Deobandi Books

ماہنامہ الابرار فروری 2010

ہ رسالہ

11 - 14
اصلاحی خطوط اور ان کے جوابات
ایف جے،وائی(February 10, 2010)

عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

حال: اما بعد! مودبانہ گذارش یہ ہے کہ بندہ نے آنجناب سے اصلاحی تعلق و خط و کتابت کی اجازت چاہی تھی، الحمدﷲ آپ نے اجازت مرحمت فرمادی لہٰذا بندہ آپ کے سامنے اپنے روحانی امراض میں سے پہلا اور مہلک مرض پیش کررہا ہے وہ یہ کہ بندہ کے اندر بدنظری کی بیماری ہے اس بیماری میں ابتلاءکی وجہ یہ ہوئی کہ بندہ کا بچپن و لڑکپن دونوں برے ماحول میں گزرے، ٹی وی، وی سی آر اور گانا سننا جیسے بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہوا جس کے نتیجہ میں حسین لڑکیوں اور امردوں کی محبت دل میں رچ بس گئی۔

جواب: یہ بدنظری کا مرض عام ہے بدنظری کے علاج کا پرچہ حاصل کریں اور میرا رسالہ عشق مجازی کی تباہ کاریاں تین صفحات ہر روز مطالعہ کریں۔ ہمت سے کام لو، بجز ہمت کے گناہ سے بچنے کا اور کوئی علاج نہیں ہمت سے بڑے بڑے گناہ کی عادت چھوٹ جاتی ہے، حسن فانی سراپا گندگی ہے

گال گورے ہیں کھال گوری ہے

توبہ اندر تو گو کی بوری ہے

حال: بندہ نے درجہ اعدادیہ سے لے کر دورہ حدیث تک کی تعلیم حاصل کی ان ایام میں ہر درجہ میں بندہ کی یہ حالت تھی کہ جب پڑھائی شروع ہوتی ہے تو خوب دل لگا کر پڑھائی میں مشغول ہوجاتا تھا، لیکن جب سہ ماہی، ششماہی امتحانات کی چھٹیاں (جو کہ تین دن کی ہوا کرتی تھی) آتی یا سالانہ امتحان کی لمبی چھٹیاں آتی تھیں تو بندہ کی بدنظری کی بیماری جوش میں آجاتی، لہٰذا ایک سائیکل بھی اپنے پاس موجود ہے اس پر سوار ہوکر گلی گلی، کوچہ کوچہ، مجنون کی طرح چکر لگاتا ہوں تاکہ حسین لڑکیوں اور امردوں کو خوب گھوروں جب اس سے بھی دل نہیں بھرتا تو صدر میں ایک بوہری بازار مشہور ہے جس میں حسین لڑکیاں شاپنگ کے لیے جاتی ہیں وہاں کا چکر لگاتا ہوں تاکہ ان کو خوب گھوروں اور بدنظری کا مزہ لوں، جب اس سے بھی دل نہیں بھرتا تو کراچی شہر کے جتنے فحش مقامات ہیں مثلاً سفاری پارک، ہل پارک، کلفٹن وغیرہ جن میں حسین لڑکیاں وافر مقدار میں تفریح کرنے کے لیے جاتی ہیں اب وہاں کا چکر لگاتا ہوں تاکہ ان کو گھور سکوں۔

جواب: آپ بھی الوﺅں کے سردار معلوم ہوتے ہیں دیکھنے سے کچھ نہیں ملتا صرف دل کو مفت میں تڑپانا ہے ارشاد حکیم الامت ہے کہ بدنظری حماقت کا مرض ہے۔

حال: یہ تو دن بھر کا کام ہوتا ہے اب جب رات آتی ہے تو گھر میں اپنا کمرہ علیحدہ ہے اس میں بستر پر لیٹے لیٹے دن بھر جن حسیناﺅں کو گھورا تھا، دل میں ان کے خیالات لاتا ہوں۔ان خیالات میں رات کے دو تین تک بج جاتے ہیں۔جب اس سے بھی دل کو سکون نہیں ملتا تو بستر کو محبوبہ تصور کرکے مادہ منویہ کا اخراج کردیتاہوں۔

جواب: اس لعنتی فعل سے توبہ کرو ورنہ نامردی پیدا ہوجائے گی اور دماغ کمزور ہوجائے گا جوانی تباہ ہوجاوے گی۔

حال: اس کے بعد جب پڑھائی شروع ہوجاتی ہے تو سارے گناہوں سے توبہ کرلیتا ہوں ساری بدنظری ختم، دینی مجالس میں شرکت کرتا ہوں آپ کی جمعہ والی مجلس میں بھی شرکت کرتا ہوں زبان ذکر اﷲ سے تر ہوجاتی ہے یہاں تک کہ ہم کلاس ساتھی صوفی کا لقب دیتے ہیں وہ تو ظاہر کو دیکھتے ہیں گویا کہ جنید بغدادی بن جاتا ہوں، لیکن جب پھر پڑھائی میں وقفہ ہوجاتاہے تو دوبارہ بدنظری کی بیماری جوش میں آتی ہے لہٰذا اس کے نتیجہ میں گانے بھی سنتا ہوں غرض اب فرشتہ سے بالکل شیطان بن جاتا ہوں۔

جواب:

