Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

7 - 12
روشن خیالی اورجدیدیت کی تاریخ
روشن خیالی اورجدیدیت کی تاریخ
سرسید احمد خان اپنے عقائد ونظریات کی روشنی میں
(۲)
۳- سرسید جبرائیل امین کے منکر تھے
اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ فرشتوں پر ایمان لاناہے‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور نظام کائنات چلانے کے لئے فرشتوں کو پیدا فرمایاہے‘ جن کی تعداد کا صحیح علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے پھر ان فرشتوں میں چار فرشتے نہایت مقرب اور مرتبے والے ہیں یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام‘ حضرت میکائیل علیہ السلام‘ حضرت اسرافیل علیہ السلام اور حضرت عزرائیل علیہ السلام۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام وہ فرشتہ ہے جو تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر وحی لایا کرتے تھے‘ ہاں! یہ بات قارئین کے مدنظر رہے کہ ماضی قریب میں ایک جھوٹا اور دونمبری‘ نبوت کا دعویدار غلام احمد قادیانی جہنم مکانی کے نام سے پیدا ہوا‘ اس کا کہنا ہے کہ میرے اوپر جو فرشتہ وحی لایا کرتا ہے‘ اس کا نام ہے‘ مسٹر ٹیچی ٹیچی ”سبحان اللہ“ مگر یہ تعجب کی بات نہیں ہے‘ دراصل غلام قادیانی اس دعویٰ میں خود اعتراف کررہاہے کہ سارے نبیوں پر وحی لانے والا فرشتہ میرے پاس نہیں آیا‘ کیونکہ وہ تو سچے نبیوں کے پاس آتاہے‘ جبکہ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں‘ جسے جہاد کا تصور مٹانے کے لئے ”نامزد“ کیا گیا تھا‘ اللہ کا شکر ہے کہ جہاد باقی ہے اور غلام قادیانی بیت الخلاء کو چومتے چاٹتے‘ اس دنیا کو اپنے منحوس جسم سے نجات دلا چکے ہیں۔
”قرآن پاک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر ہے‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”قل من کان عدوا لجبریل فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ“ ۔(بقرہ:۹۷)
ترجمہ:․․․”آپ ا فرمادیجئے کہ جو کوئی جبرائیل کا مخالف ہے تو انہوں نے تو اس قرآن کریم کو آپ ا کے قلب مبارک پر اللہ کے حکم سے نازل کیا ہے“۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
”من کان عدوا للہ وملائکتہ ورسلہ وجبریل ومیکال فان اللہ عدو للکافرین“۔ (البقرہ:۹۸)
ترجمہ:․․․”جو کوئی مخالف ہو اللہ کا یا اس کے فرشتوں کا یا اس کے پیغمبروں کا یا جبرائیل کا اور میکائیل کاتو اللہ تعالیٰ ایسے کافروں کا مخالف ہے“۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام جیسا مقرب فرشتہ جس کی دشمنی کو اللہ تعالیٰ اپنی دشمنی قرار دے رہا ہے‘ دیکھئے کہ سرسید اس کے بارے میں کیا کہہ رہاہے وہ سرے سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے وجود کا منکر ہے۔ وہ لکھتاہے:
”یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید بلفظہ آنحضرت ا کے قلب پر نازل ہوا ہے یا وحی کیا گیا ہے‘ خواہ یہ تسلیم کیا جاوے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتہ نے آنحضرت ا تک پہنچادیا‘ جیساکہ مذہب‘ عام علماء اسلام کا ہے یا ملکہٴ نبوت نے جو روح الامین سے تعبیر کیا گیا ہے‘ آنحضرت ا کے قلب پر القاء کیا گیا ہے‘ جیساکہ میرا خاص مذہب ہے“۔ (تفسیر القرآن از سرسید ج:۱‘ص:۳)
