Deobandi Books

ماہنامہ الابرار فروری 2010

ہ رسالہ

8 - 14
ملفوظات حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
ایف جے،وائی(February 10, 2010)

مرتبہ: سید عشرت جمیل میر
(گذشتہ سے پیوستہ)

بیویوں کی کڑوی باتوں پر درگذر سے کام لیں

اب رہ گیا یہ کہ بیویاں بھی تو ہمیں ستاتی ہیں تو اس کے بارے میں سن لو کہ اگر یہ عورتوں کا مجمع ہوتا تو میں ان کے سامنے آپ کی طرف داری کرتا، ان کو یہ سکھلاتا کہ اپنے شوہروں کی عزت کرو، ان کو ناراض مت کرو ورنہ تمہاری عبادت قبول نہیں ہوگی لیکن اس وقت آپ ہمارے ہاتھ لگے ہوئے ہیں تو اس کے خلاف والا مقدمہ پیش کررہا ہوں کہ بیویوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آو لیکن پھر بھی میں چند واقعے پیش کیے دیتا ہوں جن سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اگر وہ ستاتی بھی ہیں تو بھی آپ صبر کریں، اگر بیوی غصہ کی تیز ہے، کڑوی کڑوی باتیں سناتی ہے تو اس کو برداشت کریں، ان شاءاﷲ اسی سے آپ اﷲکے پیارے ہوجائیں گے۔

مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ کی بیٹی کڑوی زبان والی ہے اور آپ کو داماد شریف مل گیا اور آپ کی بیٹی نے آپ سے آکر کہا کہ اگر میں اپنے شوہر کو کڑوی بات کہہ دیتی ہوں، ستاتی ہوں، غصہ دِکھاتی ہوں پھر بھی میرا شوہر مجھے کچھ نہیں کہتا، آپ کا داماد فرشتہ ہے، مجھ سے کوئی بدلہ نہیں لیتا بلکہ جب اس سے برداشت نہیں ہوتا تو باہر چلا جاتا ہے، تو آپ بتائیے کہ ایسے داماد کے بارے میں ابا کا دل کیا کہے گا؟ بولو بھئی! ابا کہے گا کہ کوئی بلڈنگ ہوتی تو اس کے نام لکھ دیتا، کار ہوتی تو اس کو دے دیتا تو جو لوگ ربا کی کڑوی مزاج اور غصے والی بندیوںکی بد اخلاقیوں اور کڑوی باتوں کو برداشت کررہے ہیں تو ربا بھی ایسے بندوں سے خوش ہوجاتے ہیں کہ اپنے اس بندے کو میں کیا دوں، نسبت مع اﷲ کا اعلیٰ مقام، تعلق مع اﷲ کا اعلیٰ مقام عطا فرماتے ہیں۔ بہرحال اﷲ ایسے لوگوں کو اپنا بہت بڑا ولی بناتا ہے، جب ابا داماد کو انعام دے سکتا ہے تو رَبّا اس بندے کو کیوں انعام نہ دے گا جو اس کی ایسی بندیوں کو پار لگادے جو زبان کی کڑوی ہوں۔ اب ایک واقعہ اور سنیں۔

ایک بزرگ نے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اﷲ! مجھے کوئی کرامت دے دیں، تیری یہ بندی جو میری بیوی ہے بڑی کڑوی کڑوی باتیں کرتی ہے جو مجھ سے برداشت نہیں ہوتیں، میرا بھی غصہ تیز ہے اس کا بھی غصہ تیز ہے

دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی

لہٰذا آپ مجھے کوئی کرامت دے دیں تاکہ میں اس پر اپنی بزرگی کا رعب جما دوں تاکہ وہ مجھ کو ولی اﷲ سمجھ کر میری بد دعا کے ڈر سے مجھے نہ ستائے۔ آسمان سے آواز آئی کہ اپنی چار پائی پر بیٹھ جا میں اس کو اُڑنے کا حکم دوں گا، پھر اس کو بتانا کہ دیکھ آج میں نے تجھ کو کیسی کرامت دکھائی، اب تو تو مجھے بزرگ مان کر مجھے ستانا چھوڑ دے۔ تو ان کے بیٹھتے ہی چارپائی اُڑنے لگی، انہوں نے اپنے گھر کے صحن کے اوپر سے اُڑاُڑ کر بیوی کو دِکھایا، پھر آ کر اس سے پوچھا کہ آج تم نے کوئی بزرگ دیکھا؟ کہاہاں! آج ایسے بزرگ دیکھے جو آسمان پر اُڑرہے تھے، میرے صحن پر سے کئی دفعہ گذرے، بزرگ اس کو کہتے ہیں، ایک تو ہے خوامخواہ کا بزرگ بنا ہوا ہے، ہر وقت زمین ہی دھرا رہتا ہے کبھی تو نے اُڑ کر دکھایا؟ تو انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم! وہ میں ہی تھا، اﷲ نے مجھ کو کرامت دی تھی، تو بیوی کہتی ہے توبہ توبہ وہ تم تھے! جب ہی تو کہوں ٹیڑھے ٹیڑھے کیو ں اُڑ رہے تھے۔ دیکھا آپ نے کرامت کو بھی اس نے گڑ بڑ کردیا۔

ایک صاحبِ کرامت بزرگ تھے شاہ ابوالحسن خرقانی رحمة اﷲ علیہ، ایک شخص ہزار میل دور سے ان سے مرید ہونے آیا، شیخ اس وقت جنگل میں لکڑی کاٹنے گئے ہوئے تھے، اس شخص نے ان کے گھر پہنچ کر ان کی بیوی سے پوچھا کہ شیخ کہاں ہیں، وہ تڑخ کر بولی واہ! شیخ کیا ہے میخ ہے وہ تو، میں تو رات دن اس کے ساتھ رہتی ہوں، وہ کوئی بزرگ وزرگ نہیں ہے، تم لوگ نہ جانے کن چکروں میں پھنس گئے ہو۔ اب وہ بیچارہ رونے لگا کہ یااﷲ! ہزار میل دور سے بزرگ سمجھ کر آیا تھا اور یہ عورت اتنی شکایتیں کررہی ہے، اتنے میں محلہ والوں نے کہا کہ یہ عورت بدتمیز ہے، ان کو بہت ستاتی ہے لیکن ان کا ظرف ہے کہ اس کو برداشت کررہے ہیں، اس کے ساتھ نباہ کررہے ہیں۔ جاو! جنگل میں جاکر ان کی بزرگی دیکھو۔ جب وہ جنگل گیا تو دیکھا کہ شاہ ابوالحسن خرقانی رحمة اﷲ علیہ شیر پر بیٹھے لکڑی لادے چلے آرہے ہیں اور ہاتھ میں سانپ کا کوڑا ہے۔

مولانا جلال الدین رومی رحمة اﷲعلیہ مثنوی میں اس قصہ کو بیان فرمارہے ہیں۔ اب تو یہ حیران رہ گیا کہ یا اﷲ بیوی تو شکایت کررہی تھی کہ بزرگ نہیں ہے اور اِدھر یہ کرامت! تب شیخ نے فرمایا کہ لگتا ہے تم میرے گھر سے آرہے ہو تبھی چہرہ اُتراہوا ہے، میری بیوی سے تم نے کوئی شکایت سنی ہوگی، اس کا خیال مت کرو، میں جو اس کے ساتھ نباہ کررہا ہوں اﷲ تعالیٰ نے اسی کی برکت سے یہ کرامت دی ہے کہ میں شیرِنر سے بے گار لے رہاہوں، یہ شیر میرے قبضہ میں ہے، میں روزانہ اس پر لکڑی لاد کر لے جاتا ہوں اور سانپ کا کوڑا بھی اﷲ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے، مجھے آسمان سے آواز آئی تھی کہ تو نے جو میری کڑوی زبان والی بندی کی کشتی پار لگادی اس کے صدقہ میں تجھے اتنی بڑی کرامت دیتا ہوں۔ اس واقعہ پر میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمة اﷲ علیہ مست ہو کر مولانا رومی کا یہ شعر پڑھتے تھے