صورت خضر میں ارتکاب گناہ

گول ٹوپی کو بدنام مت کیجئے

حق تعالیٰ شانہ توبہ صادق عطا فرمائیں، آمین۔

حال: میری یہ حالت اعدادیہ سے لے کر دورہ حدیث تک رہی۔ سال گذشتہ اختتام دورہ حدیث سے کچھ دن پہلے دل میں یہ خیال آیا کہ ”اب تو عالم دین بن رہا ہے کیا عالم بننے کے بعد بھی ان گناہوں میں مبتلا ہوتا رہےگا لہٰذا بندہ نے اس وقت ان گناہوں سے بالکلیہ توبہ کرلی۔ لیکن یہ توبہ بھی صرف عیدالفطر تک باقی رہی (بندہ کا ارادہ چونکہ فراغت کے بعد درجہ تخصص فی الفقہ کا بھی شروع سے تھا) اس بناءپر عید کے بعد شیطان نے یہ دھوکہ دیا کہ تخصص کے داخلہ میں ابھی تو بہت دن باقی ہیں لہٰذا داخلہ تک ان ایام میں آخری دفعہ خوب بدنظری کرلے کیونکہ بعد میں موقع نہیں ملے گا تخصص کے بعد تو دین کی خدمت میں مشغول ہوجانا ہے۔ اس وقت سے توبہ ٹوٹی تھی۔ اب امسال درجہ تخصص فی الفقہ (سال اول) کا طالب علم ہوں۔ اس خط کے لکھنے سے دو دن تک ان گناہوں میں برابر مبتلا ہوتا رہا لیکن اب بندہ نے آپ سے اصلاحی تعلق کی اجازت لے لی ہے اور گذشتہ گناہوں سے بھی بالکلیہ توبہ نصوحہ کرلی ہے لہٰذا آنجناب سے مذکورہ بالا مرض کا علاج مطلوب ہے جس کی وجہ سے بندہ نے اپنی ماضی تباہ کردی، مرض روحانی کے ساتھ ساتھ اب مرض جسمانی میں بھی مبتلا ہوگیا ہے کہ مادہ منویہ کے ضائع کرنے کی وجہ سے جسم کمزور ہوگیا اور اس کا اثر دماغ پر بھی محسوس ہورہا ہے۔ حالانکہ بندہ نے اس مرض کے ازالہ کے لیے کتابیں، رسائل یہاں تک کہ بہت سارے کفارے بھی اپنے اوپر لازم کئے تھے، لیکن اس کے باوجود نجات نہیں ملی، اب بندہ کو یقینا یہ معلوم ہوگیا ہے کہ اپنے آپ کو شیخ کامل کے سپرد کئے بغیر ان امراض سے نجات نہیں مل سکتی لہٰذا اب بندہ اپنے آپ کو آنجناب کے سپرد کرتا ہے آپ جو کچھ علاجاً ارشاد فرمائیں گے بندہ ان پر دل و جان سے عمل کرنے کی کوشش کرے گا، بندہ کے بارے میں آپ خود سوچ رہے ہوں گے کہ کیا عالم دین بھی ایسا کمینہ اور بدمعاش ہوتا ہے؟ جس کے نتیجہ میں اگرچہ میں آپ کی نظروں سے گرگیا ہوں لاکھوں گروں یہ قبول ہے لیکن اﷲ کے سامنے گرنے سے ڈر لگتا ہے اور شرم آتی ہے، اس لیے خدارا بندہ پر شفقت و مہربانی فرماکر اپنے دربار سے نہ نکالیے بلکہ اصلاح فرمادیجئے۔

جواب: گناہ سے دل نہیں بھرتا جس طرح دوزخ کا پیٹ گنہگاروں سے نہیں بھرتا حتیٰ یضع قد مہ فتقول قط قط و فی روایة قط قط قط اسی طرح نفس کا مزاج دوزخ کا ہے گناہ سے تقاضائے گناہ شدید ہوجاتے ہیں المراد بالقدم التجلیات الخاصہ پس نفس میں قدم حق تعالیٰ حاصل کرویعنی تجلی خاص پھر نفس سے قط قط آواز سنو گے انشاءاﷲ تعالیٰ۔ علاج کے لیے عشق مجازی کا پرچہ لے کر اس پر عمل کریں دل سے دعائے اصلاح کرتا ہوں۔حال بتانے سے سالک شیخ کی نگاہوں سے نہیں گرتا بلکہ اس کی قدر بڑھ جاتی ہے کہ واقعی یہ اﷲ کا طالب ہے جب ہی تو اصلاح کے لیے اپنا حال بتا رہا ہے۔ اس خط کو روز پڑھیں۔ محمد اختر عفا اﷲ عنہ

……………………….

انہی صاحب کا دوسرا خط

حال: اما بعد مودبانہ گذارش یہ ہے کہ بدنظری کے علاج کے متعلق جو کچھ آنجناب نے معمولات بتائے تھے اگرچہ ان پر مکمل عمل نہ کرسکا لیکن جس دن سے جناب کے پاس سے جوابی خط لے کر نکلا الحمدﷲ کسی بھی لڑکی یا امرد کو نہیں دیکھا اور نہ ہی اب تک مادہ منویہ ضائع کیا، جب بھی کوئی لڑکی یاامرد سامنے آتا ہے دل تو بہت چاہتا ہے کہ اس کو گھوروں لیکن اﷲ کے فضل سے فوراً نظریں نیچی کرلیتا ہوں اور اب تو یہ حال ہے کہ جب بھی کوئی حسین لڑکی سامنے سے گزرتی ہے تو نظر نیچی کرنے میں ایک مزہ ہی آتا ہے اور سرور محسوس ہوتا ہے کہ نفس کی خلاف ورزی ہورہی ہے، اسی طرح عبادات میں بھی مزہ آرہا ہے۔

جواب: ماشاءاﷲ اللّٰہم زد فزد مبارک ہو یہی حلاوت ایمانی ہے جو حدیث پاک میں موعود ہے اﷲ تعالیٰ استقامت عطا فرماویں، آمین۔

حال: دل چاہتا ہے کہ ایک منٹ کے اندر سارے گناہوں سے توبہ کرکے اﷲ والا بن جاﺅں، ابھی ہر وقت یہ فکر دل میں رچی بسی ہے اور اﷲ سے بھی دعا ہے کہ یا اﷲ آخر کب تک یہ غفلت بس آپ جلد ہی میرے باطن کی مکمل اصلاح فرمادیجئے اور تمام گناہوں سے مجھے آزاد کردیجئے خاص کر اس بدنظری سے۔

