Deobandi Books

ماہنامہ الابرار فروری 2010

ہ رسالہ

9 - 14
ملفوظات حضرت والا ہردوئیؒ
ایف جے،وائی(February 10, 2010)

(گذشتہ سے پیوستہ)

ایک واقعہ یاد آیا حضرت مولانا شاہ وصی اﷲ صاحبؒ کے پاس ایک ریلوے کے ملازم آیا کرتے تھے ان کی تنخواہ تین سو تھی اور گھر کا خرچہ ایک ہزار روپیہ ماہانہ تھا۔ ۰۰۷ روپے رشوت لیا کرتے تھے۔ جب حضرت مولانا کی صحبت سے ان کے دل میں اﷲ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوا اور جہنم کی سزا کا دل میں یقین آیا اپنی بیوی سے مشورہ کیا اور کہا دوزخ میں ہمارا کیا حال ہوگا۔ ہماری سب نیکیاں تو یہ لوگ اپنے حقوق کے بدلے میں لیں گے جن سے رشوت لے رہا ہوں۔ یہ مرغی اور مٹھائی کس کام آوے گی۔ بس مکان بدل دیا چھوٹا مکان لیا سادگی اختیار کی اور رشوت سے توبہ کی اب صرف دوسو روپے میں گذر اوقات شروع کی اور سو روپیہ ہر ماہ رشوت جن لوگوں سے لیا تھا ان کو ادا کرنا شروع کیا پھر یہ شخص بہت بڑے ولی اﷲ ہوگئے اور مولانا کے خلیفہ ہوئے اور بڑے ہی سکون اور لطف کی زندگی حق تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی دنیا میں بھی عزت اور آخرت میں بھی انشاءاﷲ تعالیٰ عزت۔

آپ لوگ اس وقت سخت سردی کے باوجود مسجد میں کیوں آئے جب کہ کتنے لوگ گھروں میں سورہے ہیں خوف اور فکر آخرت ہی تو یہاں لائی پس ہر آدمی اپنے نفس کو دبانے کی مشق کرے۔ اور اس کی قوت یعنی نفس کو دبانے کی اہل اﷲ کی صحبت سے ملے گی۔

رمضان میں روزہ رکھے ہوئے آپ پانی نہیں پیتے کھانا نہیں کھاتے حالانکہ سب کچھ گھر میں موجود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ قاعدے سے اگر رکھ لیا جاوے تو آدمی متقی بن جاتا ہے کیونکہ نفس کو دبانے کی مشق ہوجاتی ہے۔ پہاڑوں پر جانے سے تقویٰ اور خوف نہیں ملتا یہ نعمت تو اہل خوف کی صحبت سے اور انکے حالات کے پڑھنے سے ملے گی۔ موت کا مراقبہ اور قیامت کے حالات کے مطالعہ سے یہی خوف پیدا ہوتا ہے۔ حضرت شاہ رفیع الدین صاحبؒ کا قیامت نامہ مطالعہ میں رکھئے دیکھئے لیموں کا نام لیا اور منہ میں پانی آیا تو اﷲ والوں کے حالات سننے سے اور ان کی صحبتوں میں جانے سے کیوں اثر نہ ہوگا۔

بعض وقت سیب الماری میں ہے ڈاکٹر نے مریض کو سیب کی اجازت دی ہے مریض سیب کو دیکھ بھی رہا ہے چاہتا بھی ہے کہ سیب کھالوں مگر الماری تک جانے کی طاقت نہیں ڈاکٹر سے علاج کرایا طاقت آگئی سیب تک جاکر سیب اٹھایا یہی حال بالکل اعمال صالحہ کا ہے بعض وقت علم ہوتا ہے اور یقین بھی ہوتا ہے مگر کمزوری روح میں ہوتی ہے اﷲ والوں کے پاس حاضری دی جاوے ان کے علاج سے روحانی کمزوری چلی جاوے گی پھر انشاءاﷲ تعالیٰ آپ ہر صالح عمل کی قوت محسوس کریں گے پھر آپ کا یہ عالم ہوگا

تصور سے دلدار کے ماسوا کے

ہٹاتا خیالات ہر ماسوا کے

چلے جاچلے جا بڑھے جا بڑھے جا

تجھے لاکھ روکیں یہ جھونکے ہوا کے

بس حق تعالیٰ شانہ کی فرمانبرداری کرنے سے اور نافرمانی سے بچنے سے جنت کا راستہ کھل جاتا ہے۔ اب دعا کرلیجئے حق تعالیٰ شانہ عمل کی تقفیق بخشیں، آمین۔