گر نہ صبرم می کشیدے بارِ زن

کے کشیدے شیرِ نر بیگارِ من

اگر میں اس کڑوی زبان والی عورت کو برداشت نہ کرتا اور میرا صبر اس عورت کا کی بد اخلاقی کا بوجھ نہ اُٹھاتاتو یہ شیرِ نر بھی میری بے گاری، میری مزدوری نہ کرتا، یہ انعام اﷲ تعالیٰ نے اسی صبر کے صدقہ میں دیا ہے۔

دوستو!میں یہی بات عرض کررہا ہوں کہ بیویوں کے معاملہ میں اچھے اخلاق سے پیش آو، ان کی کڑو ی زبان کو برداشت کرلو، نہ برداشت ہو تو تھوڑی دیر کے لیے گھر سے باہر چلے جاو۔ سعدی شیرازی نے فرمایا کہ اگر کوئی کڑوی بات کرے تو اس کے منہ میں مٹھائی ڈال دو تاکہ گالی بھی میٹھی میٹھی نکلے۔ لوگ ڈنڈے سے بیویوں کو ٹھیک کرتے ہیں حالانکہ بیویاں ڈنڈے سے ٹھیک نہیں ہوتیں۔

عورت کے ٹیڑھے پن پر صبر کرنے کی وجہ

بخاری شریف کی حدیث ہے، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں عورت مثل ٹیڑھی پسلی کے ہے، بابا آدم کی ایک پسلی نکالی گئی تھی جس سے اماں حوا پیدا کی گئیں، آپ سب اپنی پسلیاں گن لو بائیں طرف ایک پسلی کم ہوگی اسی ٹیڑھی پسلی سے اماں حوا پیدا ہوئیں۔ علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ وہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئیں تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ عورت ٹیڑھی پسلی کی طرح ہے اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اسی ٹیڑھے پن کے ساتھ فائدہ اٹھالو، بتائیے! آپ لوگ ٹیڑھی پسلی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں یا نہیں یا ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں کہ میر ی ٹیڑھی پسلی کو سیدھا کردو، اسی لیے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :

اَلمَراَةُ کَالضِّلَعِ اِن اَقَمتَھَا کَسَرتَھَا وَ اِنِ استَمتَعتَ بِہَا استَمتَعتَ بِہَا وَ فِیھَا عِوَج

(صحیح البخاری، کتاب النکاح،ج:۵،ص:۷۸۹۱، دارابن کثیر۔ الیمامة)

عورت مثل ٹیڑی پسلی کے ہے اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوتو اس ٹیڑھے پن کے ساتھ فائدہ اٹھا لو بجائے اس کے کہ ناک بھوں چڑھاو کہ اس کی ناک چپٹی ہے، ا س کا منہ کالا ہے، مجھے حسین بیوی ملنی چاہیے۔ ہوسکتا ہے اﷲ تعالیٰ اسی کے پیٹ سے کوئی عالم، حافظ، ولی اﷲ پیدا کردے جو قیامت کے دن تمہارے کام آئے۔ اس لیے ان کو حقیر مت سمجھو، صورت کو مت دیکھو، بعض وقت زمین کالی ہوتی ہے مگر غلہ بہت بڑھیا نکلتا ہے، بعض وقت کالی کلوٹی عورت سے ولی اﷲ پیدا ہوئے ہیں اور گوری چٹیوں سے شیطان پیدا ہوئے۔ اس لیے اپنی بیویوں کو حقیر نہ سمجھو، ان کے رنگ وروغن کو مت دیکھو، تو فرمایا اِن اَقَمتَھَااگر تم عورتوں کو سیدھا کرو گے کَسَرتَھَا تو انہیںتوڑدو گے۔ علامہ قسطلانی رحمة اﷲ علیہ بخاری شریف کی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: فِیہِ تَعلِیم لِّلاِحسَانِ اِلَی النِّسَآئِ وَالرِّفقِ بِھِنَّ وَالصَّبرِ عَلٰی عِوَجِ اَخلاَ قِھِنَّ لِاِحتِمَالِ ضُعفِ عُقُولِھِنَّ (ارشادُ السَّاری،ج:۸،ص:۸۷، دارالفکر)

