Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

2 - 12
یہودیوں کے نشان ڈیوڈ اسٹار کے استعمال کا حکم
یہودیوں کے نشان ڈیوڈ اسٹار کے استعمال کا حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
ڈیوڈ اسٹار (چھ کونے والا ستارہ) جو کہ یہودیوں کا مقدس نشان ہے اور ان کی عبادت گاہوں اور یہودی قابض سلطنت اسرائیل کے جھنڈے پربھی بنا ہوا ہے‘ اس کے بارے میں تفصیل سے منور فرمائیے:
۱:․․․اکثر مسجدوں میں ڈیوڈ اسٹار (چھ کونے والا ستارہ) جوکہ یہودیوں کا مقدس نشان ہے اور ان کی عبادت گاہوں اور جھنڈے میں بناہوا ہے‘ کیا اس نشان کو مسجد میں لگا نا یا بنانا کسی بھی شکل میں صحیح ہے؟
۲:․․․ اس نشان کے ہوتے ہوئے کیااس مسجد میں نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ دراصل کراچی کی بیشتر مساجد میں مذکورہ بالا نشان (ڈیوڈ اسٹار) شیشوں کے نمک پارے کی صورت میں بناہواہے۔
۳:․․․نیز جن مساجد یا وقف اداروں میں چھ کونے والا ستارہ بناہوا ہے‘ ان کے متعلق کیا حکم ہے؟ احکامِ الٰہی کی روشنی میں راہنمائی فرمایئے
۔المستفتی :اصلاح الدین پراچہ
الجواب بعون الوہاب
واضح رہے کہ دینِ اسلام ایک کامل اور مکمل مذہب ہے اور تمام ملتوں اور شریعتوں کا ناسخ بن کرآیا ہے‘ وہ اپنے پیرؤوں کویہ اجازت نہیں دیتا کہ ناقص اور منسوخ ملتوں کے پیرؤوں کی مشابہت اختیار کی جائے۔ نیز غیروں کی مشابہت اختیار کرنا غیرت کے بھی خلاف ہے۔ جس طرح اسلام اپنی عبادات اور اعتقادات میں مستقل ہے‘ کسی کا تابع اور مقلد نہیں‘ اسی طرح اسلام‘ اپنی عادات اور معاشرہ میں بھی مستقل ہے‘ کسی دوسرے کا تابع اور مقلد نہیں۔ جس طرح ہرملت اور ہر امت کی حقیقت جدا ہے‘ اسی طرح ہرایک کی صورت اور ہیئت بھی جدا جدا ہے۔ ایک قوم دوسری قوموں سے اس ظاہری معاشرہ کی بناء پر ممتاز اور جدا سمجھی جاتی ہے‘ جب ایک قوم دوسری قوم کی خصوصیات ‘ امتیازات اور اس کی صورت اور ہیئت اختیار کر لیتی ہے تو اس کی ذاتی قومیت رفتہ رفتہ فنا ہوجاتی ہے اور یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اپنی قومیت اور شخصیت کو دوسرے کی قومیت اور شخصیت میں فنا کرنا سراسر غیرت کے خلاف ہے‘ جس طرح کہ کوئی جماعت حکومت سے برسر بغاوت ہو اور وہ جماعت اپنا امتیازی نشان یا لباس بنائیں تو حکومت اپنے وفاداروں کو اس باغی جماعت کی تشبیہ کی اجازت ہرگز نہیں دیتی۔لہذا ڈیوڈ سٹار (چھ کونے والا ستارہ) کے متعلق جو انکشافات کئے گئے ہیں‘ اور دیگر کتب میں جویہ باتیں منقول ہیں کہ فرانسیسی انقلاب کے بعد یہودیوں کو نجات حاصل ہوئی تو انہوں نے کسی ایسی علامت کو تلاش کرنا شروع کردیا ‘ جسے وہ صلیب کے مقابلہ میں اپنی پہچان کے طور پر استعمال کرسکیں تو انہوں نے شش(چھ) کونے ستارہ پر اکتفاء کیا۔ ایک مقام پر ہے کہ ہالوکاسٹ (نازیوں کا یہودیوں کی تباہی کا منصوبہ) کے دوران نازیوں نے پیلے رنگ کے ستارے کو یہودیوں کے لباس پر شناختی نشان (بیج) کے طور پرلازمی قراردیا‘ جنگ کے بعد ذلت او رموت کے اس نشان کو یہودیوں نے اپنے لئے اعزازی نشان کے طور پر اپنا لیا۔
