نازل کیا جائے‘ اور اس کی لغات بیسویں صدی کے عجمی‘ جدید انداز سے گھڑنے لگیں۔
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
حضرت ابوبکر صدیق  صحابہ کرام کی جماعت کو :لقد حملتموہما علی غیر المحمل“ کہہ کر ٹوک دیں اور تمام قرآن کو تحریف کا نشانہ بنا ڈالنے والے منافق ٹوکنے والوں کو ”تاریک خیال“ اور ”اہلیان مسجد“ کا طعنہ دیں۔
تفسیر القرآن بالحدیث
حضرت ابوبکر صدیق  سے ایک اور تفسیری خطبہ مروی ہے جسے مشکوٰة شریف میں ابوداؤد‘ ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالے اور ترمذی کی تصحیح کے ساتھ نقل کیا گیا ہے یعنی حضرت صدیق نے فرمایا:
”یا ایہا الناس انکم تقرؤن ہذہ الآیة: یا ایہا الذین اٰمنوا علیکم انفسکم لایضرکم من ضل اذا اہتدیتم‘ وانی سمعت رسول اللہ ا یقول: ان الناس اذا رأوا ظالماً فلم یاخذوا علی یدیہ اوشک ان یعمہم اللہ بعقاب ہذا حدیث حسن صحیح“۔ (ترمذی:ج:۲‘ص:۱۳۱)
ترجمہ:․․․”لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو! اے ایمان والو! تم اپنی ذات کی فکر کرو‘ تمہیں نقصان نہیں اس کا جو گمراہ ہوا جب تم ہدایت پر ہوگے‘اور میں نے آنحضرت ا کو فرماتے ہوئے سنا کہ: لوگ جب کسی ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں (یعنی اسے ظلم سے باز رکھنے کی کوشش نہ کریں) تو بعید نہیں: کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذابِ عام میں مبتلا کردیں“۔
پڑھنے کی حد تک اس آیت کو کون نہیں پڑھتا‘ لیکن آیت کا مفہوم کیا یہی ہے کہ آدمی پر صرف اس کی ذات کی ذمہ داری ہے؟ غلط کاروں کی اصلاح‘ گمراہوں کو غلط راستے سے ہٹانے اور ظالم کے مقابلہ کی اس پر کوئی ذمہ داری نہیں؟ آیت کا مطلب اگر یہی ہوتا تو امر بالمعروف کی آیات‘ نہی عن المنکر کے احکام اور جہاد فی سبیل اللہ کے فضائل جو قرآن ہی میں مذکور ہیں‘ ان کے کیا معنی ہوں گے؟
حضرت ابوبکر صدیق  وانی سمعت رسول اللہ ا کی روشنی میں اعلان فرمار ہے ہیں کہ آنحضرت ا کے اس ارشاد کو سامنے رکھے بغیر آیت کا ظاہری مفہوم اگر لیا جائے تو یہ تفسیرِ قرآن پر بڑا ظلم ہوگا‘ صرف اس خطبہ کے سامعین کو نہیں‘ بلکہ آنے والی پوری امت کوامت کا پہلا صدیق آگاہ کردینا چاہتاہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت کا مفہوم وانی سمعت رسول اللہ ا کی روشنی اور حدیثِ نبوی کی بصارت کے بغیر متعین کرنے والے ظالم ہیں‘ جن کا ہاتھ اگر نہ پکڑا گیا‘ ان کی زبان اگر نہ کھینچی گئی‘ ان سے قلم اگر نہ چھینا گیا‘ ان کی کتاب اللہ پر دست درازیوں پرگرفت نہ کی گئی‘ تو بعید نہیں کہ اللہ کا عذابِ عام نازل ہوجائے اور ایمان واعمال کی استعدادہی امت سے سلب کرلی جائے :”ویمسی مؤمنا ویصبح کافراً“ (صبح ایک شخص مؤمن ہوگا ‘ شام کو کافر اور شام کو مؤمن ہوگا صبح ہوتے ہی کافر ‘معاذ اللہ!) کا نقشہ سامنے آنے لگے۔ آیت پڑھ کر اس کی کوئی شرح کئے بغیر معاً ”میں نے رسول اللہ ا سے سنا ہے“ کا لفظ جو حضرت صدیق  کی زبان پر جاری ہوجاتاہے‘ جانتے ہو! یہ اپنے اندر ایمان ویقین اور فہم وفراست کا کتنا وزن رکھتا ہے؟ سننے والوں کو صرف آیت کی تفسیر نہیں بتلائی گئی‘ بلکہ ”یہ تفسیری اصول“ تلقین کیا گیا کہ پڑھنے والوں کو آفتاب ِ نبوت ا کی ذات سے صادر شدہ انفاس طیبہ (حدیث اور سنت) کو سامنے رکھ کر قرآن پڑھنا چاہئے ‘ ورنہ محض پڑھنا ہی پڑھنا ہوگا‘ سنتِ نبوی سے ہٹ کر قرآن پڑھنے والوں پر ”قرآنی فہم“ حرام کردیا کیا گیاہے۔
علامہ زرکشی سے الاتقان میں نقل کیا گیاہے:
قال فی البرہان:”اعلم انہ لایحصل للناظر فہم معانی الوحی ولایظہر لہ اسرارہ وفی قلبہ بدعة او کبرا او وہوی اوحب الدنیا او ہو مصر علی ذنب او غیر متحقق بالایمان او ضعیف التحقیق او یعتمد علی قول مفسر لیس عندہ علم او راجع الی معقولہ‘ وہذہ کلہا حجب وموانع بعضہا اکد من بعض“۔ (الاتقان:ج:۲‘ص:۱۸۱)
ترجمہ:․․․”برہان میں زرکشی فرماتے ہیں: جاننا چاہئے کہ قرآن کے مطالعہ کرنے والے کو نہ معنی وحی کا فہم حاصل ہوسکتاہے‘ نہ اس کے اسرار اس پر کھل سکتے ہیں‘ جب کہ اس کے قلب میں بدعت‘ کبر‘ ہویٰ یا حب دنیا ہو‘ یا وہ گناہ پر مصر ہو یا وہ ایمان کے کمال سے محروم ہو‘ یا کسی ایسے مفسر کے قول پر اعتماد کرے جو بے چارہ علم سے عاری ہے یا اپنے عقلی سودا کی طرف رجوع کرے‘ یہ تمام امور فہمِ قرآن سے حجاب اور مانع ہیں ․․․․․․“۔
قرآن وسنت کا باہمی تطابق کیا ہے؟ اور قرآن فہمی کے لئے معلم قرآن ا سے امت کا احتیاجی رشتہ کیا ہے؟
ان امور پر افسوس ہے کہ اس مضمون میں بحث ممکن نہیں‘ اس لئے میں حضرت ابوبکر صدیق  کے ان ہی ”چند تفسیری اصول“ پر اس مضمون کو ختم کرتاہوں‘ چونکہ یہ تمام ”صدیقی ذوق“ ہی کو سمجھانے کے لئے میں نے اپنی استطاعت صرف کی ہے‘ اس لئے آخر میں دعا کرتاہوں کہ اگر اس نادان سے کوئی صحیح بات بن پڑی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے‘ حق تعالیٰ اس کو نافع بنائے‘ اور اگر مجھ سے فہم وبیان میں غلطی ہوئی ہے‘ تو حق تعالیٰ مجھے معاف فرمائیں ۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: دینی مدارس اسلامی تہذیب و روایات کے امین
Flag Counter