اس عبارت میں سرسید نے اس بات کا انکار کیا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کوئی خارجی وجود ہے ‘ بلکہ ان کے نزدیک یہ رسول اکرم ا کی طبیعت میں ودیعت کردہ ایک ملکہٴ نبوت کا نام ہے۔ نیز اس عبارت میں سرسید نے خود ہی کہہ دیا ہے کہ تمام علماء اسلام کا راستہ الگ ہے اور ”میرا خاص مذہب“ الگ ہے یوں ”من شذ شذ فی النار“ (جو تمام امت سے الگ ہوا وہ اکیلے دوزخ میں جا پڑے گا) کے مستحق ہوگئے ہیں۔ سرسید کے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے انکار سے متعلق دیگر عبارات ملاحظہ ہوں۔ ”پس وحی وہ چیز ہے جس کو قلب نبوت پر بسبب اسی فطرت نبوت کے مبداء فیاض نے نقش کیا ہے‘ وہی انتقاش قلبی کبھی مثل ایک بولنے والی آواز کے انہیں ظاہری کانوں سے سنائی دیتاہے اور کبھی وہی نقش قلبی‘ دوسرے بولنے والے کی صورت میں دکھائی دیتا ہے‘ مگر اپنے آپ کے سوا نہ وہاں کوئی آواز‘ نہ بولنے والا․․․ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ملکہٴ نبوت کا جو خدانے انبیاء میں پیدا کیا ہے جبرائیل نام ہے“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۲۵)
خدا اور پیغمبر میں بجز اس ملکہٴ نبوت کے جسے ناموس اکبر او رزبان شرح میں جبرائیل کہتے ہیں اور کوئی ایلچی پیغام پہچانے والا نہیں ہوتا (ایضاً ص:۲۵)
نبوت درحقیقت ایک فطری چیز ہے جو انبیاء میں بقضاء ان کی فطرت کے مثل دیگر قویٰ انسانی کے ہوتی ہے جس انسان میں وہ قوت ہوتی ہے وہ نبی ہوتا ہے۔ (ایضاً ص:۲۳) ”اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام مؤید بتائید القدس ہیں‘ اگر بحث ہوسکتی ہے تو روح القدس پر ہوسکتی ہے تمام علماء اسلام کو ایک مخلوقِ جداگانہ خارج از خلقتِ انبیاء قرار دے کر اس کو بطور ایلچی کے خدا ونبی میں واسطہ قرار دیتے ہیں اور جبرائیل اس کا نام بتاتے ہیں۔ ہم بھی جبرائیل اور روح القدس کو شئ واحد تجویز کرتے ہیں‘ مگر اس کو خارج از خلقتِ انبیاء مخلوق جداگانہ تسلیم نہیں کرتے‘ بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ خود انبیاء علیہم السلام میں جو ملکہ نبوت ہے اور ذریعہ مبدء فیاض سے ان امورکے اقتباس کا ہے جو نبوت یعنی رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں‘ وہی روح القدس ہے اور وہی جبرائیل ہے“۔ (تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ ص:۱۵۶‘ ج:۱‘ ص:۱۸۱‘ ۱۲۲‘ ۱۲۹‘ ۱۷۰)
۴-سرسید کی عربی شناسی
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ غزوہٴ احد میں نبی اکرم ا کے سامنے کا ایک دانت مبارک شہید ہوا تھا‘ چنانچہ علامہ ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں:
”وان الرباعیة التی کسرت لہ علیہ السلام ہی الیمنیٰ السفلیٰ“ (السیرة النبویة ج:۳‘ ص:۵۷)
ترجمہ:․․․”نبی علیہ السلام کے سامنے کا داہنا نچلا دانت مبارک شہید ہوا تھا“۔
فن تجوید وقرأت کے لحاظ سے سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک کو رباعی کہتے ہیں‘ جیسے لغت کے امام ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
”والرباعیة مثل الثمانیة احد الاسنان الاربع“۔ (لسان العرب ج:۸‘ ص:۱۰۸)
رباعی کا لفظ ثمانی کی طرح ہے یعنی سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک۔
سرسید نے رباعی کا لفظ دیکھ کر اسے اربع (چار) سمجھ لیا ہے اور حکم لگا دیا کہ آپ ا کے چار دانت شہید ہوئے تھے“۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”آنحضرت ا کے چار دانت پتھر کے صدمہ سے ٹوٹ گئے“۔ (تفسیر القرآن ج:۴‘ص:۶۴)
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ جو شخص رباعی اور اربعہ میں فرق نہیں کرسکتا وہ قرآن کی تفسیر لکھنے بیٹھ گیا ہے۔
۵-سرسید فرشتوں کے وجود کا منکر
فرشتوں کا مستقل خارجی وجود قرآن وحدیث سے صراحةً ثابت ہے اور فرشتوں کا اس طرح وجود ماننا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے‘ ان کے وجود کو مانے بغیر کوئی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔
قرآن پاک میں ہے کہ: فرشتے خدا کی ایسی مخلوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے اور جس کام کا حکم دیا جاتاہے اس کو بجالاتے ہیں (التحریم:۶)
نیز ارشاد ہے کہ: کافروں کی جان قبض کرتے وقت فرشتے ان کو چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہیں (الانفال:۵۰)
اور مؤمنوں کو موت کے وقت سلام پیش کرتے ہیں اور جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ (النحل:۳۲)
قرآن کریم میں ہے کہ: فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس انسانی شکل میں آئے‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو انسان سمجھ کر ان کے لئے بچھڑا ذبح کیا اور جب فرشتوں کے ہاتھ کھانے سے رک گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خوف محسوس ہوا‘ پھر فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے کی خوشخبری دی۔ (الحجر:۵۱-۶۰)
پھر یہی فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اور قوم لوط پر عذاب ڈھانے لگے۔ (الحجر:۵۸تا۷۷)
اسی طرح حضرت جبرائیل علیہ السلام کبھی انسانی شکل میِں بار گاہ نبوی میں تشریف لاتے ‘چنانچہ مشکوٰة کی پہلی حدیث ”حدیث جبرائیل“ میں جب سوالات کرنے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لے گئے تو آپ ا نے فرمایا :”فانہ جبرئیل اتاکم یعلمکم دینکم“ (یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے‘ تم کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے) (مشکوٰة: کتاب الایمان)
ان تمام آیات اور روایات سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا مستقل خارجی وجود ہے‘ مگر سرسید اس کے منکر ہیں وہ لکھتے ہیں کہ:
” قرآن مجید سے فرشتوں کا ایسا وجود جیسا مسلمانوں نے اعتقاد کررکھا ہے ثابت نہیں ہوتا“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۴۲)
نیزج: ۵ص:۲۴پر لکھتا ہے:
”اس میں شک نہیں کہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تھے‘ انسان تھے اور قوم لوط کے پاس بھیجے گئے تھے۔“
نیز لکھتاہے:
علماء مفسرین نے قبل اس کے کہ الفاظ قرآن پر غور کریں یہودیوں کی روایتوں کے موافق ان کا فرشتہ ہونا تسلیم کرلیا ہے‘ حالانکہ وہ خاصے بھلے چنگے انسان تھے۔ (ایضاً ج:۵‘ص:۶۱)
اس طرح قرآن پاک اور احادیث طیبہ میں بڑی وضاحت سے یہ بات آئی ہے کہ مختلف غزوات کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتوں کو بھیجا ہے‘ جیسا کہ جنگ بدر اور جنگ حنین کے موقع پر ان فرشتوں نے باقاعدہ کفار کے ساتھ جنگ لڑی ہے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی ہے۔ سرسید اس کا منکر ہے وہ ”ولقد نصرکم اللہ ببدر وانتم اذلة“ (آل عمران:۱۲۳) کے تحت لکھتاہے۔
” بڑا بحث طلب مسئلہ اس آیت میں فرشتوں کا لڑائی میں دشمنوں سے لڑنے کے لئے اترناہے‘ میں اس بات کا بالکل منکر ہوں‘ مجھے یقین ہے کہ کوئی فرشتہ لڑنے کو سپاہی بن کریا گھوڑے پر چڑھ کر نہیں آیا‘ مجھ کو یہ بھی یقین ہے کہ قرآن سے بھی ان جنگجو فرشتوں کا اترنا ثابت نہیں“۔ (تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ص:۵۲)
۶- سرسید کا واقعہٴ معراج سے انکار