آج کے دور میں ڈیوڈ کا ستارہ یہودیوں کی پہچان کا بین الاقوامی اور معروف ترین نشان مانا جاتاہے‘ عوامی سطح پر یہود اس ستارے کو اس طرح استعمال میں لاتے رہے‘ جس طرح وہ صدیوں سے استعمال ہوتا چلا آرہا تھا۔
(بحوالہ اسکویم‘ دی سٹار آف ڈیوڈ ہسٹری آف سمبل‘ میسیانک آینڈا ان جوڈا رزم ج:۲‘ ص:۲۷۱۔دی انسائیکلوپیڈیا آف برٹاٹیکا ج:۶‘ ص:۹۶۶) یورپ میں ڈیوڈ کا ستارہ مذہبی یہودیوں کے سینکڑوں سال پرانے مقبروں کی تختیوں پر بھی دیکھا جاسکتاہے‘ کیونکہ یہ یہودیوں کی مقبول علامت کے طور بھی پہچانا جاتاہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی عظیم مہر پر بھی اس اسٹار کا ڈیزائن (شکل بنی) دکھائی دیتاہے‘ عظیم مہر کی سامنے والی طرف ستاروں کا جمگھٹا واضح طور پر ڈیوڈ ستارے کی شکل کا ہے‘ جو چھوٹی جسامت کے ۱۳ ستاروں کو ملا کر بنایا گیاہے۔ نیز یہ عکس ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ایک ڈالر کے نوٹ کی الٹی طرف بھی موجود ہے۔
عوامی لب ولہجہ میں اسے یہودی ستارہ بھی کہا جاتاہے‘ اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ اسرائیلی جھنڈے پر بنا ہوا‘ یہ یہودی ستارہ اسرائیل کی پہچان بن گیا ہے۔ فرانسیسی انقلاب کے بعد یہودیوں کو آزادی ملنے پر یہودی آبادیوں نے ڈیوڈ اسٹار کو اپنی نمائندگی کے لئے اسی طرح منتخب کیا‘ جس طرح عیسائی‘ صلیب کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ ستارہ اسرائیل کے جھنڈے کا مستقل جزء ہے۔
۱۷ ویں صدی میں ڈیوڈ کے ستارے کو یہودی عبادت گاہوں کے باہر کے حصے پر بنانا یا آویزاں کرنا ایک عام بات تھی‘ تاکہ یہودیوں کی عبادت گاہ کے طور پر پہچانا جاسکے۔
۱۸۹۷ عیسوی میں شش کونہ ستارہ کو جب ”زائترم“ (فلسطین میں یہودیوں کی ریاست بنانے کی تحریک) کے نشان کے طور پر اختیار کرلیا‘ تو یہ یہودیت کی معروف علامت کی حیثیت اختیار کرگیا۔
موجودہ دور میں ڈیوڈ اسٹار یہودیوں کی علامت بن چکا ہے‘ اس ستارے کو دوٹرینگل (دو تکون دائرہ کو ملاکر) بنایا گیا ہے‘ اور یہ علامت یہودیوں کے میزوزاس MEZUZAHS ‘مینوراس MENORAHS ٹالس بگس TALLISBAGSکیپاٹKIPOT پرپائی جاتی ہے۔
ایک وجہ یہ ہے کہ جو چیز یہودی بناتے تھے‘ اس پر بطور نشان ڈیوڈاسٹار بناتے تھے‘ تاکہ اس علامت کے ذریعہ معلوم ہو کہ اس کا صانع یہود ہے (جیسے آج کل ہمارے ملک پاکستان میں مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہے کہ جتنے پرانے ٹاورز ہیں‘ ان کے مینار پر یہ چھ کونے والا ستارہ بنا ہوتا ہے‘ وہ بھی اس بات کی نشاندہی کرتاہے) سب سے زیادہ یہودیوں کے لئے یہ ستارہ ۱۸ سو صدی میں مشہور ہوا‘ اس سے پہلے یہ یہودیوں کے گرجوں پر ہوتا تھا‘ بعد میں ان کے لئے ایک علامت بن گئی (VIENNA) وینا (ایک جگہ) میں عیسائیوں اور یہودیوں کی آبادی تھی تو عیسائی صلیب کا نشان اپنے گھر پر لگاتے تھے اور یہود پہچان کے طور پر یہ ستارہ لگاتے تھے‘ اس وقت سے یہ یہودیوں کے ساتھ خاص ہوگیا‘ بعد میں اس ستارے نے ۱۸۹۷ء میں اور زیادہ شہرت حاصل کی۔
