Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

8 - 12
دینی مدارس اسلامی تہذیب و روایات کے امین
دینی مدارس اسلامی تہذیب و روایات کے امین
(۲)
حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ، حضرت سیّد احمد شہید، حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن، حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہم اجمعین وغیرہم کی قبروں کو اللہ تعالیٰ نور سے بھردیں، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات عطا فرمائیں، ان حضرات کی اگر سنی جاتی تو حالات بہت مختلف ہوتے، اور دُنیا جانتی ہے کہ یہ وہ علماء نہیں تھے جو برطانیہ کے سبزہ زار میں بیٹھ کر اُمتِ مسلمہ کی فکر کرتے تھے، بلکہ جیلوں کی سختیوں، ویرانوں اور ریگستانوں کی تپش میں اپنے بزرگوں اور اسلاف کی بے دام غلامی کرنے والے تھے، اور یہ حضرات زبانی جمع خرچ کے لوگ نہیں تھے بلکہ ”أشد الناس بلاء الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل“ (امتحان و آزمائش میں سب سے زیادہ سختیاں انبیاء علیہم السلام پر آئیں، پھر وہ جو ان کے قریب، پھر وہ جو ان کے قریب) پر یقین رکھنے والے تھے، اس لئے دن میں اُمتِ محمدیہ کی فلاح و بہبود کے لئے میدان میں ہوتے تھے اور راتوں کو اپنے رَبّ کے آگے گریہ و زاری کرنے والے تھے، ”فی اللیل رھبان وفی النھار فرسان“ کا عملی نمونہ تھے۔ باتیں بنانا، نرم گدیوں پر بیٹھ کر قلم چلانا بہت آسان ہے، جو کام مشکل ہے وہ میدان میں نکل کر زُہد و تقویٰ، علم و فضل کے ساتھ خدمتِ خلق، نوعِ انسانی کی ہمدردی، عزم و استقلال، صبر و تحمل اور رضا و تسلیم کے ساتھ دعوت و عمل کا کام ہے۔
یورپ میں ایمان اور یقین کی کیا حالت ہوگی؟ جبکہ وہاں نہ اذانوں کی آواز کبھی کان میں پڑتی ہے، نہ مسجد نظر آتی ہے، نہ کوئی ایک ایسا اخبار ملتا ہے جس میں برہنہ تصاویر نہ ہوں، نیم عریاں نہیں بلکہ جہاں برائے نام لباس میں جوان لڑکیاں جگہ جگہ نظر آتی ہوں، بے شمار ریسٹوران میں خنزیر کی چربی چکنائی میں ملاکر کھلائی جارہی ہو، کون سی کریم ہے جس میں الکحل نہ ملایا جاتا ہو، حتیٰ کہ اکثر ڈبل روٹیوں میں بھی الکحل کا ”چھینٹا“ مارا جاتا ہے تاکہ نرم رہیں، خنزیر کے گوشت کے پارچے بناکر پاپڑ کی طرح سائڈ ڈِش کے طور پر استعمال ہوتے ہوں، چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سلاد میں ملانا لازمی جزء ہو، جہاں علم بڑھانے کے بہانے برہنہ عورت سے بچے کی پیدائش براہِ راست ہسپتال سے ٹی وی پر دِکھائی جاتی ہے، جہاں مرد سے عورت، عورت سے عورت اور مرد سے مرد کی ہم بستری کے اسباق ٹی وی پر اسکول میں دئیے جاتے ہیں، جہاں مرد کی مرد سے شادی کی قانوناً اجازت ہو، اسکولوں کے نصاب میں شہوتِ حیوانی کی تکمیل اور مانع حمل کے طریقوں کی تعلیم لازمی ہو، ان سب کے دیکھنے والے، پڑھنے والے اور سننے والے کا ایمان و یقین کس مقام پر ہوگا؟ اس کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ایمان اور یقین کا بچانا کتنا مشکل ہے؟ کاش! کوئی حضرت مولانا محمد الیاس کی زبان ہی سے سنے، فرماتے ہیں کہ:
”مجھے جب میوات جانا ہوتا ہے تو میں ہمیشہ اہلِ خیر اور اہلِ ذکر کے مجمع کے ساتھ جاتا ہوں، پھر بھی عمومی اختلاط سے قلب کی حالت اس قدر متغیر ہوجاتی ہے کہ جب تک اِعتکاف کے ذریعہ اس کو غسل نہ دُوں یا چند روز کے لئے سہارنپور یا رائے پور کے خاص مجمع اور خاص ماحول میں جاکر نہ رہوں، قلب اپنی حالت پر نہیں آتا، (یہ بات ۱۹۳۰ء کی دہائی کی ہے تو اَب کیا عالم ہوگا؟ - ناقل)۔“
(ملفوظات شاہ محمد الیاس رحمة اللہ علیہ، مرتبہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانی)
اللہ تعالیٰ بھی فرماتے ہیں:
”یٰٓأیھا الذین اٰمنوا لا تتخذوا الیھود والنصٰریٰ أولیاء، بعضھم أولیاء بعض۔“ (المائدة:۵۱)
ترجمہ:- ”اے ایمان والو! مت بناؤ یہود و نصاریٰ کو دوست، وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے۔“
اور ہم ہیں کہ انہیں میں سکون سے رہ رہے ہیں۔ الامان الحفیظ!