رسول اللہ ا کے معجزات میں سے ایک معجزہ واقعہٴ معراج ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ا کو سر زمین حجاز سے بیت المقدس اور پھر آسمانوں کی سیر کرائی اور جنت ودوزخ کے حالات دکھائے‘ یہ بات ذہن نشین رہے کہ معجزہ اسے کہتے ہیں جس کے کرنے سے نبی کے علاوہ دوسرے لوگ عاجز رہیں‘ لہذا آنحضرت ا کا واقعہ معراج تب معجزہ بنے گا جب ہم یہ تسلیم کرلیں کہ آنحضرت ا کو معراج روح مع الجسد ہوئی تھی یعنی جسم اور روح دونوں کو معراج ہوئی تھی‘ اگر اسے خواب یا تصور کا واقعہ قرار دیں تو معجزہ نہیں کہلا یا جاسکتا‘ کیونکہ خواب اور تصور میں کوئی بھی شخص اس قسم کا واقعہ دیکھ سکتاہے۔یہ ممکن ہے کہ خواب میں کال کوٹھری میں بند‘ موت کا منتظر قیدی یہ دیکھ لے کہ وہ ساری دنیا کا بادشاہ بن گیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک بڑا بادشاہ خواب میں دیکھے کہ وہ قید میں بے بس پڑا ہوا ہے‘ غرض یہ کہ خواب میں واقعہ معراج سمیت کوئی بھی واقعہ ممکن ہے‘ لہذا تسلیم کرنا پڑے گا کہ واقعہ معراج جیتے جاگتے روح مع الجسد کے ہوا تھا ۔ روایات میں آتاہے کہ واقعہ معراج کا سن کر کفار ومشرکین مکہ نے اس کا انکار کیا اور آپ ا کے ساتھ حجت بازی کرنے لگے‘ بیت المقدس کی ساخت اور ہیئت کے بارے میں سوالات کرنے لگے‘ اور حضرت ابوبکر صدیق سے کہا کہ: دیکھو !تمہارا صاحب رات کے ایک مختصر عرصے میں اتنی بڑی سیر کا دعویٰ کررہے ہیں‘ آپ  نے بتایا: میں آسمانوں سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کا بار بار آپ اکے پاس آنا تسلیم کرکے اس سے بڑی بات تسلیم کرچکا ہوں‘ اس لئے میں اس سفر اسراء اور معراج کو حکمت پر مبنی سچا واقعہ تسلیم کرتاہوں‘ لہذا اگر واقعہ معراج خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار ومشرکین کبھی آپ ا کے ساتھ حجت بازی نہ کرتے۔
امام فخر الدین الرازی (متوفی ۶۰۶ھ) تفسیر کبیر میں ”سبحان الذی اسریٰ بعبدہ“ کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
”ان العبد اسم لمجموع الجسد والروح“
عبد کا لفظ جسم اور روح دونوں کو شامل ہے“ (تفسیر کبیر ج:۴‘ ص:۲۰۱)
قاضی عیاض مالکی الشفاء میں فرماتے ہیں:
”لوکان مناماً لقال بروح عبدہ ولم یقل بعبدہ“
اگر آپ ا کو معراج خواب کی حالت میں ہوتی تو اللہ تعالیٰ فرماتے: اللہ نے اپنے بندہ کی روح کو راتوں رات سیر کرائی اور اس طرح نہ فرماتے کہ اپنے بندے کو سیر کرائی۔ (الشفاء: ص ۸۶)
علامہ علاء الدین علی البغدادی (متوفی ۷۴۱ھ) رقمطراز ہیں: ”انہ اسریٰ بروحہ وجسدہ“ آپ ا کو روح مع الجسد کے معراج ہوئی ہے۔ (تفسیر خازن)
سرسید واقعہ معراج میں جسمانی معراج کا انکار کرتا ہے‘ وہ اپنی تفسیرالقرآن ج :۲ ص: ۱۳۰ پرلکھتا ہے:
”ہماری تحقیق میں واقعہ معراج ایک خواب تھا جو رسول اللہ ا نے دیکھا تھا‘ اس خواب میں یہ بھی دیکھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ ا کا سینہ چیرا اور اس کو آب زمزم سے دھویا“
سرسید نے حضرت عائشہ  اور حضرت امیر معاویہ کی بعض روایات سے استدلال کیا ہے جس سے بظاہر معراج جسمانی کا انکار ثابت ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ معراج جسمانی آنحضرت ا کو ایک بار ہوئی تھی‘ جبکہ روحانی معراج کئی بار ہوئی ہے‘ معراج جسمانی مکہ میں ہوئی تھی‘ جبکہ حضرت عائشہ کی رخصتی ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوئی تھی‘ مدینہ منورہ ہی کی کسی معراج روحانی کے بارے میں حضرت عائشہ کا قول ہے: ”ما فقد جسد النبی ا ولکن اللہ اسریٰ بروحہ“ نبی کریم ا کا جسم مبارک غائب نہیں ہوا تھا‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ا کی روح مبارک کو سیر کرائی“ (معالم التنزیل) دوسرے امیر معاویہ کے معراج جسمانی کے انکار کے بارے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ معراج جسمانی مکہ میں ہوئی تھی‘ جبکہ امیر معاویہ سن ۸ھ میں مدینہ منورہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے‘ لہذا زمانہٴ قبل از اسلام کے بارے میں ان کا کوئی قول دلیل نہیں بن سکتا۔