وعظ ملقب بہ صبر و تسلیم و عبدیت

ارشاد فرمایا کہ

طفل می لرزدزنیش احتجام

مادر مشفق ازاں غم شاد کام

بچہ روتا ہے آپریشن کے وقت اور ماں خوش ہوتی ہے کہ میرے بچہ کی بیماری کا سب دکھ درد ختم ہورہا ہے۔ علامہ عبدالوہاب شعرانیؒ نے فرمایا کہ جب کوئی مصیبت آئے تو سمجھو کہ سستے چھوٹے کہ اس سے بڑی کوئی مصیبت نہیں آئی۔

ارشاد فرمایا کہ ایک بڑے میاں ہمارے جونپور کے سفر میں ساتھ تھے ان کا ایک لوٹا گم ہوگیا میں نے ان کی پریشانی دیکھ کر عرض کیا میں ایک بات بتاﺅں وہ یہ کہ شکر ادا کیجئے کہ اس سے اہم کوئی چیز نہیں گم ہوئی کہنے لگے بے شک ہمارے ساتھ مقدمہ کے کاغذات تھے اور میں مقدمہ کی تاریخ میں پیشی کے لیے جارہا ہوں اگر یہ کاغذات گم ہوجاتے تو کیا ہوتا۔ اور کہنے لگے آپ کے اس مضمون پر مجھے بڑی تسلی ہوئی۔

حضرت معاویہؓ کا دانت ٹوٹ گیا فرمایا الحمدﷲ الذی لم یذہب السمع والبصر شکر ہے اﷲ تعالیٰ کا کہ جس نے ہماری سننے کی اور دیکھنے کی قوت نہیں سلب کی۔ حدیث شریف میں ہے ان اﷲ مااخذوﷲ ما اعطی جب کوئی چیز لی جائے تو یہ سوچے کہ عطا کی فہرست کتنی لمبی ہے۔

علامہ عبدالوہاب شعرانیؒ کے مشایخ میں سے کسی کا واقعہ ہے کہ ان کے پاس ایک صاحب آئے ان کے پیر میں زخم تھا فرمایا کہ شکر کرو کہا کس بات کا شکر کروں فرمایا اس بات پر شکر کرو کہ یہ زخم جو پیر میں ہے پیٹ میں نہیں ہے آنکھ میں نہیں ہے۔

اﷲ تعالیٰ کے رب العالمین ، رحمن ، رحیم، مالک، ناصر، ولی، کریم، قادر، حاکم، حکیم کا مراقبہ کرے ہم نے اﷲ تعالیٰ کے ان ناموں کو اپنے مدرسہ کے بچوں کو بھی یاد کرادیا ہے ان اسماءکا مراقبہ رکھے تو کبھی پریشانی نہ ہو۔ حضرت خواجہ صاحب فرماتے ہیں

مالک ہے جو چاہے کر تصرف

کیا وجہ کسی بھی فکر کی ہے

بیٹھا ہوں میں مطمئن کہ یارب

حاکم بھی ہے تو حکیم بھی ہے

حضرت رومی نے اس کو فرمایا ہے

چونکہ قبض آید تو دروے بسط بیں

تازہ باش و چیں میفگن برجبیں

ترجمہ: اگر تمہارے اوپر قبض آئے تو اس میں بھی بسط دیکھو اور خوش رہو ہرحال میں پیشانی پر شکن بھی نہ آئے۔ حضرت خواجہ صاحب اسی کو فرماتے ہیں

قبض میں بھی بسط کا تو لطف لے

بے تسلی بھی تسلی چاہیے

ہے جلالی تو جمالی گو نہیں

کیا ہے جیسی ہو تجلی چاہیے

مشکوٰة شریف میں حدیث ہے کہ مومن کی شان عجیب ہے ناموافق حالات میں صبر سے اور موافق حالات میں شکر سے حق تعالیٰ شانہ کی رضا و قرب حاصل کرتا ہے

قدم مجذوب کے رکتے نہیں بڑھتے ہی جاتے ہیں

رفیق اک اک جدا منزل بہ منزل ہوتا جاتا ہے

اﷲ تعالیٰ کے راستے میں کوئی ناشکری سے گرگیا اور کوئی بے صبری سے گرگیا ناشکری سے نعمت چھین لی جاتی ہے جس طرح حکومت کا بڑا افسر ہو اگر ڈیوٹی انجام نہ دے تو معطل ہوگا اور بنگلہ کار سب چھین لیا جاوےگا اور شکر پر ترقی کا وعدہ ہے لئن شکرتم لازیدنکم اگر تم شکر کروگے ہم تمہیں زیادہ عطا کریں گے۔

