Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

6 - 12
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں جامعہ کی خدمات کا مختصر جائزہ
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں
جامعہ کی خدمات کا مختصر جائزہ

۸/اکتوبر ۲۰۰۵ء کے قیامت خیز زلزلے میں متاثرہ علاقوں کے رہائشی اپنی ادنیٰ ضرورت سے لے کر چھت تک کی نعمت سے صرف چند سیکنڈوں میں محروم ہوگئے اور بجا طور پر یہ محسوس کررہے تھے کہ مرنے والوں کی موت اتنی مشکل نہیں تھی‘ جتنا کہ اس مرحلہ میں موت سے بچ جانے والوں کی زندگی مشکل ہوچکی ہے۔ ضروریاتِ زندگی سے یکسر محرومی کے علاوہ زمین وآسمان کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ٹھہرنے اور تھمنے کا حکم نہیں تھا‘ اِدھر زمین میں زلزلے کے جھٹکے مسلسل‘ اُدھر آسمان سے بارش‘ برف باری اور ژالہ باری کا نہ رکنے والا سلسلہ۔ اس پیہم مشکل کے ساتھ ساتھ صحیح سلامت بچ جانے والے نیم دیوانگی کے عالم میں زلزلہ کی نظر ہونے والے اپنے مردہ عزیزوں کی تدفین وتلاش ‘ زخمیوں کو اٹھانے‘ بچانے اور محفوظ جگہوں تک پہنچانے میں سرگرداں تھے‘ ان کی آہ وبکا نادیدنی تھی‘ اس عظیم سانحے میں پوری قوم بشمول پاک فوج ہرایک نے اپنی استطاعت اور وسائل سے انسانیت کی خدمت کی‘ سب ہی متاثرہ قوم کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں‘ مگر اس موقع پر جو منظم بروقت خدمات جس جانفشانی سے مذہبی طبقہ کے لوگوں نے پیش کیں‘ ہرمنصف مزاج طبقے نے نہ صرف یہ کہ اس کا اعتراف کیا بلکہ اسے خوب سراہا بھی۔
انسانی خدمت کا ایک درخشندہ وتابندہ باب جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کی خدمات بھی ہیں ‘ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی باوجودیکہ محض ایک تعلیمی ادارہ ہے‘ اس ادارے کا کوئی مستقل رفاہی سلسلہ نہیں‘ مگر جامعہ بنوری ٹاؤن کے متعلقین ومعتمدین نے اس ادارے کے اساتذہ کرام پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی جمع پونجی جامعہ کے اکابرین کے حوالے کی‘ تاکہ یہ حضرات اس موقع پر منظم اور مناسب انداز سے یہ خدمت انجام دیں۔ الحمد للہ! جامعہ بنوری ٹاؤن کے اکابرین‘ فضلاء کرام اور طلبہ نے مخلصین کے اعتماد پر پورا اترتے ہوئے ان کی امانت کو متاثرین تک پہنچایا اور وہ مثالی خدمات انجام دیں کہ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ عرصہ دراز سے مصروفِ کار‘ مقامی اور غیر مقامی این جی اوز سے جامعہ بنوری ٹاؤن کا کرداراور خدمات زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں‘ جس کی جھلکیاں آپ زیر نظر مضمون میں دیکھ سکیں گے۔
