حضرت مولانا مفتی عبدالستار
حضرت مولانا مفتی عبدالستار
مورخہ ۱۲/ جمادی الاخریٰ ۱۴۲۷ھ مطابق ۸/ جولائی ۲۰۰۶ء ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب‘ تقریباً رات دس بجے خیر العلماء حضرت مولانا خیر محمد جالندھری ‘ حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی ‘ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ‘ حضرت مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی اور حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوری کے تلمیذ رشید‘ اکابر علماء دیوبند کے علوم و معارف کے جانشین‘ صلحائے امت: حضرت مولانا مفتی محمد حسن امرتسری ‘ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور قطب الارشاد حضرت مولانا محمد عبداللہ بہلوی کے مسترشد‘ امام القرأ حضرت مولانا قاری فتح محمد ‘ زاہد وقت حضرت مولانا علی مرتضیٰ گدائی شریف اور حضرت صوفی محمد اقبال مہاجر مدنی قدس اللہ اسرارہم کے خلیفہ مجاز‘ جامعہ خیر المدارس ملتان کی مسند افتاء کے صدر نشین اور استاذِ حدیث حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالستار قدس سرہ معمولی علالت کے بعد راہی عالم آخرت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ باجل مسمیٰ
حضرت مولانا مفتی عبدالستار صاحب نے ۱۹۳۰ء میں فیصل آباد کے مضافات میں ایک دین دار گھرانے میں آنکھ کھولی‘ ابتدائی تعلیم اور حفظ و ناظرہ کی تکمیل مقامی طور پر ہوئی۔ درس نظامی کے لئے آپ نے ابتدائی طور پر مدرسہ اشاعت العلوم جامع مسجد فیصل آباد میں داخلہ لیا‘ جہاں دو سال میں آپ نے ابتدائی فارسی سکندر نامہ‘ صرف و نحو سے لے کر کافیہ‘ کنز الدقائق‘ اصول الشاشی‘ ہدایہ‘ شرح وقایہ‘ مختصر المعانی‘ دیوان حماسہ اور متنبی تک کی تعلیم مکمل فرمائی۔ مدرسہ اشاعت العلوم کے شفیق اساتذہ میں سے حضرت مولانا غلام فرید چونکہ خیرالمدارس کے قدیم فضلاء میں سے تھے‘ انہوں نے نہایت محبت‘ شفقت اور محنت سے آپ کو دو سالوں میں اتنی کتابیں پڑھادیں کہ جب سالانہ امتحان کے لئے حضرت مولانا محمد انوری نوراللہ مرقدہ‘ امتحان لینے آئے تو نہایت تعجب کا اظہار فرمایا کہ اس قدر مختصر عرصہ میں اتنی ساری کتب کیسے مکمل ہوگئیں؟ بہرحال اس میں جہاں حضرات اساتذہ کا خلوص و اخلاص شامل تھا‘ وہاں ہونہار شاگرد کے اخذ و استفادہ کا بھی بڑا دخل تھا۔ اس سے اگلے سال غالباً ۱۳۶۸ھ میں آپ کی تعلیم کا تیسرا سال تھا اور مشکوٰة کا درجہ تھا‘ اس سال کی تعلیم اور داخلہ کی روئیداد خود حضرت مفتی صاحب کی زبانی کچھ یوں ہے:
”بعدازاں استاذ محترم حضرت مولانا غلام فرید cکے مشورہ کے مطابق آئندہ سال کے لئے خیر المدارس میں داخلے کا طے ہوا‘ موصوف نے حضرت مولانا خیر محمد صاحب نوراللہ مرقدہ‘ سے داخلے کی منظوری بذریعہ خط حاصل کرلی تھی‘ حضرت نے تحریر فرمایا تھا کہ ”امیدوارانِ داخلہ ۶/ شوال کو پہنچ جائیں۔“
