پر اﷲ کے راستے کا غم نہیں اٹھاتا اور اپنی جان کو اﷲ پر فدا نہیں کرتا، اس ظالم کو روٹیاں کھا کر جان بنانا جائز نہیں کیوں کہ اس کی جان غیر اﷲ پر فدا ہورہی ہے، جان بنانا اُن کے لیے جائز ہے بلکہ مستحب ہے بلکہ فرض ہے جو اﷲ پر فدا ہوتے رہتے ہیں۔ جو اﷲ کی روزی کھا کر غیر اﷲ پر مرتا ہے اور نظر بازی کرتا ہے یہ جان نالائق جان ہے اور ایسے شخص کے لیے سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بد دعا کی ہے، مشکوٰۃ شریف کی روایت ہے:
لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَ الْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ6؎
اے اﷲ! لعنت فرما اس شخص پر جو نظر بازی کرتا ہے یعنی اسے اپنی رحمت سے دور کر دے جو حسینوں کو تاک جھانک کرتا ہے۔ تو نبی کی لعنت جس پر رہے گی وہ چین پائے گا؟ اس کو چین ملے گا؟ اسی لیے کہتا ہوں کہ واﷲ ثم واﷲ ثم واﷲ! جتنے رومانٹک دنیا والے ہیں اورحسینوں کے چکر میں ہیں، وی سی آر دیکھتے ہیں یا سینما دیکھتے ہیں یا ننگی فلمیں دیکھتے ہیں ان کے سر پر قرآن شریف رکھ کر پوچھو کہ تم چین سے ہو یا پریشان ہو، اور اﷲ والوں سے پوچھو، جو توبہ کرکے خانقاہوں میں آگئے ان سے پوچھو کہ خانقاہوں میں آکر تم کو کیا مزہ ملا؟ مولیٰ کے ملنے سے تم کو کیا مزہ ملا؟ اور لیلیٰ کے ملنے سے تم کو کیا سزا ملی؟ ایک طرف سزا ہے اور ایک طرف مزہ ہے۔
اس لیے دوستو! اﷲ پر مرنا سیکھو، جو اﷲ پر مرر ہے ہوں اُن اہلِ وفا کی صحبت میں رہو، اﷲ تعالیٰ نے بے وفاؤں کے مقابلے میں اہلِ محبت کی جو آیت نازل فرمائی اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ محبت کبھی بے وفا نہیں ہوسکتے، اگر محبتِ کاملہ ہے خالی ناقص محبت نہیں، لہٰذا اہلِ محبت کی صحبت میں رہو ان شاء اﷲ تعالیٰ آپ اہلِ وفا ہوجائیں گے بشرطیکہ نیت بھی ہو اہلِ وفا بننے کی، خالی دسترخوان پر ٹھونسنے کے لیے حرام خوری کے لیے نہ رہو، اگر جان بناتے ہو تو جان کی بازی لگانا بھی سیکھو، جو رزق کھاتا ہے اس پر جان دینا فرض ہے کہ جب اﷲ کی کھاؤ تو اﷲ کی گاؤ، یہ کیا بات کہ کھاتے اﷲ کی ہو اور طاقت اﷲ کی روٹی سے لیتے ہو اور طاقت کو اﷲ کے غضب اور ناراضگی کے اعمال میں استعمال کرتے ہو ۔ اﷲ نے تقویٰ کی ہمت دی ہے، طاقت دی ہے، اگر گناہ سے بچنے کی طاقت نہ ہوتی تو تقویٰ فرض ہی نہ ہوتا کیوں کہ کمزوروں پر
_____________________________________________
6؎ کنزالعمال:338/7،(19162) ،فصل فی احکام الصلٰوۃ الخارجۃ،مؤسسۃ الرسالۃ