زلزلے کے متصلاًبعد اساتذہٴ کرام نے باہمی صلاح ومشورے سے متاثرہ علاقوں میں موجود جامعہ بنوری ٹاؤن کے فضلاء اور طلباء سے رابطے شروع کئے اور انہیں اپنے اپنے علاقوں میں امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کو کہا۔ راقم الحروف شعبان کے آخر میں چھٹی پر گاؤں گیا ہوا تھا اور زلزلے کے وقت گاؤں (بٹگرام) میں موجود تھا‘ میرا اپنے مشفق اساتذہ کرام سے رابطہ ہوا اور انہی کے حکم پر بٹگرام میں سب جیل کے قریب ایک امدادی کیمپ قائم کیا‘ اس کے بعد رمضان ہی میں حضرت مولانا امداد اللہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے متاثرہ علاقوں کا ایک ہنگامی دورہ کیا اور میڈیسن‘ کپڑے اور دیگر ضروری اشیاء ساتھ لائے ‘ ایبٹ آباد پہنچ کر بندہ کے بڑے بھائی مفتی زین العابدین صاحب کے گھر میں متاثرہ علاقوں کے حالات اور اس علاقہ کی صورتِ حال پر تفصیلی گفتگو ہوئی‘اس کے بعد ہم نے بٹگرام پہنچ کر امدادی کیمپ کا دورہ اور امدادی کاموں کا جائزہ لیا‘ وہاں سے تھاکوٹ کی طرف روانہ ہوئے‘ تھاکوٹ سے آگے پہاڑوں کے مسلسل سرکنے کی وجہ سے سڑک جگہ جگہ بند تھی‘ آگے جانا دشوار تھا‘ باوجودکوشش کے آگے نہ جاسکے‘ جس کی بناء پر واپسی کا فیصلہ ہوا،ابتدائی مرحلے میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی طرف سے بٹگرام اور آلائی کے بعض علاقوں کے متاثرین میں نقد رقم کے علاوہ راشن‘ کپڑے اور برتن وغیرہ کی تقسیم کا سلسلہ شروع کیا۔
امدادی کام کے دوران بہت سے ایسے واقعات پیش آئے جوہرزندہ انسان کے لئے عبرت اور موعظت ہیں‘ ان میں سے دو واقعات قارئین کے لئے پیش کرتاہوں جس سے متاثرین کی مالی پریشانی اور دیگر مجبوریوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
۱:-دسویں رمضان کو امدادی سامان آلائی پہنچانے کے بعد واپس آرہاتھا‘ دورانِ سفر میرے قریب ایک شخص بیٹھا ہوا تھا‘ اس کے خد وخال اور ظاہری حالت سے معلوم ہورہا تھا کہ اس نے طویل پیدل سفر کیا ہے‘ دورانِ گفتگو معلوم ہوا کہ زلزلہ سے مکان منہدم ہونے کے بعد کھلے آسمان تلے پلاسٹک تان کر چھپر بنایا‘ لیکن ژالہ باری سے وہ بھی ختم ہوگیا‘ اب سر چھپانے کو کوئی چیز میسر نہ تھی‘ کئی میل پیدل چل کر بند آلائی کے مقام پر اپنے نئے جوتے سو روپے میں فروخت کرکے بٹگرام کی طرف عازم سفر ہوا‘ تاکہ وہاں سے کچھ ریلیف مل جائے اور اپنے معصوم بچوں اور عورتوں کو بارش سے بچاؤ کے لئے پناہ گاہ دے سکوں‘ اس کی درد بھری کہانی سن کر راقم نے اسے ساتھ لیا اور اپنے مرکز سے ضرورت کی اشیاء اور فنڈ سے کچھ نقدی دے کر رخصت کیا۔
۲:-دوسرا واقعہ بٹگرام امدادی کیمپ کے قریب خیمہ بستی میں پیش آیا‘ اس خیمہ بستی میں ابتداء میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جن کے مکانات ملبے کے ڈھیر بن گئے تھے‘ اور وہ بدن پر موجود کپڑوں کے علاوہ سب کچھ چھوڑ کر اس خیمہ بستی میں منتقل ہوئے تھے‘ اور حالت یہ تھی کہ افطاری وسحری کے وقت ایک خیمہ والوں کو کھانا کھلانے کے بعد دوسرے کو کھلایاجاتا‘ برتنوں اور دیگر سامان کی قلت تھی‘ اس طرح ہر خیمے والے اپنی باری کا انتظار کرتے‘ ہم نے اپنے مرکزی کیمپ سے اس خیمہ بستی میں برتن‘ راشن‘ کپڑے اور جوتوں تک کا ضروری سامان تقسیم کیا۔
ایک دن میں مغرب کی نماز کے بعد گھر جارہا تھا‘ راستے میں ایک شخص ملا‘ دعا وسلام کے بعد اس نے پوچھا کہ یہاں جامعہ بنوری ٹاؤن کا ایک طالبعلم ہے‘ اس سے ملنا ہے۔ میں نے پوچھا کس سلسلے میں ملناہے؟ اس نے کہا کہ اس سے ضروری کام ہے‘ جس مجبوری کی وجہ سے میں آیاہوں وہ صرف اسی کو بتاؤں گا‘ اس کے بارہا اصرار کے بعد میں نے کہا کہ جس سے آپ نے ملنا ہے ‘وہ میں ہی ہوں۔ اس کے بعد اس نے اپنا مسئلہ بیان کیا کہ زلزلہ سے گھر تباہ ہوگیاہے اور بیوی حاملہ ہے‘ بچے کی پیدائش قریب ہے اور ہم بالکل خالی ہاتھ ہیں‘ میں نے فنڈ سے کچھ رقم اسے دی اور ہسپتال بھیجا‘ بعد میں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے دوبچوں سے نوازا ہے‘ اسی فنڈ سے اس نے تمام مراحل بآسانی طے کرلئے۔
اس مرحلے کے بعد شوال کی ابتداء میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ کرام کے ایک وفد نے متاثرہ علاقوں کا تفصیلی دورہ کیا‘ اس وفد میں جامعہ بنوری ٹاؤن کے ناظمِ تعلیمات حضرت مولانا عطاء الرحمن صاحب‘ حضرت مولانا امداد اللہ صاحب‘ مولانا عاصم ذکی صاحب‘ مولانا عادل صاحب اور مفتی رفیق احمد صاحب کے علاوہ دیگر حضرات شامل تھے‘ یہ حضرات سیدھا راولہ کوٹ مظفر آباد ‘ باغ اور بالاکوٹ گئے اور جامعہ بنوری ٹاؤن کے معاونین کی جانب سے جمع شدہ فنڈ ان علاقوں میں نقدی کی صورت میں تقسیم کیا‘ اس دوران متاثرین نے ایثار وقربانی کا اعلیٰ اور قابل رشک نمونہ پیش کیا اور ”یؤثرون علی انفسہم ولوکان بہم خصاصة“ (یعنی اور مقدم رکھتے ہیں ان کو اپنے جان سے اور اگرچہ ہو اپنے اوپر فاقہ) کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنی ضرورت وحاجت کے باوجود دوسرے متاثرین بھائیوں کو ترجیح دی۔ اس کے بعد یہ وفد بٹگرام کے لئے روانہ ہوا‘ راستے میں علاقہ بٹل اور چھتر کے متاثرین میں رقم تقسیم کی‘ جب یہ وفد بٹگرام پہنچا تو جامعہ کی طرف سے لگائے گئے امدادی کیمپ میں جامعہ کے فضلاء اور طلباء کرام کثیر تعداد میں موجود تھے‘ اس موقع پر متاثرین کی تیار کردہ لسٹ کے مطابق یہاں بھی نقدی تقسیم کی گئی اور کیمپ کے قریب تبلیغی مرکز میں جمعہ کی نماز اداکی‘ شام چار بجے کھانا کھانے کے بعد وہاں کے بعض متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور رات خیمہ میں گزاری‘ صبح فجر کی نماز پڑھ کر یہ حضرات آلائی کے لئے روانہ ہوئے۔