خیرالمدارس کے قواعد و ضوابط کی سختی پہلے سے سن رکھی تھی‘ خیال ہوا کہ اگر ۵/ شوال کی شام کو پہنچوں تو ہوسکتا ہے کہ ایسے وقت میں پہنچنا ہو کہ دفتر بند ہوچکا ہو اور بے وقت پہنچنے کی وجہ سے سابقہ اجازتِ داخلہ منسوخ کردی جائے‘ اس اندیشے کے پیش نظر ۵ اور ۶ کی درمیانی شب راتوں رات سفر کرکے صبح تقریباً ۶/۷ بجے خیرالمدارس میں حاضری ہوئی‘ حسبِ ضابطہ کارروائی کے بعد الحمدللہ! مشکوٰة شریف کی جماعت میں داخلہ مل گیا‘ ہدایہ اولین کا امتحان حضرت اقدس نوراللہ مرقدہ نے خود لیا۔
اس وقت مدرسہ میں تین مقدس ہستیاں موجود تھیں جو خصوصیت سے قابل ذکر ہیں:
۱:… حضرت اقدس مولانا خیر محمد نوراللہ مرقدہ‘
۲:… حضرت اقدس‘ شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمن کامل پوری (سابق صدر مدرس مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور‘ تلمیذ ِ خاص حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری و شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی نوراللہ مرقداہم) یہ دونوں حضرات فرشتہ صورت‘ فرشتہ سیرت اور جامع کمالات علمیہ و عملیہ تھے‘ جن کی زیارت سے ہی ایمان‘ یقین‘ عمل‘ اخلاص اور اتباع سنت کی دولت نصیب ہوجاتی تھی‘ یہ دونوں حضرات حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہ کے اجل خلفاء میں سے تھے۔
۳:… میری عظیم محسن سیّدی حضرت مفتی محمد عبداللہ نوراللہ مرقدہ‘ حضرت مفتی صاحب موصوف اس وقت عالم شباب میں تھے‘ آپ حضرت مدنی قدس سرہ کے تلمیذ خاص اور آپ کی اتباع میں کھدر پوش تھے۔
ان اکابر اور دیگر اساتذہ کی و جہ سے خیرالمدارس کی فضا عجیب پُرانوار و برکات تھی‘ بندہ نے اپنی حالت میں مدرسہ میں حاضری کے بعد خاصا تغیر محسوس کیا‘ اطمینان و یقین حاصل ہوا‘ دوران سال بہت خواہش رہی کہ جیسے حضرت مولانا خیر محمد صاحب کے پاس سبق میں حاضری کی سعادت حاصل ہوجاتی ہے‘ کاش! ایسے ہی ایک سبق حضرت مولانا کامل پوری کے پاس بھی ہوتا‘ یہ دل کی آرزو تھی جو آخر تک بر نہ آسکی‘ لیکن اطمینان تھا کہ انشاء اللہ آئندہ سال دورئہ حدیث میں ترمذی شریف کا سبق حضرت کامل پوری کے پاس ہی ہوگا ہی۔“ (مختصر حالات حضرت مفتی صاحب مندرجہ سوانح فتحیہ ص: ۴۰۷‘۴۰۸)
آپ کی تعلیم کا چوتھا سال آپ کے دورئہ حدیث کا سال تھا‘ اس لئے آپ نے دورئہ حدیث کے لئے اشرف العلوم ٹنڈوالہ یار کا انتخاب کیا‘ جہاں اس وقت کے اکابر و اساطین علم و فضل جمع تھے اور بلاشبہ اسے دیوبند ثانی کا درجہ حاصل تھا‘ چنانچہ بخاری شریف جلد اول اور ترمذی شریف حضرت کامل پوریسے‘ صحیح مسلم اور ابو داؤد شریف حضرت بنوری سے‘ بخاری ثانی حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی سے پڑھ کر آپ نے ۱۳۷۰ھ میں درس نظامی سے فاتحہ فراغ پڑھا۔ بلاشبہ چار سالہ مختصر مدت میں بالاستیعاب درس نظامی کی تکمیل آپ کی ذکاوت و ذہانت‘ خداداد حفظ و اتقان اور بے مثال صلاحیت کی واضح دلیل ہے۔