اس حدیث میں تعلیم ہے عورتوں کے ساتھ احسان کرنے کی اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی اور ان کے ٹیڑھے پن پر صبر کرنے کی کیونکہ ان کی عقل کمزور ہے اور جن کی عقل کم ہوتی ہے وہ زیادہ جلد لڑجاتے ہیں، دیکھو بچوں میں جس کی عقل کم ہوگی وہ زیادہ لڑتا ہے اور روح المعانی میں یہ روایت موجود ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ عورتوں کا مزاج ایسا ہے کہ یَغلِبنَ کَرِیماًکریم شوہر جو انتقام نہیں لیتے، ڈنڈے نہیں مارتے بلکہ ڈنڈے کی جگہ انڈے کھلاتے ہیں تو ایسے شوہروں پر بیویاں غالب آجاتی ہیں،جانتی ہیں کہ یہ بدلہ نہیں لے گا، ڈنڈے نہیں مارے گا، گالی نہیں دے گا، اسی لیے کریم شوہر سے زور زور سے بولتی ہیں کہ ارے! میںنے تم سے کہا تھا کہ ایسا کپڑا لانا تم چیتھڑے لے آئے، میں نے اچھی چپل کے لیے کہا تھا تم لیتھڑے اٹھا لائے اور میں نے کہا تھا چائے کی اچھی پیالیاں لے آنا تم ٹھیکرے لے آئے اور وہ بے چارہ مسکرا کر رہ جاتا ہے اور بولتاکچھ نہیں: یَغلِبنَ کَرِیمًا وَ یَغلِبُھُنَّ لَئِیم

یہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے الفاظِ نبوت ہیں، تفسیر روح المعانی کے اندر دیکھ لو، میں نے اپنی کتاب کشکولِ معرفت کے اندر اس کا حوالہ بھی لکھ دیا ہے۔

شوہر کو ناز دِکھانا عورت کا حق ہے

تو نیک و لائق شوہر پر عورتیں غالب آجاتی ہیں، زبان سے تیز بولتی ہیں اورکمینے و مسٹنڈے لوگ ڈنڈے مار مار کر ان پر غالب آجاتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ یہ کمزور ہیں، ان کا بھائی باپ تو پاس ہے نہیں لہٰذا ایک لات اور دو گھونسے مار دئیے، اب ایسے شوہر کو مارے ڈر کے وہ کبھی ناز بھی نہیں دِکھاتیں حالانکہ اپنے شوہر کو ناز دِکھانا ان کا شرعی حق ہے۔

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے عائشہ! جب تو ناراض ہوتی ہے تو مجھے پتہ چل جاتاہے، معلوم ہوا عورتوں کو تھوڑا روٹھنے کا، تھوڑا ناراض ہونے کا حق حاصل ہے لیکن آپ کو انہیں جوتا مارنے کی اجازت نہیں ہے، ان کے ناز برداشت کرو، تو عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ میں آپ سے ناراض ہوں؟ فرمایا کہ جب تو مجھ سے ناراض ہوتی ہے تو کہتی ہے: اَ وَرَبِّ اِبرَاھِیمَ

(صحیح البخاری، کتاب الادب،ج:۵،ص:۷۵۲۲،دار ابن کثیر۔ الیمامة)

ابراھیم کے رب کی قسم۔ اور جب مجھ سے خوش ہوتی ہے تو کہتی ہے: بَلٰی وَرَبِّ مُحَمَّدٍ

(صحیح البخاری، کتاب الادب،ج:۵،ص:۷۵۲۲،دار ابن کثیر۔ الیمامة)

محمدصلی اﷲعلیہ وسلم کے رب کی قسم۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہنس پڑیں اور فرمایا یارسول اﷲ! آپ نے بالکل صحیح فرمایا، تو معلوم ہوا کہ عورتوں کو تھوڑا سا روٹھنے کا بھی حق حاصل ہے، اگر وہ منہ پھلالے تو آپ گھونسے مت مارو، پیار سے پھسلا کر، منہ میں گلاب جامن ڈال کر اس کو منالو۔ مگر یہاں تو لوگ اس کوکہتے ہیں تم کو کیا حق ہے روٹھنے کا؟ بس ایک آیت یاد کرلی: اَلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَآئِ

(سورة نسآئ، آیة: ۴۳)

اور باقی حدیثیں اور آیتیں ان کو نظر نہیں آتیں، مولوی بھی اس میں مبتلا ہیں، وہ بھی گھونسا مار کر منہ سُجادیتے ہیں کہ خبردار اگر آئندہ منہ پھلایا، حالانکہ محبت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اگر وہ منہ پھلائے تو اس کو خوش کرو، پوچھو کہ کیا تکلیف ہے؟ آپ کے حق میں مجھ سے کیا کوتاہی ہوئی؟ گلاب جامن چھپا کر لے جاو اور جلدی سے اس کے منہ میں ڈالو، بیویوں کے منہ میںلقمہ ڈالنا سنت ہے یانہیں؟ کبھی تو اس پر بھی عمل کرلو اور لقمہ سے مراد یہ نہیں کہ اس کے منہ میں چٹنی ڈال دی اور مرچوں سے اس کو پیچش لگ گئی۔

بیویوں کے ساتھ اچھے اخلاق کا معیار

آگے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرما رہے ہیں : فَاِنِّی اُحِبُّ اَن اَکُونَ مَغلُوبًا کَرِیمًا

میں محبوب رکھتا ہوں اس بات کو کہ عورتیں مجھ سے تیز آواز سے باتیں کریں لیکن میں کریم رہوں، میں اپنے اخلاق کی بلندیوں کے منار کو نہ گرنے دوں، میں اپنی اخلاقی بلندیوں کو قائم رکھوں اور اﷲ کی بندیاں سمجھ کر بیویوں کی باتوں کو برداشت کروں: وَلاَ اُحِبُّ اَن اَکُونَ غَالِبًا لَئِیمًا

اور میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ میںکمینہ و بد اخلاق بنوں، ڈنڈے جوتے مار مار کران کو ٹھیک کروں اور میری اخلاقی بلندیوں میںنقص آجائے۔ ایک مرتبہ نان و نفقہ کے بارے میں ہماری مائیں زور زور سے بول رہی تھیں، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو سب فوراً خاموش ہوگئیں، لیکن انہوں نے آوازیں سن لی تھیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے تیز آواز سے باتیں ہورہی ہیں تو حضرت عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اﷲ کی بندیو! تم نبی سے تیز آواز سے بولتی ہو اور عمر سے ڈر گئیں؟تو ہماری ماوں نے کہا کہ اے عمر! تم سخت مزاج کے ہو جبکہ ہمارا پالا رحمة للعٰلمین سے پڑا ہے، وہ ہمارے ناز اُٹھانے والے ہیں۔ جبکہ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم عورتوں کے ناز کیا اٹھاتے اُلٹا عورتوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے ناز اٹھائیں، بعضے شوہر ایسے نالائق ہوتے ہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر ہاتھ چھوڑ بیٹھتے ہیں، رات کو کہتے ہیں کہ تم کو محبت کا اعلیٰ مقام پیش کریں گے اور دن کو ڈنڈے لگاتے ہیں۔