مغرب میں جوانی میں اور جوانی کے جوش میں چلے جانے والے مسلمان بُری طرح پچھتاتے ہیں، جب وہ اپنی اولاد کی ایسے بے غیرتی والے اعمال دیکھتے ہیں جن کے تصور سے باضمیر مسلمان کی نیندیں اُڑجاتی ہیں تو کفِ افسوس ملنے کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں؟ لیکن: ”اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!“ لوگ کہتے ہیں کہ مغرب حقوق العباد بہت اچھی طرح پورے کر رہا ہے، ہاں! بچے کی پیدائش کے بعد پہلے دن سے اسے الگ دُوسرے کمرے میں سلاتے ہیں اور خود ایک دُوسرے کے ساتھ علیحدہ کمرے میں سوتے ہیں۔ اولاد کی تربیت اولاد ہی کے اُوپر چھوڑ دیتے ہیں، بیویاں اپنے شوہروں کے بجائے دُوسرے مردوں سے اور مرد اپنی بیویوں کے بجائے دُوسری عورتوں سے خواہشات پوری کرتے ہیں، والدین کو سینی ٹوریم میں چھوڑ کر ہفتوں، مہینوں خبر نہیں لیتے، (بلاشبہ وہاں ان کی دیکھ بھال تو ہوتی ہے لیکن کیا اولاد کو دیکھنے کی آرزو پوری ہوتی ہے؟)، حتیٰ کہ والدین میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو اولاد سے فون پر پوچھا جاتا ہے کہ Cremation چاہتے ہو یا تدفین؟ اگر بیٹا یا بیٹی یہ کہہ دے کہ Cremation تو فوراً بجلی کی آگ میں انہیں جلادیا جاتا ہے۔ یہ ہیں مغرب میں حقوق العباد!
امریکا میں مرنے والوں کو یا قتل ہونے والوں کو بجائے Killed کہنے کے Chilled بھی کہنے لگے ہیں، کیونکہ وہاں مرنے والوں کو ان کے ورثاء لینے کے لئے آتے ہی نہیں ہیں، اور اگر آتے بھی ہیں تو کئی کئی دن کے بعد، لہٰذا سردخانے میں رکھتے ہیں یعنی Chilled کردیتے ہیں۔ ہمارے ہاں میّت کا غسل نیم گرم پانی سے دیتے ہیں، جیسا کہ ہمارا یقین ہے کہ میّت کو تکلیف ہوتی ہے، حتیٰ کہ کاندھوں پر بھی آہستہ آہستہ لے کر جاتے ہیں، اب مغرب میں حقوق العباد کی کیا ادائیگی ہے کہ میّت کو سردخانے میں رکھ دیتے ہیں، گویا کہ اس کی تکلیف یہیں سے شروع ہوگئی، (ویسے ہمارے یہاں بھی اب مغرب کی تقلید میں یہ ”کارِ خیر“ ہونے لگا ہے)، الامان والحفیظ!
