ایک قطرۂ خون تو خاک سے چھپ سکتا ہے لیکن خون کا دریا کیسے پاٹو گے؟ جو ہر وقت اپنی آرزو کا خون کرتے رہتے ہیں، ہر وقت اپنی نظر کو بچا کر اپنی جان کو اﷲ پر فدا کرتے رہتے ہیں اور فدا کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ جان میں حرام لذت نہ آنے دو، جان کی بازی لگا دو، دیکھنے کو کتنا ہی دل چاہے ارادہ کرلو کہ اس شکل کو نہیں دیکھنا اور دل سے کہہ دو کہ اے دل! تو میرا خدا نہیں ہے، میں بھی بندہ ہوں تو بھی بندہ ہے، بندے کا ہر جز بندہ ہے، تو کیسے اپنے مولیٰ کے حکم کو توڑ کر اپنی خوشی کو پوری کر سکتا ہے، میں تجھ کو توڑ دوں گا مولیٰ کے حکم کو نہیں توڑوں گا۔
اﷲ تعالیٰ کے قرب کا سورج کب طلوع ہوتا ہے؟
دہلی میں مومن نا م کا شاعر تھا، اس کا ایک دوست تھا آرزو، وہ بدعتی تھا، اور مؤمن اﷲ والوں سے بیعت ہوگئے تھے لیکن اس پرانے دوست کی یاد آتی رہتی تھی، تنگ آکر ایک دن اپنے دل سے کہا ؎
لے آرزو کا نام تو دل کو نکالدوں
مؤمنؔ نہیں جو ربط رکھیں آرزو سے ہم
اے دل! اگر تو نے میرے پرانے دوست آرزو کا نام لیا تو تجھ کو سینے سے نکال دوں گا۔ تو جب گندے کام کو دل چاہے، کسی نمکین یا حسین کو دیکھنا چاہے اس وقت دل کو مضبوطی سے یہ کہو کہ اے دل! تجھ کو توڑدوں گا لیکن اﷲ کے حکم کو نہیں توڑوں گا، توبندہ ہے، وہ میرا مولیٰ، میرا پالنے والا ہے، اس نے ہم کو یہ آنکھیں دی ہیں، تیرے کہنے سے میں اس کو کیسے غلط استعمال کروں؟ جو ہر وقت خونِ آرزو پیتے ہیں ان کا دل لال ہوجاتا ہے۔ جب مشرق لال ہوتا ہے تو سورج نکلتا ہے، تو اﷲ تعالیٰ کے قرب کا سورج اُن ہی کے دلوں میں طلوع ہوتا ہے جو اپنی ناجائز آرزوؤں کا خون کرتے رہتے ہیں اور ان کے دل کے چاروں اُفق مشرق، مغرب، شمال، جنوب لال ہوجاتے ہیں پھر اﷲ تعالیٰ اپنے عاشقوں کے قلوب میں ہر طرف سے اپنے قرب کا سورج طلوع فرماتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ پر فدا ہونے کا صحیح راستہ
دیکھو دوستو! اگر اﷲ پر فدا نہ ہوئے تو کس پر فدا ہوگے؟ ان مرنے والوں پر؟ فدا