انسان میں کبھی ناز نہ پیدا ہونا چاہیے ہمیشہ نیاز کا راستہ رکھے کسی سے ضابطہ کا تعلق اور رابطہ کا تعلق بھی ہو تو ضابطہ کا تعلق کو اگر بھول جاوے اور صرف رابطہ کا تعلق یاد رکھے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے چھوٹے بچے کا ناز دیکھ کر بڑا لڑکا بھی باپ کے ساتھ اسی طرح حرکت کرنے لگے۔ ایک بزرگ تھے قحط پڑا کچھ غلام خوش طبعی کررہے تھے پوچھا تم لوگ کیوں ہنس رہے ہو جب کہ قحط سے مخلوق پریشان ہے کہنے لگے ہم لوگ عمید آقا کے غلام ہیں وہ ہم سب کا کفیل ہے ان بزرگ کو ناز ہوا اور سخت بے تمیزی کا کلمہ منہ سے نکل گیا اور اب آسمان کی طرف دیکھ کر کہا۔ آقا شدن از عمید بیاموز۔ ان کے علاج کے لیے حق تعالیٰ نے ان کو ایک دن دکھایا کہ انہیں غلاموں کو درختوں پر لٹکا کر عمید آقا بینت سے پٹائی کررہا ہے اور وہ سب غلام کہہ رہے تھے ہم سے غلطی ہوئی اے آقا ہم کو معاف کردیجئے۔ یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ آسمان سے آواز آئی۔

بندہ شدن از بندگان عمید بیا موز

حضرت رومیؒ فرماتے ہیں

نازرا چہرہ بباید ہمچو ورد

چونداری گرد بدخوئی مگرد

ناز کے لیے چہرہ بھی گلاب سا ہونا ضروری ہے اور جب ایسانہ ہو تو بدخوئی کے قریب بھی نہ ہونا چاہیے

عیب باشد چشم نابینا و باز

زشت باشد روئے نازیبا و ناز

نابینا آنکھوں کو کھلا رکھنا اور بھی عیب ہے اور خراب چہرے والے کو ناز وانداز دکھانا اور بھی برا ہوتا ہے۔ بعض استاد ایسے ہوتے ہیں کہ ملازمت سے قبل ان سے دوستی کا تعلق ہوتا ہے اب مہتمم سے وہی برتاﺅ پہلے والا چاہتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے اب ان کو ضابطہ کا حق ادا کرنا چاہیے اسی طرح بعض سے بے تکلفی اور دوستی کا تعلق ہوتا ہے پھر وہ بیعت کا اور اصلاح کا تعلق کرلیتے ہیں اب اس کے بعد ان کو یاری اور دوستی کا تصور نہ ہونا چاہیے البتہ اگر شیخ عنایت و لطف سے حق رابطہ کا اظہار فرمائے اس کا احسان ہے (غلامی ہے یہ دوستانہ نہیں ہے۔ جامع) احقر جامع عرض کرتا ہے کہ

تو بہ یک زخمے گریزانی زعشق

تو بجز نامے نمی دانی زعشق

گربہ ہر زخمے تو پرکینہ شوی

پس چرا بے صیقل آئینہ شوی

ترجمہ: اگر تو ایک ڈانٹ یا سختی سے شیخ سے بھاگنے لگا تو عشق کا صرف نام جانتا تھا تجھے تو عشق کی ہوا بھی نہ لگی تھی اگر ہر زخم سے تو دل میں گرانی اور کینہ لائے گا تو بے صیقل اور رگڑے کھائے کیسے آئینہ جمال حق بنے گا۔ حضرت خواجہ صاحبؒ اسی کو فرماتے ہیں

آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل

کچھ نہ پوچھو دل بہت مشکل سے بن پاتا ہے دل

اے خدا ہم کو بھی اپنے اولیا کی ناز برداری کی توفیق عطا فرما۔ آمین اور اپنی راہ کا ادب کامل عطا فرمائیں، آمین۔ اور اے ناظرین کرام اس مرتب کے لیے بھی دعا فرمائیے کہ حق تعالیٰ اپنی معرفت و محبت و خشیت کا اور استقامت اور حسن خاتمہ اور جنت میں رفاقت صلحاءکی نعمت اختر کو بھی عطا فرمائیں آمین۔ پس ناظرین کرام اگر آمین فرمادیں تو بڑا احسان و کرم ہوگا

ویرحم اﷲ من قال اٰمینا

اور اﷲ تعالیٰ آمین کہنے والوں پر رحمت نازل فرمائیں، آمین۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter