Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

5 - 12
نفاذ حدود کی برکات
نفاذ حدود کی برکات

اسلام نے انسانی دنیا پر جو علمی‘ تمدنی‘ تہذیبی احسانات کئے ہیں‘ ان کا شمار ابھی مؤرخ کے ذمہ قرض ہے‘ چودہ صدیاں قبل جو آفتاب رشد وہدایت فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا تھا‘ اس کی روشنی سے صرف اس کے پیروکاروں کی زندگی منور نہیں ہوئی‘ بلکہ کرہٴ ارض میں آج تک ہونے والی تمام انسانی ترقی اسی کی مرہونِ منت ہے‘ مگر بدقسمتی سے تاریخ نویسی کا بیڑا مغرب سے مرعوب ان اہل قلم کے ہاتھ میں ہے جو آج تک صلیبی جنگوں کے زخم نہیں بھلا سکے ہیں‘ ان کی اکثریت نے انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس جیسے غیر معتدل او ر ظالمانہ واقعات کو تو معاشرہ میں مثالی تبدیلیوں کا باعث باور کرایا‘ مگر عقلوں کو عاجز کردینے والے اسلامی انقلاب کو دائرہ سخن سے ہی خارج کردیا‘ اس کی ایک ادنیٰ مثال مقدمہ تاریخ سائنس (مولف:جارج ساٹن) ہے‘ جس کے مؤلف نے سائنس کی موجودہ ہوش ربا ترقی میں مسلمانوں کے اساسی کردار کو فراموش کرکے خود اپنی کتاب کو بے وقعت کردیا ہے‘ جبکہ برطانیہ کے شہرہ آفاق مؤرخ اور فلسفہ تاریخ کے ماہر آرنن ٹوائن بی نے کھلے لفظوں میں اس کا اعتراف کیا ہے۔
اگر اسلام کی تعلیمات‘ انسانوں میں صدیوں سے جاگزیں مظاہر قدرت سے خوف کو رفع نہ کرتیں تو آج سائنس کا وجود ممکن ہی نہ تھا‘ کیونکہ سورج ‘ چاند اور ستاروں کی پرستش کی بنا پر مشرکین کے دل میں ان کی ہیبت تھی جس کی بنا پر انسان ان کو مسخر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اسلام نے انسانوں کو یہ پیغام دیاکہ خدائے بزرگ وبرتر نے تمام مظاہر فطرت کو تمہارے لئے مسخر کردیا ہے‘ تاکہ تم ان سے نفع اٹھا سکو‘ جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”وسخر لکم ما فی السموات وما فی الارض“۔ (الجاثیہ :۱۳)
اسلامی تعلیمات کے نتیجہ میں جو انقلاب برپا ہوا‘ وہ اس قدر ہمہ گیر اثرات کا حامل تھا کہ کوئی شعبہٴ زندگی اور کوئی علاقہ وملک اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکاِ اگر موجودہ یورپی قوانین کا جائزہ لیا جائے تو ان میں فقہ اسلامی خصوصاً فقہ مالکی کے اثرات نمایاں نظر آئیں گے‘ عمرانیات کے ماہرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ فرانس ‘اندلس (مسلمانوں کا اندلس‘ آج کا صلیبی یورپ) کی سرحد سے متصل واقع تھا اور یورپ میں تعلیم یافتہ ہونے کا واحد معیار اندلس کی جامعات سے فارغ التحصیل ہونا تھا‘ لہذا ان کے طالب علموں نے جو کچھ اندلس سے سیکھا‘ اسی کی روشنی میں اپنے اپنے ملک کا قانون ترتیب دیا،اسلام نے حدود اللہ کی صورت میں جو نظام پیش کیا ہے‘ اس نے انسانیت کے دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ کو حل کرکے انسانیت پر بہت بڑا احسان کیا ہے،کوئی بھی قانون ہو‘ اس کا بنیادی مقصد اعلیٰ اقدار کا تحفظ‘ مفاد عامہ کی حفاظت‘ ریاست کی بنیادی ہیئت کا بقاء اور ملکی امن کا نفاذ ہوتاہے‘ اگر کوئی قانون اس مقصد کی تکمیل نہیں کرتا تواس کے ناکافی بلکہ مضر ہونے میں کوئی شک نہیں‘ پھر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انفرادی مقاصد کو پسِ پشت ڈال کر اجتماعی مفاد کو ترجیح دینا بھی از بس ضروری ہے‘ اسی طرح ہرقانون کی افادیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس نے معاشرہ میں جرائم کے انسداد میں کس حد تک کردار ادا کیا‘ اگر کوئی قانون انسدادی پہلو سے محروم ہے تو وہ چاہے کیسے ہی خوشنما الفاظ سے معنون کیوں نہ ہو ا س کا کچھ فائدہ نہیں۔