جواب: ہمت کا دامن نہ چھوڑیں بس اﷲ والے ہوجائیں گے انشاءاﷲ تعالیٰ۔

حال: بندہ سے معمولات اس وجہ سے چھوٹ رہے ہیں کہ درجہ تخصص ایسا درجہ ہے جو بہت محنت مانگتا ہے ہر وقت دل چاہتا ہے کہ وقت لمبا ہوجائے کیونکہ اکثر اوقات ایک فتویٰ لکھنے میں رات‘ دو تین تک بج جاتے ہیں، اگر جسم کے حق کا خیال نہ ہوتا تو بس رات دن مطالعہ و فتاوی نویسی میں لگے رہوں، اس وجہ سے بندہ سے معمولات چھوٹ رہے ہیں۔ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو بندہ کے معمولات میں کچھ کمی کردیں مثلاً لا الہ الا اﷲ کا ذکر بجائے پانچسو مرتبہ کے ایک سو دفعہ کردیں تو بڑی نوازش ہوگی۔

جواب: صحیح ہے ایک سو دفعہ کرلیں لیکن بس گناہ ایک بھی نہ کریں۔ساری محنت اس پر صرف کیجئے کہ ایک نگاہ بھی خراب نہ ہو، ایک نگاہ کی حفاظت سے تمام گناہوں سے حفاظت رہے گی۔

حال: ذکر سے متعلق بندہ کا کئی سالوں سے یہ معمول چلا آرہا ہے کہ پڑھائی کے وقت کے علاوہ جو فارغ وقت ملتا ہے تو اس کو بجائے ضائع کرنے کے ہر وقت چلتے پھرتے مندرجہ ذیل چار اذکار زبان زد ہیں (۱) سبحان اﷲ و بحمدہ سبحان اﷲ العظیم (۲)استغفار (۳)درود شریف (۴)تیسرا کلمہ۔یہاں تک کہ ہم کلاس ساتھی پوچھتے ہیں کہ یار تم ہر وقت کیا پڑھتے رہتے ہو۔ بندہ نے یہ معمول اس وجہ سے اپنا لیا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہر وقت اﷲ کا ذکر کرتے رہتے تھے، اس لیے جب تک زبان کو ذکر اﷲ سے تر نہ کروں دل میں ایک بوجھ سا محسوس ہوتا ہے اور یہ فکر رہتی ہے کہ زندگی کا کوئی بھی لمحہ ضائع نہ جائے کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ جنت والوں کو دخول جنت کے بعد بھی اس گھڑی کا افسوس رہے گا کہ جو بغیر ذکر کے گزار دیئے ہوں اس وجہ سے اس ندامت سے نجات کےلئے بندہ نے یہ معمول اختیار کررکھا ہے۔

جواب: لیکن تحمل سے زیادہ نہ ہو۔ اگر اختلاج ہونے لگے یا غصہ بڑھ جائے یا نیند کم ہوجائے تو ذکر کم کردیں ،لمحات ضائع ہوتے ہیں گناہ سے۔ بس گناہ نہ کریں تو آپ اصلی ذاکر ہیں خواہ زبان خاموش ہو۔ اگر زبان ذکر سے تر ہے لیکن نگاہ غیر ذاکر ہے، نافرمانی کررہی ہے تو یہ شخص ذاکر نہیں ہے۔ اس زمانے میں اعصاب کمزور ہوگئے ہیںاس لئے تحمل سے زیادہ ذکر نہ کریں۔

حال: اگر آنجناب کی نظر میں اس میں کوئی خرابی محسوس ہو تو براہ کرام اصلاح فرمادیں یا اپنی جانب سے کچھ مختصر اذکار متعین کردیں جن کو کرنے میں پڑھائی میں بھی خلل واقع نہ ہو اور آسانی سے انجام دے سکوں کیونکہ تخصص میں مصروفیت زیادہ ہے بعض اوقات کئی سارے استفتے جمع ہوجاتے ہیں جن کا جواب لکھے بغیر رات کی نیند بھی حرام ہوجاتی ہے۔

جواب: اصلاح تو کردی گئی کہ ذکر میں اعتدال رکھیں، ہروقت ذکر نہ کریں، اصلی ذکر گناہوں سے بچناہے خواہ زبان ذاکر نہ ہو ، جو گناہوںسے بچتا ہے وہ چوبیس گھنٹے ذاکر ہے اور اگر زبان ذکر سے تر ہے لیکن گناہ کا ارتکاب ہورہا ہے تو ایسا شخص ذاکر نہیں ہے لہٰذا گناہوں سے بچنے میں جان کی بازی لگادیں۔

حال: باقی بدنظری کے علاج کے متعلق آگے کیا کرنا ہے وہ بھی بتادیں۔

جواب: جو علاج بتایا گیا ہے اس کو جاری رکھیں۔

……………………….

حال: جناب حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دام اقبالکم العالی، السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ، امید ہے آپ مع الخیر ہوں گے۔ خدا آپ کی عمر اور صحت میں برکت عطا فرمائے، اور مجھ جیسے گم راہوں اور عاصیوں کی روح کو علیٰ منہاج القرآن و السنہ صیقل کرنے کی مزید ہمت اور توفیق دے، جنہیں آج کے مسموم ماحول میں سوائے معاصی و ظلمات کے خزف ریزوں کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

میں نے آپ کے مواعظِ حسنہ ملاحظہ کیے تو گویا ایک نسخہ کیمیا اثر بہ فضل ایزدی ہاتھ آیا۔ میں اپنے ذہن کو خوشامد اور مبالغے سے پاک کرکے اس حقیقت کے اظہار میں کوئی تردد محسوس نہیں کرتا کہ آپ عصر رواں کے رومیؒ ہیں۔ قسام ازل نے آپ کی ذات میں جنیدؒ و بایزیدؒ کا فقر ابو حنیفہؒ کا زہد، ابن تیمیہؒ کا تبحر علمی، رومیؒ کی معرفت اور حضرت تھانویؒ کی دقیقہ شناسی جیسے گہرہائے تابدار جمع کردیے ہیں۔ جبھی تو آپ کے نکتے ملاحظہ کرتے ہوئے غالب کی زبان سے کہنا پڑتا ہے کہ