مغربی ممالک میں بوڑھے والدین کی خدمت نہ کرنا، کئی کئی دن اور ہفتوں ملنے تک نہ جانا، حتیٰ کہ آخری رسومات بھی نہ کرنا، نہ ان رسومات میں شامل ہونا، اولاد کو ان کے حال پر چھوڑ دینا، جوان بیٹیوں اور بیٹوں کو بے حیائی کے اسباق دینا اور اچھی بات نہ بتانا، شوہر بیویوں کا اپنی اپنی مرضی سے جہاں چاہیں دادِ عیش دینا، پڑوسیوں کی خبر نہ رکھنا، یہ حقوق العباد کی ادائیگی نہیں ہے، بلکہ گمراہی ہے، حقیقی حقوق العباد ”امر بالمعروف اور نہی عن المنکر“ ہے تاکہ انسان اپنی طویل عمر کی زندگی جو کبھی ختم نہ ہونے والی ہے، اس میں نارِ جہنم سے بچا رہے، دُنیا کی زندگی تو بہت ہی مختصر ہے۔
جو لوگ مسلمانوں کے دُشمنوں کی تین، چار سو سال کی محنت کا ثمر بن کر ”کالے انگریز“ بن کر وہیں رہ رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی تخلیق انگریزوں کے اسکولوں اور نصاب کے ذریعہ ہوئی، انگریز کی جھوٹی برتری کا زہر، وہاں کی کہانیوں اور بڑائیوں کے مسلسل ذکر سے آہستہ آہستہ طالب علموں کے ذہن میں ڈالا گیا، گویا کہ برین واش (Brain Wash) کیا گیا اور ہر طرح کی پُرفریب تحریروں سے یہ ثابت کیا گیا کہ مغرب صرف جنت ہی جنت ہے۔ اسکول کے بچوں پر شروع سے اس قسم کی محنت کی گئی اور آج یہ عالم ہے کہ بچہ بچہ یہ چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح مغرب میں چلا جائے، اور یہی سب کچھ آج بھی جاری ہے، اور ہم اب یہ چاہنے لگے ہیں کہ ہمارا بچہ فرفر انگریزی بولے، ”اے“ اور ”او“ لیول کی تعلیم حاصل کرے اور لب و لہجہ اور لباس و تہذیب میں مغربی ہوجائے۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں:
”علمے کہ راہِ حق نہ نماید جہالت است“
یعنی جو علم حق کی طرف راہ نمائی نہ کرے وہ تو جہالت ہے۔ اور آج کون سا اسکول ہے جو بچوں کو حق کی طرف راہ نمائی کر رہا ہے؟ گویا سارے اسکول جہالت ہی کا سبق پڑھا رہے ہیں اور ہم کس سکون سے اپنی تباہی پر مطمئن ہیں۔ والدین جاتے ہیں، اسکول والوں کو فیس کی شکل میں انعام دے آتے ہیں کہ شاباش! آپ نے ہمارے بچے کو بہت اچھا بگاڑا، (یا یہ کہا جائے کہ اچھا دوزخ سے قریب کیا)، لو یہ انعام قبول کرلو۔ والدین کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ دیکھیں کہ بچہ کیا پڑھ رہا ہے؟ اس کی عادتیں کیسی بن رہی ہیں؟ اِدھر اسکول والے دُنیا کے مضامین تو پڑھا رہے ہیں، قرآن کریم ناظرہ تک نہیں پڑھا رہے، ایک معلم یا معلمہ قرآن کریم کے لئے رکھنا انہیں اضافی اور شاید غیرضروری خرچ لگتا ہے، یا شاید یہ سمجھتے ہیں کہ معاذ اللہ قرآن کریم پڑھانا غیرضروری ہے۔ حیف صد حیف! کہ آج ایک شخص مسلمان کے گھر پیدا ہوکر، مسلمانوں کے درمیان پروَرِش پاکر اسلام ہی کی بنیادیں کھوکھلی کررہا ہے، اس حالت پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول کس قدر صادق آتا ہے کہ:
”مجھے خطرہ ہے کہ وہ شخص اسلام کی کڑیاں بکھیر دے گا جس نے اسلام میں نشو و نما پائی اور جاہلیت کو نہیں پہچانا۔“