دورئہ حدیث شریف کے بعد آپ نے تکمیل کے لئے دوبارہ خیرالمدارس میں داخلہ لینا چاہا تو اب مشکل مرحلہ یہ تھا کہ دورئہ حدیث کے لئے خیرالمدارس کو چھوڑ کر جانے کے بعد دوبارہ خیرالمدارس میں کس طرح داخلہ لیا جائے؟ یا کیونکر مل سکے گا؟ بہرحال یہاں بھی حضرت مفتی صاحب کی ذہانت و ذکاوت کے علاوہ اصول پسندی‘ سلامتی طبع اور عجز و نیاز نے کام دکھلایا‘ چنانچہ خیرالمدارس ملتان سے ٹنڈوالہ یار اوروہاں سے دوبارہ خیرالمدارس منتقلی کی دلچسپ روئیداد حضرت مفتی صاحب کی زبانی سنئے! آپ لکھتے ہیں:
”آئندہ سال خیرالمدارس میں بڑے ذوق و شوق سے حاضری ہوئی تو چند دنوں کے بعد یہ معلوم کرکے نہایت صدمہ ہوا کہ حضرت کامل پوری امسال خیرالمدارس سے ٹنڈو الہ یار سندھ مدرسہ اشرف العلوم میں تشریف لے جارہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کی کمی کو پورا کرنے کے لئے پاکستان میں اعلیٰ پیمانہ پر اس جامعہ کا آغاز ہوا تھا اور ہر فن کے کامل ترین اکابر کی خدمات‘ جامعہ ہذا کے لئے حاصل کی گئی تھیں‘ مثلاً حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوری‘ حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری‘ حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی صاحب ترجمان السنة ‘ حضرت مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی محشی نسائی شریف‘ محقق بے بدل حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی‘ تعلیم الفرقان لکھنؤ کے صدر مدرس حضرت مولانا قاری عبدالمالک‘ قاری عبدالوہاب مکی حال لاہور یہ‘ بھی بطور طالب علم جامعہ میں مقیم تھے‘ اللہ میرے ان اکابر کی قبور کو نور سے بھردے‘ اور ان پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے‘ ہر ایک اپنے فن کے امام اور اپنی ذات میں ایک انجمن تھے‘ حضرت کامل پوری کی تشریف بری کا سن کر دورئہ حدیث شریف کے طلبہ میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی‘ جذبات سے بے قابو ہوکر حضرت اقدس مولانا خیر محمد نوراللہ مرقدہ‘ کی خدمت میں درخواست دی گئی کہ حضرت کامل پوری کو خیرالمدارس میں ٹھہرالیا جائے‘ محض نادانی تھی‘ لیکن جنون سب کچھ کرادیتا ہے‘ یہ درخواست لے کر حضرت کی خدمت میں یہ ناکارہ ہی حاضر ہوا تھا‘ یہ امر حضرت نوراللہ مرقدہ کے مزاج اور اصول مدرسہ کے بالکل خلاف تھا‘ اس لئے جب میں درخواست لے گیا تو دیکھ رہا تھا کہ حضرت کا چہرئہ مبارک سرخ ہورہا تھا ‘ایسا لگتا تھا کہ شاید ابھی پٹائی ہوجائے‘ لیکن کمال ضبط تھا کہ زبان سے ایک لفظ بھی غصے کا نہیں نکالا‘ بس درخواست پر یہ تحریر فرمادیا کہ: ”آپ لوگ ٹھہراسکتے ہیں‘ تو ٹھہرالیں“ (او کما قال)‘ بہرحال ناشدنی شد‘ حضرت کامل پوری حسبِ پروگرام گھر سے خیرالمدارس تشریف لائے اور سامان وغیرہ لے کر سندھ تشریف لے گئے‘ نہ معلوم ہم جیسے کتنوں کے دل بھی ساتھ ہی لے گئے‘ کچھ دن خیرالمدارس میں ٹھہرنے کے بعد ہم چند ساتھی بھی (جن میں مولانا منظور احمد چنیوٹی زید مجدہم بھی تھے) جامعہ اسلامیہ ٹنڈو الہ یار سندھ حضرت کامل پوری کی خدمت میں چلے گئے اور وہاں دورئہ حدیث شریف میں داخلہ لے لیا‘ جنگل میں منگل کا سماں تھا‘ ایک سیٹھ صاحب نے ایک مربعہ زمین جامعہ کے لئے وقف کی تھی‘ اس میں عارضی تعمیرات کرکے درسگاہیں بنائی گئی تھیں‘ بخاری شریف‘ ترمذی شریف‘ کے اسباق حضرت کی قیام گاہ اندرونِ شہر ہوتے تھے‘ یہ بندہ کی تعلیم کا چوتھا سال تھا‘ جس میں شعبان ۱۳۷۰ھ کو دورئہ حدیث شریف سے فراغت ہوئی‘ دورانِ سال ہی حضرت مولانا خیر محمد نوراللہ مرقدہ کی خدمت میں معذرت نامہ بھیجا‘ حضرت نے معذرت قبول فرمالی اور غالباً یہ بھی تحریر فرمایا: ”گزشتہ راصلوات آئندہ را احتیاط۔“ (سوانح فتحیہ ص:۴۰۸‘۴۰۹)