۷- سرسید کا جنت ودوزخ کا انکار
تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ جنت ودوزخ حق ہیں اور دونوں پیدا کی جاچکی ہیں۔ خود قرآن پاک سے یہ ثابت ہے ارشاد خداوندی ہے:
”وسارعوا الی مغفرة من ربکم وجنة عرضہا السموات والارض اعدت للمتقین“ (آل عمران:۱۳۳)
ترجمہ:․․․”اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو اور جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین جتنی ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تیار کی جاچکی ہے“ ۔ دوزخ کے پیدا کئے جانے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:
”فاتقوا النار التی وقود ہا الناس والحجارة اعدت للکافرین“ (البقرہ:۲۴)
ترجمہ:․․․”پس ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے جو کافروں کے لئے تیار کی جاچکی ہے“۔
سرسید جنت ودوزخ دونوں کے وجود کا انکار کرتا ہے وہ لکھتا ہے: ”پس یہ مسئلہ کہ بہشت اور دوزخ دونوں بالفعل مخلوق وموجود ہیں‘ قرآن سے ثابت نہیں ۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۳۰)
نیز لکھتاہے:
”اعدت کے لفظ سے دوزخ کا موجود ہونا ثابت نہیں‘ بس اس وقت نہ کوئی آدمی جہنم کی آگ کا ایندھن ہے اور نہ کوئی ایسی آگ موجود ہے جس کا ایندھن آدمی ہو“ (ایضاً ج:۱‘ ص:۳۰)
وہ مزید لکھتاہے:
”یہ سمجھنا کہ جنت مثل باغ کے پیدا کی ہوئی ہے‘ اس میں سنگ مرمر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں۔ باغ میں سرسبز وشاداب درخت ہیں‘ دودھ وشراب وشہد کی نالیاں بہہ رہی ہیں‘ ہرقسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے․․․ایسا بیہودہ پن ہے جس پر تعجب ہوتا ہے‘ اگر بہشت یہی ہو تو بے مبالغہ ہمارے خرابات (شراب خانے) اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں“۔ (نعوذ باللہ) ایضاً ج:۱‘ص:۲۳)
۸-جنات وشیاطین کے وجود کا انکار
جنات وشیاطین کا وجود قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے لئے اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں‘ مگر سرسید اس کا انکار کرتا ہے‘ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کے ماتحت جنات کے کام کرنے کے قرآنی واقعہ پر تبصرہ کرتا ہے:
”ان آیتوں میں ”جن“ کا لفظ آیا ہے‘ اس سے وہ پہاڑی اور جنگلی آدمی مراد ہے‘ جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں بیت المقدس بنانے کا کام کرتے تھے اور جن پر بسبب وحشی اور جنگلی ہونے کے جو انسانوں سے جنگلوں میں چھپے رہتے تھے اور نیز بسبب قوی اور طاقتور اور محنتی ہونے کے ”جن“ کا اطلاق ہوا ہے پس اس سے وہ جن مراد نہیں جن کو مشرکین نے اپنے خیال میں ایک مخلوق مع ان اوصاف کے جو ان کے ساتھ منسوب کئے ہیں‘ ماناہے اور جن پر مسلمان بھی یقین کرتے ہیں۔ (تفسیر القرآن ج: ۳‘ ص: ۶۷) وہ شیطان کا الگ مستقل وجود تسلیم نہیں کرتا‘ بلکہ انسان کے اندر موجود شرانگیز صفت کو شیطان قرار دیتاہے ‘ وہ ج ۳ ص۴۵ پر لکھتاہے: ”انہی قویٰ کو جو انسان میں ہے اور جن کو نفس امارہ یا قوائے بہیمیہ سے تعبیر کرتے ہیں‘ یہی شیطان ہے“۔ سرسید اور ان جیسے دیگر روشن خیالوں کی فکری جولانیوں کودیکھ کر یہی کہا جاسکتاہے کہ:
ناطقہ بگریباں ہے اسے کیا کہئے؟ خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے؟
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں جامعہ کی خدمات کا مختصر جائزہ
Flag Counter