دوستو! اس لیے عرض کرتا ہوں کہ اگر بیوی سے کوئی تکلیف پہنچے تو علماءسے مسئلہ پوچھ لو مثلاً نماز نہیں پڑھتی تو علماءسے پوچھ لو، فضائلِ نماز اس کو روزانہ پڑھ کر سناو لیکن مار پیٹ کا طریقہ اچھا نہیں ہے، جہاں تک ہوسکے برداشت کرو لیکن اگر سختی کی ضرورت پیش آجائے تو منع بھی نہیں کرتا، دین کے معاملے میں کچھ اجازت بھی ہے جیسے وہ سینما دیکھنے کے لیے کہے تو اس میں تھوڑی سختی کرسکتے ہو، وی سی آر لانے کو کہے تو ہر گز نہ لاو کہہ دو کہ ہمارے گھر میں گناہ کا کام نہیں ہوگا، اگر اپنے بچوں کے لیے پلاسٹک کی بلی لے آئے تو فوراً اس کو توڑ کر پھینک دو لیکن اس سے پہلے کوئی عمدہ چیز لادو ورنہ لڑائی ہوجائے گی۔

حقوق میں کوتاہی پر بیویوں سے بھی معافی مانگی جائے

تو دوستو! جن لوگوں سے اپنی بیویوں کے حقوق میں کوتاہی ہوگئی ہے وہ اب ان سے معافی مانگ لیں اور کہہ دیں کہ آئندہ میں تمہیں اﷲ کی بندی سمجھ کر تم سے اخلاق سے پیش آو ںگا، تمہیںمجھ سے جو بھی اذیت پہنچی ہو، غصہ کی حالت میں کچھ کہہ دیا ہواس کو معاف کردو اور قیامت کے دن جو بڑا ہولناک دن ہوگا مجھ سے کچھ بدلہ نہ لینا اور جیسے میں اپنی بیٹی کے لیے چاہتا ہوں کہ میرا داماد اس کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے، اس کی خطاوں کو معاف کردے آج سے میں تمہاری خطاوں کو معاف کرتا ہوں بلکہ پیشگی معاف کیا اور اب تمہیں کبھی نہیں رُلاو ںگا، کبھی ناراض نہیں کروں گا، اس طریقہ سے اس کو خوش کردو اور محض زبانی جمع خرچ نہیں کرو بلکہ اس کو کچھ رقم ہدیہ بھی دے دیا کرو اور اس کا حساب بھی نہ لو، کہہ دو کہ یہ رقم تم کو دے دی اب تمہیں اختیار ہے جہاں چاہے خرچ کرو، چاہے اپنے بھائی بہن، ماں باپ، رشتہ داروں پر خرچ کرو، آج سے میں اس کا کوئی حساب نہیں لوں گا۔

جیب خرچ دینا بیوی کا حق ہے

حکیم الامت نے کمالاتِ اشرفیہ میں لکھا ہے کہ بیویوں کا یہ حق ہے کہ ان کو جیب خرچ بھی دو پھر اس کا حساب بھی نہ لو کیونکہ وہ مجبور ہیں کما تو سکتی نہیں، اب ان کا دل چاہتا ہے کہ میرا بھائی آیا ہے، غریب ہے، لاو اس کو ہدیہ دے دوں تو کہاں سے دے گی؟ لہٰذا اس کی خواہشات اور جذبات کا احترام کرو، وہ بے چاری ساری زندگی کے لیے تمہاری پابند ہے، رفیقِ حیات ہے، دروازے سے باہر نہیں جاسکتی، ساری زندگی تمہارا ساتھ دے رہی ہے لہٰذا غیروں کی طرح اس سے پائی پائی کا حساب مت لو۔ عورت کی وفاداری اور شوہر کے ساتھ نباہ کرنے پر ایک چشم دید واقعہ عرض کرتا ہوں۔

