Deobandi Books

ماہنامہ الابرار فروری 2010

ہ رسالہ

5 - 14
عدالتِ صحابہ ث
ایف جے،وائی(February 10, 2010)

مولانا اشفاق علی

لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقتل ط اولئک اعظم درجة من الذین انفقوا من م بعد و قٰتلوا وکلا وعد اﷲ الحسنیٰ

(سورہ الحدید: ۰۱)

ترجمہ: تم میں سے جنہوں نے (مکہ کی) فتح سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی لڑی وہ (بعد والوں) کے برابر نہیں ہیں وہ درجے میں ان لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں جنہوں نے (فتح مکہ) کے بعد خرچ کیا اور لڑائی لڑی یوں اﷲ نے بھلائی کا وعدہ ان سب سے کررکھا ہے۔

تشریح: آیت بالا کو حق تعالیٰ شانہ نے حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے درجات متعین کرنے کے لیے حد فاصل قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ وہ صحابہ کرام جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے اﷲ کی راہ میں خرچ کیا وہ درجات کے اعتبار سے اور ثواب کے اعتبار سے ان اصحاب سے بڑھے ہوئے ہیں جنہوں نے مکہ فتح ہونے کے بعد مدینہ منورہ میں خرچ کیا۔ لیکن باوجود باہمہ فرق مراتب اﷲ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ سب سے فرمایا ہے ایک دوسری آیت میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

ان الذین سبقت لہم منا الحسنی اولئک عنہا مبعدون (سورہ الانبیائ: ا۰۱)

کہ جن سے ہم نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے وہ جہنم سے ایسے دور ہوںگے کہ جہنمیوں کی تکلیف دہ آوازیں بھی ان کے کانوں تک نہ پہنچیں گی۔

آیت بالا اگرچہ صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر اس سے تمام صحابہ کرام کا جنتی ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہی امت کا اجماعی عقیدہ ہے چنانچہ حضرت امام مالک رحمہ اﷲ فرماتے ہیں جمیع صحابہ کی محبت واجب ہے جو شخص کسی صحابی کو برا کہے یا برائی کا اعتقاد رکھے اس کا مسلمانوں کے مال فی میں کوئی حصہ نہیں چونکہ مال فیمیں تمام مسلمانوں کاحصہ ہوتا ہے تو جس کا اس میں حصہ نہیں اس کا اسلام و ایمان بھی مشکوک ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ کسی صحابی کو برا کہتا ہے تو اس سے کہو کہ جو تم میں سے زیادہ برا ہے اس پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو ظاہر ہے صحابہ کر برا کہنے والا ہی سب سے زیادہ برا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا میں نے تمہارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہ امت اس وقت تک ہلاک نہیں ہوگی جب تک کہ اس کے پیچھے والے لوگ اگلوں پر لعنت اور ملامت نہ کریں۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ کو برا مت کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی شخص اﷲ کی راہ میں احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے وہ ان کے خرچ کیے ہوئے کے ایک مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا (مد عرب کا ایک پیمانہ ہے جو تقریباً آدھے سیر کے برابر ہے)

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان اور ان روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جمیع صحابہ عادل اور بہت بڑا درجہ رکھنے والے ہیں اور ساری امت کو صحابہ کرام کے بارہ میں کسی قسم کی کوئی برائی بحث و تمحیص میں نہیں لانی چاہیے۔ کیونکہ جن صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین سے کسی قسم کی کوئی خطا ہوئی بھی ہو تو وہ بھی معاف ہوچکی ہے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ جن خیار امت کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے غفران اور مغفرت کا اعلان فرمادیا ہے اگر ان سے کوئی لغزش ہوئی ہے تو یہ آیت (لقد رضی اﷲ عن المومنین) اسکی معافی کا اعلان ہے لہٰذا ان کے درمیان ہونےوالے واقعات کوبنیاد بناکر ان کی تنقیض کرنے والا بدبخت ہے۔

عبداﷲ بن عباس فرماتے ہیں اﷲ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو اصحاب محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے استغفار اور دعا کرنے کا حکم فرمایا ہے حالانکہ اﷲ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ ان کے آپس میں جنگ و قتال کے فتنے بھی ہوں گے علامہ ابن فورکؒ نے فرمایا صحابہ کے درمیان مشاجرت کی مثال سیدنا یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے درمیان پیش آنے والے واقعات کی طرح ہے وہ اختلافات کے باوجود ولایت اور نبوت سے خارج نہیں ہوئے بالکل یہی معاملہ صحابہ کے درمیان پیش آنے والے واقعات ہے چنانچہ تاریخ کی من گھڑت اور جھوٹی روایات پر قطعاً اعتماد نہ کرنا چاہیے جن کی خود بنیاد ہی کمزور ہے، نیز اگر وہ روایات سچی بھی ہوں تو بھی کوئی اشکال نہیں کیونکہ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اپنے نفس پر توبہ اور رجوع الی اﷲ کو لازم کررکھا تھا جس پر صحابہ کے لاتعداد واقعات شاہد ہیں۔

الغرض جمیع اصحاب محمد صلی اﷲ علیہ وسلم جنتی ہیں وہ حق تعالیٰ سے راضی تھے اور حق تعالیٰ شانہ ان سب سے راضی ہیں آخر میں دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب سے بھی راضی ہوجائیں۔
Flag Counter