مغرب جس نے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرکے دُنیا پر تسلط جمالیا ہے، اس کو اپنے اداروں میں کام کرنے والوں کی شدید ضرورت ہے، کیونکہ وہاں کے معاشرے کی تباہ کن جنسی آزادی کی وجہ سے ان کے مرد اور عورت بچوں کی پیدائش اور ان کی تعلیم و تربیت کی عظیم ذمہ داری اُٹھانے کو تیار نہیں ہیں، تو آخر ان کے ہاں کام کرنے والے کہاں سے لائے جائیں؟ اسی غرض سے جھوٹ، دھوکا، فریب اور ہر قسم کے میڈیا سے میٹھا زہر دے دے کر برین واش کرکے غریب ممالک کے بچوں کو کبھی ویزے کی لاٹری کھول کر بلاتے ہیں، کبھی ملازمت کا لالچ دے کر، کبھی پڑھانے کے ویزے پر اور کبھی اسکالرشپ اور اسپانسرشپ کے ذریعہ اپنے ہاں کھینچ لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں پلے پلائے، پڑھے پڑھائے، مکمل ہنرمند افراد ان کی گود میں جاگرتے ہیں۔
اس کاروبار میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کا سب سے بڑا نقصان ہو رہا ہے، مغربی ممالک میں جانے والا مسلمان، والدین کی خدمت سے جاتا ہے، جن کی خدمت ضروری ہے، اور دین سے بھی جاتا ہے جو کہ زندگی کی متاع ہے، اور جب ہنرمند اور پڑھے لکھے لوگ ہی چلے جاتے ہیں تو ملک تعمیر سے جاتا ہے، لہٰذا ملک ہمیشہ مغرب کا محتاج رہتا ہے۔
احقر کے خیال میں آج اگر اُمتِ مسلمہ اور اسلام کی نیّا کو بھنور سے نکالنے کا کوئی طریقہ ہے تو وہی پُرانا طریقہ ہے جس سے اس کے ابتدائی عہد نے اصلاح پائی تھی، اور وہ یہ ہے کہ ہر سطح پر مکمل سادگی اختیار کی جائے اور چونکہ ”موٴمن کی فراست سے ڈرنے کا حکم ہے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے“ تو جن پانچ سو موٴمنوں نے ترکِ موالات کا فتویٰ اسّی، نوّے سال قبل دیا تھا، اس پر عمل کرنے کی آج اُس وقت سے زیادہ ضرورت ہے کہ اس سے ہم ایک طرف تو اپنے تباہ کن اسراف اور گمراہی سے بچ سکتے ہیں، اور دُوسری طرف مسلمانوں کے دُشمن کی تجارت کو نقصان پہنچاسکتے ہیں اور اپنے ملک کی تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ لیکن جو قوم ہوائے نفس کی غلام ہوچکی ہو، کیا وہ اس قربانی کے لئے تیار ہوگی؟ شاید کبھی نہیں! کیونکہ جو اسلامی معاشرہ اسلامی تعلیمات سے خالی ہوگا، اس کے اندر انتشار، سراسیمگی، ابتری اور بدنظمی پھیل جائے گی۔
حضرت مدنی قدس سرہ نے فرمایا تھا کہ:
”آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا سا رنگ ڈھنگ، چال چلن، سیرت، فیشن، کلچر وغیرہ بنائے اور اپنے آقا کے دُشمنوں کے فیشن و کلچر سے کلیةً پرہیز کرے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم اس آنے والے سیلاب کا مقابلہ پوری طرح نہ کرسکیں، لیکن جب اس کا مقابلہ کرتے کرتے ہمارے ہاتھ شل ہوجائیں گے، ہمارے بازووٴں میں قوّت نہ رہے گی، جب ہمیں موجوں کے تھپیڑے بالکل نیم مردہ کرکے ساحل کی ریت پر پھینک دیں گے تو اس آخری وقت میں کم از کم اتنا اطمینان تو ضرور ہوگا کہ بزدلی کی زندگی جینے سے مردانگی کی موت ہزار درجہ بہتر ہے۔“