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے

میں سوال کرتا ہوں کہ از کجا ایں آتشِ عالم فروز اندوختی؟ شومئی قسمت کہ میں آپ کی ذات والا صفات سے بہت دور شوق دیدار میں طپیدہ ہوں آپ سے ملاقات کے لیے ترستا ہوں۔ کالج میں ایف ایس سی کا امتحان دیا ہے، رمضان کے بعد انشاءاﷲ دارالعلوم کراچی میں داخلہ لینے کا عزم ہے۔ اگر مقدر چمک اٹھا تو شاید آپ کی قدم بوسی کی سعادت بھی حاصل ہوجائے۔ وما توفیقی الا باﷲ۔ اپنے چند مسائل تحریر کررہا ہوں۔ امید واثق ہے کہ اپنی گوناگوں مصروفیات اور ضعف و پیرانہ سالی کے باوجود اپنے ایک غائبانہ معتقد کی چارہ گری فرماکر اپنے احسان سے گرانبار و ممنون فرمائیں گے۔ آپ کو یہ تکلیف دینے پر سخت نادم ہوں۔ مگر کیا کروں کوئی چارہ ساز اور غمگسار اس عصر قحط الرجال میں نہیں ملتا

الٰہی کوئی تو مل جائے چارہ گر ایسا

دوائے درد جو لادے حکیم اختر سے

(راقم نے یہ شعر علامہ سیماب وارثیؒ کے ایک شعر کے دوسرے مصرع میں لفظی و معنوی تغیر کے بعد لکھا ہے۔) اب اپنے مسائل تحریر کرتا ہوں۔(۱) میرے دل میں بسا اوقات نہایت ملحدانہ اور زندیقانہ خیالات آتے ہیں مثلاً یہ نظام کائنات بغیر کسی خارجی محرک کے یوں ہی چل رہا ہے، حیات بعد الموت ایک موہوم چیز ہے العیاذ باﷲ تعالیٰ۔ خدارا کوئی علاج بتادیں کہ وساوس کے اس حجرہ ہفت بلا سے خلاصی پاﺅں، ورنہ اگر اسی کیفیت میں مرگیا تو مجھے یقین ہے کہ میرا حشر بر ٹرینڈرسل (عصر جدید کا سب سے ملحد فلسفی۔ وفات ۰۷۹۱ئ) کے ساتھ ہوگا۔ نعوذباﷲ، ثم نعوذ باﷲ۔

جواب: عزیزم سلّمہ السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ۔ آپ کی محبت اور دین کی طلب سے دل مسرور ہوا اللّٰہم زد فزد۔ ملحدانہ و کافرانہ وساوس سے پریشان نہ ہوں بلکہ خوش ہوجائیں کہ یہ ایمان کی علامت ہے۔ صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول ہمیں ایسے ایسے خیالات آتے ہیں کہ جن کو زبان پر لانے سے بہتر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جل کر کوئلہ ہوجائیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ذاک صریح الایمان یہ تو کھلا ہوا ایمان ہے۔ مومن ہی کو ایسے خیالات آتے ہیں کافر کو کبھی وسوسہ نہیں آتا کیونکہ اس کے پاس دولت ایمان نہیں ہے، چور وہیں جاتا ہے جہاں دولت ہوتی ہے۔ حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ وسوسہ دل کے اندر نہیں باہر ہوتا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل کے اندر ہے جیسے مکھی شیشے کے گلاس کے باہر بیٹھی ہوتی ہے لیکن لگتا ہے کہ گلاس کے اندر ہے۔ حکیم الامت نے قسم کھا کر فرمایا کہ واﷲ وساوس کا علاج عدم التفات ہے، ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیں جیسے کتا بھونکتا ہے آپ اس سے الجھتے نہیں اپنا راستہ طے کرتے رہتے ہیں بس سمجھ لیجئے شیطان بھونک رہا ہے، آپ اس طرف التفات ہی نہ کریں یعنی نہ ان خیالات میں مشغول ہوں نہ ان کو بھگانے کی کوشش کریں جیسے بجلی کے تار کو اگر چھوئیں گے تو بھی کرنٹ مارے گا اور ہٹائیں گے تو بھی کرنٹ مارے گا لہٰذا اس کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ کسی مباح کام میں لگ جائیں جب آپ اس کی طرف التفات ہی نہ کریں گے تو خود ہی بھاگ جائے گا۔

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب ایسے خیالات و وساوس آئیں تو کہو آمنت باﷲ و رسلہ میں ایمان لایا اﷲ پر اور اس کے رسولوں پر۔ وسوسہ کا یہ بہترین علاج ہے۔ غرض آپ مطمئن رہیں آپ پکے مومن ہیں۔ وسوسہ ایمان کے لیے بالکل مضر نہیں بس اس کے مقتضا پر عمل نہ کریں۔

حال: نماز اور تلاوت میںسستی اور کاہلی حائل ہوتی ہے اور اس میں غدوبت و حلاوت کا جوہر حاصل نہیں نماز ترک وجود کا مظہر نہیں جس سے کامگاری و کامرانی وابستہ ہے۔ بلکہ محض بے روح سجدہ سجود کا نام بن چکی ہے۔ خدا کے واسطے کوئی تدابیر ایسی بتادیں کہ میری نماز تعبداﷲ کانک تراہ کا سچا مصداق بن جائے۔

جواب: نماز کا حق کس سے ادا ہوسکتا ہے جو ہورہی ہے شکر کریں کہ یہ بھی اﷲ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ خشوع کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ دوران نماز دل کو بار بار پکڑ کر اﷲ کے سامنے حاضر کرتے رہیں جب دل غائب ہوجائے پھر حاضر کردیں ور ایک طریقہ یہ ہے کہ ہررکن میں یہ سوچیں کہ مجھے اسی رکن میں رہنا ہے قیام میں سوچیں کہ مجھے قیام ہی میں رہنا ہے رکوع میں سوچیں کہ مجھے رکوع میں ہی رہنا ہے، سجدہ میں سوچیں کہ مجھے سجدہ ہی میں رہنا ہے اور ایک طریقہ یہ ہے کہ ہر لفظ کو سوچ سوچ کر ادا کریں۔

حال: مجھ میں نہایت گندی اور قبیح بیماریاں پرورش پارہی ہیں مثلاً غصہ، غیبت، دوسرے پر شک اور گمان، خود پسندی، غرور وغیرہ۔ ان کا تدارک کیوں کر ممکن ہے؟

جواب: تمام بیماریوں کا علاج یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے عشق کی آگ دل میں لگا لو جو تمام خس و خاشاک کو جلا دیتی ہے اور یہ آگ کسی اﷲ والے کی صحبت سے لگتی ہے۔ کسی بزرگ کی صحبت اگر میسر نہ ہو تو ان کی کتب کا مطالعہ اور ان سے مکاتبت کریں، اپنے حالات کی اطلاع اور تجویزات کی اتباع کریں۔ ایک خط میں تین امراض سے زیادہ نہ لکھیں۔ فی الحال پرچہ اکسیر الغضب اور علاج الغیبة روزانہ ایک بار پڑھیں۔ پرچہ اصلاحی مکاتبت کی ہدایات کے مطابق خط لکھیں۔ ڈاک کا جوابی لفافہ پتہ لکھ کر خط کے ساتھ رکھیں۔

حال: آپ ماشاءاﷲ چونکہ جسمانی حکیم بھی ہیں اس لیے مجھے مندرجہ ذیل پریشانی کا حل بھی بتائیں، تاکہ میں اپنی صلاحیت کو تحصیل علوم دینیہ میں صرف کروں۔ مجھے کچھ عرصہ سے نسیان کی بیماری لاحق ہونا شروع ہوئی ہے۔ پہلے آیات قرآنی اور دیگر آموختہ بہت جلد اور تادیر ذہن نشین ہوتا تھا، مگر اب یہ صلاحیت بہت کم ہوگئی ہے، جس کے لیے از حد پریشان ہوں کہ ابھی اس عمر (۷۱سال) سے یہ مرض لاحق ہوگیا ہے اور بڑھتا گیا تو زندگی تو جہنم بن جائے گی۔ اس کے لیے ضرور کوئی طبی یا روحانی مشورہ دیں۔ اور آخر میں عرض کرتا ہوں کہ میرے حق میں بحضور رب رحیم ضرور دعا فرمائیں کہ وہ مجھے ان پریشانیوں سے نجات دے۔ اﷲ یقینا آپ جیسے مقرب بندے کی دعا کو قبول فرمائے گا، آمین۔ جواب سے ضرور نوازیں، اﷲ آپ کو ہمت و صحت اور درازی عمر عطا فرمائے، آمین۔

جواب: بچپن میں حافظہ قوی ہوتاہے اور عمر کے ساتھ حافظہ کمزور اور سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے حفظ بچپن میں کراتے ہیں۔ آپ بجائے حفظ کے علم دین حاصل کریں ۔اور ہرفرض نماز کے بعد دماغ پر ہاتھ رکھ کر ۱۱ بار یاقوی پڑھیں۔ طبی مشورہ کسی طبیب سے کریںاحقر نے طب ترک کردی ہے۔ جملہ مقاصد حسنہ کے لیے دل و جان سے دعا ہے۔

کسی شخص کو خواہ وہ کتنا ہی بڑا شاعر یا ادیب ہو خواہ عالم اور مفسر کہلاتا ہو اگراس کی زندگی سنت و شریعت کے خلاف ہے تو اسے علامہ اور رحمة اﷲ علیہ نہیں لکھنا چاہیے۔

……………………….

حال: حضرت والا! اس مرتبہ گھر گیا تو الحمدﷲ آپ کی صحبت کی برکت سے شرعی پردہ کرنے میں کامیاب ہوگیا، حضرت والا گناہوں سے مکمل بچنے کی کوشش کرتا ہوں الحمدﷲ ، اﷲ تعالیٰ کا خوف دل میں ہے الحمدﷲ حضرت والا شروع شروع میں مجھے اﷲ کا قرب جتنا تھا ابھی اتنا نہیں زوال کے طرف گیاہر وقت اﷲ کی طرف دھیان ہوتا تھا کلاس میں بیٹھ کر کسی کے ساتھ بیٹھ کر حضرت والا کیا بتاﺅں ہر وقت اﷲ تعالیٰ کے قرب کے مزے لوٹ رہا تھا۔ ایک الگ دنیا تھی۔ لیکن ابھی وہ حالت نہیں رہی جب بات کرتا تھا دل پر لگتی تھی۔ جب نماز پڑھتا تھا ایسا پڑھتا تھا کہ گویا میں اﷲ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں۔ حضرت والا اتنا یاد پڑتا ہے کہ ایک رات میں سورہا تھا میرے ساتھ کسی نے گلا ملایا میرے دل سے کوئی چیز نکل گیا۔ حضرت والا ابھی بھی گناہ سے بچتا ہوں۔ چاہے مزہ آئے یا نہ آئے لیکن اﷲ تعالیٰ کو ناراض نہیں کروں گا۔ آپ سے خصوصی دعاﺅں کی درخواست ہے۔ میں اپنا پہلا حالت کیسا پاﺅں۔ حضرت والا میں نے اپنے ممانی سے پردہ کیا لوگوں نے اعتراض کیا کہ ممانی سے پردہ نہیں۔ کرنا چاہیے یا نہیں؟

جواب: گناہ سے زوال ہوتا ہے اگر گناہ سے اجتناب کی توفیق حاصل ہے توزوال نہیں۔ کیفیات بدلتی رہتی ہیں کبھی قرب محسوس ہوتا ہے کبھی عبادت میں بہت مزہ آتا ہے اور کبھی نہیں۔ جب مزہ نہ آئے تو کوئی نقصان نہیں اگر گناہوں سے بچ رہا ہے۔ اعمال مقصود ہیں کیفیات مقصود نہیں البتہ استغفار کرے بلکہ استغفار کرنا ہی چاہیے کیونکہ اﷲ کی عظمت کا حق کس سے ادا ہوسکتا ہے۔ اعمال سے ترقی ہوتی رہتی ہے لیکن بعض دفعہ احساس نہیں ہوتا جیسے ہوائی جہاز میں آدمی کو محسوس نہیں ہوتا کہ کس تیزی سے راستہ طے ہورہا ہے۔ ممانی سے پردہ ہے۔

……………………….