ان سطور بالا کی روشنی میں جب ہم حدود اللہ کا جائزہ لیتے ہیں تو ان مقاصد کا حصول اپنے کمال پر نظر آتا ہے‘ شراب‘ زنا اور تہمتِ زنا کی ممانعت میں اعلیٰ اقدار کا تحفظ ‘ قصاص ‘حد سرقہ (چوری کی سزا) حد محاربہ (ڈاکہ اور دیگر فسادی کارروائیوں کی سزا) سے مفاد عامہ اور ملکی امن کا بنیادی مقصدپورا ہوجاتاہے‘ کیاکوئی دوسرا قانون ایسا ہے جس میں ان امورکا حصول اس درجہ سہل اور آسان ہو‘ مزید یہ کہ بقیہ تمام قوانین دست انسانی کا ثمرہ اور حدود اللہ خلّاق عالم کا بنایا ہوا دستور ہے،حدود اللہ میں جو جامعیت پائی جاتی ہے‘ اس کا اندازہ ان جرائم سے لگایا جاسکتاہے جن کو قابل سزا بتایاگیا ہے‘ اسلامی سزاؤں کا ایک اور پہلو سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان سزاؤں کے نفاذ کے لئے سخت شرائط عائد کرکے احتیاط کے پہلو کو ملحوظ رکھا گیا‘ مگر دوسری جانب انہیں نہایت عبرتناک بھی بنایاگیاہے ‘ جس کی بنا پرکئی جبینیں عرق آلود ہوجاتی ہیں‘ مگر ان کی اسی سختی اور شدت کی بناء پر یہ معاشرے میں جرائم کی روک تھام کا اہم سبب اور ذریعہ ہیں ‘ اسی لئے ان حدود اور سزاؤں کو مجمع عام میں نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘ جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: ”ولیشہد عذابہما طائفة من المومنین“ اب اگر ایک ہاتھ کٹ کر کئی دلوں میں جنم لینے والے ناپاک ارادوں کی بیخ کنی کردے تو یہ انسانی حقوق کی پامالی ہے یا بحالی؟ یقیناً اسلامی سزائیں سخت اور ہیبت ناک ضرور ہے مگر صرف اس لئے تاکہ کوئی اور ایساگناہ کرنے کی جرأت نہ کرسکے اور یہ سزااس کے لئے‘ دیکھو! ”مجھے جودیدہٴ عبرت نگاہ ہو ں“کا مصداق ہو جائے۔
یہ کہنا صرف لفاظی اور زور بیان کا اظہار نہیں‘ بلکہ جن معاشروں میں ان حدود کا نفاذ کامل دیانت اور ان کی روح کے ساتھ کیا گیا‘ ان معاشروں کی کایا پلٹ ہوگئی ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز اور اورنگزیب عالمگیر کی سلطنتوں کی مثال پیش کرکے دورکیوں جائیں‘ ۸۰ کی دھائی میں سوڈان اور پھر طالبان کے دور میں جس طرح ان حدود کی برکات کا ظہور ہوا‘ اس کا انکارکرنا‘ انصاف کا خون اور سچائی سے منہ موڑنے کے مترادف ہے،مگر مغرب کی آنکھ سے خیر وشر کے پیمانے ناپنے والوں کو کون سمجھائے‘ ان کے نزدیک انسانی حقوق کا واحد معیار یورپ وامریکہ کی اندھی تقلید ہے ‘ جبکہ مغرب کو حدود اللہ سے جو خوف لاحق ہے‘ اس کی وجہ انسانی حقوق کا لحاظ نہیں‘ بلکہ اس کی معیشت کا بقاء اسے ان حدود کے نفاذ کی مخالفت پر مجبورکرتا ہے‘ مغرب سرمایہ دارانہ نظام کے جبر کا شکار ہے‘اور یہ نظام ان کی معیشت کا ذریعہ ہے‘ اگر حیاء سوز برائیوں کا سد باب ہوجائے تو مغرب معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے گا اسی طرح حقوقِ نسواں‘ حریتِ فکر اور فرد کی کامل آزادی جیسے خوشنما نعرے سکون سے محروم عوام کو مدہوش رکھنے کے لئے لگائے جاتے ہیں‘ مغرب کی تہذیب جس جانکنی کی حالت سے گذررہی ہے اس کا بیان ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے،ملک عزیز میں جو حدود آرڈی نینس کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا جارہا ہے‘ اس کے پوشیدہ سیاسی مقاصد ہیں جن کی تکمیل کے لئے اس چند صفحاتی دستاویزات کو تختہٴ مشق بنایا جارہاہے‘ اگر اصلاح ہی مقصودہے تو یہ ملک باوجود علماء حق کی شہادتوں کے ابھی تک ذی فہم اہل علم سے محروم نہیں ہوا‘ یہی اہل علم دوا ئے دل کی دکان ”تندئ بادِ مخالف“ کے باوجود سنبھالے بیٹھے ہیں‘ ان سے رجوع اور مشورہ کے بغیر کوئی قدم اٹھانا مزید مشکلات سے دوچار کردے گا۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رجب المرجب۱۴۲۷ھ اگست۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: طلبہ حدیث کو الوداعی زریں نصائح
Flag Counter