آج کل یہودیوں کی علامات میں سے سب سے زیادہ مشہور چھ کونے والا ستارہ ہے‘ لہذا مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ (ڈیوڈ اسٹار) چھ کونے والا ستارہ موجودہ دور میں یہودیوں کی ایسی علامت اور نشان کی صورت اختیار کرچکا ہے‘ جس طرح کہ عیسائیوں نے صلیب کو بطور علامت اپنایاہے‘ اگرچہ موجودہ وقت میں ہمارے ملک پاکستان میں اس نے ایک ڈیکوریشن پیس (بطور تزئین) کی شکل اختیار کرلی ہے اور اکثر ان لوگوں میں نمایاں نظر آتے ہیں جو بطور حفاظت گھروں یا دیگر عمارتوں میں نصب کی جاتی ہیں‘ یہاں تک کہ ہمارے مسلمانوں کے مقدس مقامات مساجد وغیرہ میں بھی اس ستارے نے بطور زینت گرلوں میں جگہ پکڑلی ہے‘لیکن یہ سب اس وجہ سے ہے کہ اس ڈیوڈ اسٹار کے متعلق ہمارے عوام و خواص کوکچھ علم نہیں‘بلکہ اگر مسلمان خواص تو درکنار عوام کو اس کے بارے میں معلومات حاصل ہوجائیں تو ان کی دین اور اسلام کے ساتھ وفاداری کا جذبہ اور غیرت اس کو کبھی برداشت نہیں کرے گا‘ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اس قسم کی علامات سے احتراز کریں‘ اس کا استعمال کرنا مسلمانوں کی اسلامی غیرت اور ایمانی جذبہ کے خلاف ہے۔
البتہ اگرکوئی شخص اس مخصوص علامت (ڈیوڈ سٹار) کو یہود کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے استعمال کرتا ہو یا یہودیوں کی علامت کو معزز سمجھ کر استعمال کرے‘ تو پھر اس کو اپنانا حرام ہے‘ چنانچہ طحاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
”انما الحرام التشبیہ بہم فیما کان مذموما وما یقصد بہ التشبیہ‘ قالہ قاضیخان فی شرح جامع الصغیر“۔ (ص:۴۵۴)
ترجمہ:․․․”اہل کتاب (یہود) کی مشابہت اختیار کرنا ان امور میں حرام ہے جو مذموم ہوں اور مشابہت کے قصد سے (کسی چیز کو استعمال) کیا جائے“۔
خلاصہ یہ کہ:
۱:․․․ مساجد کو اس قسم کی علامات سے دور رکھنا ضروری ہے‘ اس لئے کہ مساجد‘ اللہ کے گھر ہیں اور اللہ کے گھر میں ناپاک لوگوں کی مخصوص علامات کا لگانا چاہے وہ شیشے کے نمک پاروں کی صورت میں ہو یا کسی بھی صورت میں ہو‘ ایک مذموم عمل ہے۔
۲:․․․چونکہ نماز کے جواز اور عدم جواز کا تعلق اس کے ساتھ نہیں ہے‘ لہذا نماز بلاکراہت درست ہوگی۔
لہذا جب مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ صورت مسئولہ میں چھ کونے والا ستارہ یہود کی ایک مخصوص علامت ہے‘ جس سے یہود کی پہچان ہوتی ہے تو۔
۳:․․․ اس بناء پر جن مساجد ‘ مدارس یا دیگر وقف اداروں میں چاہے لوہے کی گرل میں ہو یا دیواروں میں حفاظت کے طور پر نصب شدہ جالیوں میں ہو‘ حتی الوسع اس کو ختم کرنا یا مٹانا چاہئے‘لیکن اگر اس کے ختم کرنے یا مٹانے میں وقف کا نقصان ہوتا ہو یا مال وقف زیادہ خرچ ہوتا ہو تو کم از کم مذکورہ ستارے کے دوکونوں کو بند کردیا جائے‘ تاکہ اسے ان ناپاک لوگوں کی مخصوص علامت نہ سمجھا جائے۔
الجواب صحیح الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری محمد انعام الحق
کتبہ
ایاز الحق
متخصص فی الفقہ الاسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: خدمات جامعہ کے تسلسل کی ایک کڑی
Flag Counter