چند خطوط جو حضرت والا کے خادم کے نام آئے جن میںشیخ پر کچھ اشکالات و اعتراضات تھے ان کا شافی و مدلل جواب حضرت کے خادم خاص نے دیا سالکین طریق کے لیے چونکہ اس میں ہدایات ہیں اس لیے شائع کئے جارہے ہیں۔

حال: محترم و مکرم مدیر صاحب ،السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ، آپ کا دینی مجلہ” الابرار“خوب ہے۔ انتہائی جامع ، علم و آگہی کے موتیوں سے مزین طباعت اعلیٰ، پسند آیا۔ باطنی پاکیزگی کے لیے ایسے جرائد کا مطالعہ اکسیر کی حیثیت رکھا ہے۔ لیکن انتہائی ادب سے عرض کروں گا کہ صفحہ نمبر ۳۳ پر ”تربیت عاشقان خدا“ کے عنوان کے تحت مولانا عبدالمتین صاحب کے مکتوب سے ذہن میں کئی سوالوں اور شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ عارف باﷲ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کے مقام و مرتبے اور ولایت میں کوئی تشکیک نہیں۔ لیکن مولانا عبدالمتین صاحب کا اندازِ تخاطب اور غلو کی حد تک حضرت کی تعریف انہیں دوجہان میرا دین و ایمان اور پھر حضرت بایزید بسطامیؒ ، حضرت شبلیؒ پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے ہم پلّہ قرار دینا۔ اور پھر کہنا ہزاروں جان تبریزی ہزاروں جان رومی ہزاروں جان بایزیدؒ و جنید و شبلیؒ و جیلانی میں آپ کی جان واحد ….مولانا حیرت ہے کہ مولانا عبدالمتین صاحب نے عہد رفتہ کے نفوس قدسیہ کے نام گرامی کے ساتھ رحمة اﷲ علیہ بھی نہیں لکھا جبکہ مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کے نام کے ساتھ القابات کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔ ایسے مکتوبات نجی حیثیت سے تو ٹھیک ہیں۔ انہیں ”الابرار“ میں نہ چھاپا کریں۔ عوام الناس کے اذہان میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ بس ایسے مکتوبات کے صرف و ہ اقتباسات اور حضرت دامت برکاتہم کے جوابات چھاپا کریں جو عام فہم، سادہ، باطنی پاکیزگی کے مسائل ضروریہ سے آگاہی کے لیے ضروری ہوں۔یہ بھی ممکن ہے کہ مجھ کم فہم اور ناقص العقل کی سمجھ میں مولانا عبدالمتین صاحب کا مضمون نہ آیا ہوآپ میری تسلی کے لیے اس کا جواب ضرور دیں۔ میں فکری طور پر علمائے دیوبند کے مسلک پر سختی سے کاربند ہوں۔ برصغیر پاک و ہند اور پوری دنیا پر مولانا قاسم نانوتویؒ اور ان کے رفقائے کار کا احسان عظیم ہے کہ انہوں نے علم کی شمع روشن رکھی اور ایک جہان کو تابناک کیا۔عرض کرتا چلوں کہ میں ایک عرصے سے مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کی تحریروں کا اسیر چلا آرہا ہوں۔ ان کی خدمت میں دعا کی درخواست ہے۔

جواب: مکرمی جناب ….زید رشدہ السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ، آ پ کا خط پڑھ کر سخت صدمہ ہوا، مولانا عبدالمتین صاحب کے مکتوب پر آپ کے اعتراض پر تعجب ہوا۔ اس کو قلت محبت، اصول شرعیہ اور اپنے اکابر کے مسلک حق سے ناواقفی پر ہی محمول کیا جاسکتاہے۔ شیخ کی تعریف اور اس کو دین و ایمان کہنے کو جو آپ غلو قرار دے رہے ہیں تو حکیم الامت مجددالملت تھانویؒ اپنے شیخ کے بارے میں فرماتے ہیں

جان من جانان من سلطان من

اے توئی اسلامِ من ایمان من

مولانا عبدالمتین صاحب کوئی جاہل نہیں ہیں، شیخ الحدیث اور بڑے عالم ہیں اور اپنے اکابر کے شاگرد تربیت یافتہ اور عمر رسیدہ بہت سے علماءان سے بیعت ہیں۔ آپ نے اعتراض تو کردیا لیکن یہ نہ سوچا کہ کیا اس تعریف پر کوئی شرعی اشکال وارد ہوتا ہے؟ اگرتعریف میں کوئی نعوذباﷲ کسی کو انبیاءسے بڑھا دے یا جن کی فضیلت قرآن و حدیث میں منصوص ہے ان سے بڑھادے اس کا نام غلو ہے۔ نبوت کا دروازہ بند ہوا ہے ولایت کا دروازہ بند نہیں ہوا آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے جیسے اولیاءاﷲ اور نفوس قدسیہ اب پیدا نہیں ہوسکتے تو سن لیجئے کسی نے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمة اﷲ علیہ سے کہا کہ اب امام غزالی ورازی جیسے اولیاءاﷲ نہیں رہے تو حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ کون کہتا ہے کہ نہیں رہے، ہمارے اکابر تو غزالی اور رازی سے بڑھ گئے اور حضرت گنگوہیؒ کے بارے میں فرمایا کہ اس دور کے امام ابو حنیفہ تھے اگر اجتہاد کا دعویٰ کرتے تو نباہ لے جاتے لیکن چونکہ اجتہاد مطلق کا دروازہ بند ہوچکا اس لیے عمر بھر مقلد بنے رہے اور ایک بار قسم کھا کر فرمایا کہ خدا کی قسم آج بھی اولیاءاﷲ کی تمام کرسیاں پُر ہیں جس ولی کا انتقال ہوتا ہے فوراً اس کی کرسی پر اسی درجہ کا ولی اﷲ بیٹھا دیا جاتا ہے اور یہ شعر پڑھا تھا