اُمتِ مسلمہ کی زبوں حالی کا سبب شیطان کے پجاریوں کی منظم، مسلسل محنت، اور اللہ کے پجاریوں کی مسلسل غفلت ہے۔ دُنیا کو ہم نے اپنے پر پھیل جانے دیا اور اب کون سی بُرائی ہے جو ہم میں نہیں آگئی ہے؟ اسی سے ہماری ہلاکت یقینی ہوگئی ہے۔ اتنا بڑا بگاڑ اور تباہی آخر کس طرح صحیح ہوگی؟ سمجھ سے بالاتر عمل لگتا ہے: نقشوں کو تم نہ جانچو لوگوں سے مل کر دیکھو
کیا چیز جی رہی ہے؟ کیا چیز مر رہی ہے؟
آج کیا اسلام غریب نہیں ہو رہا؟ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چودھویں صدی کی عظیم شخصیت شیخ العرب والعجم، ابوحنیفہٴ ثانی، شیخ الہند ثانی، سیّدی، سندی، مرشدی، پیرِ طریقت، شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ کے ایک خط کے اقتباسات جو حضرت نے مولانا غلام حسین صاحب بھاگل پوری بہار کے نام ۱۳۷۲ھ (یعنی ۱۹۵۲ء تقریباً پچاس سال قبل) میں لکھا تھا، تحریر کردئیے جائیں، فرماتے ہیں:
”بدء الاسلام غریبا۔“ ہماری زبان اُردو میں ”غریب“ کا ترجمہ ”مسکین“ اور ”فقیر“ سے کیا جاتا ہے، یعنی وہ شخص غریب ہے جس کے پاس مال و دولت نہ ہو، مگر عربی میں یہ معنی نہیں ہیں، اور واقعہ بھی یہی ہے۔ سب سے پہلے ایمان لانے والے مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، جو کہ مکہ معظمہ میں بہت بڑے تاجر اور مال داروں میں سے تھے۔ ”غریب“ عربی میں اُوپرے شخص کو کہا جاتا ہے، یعنی وہ شخص جو مشہور و معروف نہ ہو، لوگ عام طور سے اسے جانتے پہچانتے نہ ہوں، خواہ وہ مال دار ہو یا مسکین وفادار۔ اسی وجہ سے مسافر کو ”غریب“ کہتے ہیں کیونکہ وہ بدیسی ہونے کی وجہ سے لوگوں کی پہچان میں نہیں آتا۔ جو چیز نادر الوقوع ہوتی ہے اس کو بھی غریب کہتے ہیں، کیونکہ قلیل الوقوع ہونے کی وجہ سے وہ مشہور و معروف نہیں ہوتی اور اس میں غرابت اور ندرت آجاتی ہے، لوگ اس سے مانوس نہیں ہوتے۔
نیز اس حدیث میں اسلام کو ذوالحال قرار دیا گیا ہے جو کہ مجموعہ احکام عقائد و اقرار و اعمال سے عبارت ہے، یعنی دین اسلام غریب تھا نہ کہ اہلِ اسلام، اگر اہلِ اسلام کی غربت مراد ہوتی جیسا کہ اُردو والے اور آپ کے یہاں کے لوگ کہتے ہیں، تو جانب ذوالحال میں لفظ ”اھل“ کہا جاتا یا ”بدء المسلمون“ کہا جاتا اور جانبِ حال میں ”غرباء“ کہا جاتا۔
بہرحال بہترین ترجیح حدیث کی یہ ہے کہ دینِ اسلام اور اس کے عقائد و اعمال سے لوگ ابتداء میں بیگانہ اور غیرمانوس تھے، وہ عام انسانوں کی نظر میں اوپرا اور غیرمعروف و غیرمحبوب اور وحشی تھا، پھر رفتہ رفتہ لوگوں کو اس سے جنابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد اور روحانی تصرف کی وجہ سے اُنس، محبت پیدا ہوئی اور تمام فضا بدل گئی، ہر طرف اور ہر قوم میں مذہبِ اسلام مقبول و محبوب اور مانوس ہوگیا، ”یدخلون فی دین الله أفواجًا“ کا سماں بندھ گیا، اور جو قومیں مسلمان نہیں بھی ہوئیں، وہ بھی اُصول اور قواعدِ اسلامیہ کو پسند کرنے لگیں، اور اپنے اپنے یہاں کم و بیش اسلامی اُصول و اعمال کو داخل کرلیا، دینِ اسلام کا ڈنکا بج گیا اور ہر کہ و مہ میں عزیز و محبوب ہوگیا۔
پھر آخر زمانے میں یہ فضا بدل جائے گی اور رفتہ رفتہ لوگوں کے مزاج ماوٴف ہوجائیں گے اور اسلام سے بیگانگی لوگوں میں پیدا ہوکر اس قدر بڑھ جائے گی کہ وہ مثل ابتداء کے بالکل غیرمانوس اور اوپرا بن جائے گا جیسا کہ آج کل مشاہدہ ہو رہا ہے، غیرمسلم تو متنفر تھے ہی، خود مسلمان بھی اسلامی اُصول و قواعد اور اعمال سے متنفر نظر آتے ہیں۔ دیکھو اہلِ پاکستان کہ وہ اسلامی دستور بنانے پر بھی راضی نہیں ہیں، ان کو کفار اور یورپ والی قوموں اور مشرکین کی باتیں پسند ہیں، مگر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اور سیرت اور ان کی سنتوں سے نفرت ہے، جو مسلمان دین پر چلتے ہیں ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کی عیب جوئی کرتے ہیں، ان کے ہر ہر کام پر اعتراض کرتے ہیں، اور مشرکین و کفار کی مدح سرائی کرتے ہیں، دین دار مسلمان ان کی نظر میں غرباء اور اوپرے غیرمانوس ہوتے جاتے ہیں۔ یہ نتیجہ حقیقتاً اسی کا ہے کہ دینِ اسلام اور اس کے قواعد اور اُصول ان کی نگاہوں میں غیرمانوس اور وحشی بن گئے ہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ مادّی امراض کا حال وباء کے زمانے میں ہوتا ہے، وباء کے زمانے میں ہوا بگڑ جاتی ہے، ہر ہر انسان کا مزاج کم و بیش ماوٴف ہوجاتا ہے۔
جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو روحانی وباء پھیلی ہوئی تھی، آپ نے اپنی روحانی قوّت سے فضا کو بدلا، انسانی امزجہ رفتہ رفتہ صحیح و سالم ہوئے اور اُن کو عمدہ روحانی غذا محبوب اور مانوس ہوگئی، اب اس زمانے میں پھر وہی وباء پھیل گئی ہے، اور لوگوں کے امزجہ ماوٴف ہوتے چلے جاتے ہیں، جس طرح صفراء کے غلبہ یا بلغم وغیرہ اخلاط ردیہ کے غلبے کے وقت عمدہ عمدہ غذا سے لوگوں کو نفرت ہوجاتی ہے، اسی طرح اس زمانے میں لوگوں کو اعمال اور عقائدِ صحیحہ سے نفرت ہوتی جارہی ہے، تو ”سیعود غریبا“ کا سماں اس وقت پیش آرہا ہے۔ اس لئے بشارت دی جاتی ہے: ”فطوبٰی للغرباء!“ اوپرے اور غیرمانوس لوگوں کو خوش ہونا چاہئے کہ وہ حقیقت میں اس زمانے میں مثل اُن صحابہ کرام کے ہوتے جاتے ہیں جو ابتدائے اسلام میں دینِ حق کی تابعداری کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں مثل خار کھٹکتے تھے، آج یہ مسلمان دین دار بھی حقیر اور غیرمانوس ہوکر نظروں میں خار بنے ہوئے ہیں، واللہ اعلم!“
اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہ مِنَّا فَاَحْیِہ عَلَی الْاِسْلَام، وَمَنْ تَوَفَّیْتَہ مِنَّا فَتَوَفَّہ عَلَی الْاِیْمَان۔ اٰمین!
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: روشن خیالی اورجدیدیت کی تاریخ
Flag Counter