یوں دورئہ حدیث سے فراغت کے بعد آئندہ سال ۱۳۷۰ھ میں آپ نے پھر اپنی مادر علمی خیر المدارس کا رخ کیا اور تکمیل کے اسباق پڑھے‘ اس دور کی تکمیل اور اس دور کے تخصص میں آپ نے قاضی مبارک‘ شمس بازغہ‘ حمد اللہ‘ صدرا‘ میرزاہد اور عقور اسم المفتی وغیرہ کتب حضرت مولانا جمال الدین ‘ حضرت مولانا محمد نور اور حضرت مولانا بابا غلام محمد ایسے اکابر اور اصحاب علم و فضل سے مکمل فرماکر اپنی علمی پیاس بجھائی‘ اور اس دور کی تکمیل اور حالیہ دور کا تخصص کرکے کامل و مکمل اور عالم و فاضل قرار پائے۔
تکمیل علوم کے بعد آپ کے اساتذہ نے آپ کو ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے اپنے سایہ عاطفت و سرپرستی میں لے لیا‘ شروع میں زاہد وقت حضرت مولانا مفتی محمد عبداللہ صاحب نے آپ کو اپنے ادارہ ”نشر و اشاعت اسلامیات“ میں جوڑ لیا اور انہی کی برکت سے خیرالمدارس میں جزوقتی تقرر ہوا‘ ابتدائی اسباق سے بتدریج بخاری شریف تک تدریسی ترقی ہوئی‘ ویسے تو بنیادی طور پر ۱۳۷۰ھ سے ہی آپ کا خیرالمدارس کے دارالافتاء سے انسلاک ہوگیا تھا‘ جبکہ ۱۳۹۵ھ سے آپ صدارت دارالافتاء کے منصب پر فائز ہوگئے تھے‘ گویا ۱۳۷۰ھ سے ۱۴۲۷ھ تک پورے ۵۸ سال تک آپ فقہ و فتویٰ کے عالی منصب پر فائز رہے‘ اس دوران بلا مبالغہ ہزاروں علمی اور تحقیقی فتاویٰ آپ کے قلم صداقت رقم سے صادر ہوئے‘ یہی وجہ ہے کہ فقہ و فتویٰ میں آپ ایک سند اور اتھارٹی کا درجہ رکھتے تھے اور آپ کے علم و تحقیق اور فقہ و فتویٰ کو طبقہ علماء میں حجت و استناد کا درجہ حاصل تھا‘ عوام و خواص کے علاوہ اہل علم بھی آپ کی رائے کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
اسی طرح درس و تدریس کے میدان میں بھی ملک بھر میں آپ کا شہرہ تھا‘ آپ کا انداز تدریس نہایت دھیما‘ مگر پُراثر تھا‘ آپ کا انداز بیان اور اسلوب تفہیم نہایت پُرکشش تھا۔ طلبہ آپ پر دیوانہ وار جان اس لئے چھڑکتے تھے کہ آپ کا انداز تعلیم اور افہام و تفہیم کا اسلوب نہایت ہی دل نشیں‘ عمدہ اور قابل رشک تھا‘ اسی طرح آپ کی درسی تقریر‘ متانت و سنجیدگی کے علاوہ بلا کی سلاست و روانی پر مشتمل ہوتی‘ آپ مشکل سے مشکل مقام کو چٹکیوں میں سمجھادیتے اور مشکل سے مشکل مسئلہ کو منٹوں میں حل فرمادیتے۔
آپ کی انہی خوبیوں اور امتیازی خصوصیات کی وجہ سے آپ اپنے سب اصاغر و اکابر کی آنکھوں کا تارا تھے‘ دیکھا جائے تو خیر العلماء حضرت مولانا خیر محمد قدس سرہ سے لے کر بعد کے اکابر تک کے دلوں میں آپ کی مقبولیت و محبوبیت کا راز بھی یہی تھا۔
(جاری ہے )
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 7
پچھلا مضمون: اسرائیلی جارحیت اور اس کا حل