ہنوز آں ابر رحمت درفشان ست

خم و خمخانہ با مہر و نشان ست

اور شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی رحمة علیہ اﷲ فرماتے ہیں کہ اپنے شیخ کے ساتھ جس کو جس قدر حسن ظن ہوتا ہے اسی قدر اﷲ کا فضل اس پر مرتب ہوتا ہے تو اگر مولانا عبدالمتین صاحب اپنے شیخ کے ساتھ کمال حسن ظن رکھتے ہیں جبکہ وہ حسن ظن حدود شرعیہ سے متجاوز نہیں تو اس میں آپ کو کیا تردد ہے اور آپ کا یہ اعتراض کہ اکابر اولیاءاﷲ کے نام کے آگے رحمة اﷲ علیہ بھی نہیں لکھا تو کیاآپ یہ سمجھتے ہیں کہ نعوذباﷲ یہ بوجہ تحقیر کے ہے؟ جو سلسلہ اولیاءچشتیہ نقشبندیہ قادریہ سہروردیہ میں داخل ہو، وہ تو کیا ایک عام مسلمان کے دل میں بھی کیا ان اکابر کی تحقیر ہوسکتی ہے؟ اگر دل میں ان تمام نفوس قدسیہ کی عظمت ہے تو کیا کاغذ پر رحمة اﷲ علیہ لکھنا ضروری ہے؟ یہ خانقاہ وہ نہیں ہے جہاں جہالت کے اندھیرے ہوتے ہیں یہاں الحمدﷲ علم کا نور ہے یہاں اﷲ کے عشق کا راستہ علم کی روشنی میں طے کرایا جاتا ہے، یہاں سے ان شاءاﷲ نور علم اور نور سنت و شریعت ہی نشر ہوگا بفضلہ تعالیٰ و کرمہ اکابر اہل علم الحمدﷲ پورا اعتماد رکھتے ہیں

فہم کی چاندنی صحبتوں کا دیا

علم کی روشنی عشق کا راستہ

اتباع شریعت میں دیوانہ پن

ہے کراچی میں بھی ایک تھانہ بھون

اگرآپ کااشکال رفع ہوگیا ہو تو فبہا ورنہ اس سلسلہ میں مزید خط و کتابت کرکے نہ اپنا وقت ضائع کریں نہ ہمارا۔

……………………….

حال: عالی مرتبت حضرت الشیخ سیدی و سندی جناب میر صاحب عمت فیوضہم السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ، حضوروالا کی خدمت میں ایک نہایت عامیانہ بات لکھتا ہوں اور حضور والا کے الطاف کریمانہ سے متوقع ہوں کہ بندہ سے درگزر کرتے ہوئے ضرور زحمت فرماتے ہوئے حکم فرمائیں گے۔ وہ یہ کہ حضور والا کے تعارف پر بندہ نے بھائی …. سلمہ کو حضرت والا مخدومی کے مواعظ کی چار کیسٹوں کی قیمت مع 20/= روپے ڈاک خرچ ادائیگی کردی تھی۔ گیارہ دن بعد یادداشت کا عریضہ ان کے پتہ پر تحریر کیا تھا لیکن تاحال مجھے کیسٹیں موصول نہیں ہوئیں۔ بصد ادب عرض ہے کہ حضور والا کی خاطر عاطر پر گرانی نہ ہو تو ان کو حکماً فرمادیں ۔جزاءکم اﷲ احسن الجزائ۔ حضرت مرشدنا و مخدومنا کی خدمت اقدس میں ہدیہ سلام و دعا اور آپ حضور کی صحت و تندرستی و عافیت کی دعا بارگاہِ رب العزت میں پیش کرتے ہوئے حضور والا سے دعا کی درخواست ہے۔ فقط والسلام۔

جواب: مکرمی و علیکم السلام و رحمة اﷲ و برکاتہ، بھائی …. صاحب نے ۲ اپریل کو کیسیٹں ڈاکخانہ سے روانہ کردی تھیں رسید ملفوف ہے۔ اب انہوں نے ڈاکخانہ والوں سے کہا ہے کہ اب تک یہ کیسٹیں کیوں نہیں پہنچیں۔ ابھی جواب نہیں ملا آپ بھی ڈاکخانہ والوں کو رسید دکھا کر مطالبہ کریں۔ آپ کی ایک بے اصولی سے بہت افسوس ہوا کہ آپ نے کسی صاحب سے یہاں معارف القرآن کا مطالبہ کیا۔ یہ سوال جائز نہیں۔ اس سے دین کی بے وقعتی ہوتی ہے۔ اصول تھانہ بھون کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ احقر میر عفا اﷲ عنہ۔

……………………….