تحصیل آلائی ضلع بٹگرام کی ایک پسماندہ تحصیل ہے اور یہ علاقہ کئی دروں اور بلند بالا پہاڑوں پر مشتمل ہے‘ اس کے شمال کی جانب ضلع کوہستان واقع ہے‘ حالیہ زلزلہ میں بالاکوٹ کے بعد سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان آلائی میں ہوا ہے۔ بٹگرام سے تقریباً ۷۰ کیلو میٹر کا فاصلہ ہے‘ پہاڑوں کے سر کنے کی وجہ سے پندرہ دن تک اس پورے علاقے کا زمینی رابطہ منقطع تھا‘ لوگ پیدل خچروں اور گدھوں کے ذریعے ضروری اشیاء پہنچاتے تھے‘ ابتدائی دنوں میں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے میں نے میڈیسن اور دیگر ضروری اشیاء آلائی پہنچائیں‘ جس وقت یہ حضرات آلائی جارہے تھے اس وقت سڑک پر کام جاری تھا اور جگہ جگہ بلڈوزر سڑک سے ملبہ ہٹا نے میں مصروف تھے‘ جب آلائی پہنچے تو اچانک موسم خراب ہوا اور بونداباندی شروع ہوگئی‘ وہاں مختصر قیام کے بعد عصر کے وقت بٹگرام پہنچے‘ کھانا کھانے کے بعد یہیں سے سب حضرات واپس رو انہ ہوگئے۔
اس کے بعد تیسرے مرحلے میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی جانب سے متاثرہ علاقوں میں جستی چادریں دینے کا سلسلہ شروع ہوا اور مظفر آباد‘ باغ‘ بالاکوٹ‘ بٹل‘ چھتر‘ بٹگرام اور آلائی کے علاقوں میں جامعہ کے اساتذہ کرام وفضلاء کی وساطت سے وہ چادریں تقسیم کی گئیں ‘ جامعہ اور شاخہائے جامعہ میں متاثرہ علاقوں کے زیر تعلیم طلبہ اور دیگر عملہ میں بھی ان کی درخواست یا بغیر درخواست کے حسبِ ترتیب جستی چادریں تقسیم کی گئیں اور بہت ساری چادریں مختلف مساجد کو بھی دی گئیں‘ اب بھی کئی درخواستیں موجود ہیں‘ جن کی منظوری اور عملی تعاون کے لئے جامعہ کی طرف سے اپنے وسائل بروئے کار لانے کی بھر پور کوشش ہورہی ہے۔
زلزلہ کی وجہ سے جہاں اور تباہی ہوئی وہاں لوگوں کے گھر بھی اجڑے‘ کسی کا شوہر نہ رہا تو کسی کی بیوی بچھڑ گئی‘ کسی کے والدین داغ مفارقت دے گئے اور کسی کے بہن بھائی آخرت کو سدھار گئے‘ جستی چادریں‘ گھریلوں سامان اور نقدی بانٹنے کے بعد جامعہ کے اساتذہ کرام نے مناسب سمجھا کہ ممکن حد تک ان کے گھر بھی بسائے جائیں‘ تاکہ اجتماعی غم کا حادثہ دیکھنے والے اجتماعی خوشی کی ایک جھلک بھی دیکھ سکیں‘ اس موقعہ پر اجتماعی شادیوں کا انتظام کیا گیا‘ یہ بڑا پر مسرت موقعہ تھا کہ ایک ہولناک تباہی کے بعد لٹے پٹے لوگ ایک منفرد انداز میں خوشی محسوس کررہے تھے‘ ڈیڑھ سو نوجوانوں کی اجتماعی شادی کی تقریب بٹل کے مقام پر بروز اتوار چار جون کو منعقد ہوئی‘ انتظامی امور کے سلسلے میں حضرت الاستاذ مولانا امداد اللہ صاحب بذات خود پروگرام سے کئی دن پہلے وہاں پہنچے تھے‘ اور وہاں تمام امور کے منتظم جامعہ کے فاضل اور یونین کونسل اچھڑیاں کے ناظم مولانا ناصر محمود تھے‘ ان کی حسن کارکردگی کی بنا پرجامعہ کی طرف سے باقاعدہ انہیں شیلڈ دی گئی۔ اس تقریب میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب‘ نائب رئیس مولانا سید سلیمان یوسف بنوری صاحب‘ جامعہ کے اساتذہٴ حدیث حضرت مولانامحمد انور بدخشانی صاحب‘ مولانا عطاء الرحمن صاحب‘ مولانا فضل محمد صاحب ‘ مولانا محمد زیب صاحب اور دیگر اساتذہ کرام کے علاوہ مہمان خصوصی کے طور پر قائد حزب اختلاف سیکٹری جنرل متحدہ مجلس عمل حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب بھی علماء اورسیاسی زعماء کی ایک جماعت کے ہمراہ بھر پور دلچسپی کے ساتھ شریک ہوئے‘ جس سے پر وقار تقریب کی رونقیں دو بالا ہوگئیں۔
اس تقریب کی خصوصیات میں سے ایک منفرد خصوصیت یہ بھی تھی کہ تمام جوڑوں کا اجتماعی نکاح‘ حضرت ڈاکٹر صاحب نے طرفین (دولہا ودلہن) کی اجازت و وکالت سے پڑھایا۔
جامعہ کی طرف سے دیئے جانے والے سامانِ جہیز‘ جس میں ہر جوڑے کو ایک عدد ڈبل بیڈ بمع فوم بیڈ شیٹ‘ چھ عدد کرسیاں دو ٹیبل ‘ ایک ڈینر سیٹ جو ۷۲ برتنوں پر مشتمل تھا‘ ایک سوٹ کیس جس میں دلہن کے لئے استعمال کی ضروری اشیاء شامل تھیں‘ اس کے علاوہ ان خصوصی ہدایا سے بڑے ہی پُر وقاراور با سلیقہ انداز میں اسٹیج سجایا گیا تھا جو جامعہ بنوری ٹاؤن سے پیک ہوکر آئے تھے‘ان ہدایا میں سے ایک پیکٹ میں تفسیر عثمانی‘ دولہا ودلہن کے لئے ایک ایک کپڑوں کا جوڑا ‘ تحفہ دلہا ودلہن اور ایک عدد وال کلاک (گھڑی) جسے خصوصی آرڈر کے ساتھ اس طرح بنایا گیا تھا کہ ڈائل میں جامعہ بنوری ٹاؤن کے سرخ پوش درودیوار کی پرانی تصویر جس میں جامعہ مسجد بنوری ٹاؤن کے سرخ مینار نمایاں طور پر شہداء بنوری ٹاؤن کے خون کی عکاسی وترجمانی کررہے تھے‘ اور بزبانِ حال یہ صدائیں دیتے محسوس ہورہے تھے کہ:
بہار ہوکہ خزاں مجھے ہے حکم اذاں لا الٰہ الا اللہ
علاوہ ازیں ایک عدد سلائی مشین بھی دی گئی جس کا انتظام حضرت مولانا مفتی جمیل خان شہیدرحمہ اللہ کے رفقاء: مفتی خالد محمود‘ مفتی مزمل حسین‘ شہید کے صاجبزادے مولانا مفتی محمد بن جمیل خان اور قاری فیض اللہ صاحب کی وساطت سے اقراء روضة الاطفال ٹرسٹ کی جانب سے کیا گیا‘ اس حوالے سے جہاں ہمارے تمام معاونین ومخلصین ہماری طرف سے اور متاثرہ علاقوں کے متاثرہ لوگوں کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں‘ وہاں اقراء روضة الاطفال ٹرسٹ بطور خاص شکریہ کے علاوہ داد وتحسین کابھی مستحق ہے۔
آخر میں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام معاونین ومخلصین کو اجر عظیم عطا فرمائے اور ان کی مساعی جمیلہ اور کارہائے خیر کو قبول فرماکر ان کی آخرت کی کامیابی وکامرانی کا ذریعہ بنائے‘ آمین․
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: نفاذ حدود کی برکات
Flag Counter