عورت کی وفاداری کا عبرت انگیز واقعہ

ایک صاحب دوسری عورتوں پر نظریں مارتے تھے اور اپنی بیوی کو کم حسن کی وجہ سے حقیر سمجھتے تھے، ان کو ہیضہ ہوگیا، دست پر دست آرہے ہیں، تو ایسے وقت میں وہی عورت ان کا پاخانہ دھویا کرتی تھی، اس کی اتنی خدمت کی اتنی خدمت کی کہ جب وہ اچھا ہوگیا تو رونے لگا کہ اے میری بیوی تو نے تو میرا پاخانہ دھویا اور جن عورتوں سے میں نظر بازی کرتا تھا ان میں سے آج کوئی کام نہیں آئی، کام تو بس تو ہی آئی۔ ارے میاں! جب بڈھا چار پائی پر بیٹھتا ہے تو بڈھی ہی کام آتی ہے، جب کو ئی بیماری آتی ہے تو بتاو بڈھی کام آتی ہے یانہیں؟ اس لیے ان کو حقیر مت سمجھو، بس آج وعدہ کرلو، اگر آپ حضرات نے اﷲپر نظر کرکے اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے رہنے کا ارادہ کرلیا کہ میرے اﷲ کی بندی ہے لہٰذا اس کا دل خوش کردوتو اختر کا آناوصول ہو گیا ان شاءاﷲ۔

اگر میرا یہ وعظ قبول ہوجائے تو میری یہاں تک آنے کی ساری تکلیفیں، سارا کچھ قبول ہوجائے گا، میں سارے عالم میں یہی باتیں پیش کر رہا ہوں کہ ایک تو نظر کی حفاظت کرو، غیر عورتوں کو اور پُرکشش لڑکوں کو مت دیکھو، ایسے آدمی پر اﷲ کی لعنت برستی ہے، نمبر دو کسی پر ظلم نہ کرو، جانور پالو تو اس پر بھی ظلم نہ کرو اور بیویوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آو، اﷲ کی کسی مخلوق پر ظلم نہ کرو۔ بس یہ آج کی تقریر کاخلاصہ ہے کہ کسی کا برادری خاندان میں کوئی جھگڑا ہوگیا ہو تو اس کو معاف کردو اور سچے دل سے درگذر کردو۔

بس جتنا بھی عرض کیا گیا ہے اﷲ تعالیٰ اس کو قبول فرمالیں، اس پر عمل کی توفیق عطافرمائیں اور ہم سب کو اﷲ والی زندگی عطا فرمائیں۔ اے اﷲ! ہمیں نفس و شیطان کی غلامی سے نکال کر سوفیصد اپنی فرماںبرادری اور اطاعت کی زندگی نصیب فرمادیجیے، ہمارے گناہوں کو معاف کردیجئے۔ یا اﷲ! ہم نے آپ کی کسی مخلوق پر ظلم کیا ہو، کوئی چیونٹی بھی نالائقی اور غفلت کی بنا پر ہم سے کچلی گئی ہو یا بیویوں کوہم نے ستایا ہویا خاندان والوں کو، ماں باپ کو ستایا ہو تو ہماری ان خطاوں کو معاف فرمادیجیے اور ان میں سے جو لوگ زندہ ہیں ان سے ہمیں معافی مانگنے کی توفیق عطا فرمادیجیے، ہم سب کو اپنے حقوق میں کوتاہی پر بھی معاف کردیجیے اور اپنی مخلوق کے حقوق میں کوتاہی پر بھی معاف کردیجئے۔ یااﷲ! آپ مسافر کی دعاوں کو قبول فرماتے ہیں، بس ہم سب کو صاحبِ نسبت بنا دیجئے، کسی کو محروم نہ فرمائیے، سب کو اﷲ والا بنادیجئے، جو خواتین یہاں نہیں ہیں ان کو اور ان کے خاندان والوں کو، ہماری بیویوں کو، بچوں کو اے اﷲ نیک بنادے، ہما ری دنیا بھی بنا دیجئے اور آخرت بھی بنادیجئے، آمین۔

وَصَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلٰی خَیرِخَلقِہ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہ وَصَحبِہ اَجمَعِینَ

بِرَحمَتِکَ یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ
Flag Counter