Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

3 - 12
حکمرانوں کو حضرت عمر کی نصیحت
حکمرانوں کو حضرت عمر کی نصیحت

مسلمان ملکوں کی عمومی معاشرت آج اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتی‘ جس کی وجہ سے عوام اسلامی احکام کے فیوض وبرکات سے محروم ہیں۔ مسلمان ممالک کی بدقسمتی یہ ہے کہ تقریباً کسی ملک میں حکمرانوں کی جواب دہی اور جمہور عوام کے حقوق کی ادائیگی کا کوئی نظام نہیں ہے۔
بعض اسلامی ممالک کا نظام‘ شاہی اور خاندانی حکمرانوں کے تحت ہے جو بلاشرکت غیرے اپنے ممالک کا نظامِ حکومت چلاتے ہیں‘ کسی کی مداخلت ان کے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔ بعض دوسرے ممالک کا نظام فوجی حکمرانوں کے تحت ہے جو عرصہ سے جابرانہ انداز میں اپنے ملک کی باگ ڈور پر قابض ہیں اور برائے نام جمہوریت دکھانے کے لئے فرضی اسمبلیاں بھی بنائی ہوئی ہیں اور یک جماعتی نام نہاد جمہوری نظام قائم کرکے دنیا کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں‘ جب عوام اپنے ممالک کے نظامِ حکومت وسیاست سے بے دخل ہوں گے تو عوام اور حکمرانوں میں گیپ یعنی خلیج حائل ہونا فطری بات ہے‘ اس خلیج کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ عوام اپنے معاشی‘ اخلاقی اور سیاسی حقوق سے محروم رہتے ہیں اور اس کے لئے آواز اٹھانا بھی مشکل سمجھتے ہیں‘ اس لئے کہ جابرانہ نظام حکومت میں حکمران ان چیزوں کے برداشت کرنے کے روا دار نہیں ہوتے۔
مسلمانوں نے اپنے نظامہائے حکومتوں میں اسلام اور اسلام کے ترجمان: حضرات خلفائے راشدین کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کیا ہوا ہے‘ جبکہ دوسرے مذاہب والے اپنے نظامِ حکومت میں خلفائے راشدین کے بتلائے ہوئے کم از کم معاشرتی ‘ رفاہی اور جمہوری معاملات میں ان حضرات کے فرمودات پر عمل جاری رکھے ہوئے ہیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ رفاہی وفلاحی طور پر یہ ممالک روبہ ترقی ہیں اور عام آدمی خواہ ان کے ملک کا ہو یا کسی دوسرے ملک کا جو وہاں رہتا ہو‘ ان کے حقوق یکساں ہوتے ہیں‘ معاشی طور پر ان میں کوئی تفریق نہیں ہوتی‘ ہرایک کو وہاں رہتے ہوئے جائداد‘ مکان وغیرہ خریدنے کی اجازت ہوتی ہے‘ کاروبار ہر ایک کا حق ہوتا ہے‘ لیکن مسلمان ممالک میں یہ سب حقوق صرف وہاں کے رہنے والوں کے ہیں‘ باہر کے رہنے والوں کو نہ جائداد خریدنے کا حق ہے‘ نہ کاروبار کا‘ وہ مقامی لوگوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں‘ یہ ظالمانہ طریقِ کار ہے‘ جس کا اسلامی نظامِ سلطنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حضرت علی کا قول مشہور ہے کہ: حکومت شرک کے ساتھ تو چل سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ عام طور پر مسلمان سلطنتوں نے ظلم کے طور پر اپنا نظام قائم کیا ہوا ہے‘ جس میں غریبوں کے مفادات کو یکسر نظر انداز کیا جاتاہے‘ معاشرہ کے مترفین (قرآنی ارشاد کے مطابق مترفین وہ طبقہ ہے جو عوام کے وسائل پر قابض ہوکر غریبوں پر ظلم ڈھائے) کے لئے سب ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔
حضرت عمر کا ایک ارشاد اور واقعہ امام بخاری نے ذکر فرمایا ہے۔ یاد رہے کہ امام بخاریکی تالیف صحیح بخاری اسلامی علوم کی ایک انسائیکلوپیڈیا ہے ‘ انسانی زندگی کے جملہ پہلوؤں پر امام بخاری نے امت کے لئے ایک عظیم ذخیرہ مرتب کیا ہے‘ جو رہتی دنیا تک مشعل راہ ہے۔ امام بخاری نے ”کتاب الجہاد“(ج:۱‘ص:۴۳۰) میں ایک باب باندھا ہے ”دار الحرب میں اسلام لانے والے اگر مالدار ہوں تواپنے سب مال کے وہی وارث ہوں گے“ اس ضمن میں حضرت عمر کا یہ ارشاد ذکر فرمایا ہے‘ جو ہر دور کے حکمرانوں کے لئے ضابطہٴ اخلاق ہے‘ حضرت عمر کی دور رس نگاہوں نے کس کس انداز سے عام لوگوں‘ خصوصاً غریبوں کے حقوق کی ادائیگی کا لحاظ رکھا ہے‘ خلیفہٴ ثانی راشد کا ایک ایک لفظ ایمان افروز اور اسلامی ضابطہٴ اخلاق کا بنیادی چارٹر ہے ، حضرت عمر نے اپنے ایک غلام جس کانام ہنئی تھا‘ ایک چراگاہ پر متعین کیا (اس دور عدل میں بیت المال کے جانوروں کے چرنے کے لئے سرکاری چراگاہیں ہوتی تھیں) اور کہا: اے ہنئی! مسلمانوں سے نہایت عاجزی کا برتاؤ کرنا‘ مظلوم کی بددعا سے بچنا‘ کیونکہ اس کی بددعا فوراً قبول ہوتی ہے‘ اس چراگاہ میں کم اونٹ اور بکریوں والوں کو آنے دینا (ان کو اپنے جانور ان ہی چراگاہوں سے چرنے اور نفع حاصل کرنے کی اجازت دینا) اور یاد رکھنا کہ: عبد الرحمن بن عوف اور حضرت عثمان بن عفان (جیسے مالدار لوگوں) کے جانوروں کو ہرگز چرنے نہ دینا‘ اس لئے کہ اگر ان دونوں کے جانور مر بھی جائیں گے تو دونوں کے دونوں اپنی زرعی زمین اور باغات سے پیٹ پال سکتے ہیں اور اگر کم مقدار والوں (غریبوں) کے اونٹ یا بکریاں مرگئیں تو وہ لوگ اپنے اہل وعیال کو میرے پاس لاکرمجھ سے فریاد کریں گے کہ: اے امیر المؤمنین! ہم غریب وفقیر ہوگئے۔ ارے ہنئی! تیرا باپ نہ رہے (یہ لفظ عربی میں تنبیہ کے لئے کہا جاتاہے) کیا اس وقت میں ان کو چھوڑ دوں گا‘ اس وقت مجھے ان لوگوں کو رقم دینا پڑے گی‘ لہذا وہ رقم یا سونا دینے سے بہتر تو یہ ہے کہ میں اس وقت ان کے جانوروں کو صرف پانی سے سیراب کرنے کی اجازت دیدوں‘ خدا کی قسم! اگر ان کو روکا گیا تو اس حالت میں یہ تاثر لیں گے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور لوگ مجھے ظالم تصور کرنے لگیں گے‘ اس لئے یہ شہر انہی لوگوں کے ہیں‘ عہد جاہلیت میں انہی لوگوں نے اپنے ان شہروں کے لئے اپنی جانیں دی ہیں اور وہ ان کی خاطر لڑے ہیں اور اسی زمین پر وہ اسلام لائے ہیں‘ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے‘ اگر میری سپردگی میں ایسے جانور نہ ہوتے جن پر میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کو سوار کرتا ہوں تو میں ان کے شہروں کی ایک بالشت بھر جگہ کو بھی چراگاہ بنانا روانہ رکھتا“۔
لیکن آج ہمارے ملک میں غریب کا جو حال ہے اس کا اندازہ چینی‘ سیمنٹ‘ پٹرول اور دوسری اشیاء صرف کی صورت حال سے لگایا جاسکتا ہے‘ غریبوں کے خدمت کے دعوے اس قدر ہیں کہ عوام ذرائع ابلاغ سے یہ جھوٹے دعوے سنتے سنتے تنگ آچکے ہیں‘ پاکستان جیسے زرعی ملک میں چینی کے ساتھ دالیں اور سبزیاں بھی غریبوں کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں‘ ان حالات میں حکومتی اداروں کو غربت ختم کرنے کا ہر وقت دعویٰ زیب نہیں دیتا‘ حکومتی وسائل سب امیر طبقہ کے لئے وقف ہیں‘ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں روز افزوں اضافہ‘ زیادہ سے زیادہ سہولتوں ‘ وزراء اور مشیروں کے نت نئے عیش وعشرت کے لئے مطالبات‘ اور ہنگامی طور پر ان مطالبات کی منظوری یہ سب کچھ ملک کے غریب طبقہ سے مذاق ہے۔ اور یہ مذاق بہت ہوچکا ہے‘ زبانی جمع خرچ سے اس طبقہ کو مزید دھوکا دینا ایک نئے انقلاب کو جنم دینا ہے‘ معاشرہ کے کسی ایک پہلو میں بھی غریب کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ علماء کرام‘ دینی لگاؤ رکھنے والے عناصر‘ اخبارات کے تجزیہ نگار اور کالم نگار حضرات غریبوں کے لئے آواز دیتے دیتے تھک گئے ہیں‘ لیکن نتیجہ صفر نکل رہاہے۔
امیر المؤمنین حضرت عمر کا وہ مقولہ عام وخاص کو یاد ہے کہ: اگر نہر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرے گا تو قیامت کے دن عمر سے اس بارے میں سوال ہوگا، ہمارے اس ظالمانہ معاشرہ میں لاکھوں ‘ کروڑوں عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں‘ بھوک وافلاس سے والدین اور بچے خود کشیاں کرہے ہیں‘ کوئی سسٹم ابھی تک حکومت نہ بناسکی کہ ان غریبوں کی خبر گیری کیسے کی جائے۔ عیش وعشرت اور فضول خرچیوں کی انتہاء ہے جو اس ملک میں عوام کے ٹیکسوں پر کی جارہی ہے۔
واہ فیکٹری پاکستان کا ایک ادارہ ہے‘ آپ داخل ہوتے وقت ان کے دروازوں اور گیٹوں کو دیکھیں‘ ایک ایک گیٹ پر کروڑوں روپیہ لگایاگیا‘ اندر فواروں پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے‘ کیا ان کے بغیر فیکٹری کی پیداوار اور پروڈکشن میں اضافہ نہیں ہوسکتا؟ کہا جاتاہے کہ: باہر سے مہمان آتے ہیں ان کو متاثر کرنے کے لئے یہ بنایاجاتاہے۔ کیا مہمانوں کو یہ نہیں معلوم کہ یہ قرض میں دبا ہوا ملک ہے اور عوام اربوں ڈالر کے مقروض ہیں؟ ،پی اے ایف کامرہ جایئے‘ سڑک پر چارچار پانچ پانچ فٹ کے لمبے چوڑے پھولوں کے لئے گملے بنائے ہوئے ہیں‘ شاید ایک ایک گملا آج کل ۱۵‘۲۰ ہزار سے زائد کا ہوگا‘ یہ غیر ضروری اخراجات کب ختم ہوں گے‘ بجٹ میں ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کے لئے جو خطیر رقم رکھی جاتی ہے‘ کیا یہ کسی مقروض ملک کے شایان شان ہے؟ کاش ! ہمارے دلوں میں غریبوں کی مشکلات کا احساس ہوتا۔
یاد رکھئے ! حضرت معاذ بن جبل  کو رسول اللہ ا نے یمن کا گورنر بناکر بھیجتے ہوئے یہ خاص نصیحت کی تھی کہ مظلوم کی آہ سے ڈرنا کہ اس کے درمیان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں، مظلوموں اور غریبوں کی ان آہوں کا نتیجہ ہے کہ ملک بھی اور حکمران بھی آئے دن نئے نئے بحرانوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کاش ! حکمران‘ غریبوں اور مظلوموں کی آہوں سے بچنے کا اہتمام کرکے اپنی دنیا وآخرت کو سنوارنے کی کوشش کرتے۔
روزنامہ جنگ ۲۱/اپریل ۲۰۰۶ء کے مطابق نیشنل بنک نے پچھلے سال ۱۳۰/ بااثر لوگوں کے قرضے معاف کئے‘ جن کی مالیت چار ارب تریسٹھ کروڑ ہے۔ جن لوگوں کے قرضے معاف کئے گئے ہیں‘ ان میں سیاستدان اور فوجی جرنیل بھی شامل ہیں، اسی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۶ء ایوان صدر کا یومیہ خرچ سات لاکھ سولہ ہزار چھ سو تہتر روپے ہے۔ اور ایوانِ وزیر اعظم کا خرچ چھ لاکھ اکتالیس ہزار تین سو ستر روپے ہے۔
ملکی وسائل کا یہ بے دردانہ استعمال اور غربت وامارت کا یہ تفاوت معاشرتی‘ اخلاقی اور سیاسی تفریق کو جنم دیتا ہے‘ جس کا یہ ملک متحمل نہیں ہے۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: یہودیوں کے نشان ڈیوڈ اسٹار کے استعمال کا حکم
Flag Counter