انہی صاحب کا دوسرا خط

حال: حضرت عالی مرتبت سیدی و سندی محترم سید میر صاحب مدت فیوضکم اﷲ تعالیٰ ، السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو بہ جمیع اعضائے بدن سلامتی و عافیت سے نوازے اور ہمیں اپنے اولیائے صدیقین میں شامل فرماکر اپنے پسندیدہ دین مبین کو اقصائے عالم میں شائع فرماکر ہدایت کو عام فرمادے، آمین۔ حضور والا کا جواب والا کا مکتوب پہنچا اور موجب احسان و منت ہوا۔ جزاکم اﷲ احسن الجزائ۔ دوسری بات جس سے خانقاہ کا تقدس متاثر ہوتا دکھائی دیا نہایت صدمہ کا باعث ہوا اور جو تصور ہم دورافتادہ لوگوں نے اپنے ذہن میں قائم کیا ہوا تھا اس میں کمی کے احساس نے مستزاد دکھ دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ بھائی…. صاحب کی فروگذاشت کی نشاندہی کرنے کی خطا پر خانقاہ میں ان کا حلقہ اثر سرگرم ہوگیا۔ اور آپ حضور نے جو فیصلہ بندہ کے حق میں صادر فرمایا اس پر توقطعاً تبصرہ نہیں کرتا کیونکہ یہ بات بزرگوں پر حرف گیری اور بدظنی بلکہ بے ادبی پر دال ہے۔ البتہ بہتان طراز صاحب کے بارے میں عرض ہے کہ موت بالکل قریب ہے چونکہ بندہ ترجیحاً بوڑھا ہے سو میں ان کا منتظر رہوں گا کہ وہ اپنا بہتان اور بندہ کے خلاف عجلت میں یکطرفہ فیصلہ ہمراہ لادیں۔ اور وہاں بھی حقائق چھپا کر اپنی چرب زبانی سے اﷲتعالیٰ کو بھی قائل کرلیں۔ حضور والا میں آئندہ تھانہ بھون کے خانقاہی اصول پر کاربند رہنے کی پوری کوشش کروںگا انشاءاﷲ العزیز۔ اس بارے میں حضور والا سے بزاری والہانہ دعا کی درخواست ہے۔ اور بندہ بدل و جان ہر وقت دعا گو ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ تھانہ بھون کی مقدس و عالی رتبہ خانقاہ کے اعمال کے صدقہ میں ہماری اس موجودہ خانقاہ کو ہر طرح سے چغل خوری، عیب گوئی، غیبت اور ستائش باہمی کے متعفن اور گندے ترین گناہ کے عامل اثرات سے تاقیامت منزہ و پاک رکھے آمین اور اس خانقاہ کے جملہ متعلقین کے دلوں میں سچا خلوص، ایثار، ہمدردی، اسلامی و ایمانی تعاون اور بھائی چارہ کے حقیقی ثمرات کے انوار سے منور روحانی و باطنی خوشیاں عطا فرماویں اور ہماری اس خانقاہ کو ہدایت کا سرچشمہ و ذریعہ کے طور پر قبولیت کی توفیق سے نوازے آمین، ثم آمین، بحق سید المرسلین سیدنا ومولیٰنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم و آلہ و عترتہ و اصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین۔ اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ حضور کو صحت و سلامتی اور خوشیوں سے نوازے، آمین۔ دعا کی درخواست۔

جواب: آپ کی تحریر سے جس سے قلت محبت اور اعتراض صاف مترشح ہے سخت صدمہ ہوا۔ آپ کے نزدیک گویا یہ خانقاہ نہیں بلکہ کوئی سیاسی اکھاڑہ ہے جہاں مختلف حلقے بنے ہوئے ہیں اور نعوذباﷲ یہاں چغل خوری، عیب چینی، غیبت اور ستائش باہمی کا متعفن ماحول ہے یا ہونے کاامکان ہے جس سے حفاظت کی آپ دعا فرما رہے ہیں اناﷲ و انا الیہ راجعون۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ الحمدﷲ دنیا بھر کے بڑے بڑے اولیاءاﷲ اور علماءوقت اس خانقاہ کے اور حضرت اقدس دامت برکاتہم کے خوشہ چیں اور شیدائی ہیں کسی معترض کی سوءظنی سے اس خانقاہ کا تقدس ان شاءاﷲ ایک ذرہ بھی متاثر نہیں ہوسکتا، جس چراغ کو خدا روشن کرے وہ پھونکوں سے نہیں بجھ سکتا خصوصاً جو مرید بھی ہو اس کا خانقاہ پر درپردہ اعتراض دراصل شیخ پر اعتراض ہے جو موجب محرومی ہے۔ شکر کیجئے کہ یہ خط آپ نے احقر کو لکھا حضرت شیخ کو نہیںلکھا ورنہ تکدر قلب شیخ سے باطن کا ستیاناس ہوجاتا۔ آپ کی ہمدردی میں کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ سے استغفار کریں کیونکہ معاملہ اﷲ سے ہے۔ آپ کو معارف القرآن کے بارے میں جو احقر نے لکھا تھا اس کو آپ نے …. صاحب کے واقعہ سے متعلق کردیا حالانکہ دونوں باتوں کا کوئی تعلق نہیں۔ احقر نے تو ان صاحب کو سخت تنبیہ کی تھی کہ کیوں تاخیر کی جس پر انہوں نے ندامت ظاہر کی کہ بعض ناگزیر حالات اور پریشانی کی وجہ سے کیسٹ بھیجنے میں تاخیر ہوئی۔ بعد میں کیسٹ ارسال کردیئے گئے جس کی رسید آپ کو روانہ کردی گئی۔ معارف القرآن کی بات ان صاحب نے احقر سے نہیں کہی بلکہ جن صاحب کو آپ نے لکھا تھا انہوں نے احقر سے ذکر کیا تو احقر نے آپ کی محبت میں نصیحت اسی خط میں لکھ دی جس کا آپ نے الزامی جواب دے کر خانقاہ کو ہی متہم کردیا جس کا احقر کے قلب پر ایسا کاری زخم لگا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ احقر کو آپ اب آئندہ کوئی والا نامہ بھیجنے کی زحمت نہ فرماویں۔ اگر معارف القرآن والی بات بہتان طرازی ہے جیسا کہ آپ نے لکھا ہے تو صاف صاف لکھیں تاکہ آپ کا خط دکھا کر مزید وضاحت طلب کی جاسکے اور حقیقت حال واضح ہو۔ اس آخری بات کے علاوہ مزید مکاتبت احقر سے نہ فرماویں۔ احقر میر عفا اﷲ تعالیٰ عنہ۔
Flag Counter