Deobandi Books

ماہنامہ الابرار فروری 2010

ہ رسالہ

12 - 14
صراطِ مستقیم
ایف جے،وائی(February 10, 2010)

ملفوظات حضرت پھولپوریؒ مرتب شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

(گذشتہ سے پیوستہ)

متقین بندوں کو اہل اﷲ کہتے ہیں اہل اﷲ کا ترجمہ زبان محبت میں یہ کرتا ہوں: اہل اﷲ یعنی اﷲ کے گھر والے۔ اسی کو حضرت عارف رومیؒ فرماتے ہیں

ہاں و ہاں ایں دلق پوشان من اند

صد ہزار اندر ہزاراں یک تن اند

مولانا حق تعالیٰ کی طرف سے حکایةً فرماتے ہیں کہ ہاں وہاں یعنی خوب سن لو کہ یہ گدڑی پوش ہمارے خاص بندے ہیں، ہمارے تعلق خاص کی برکت سے ان کا ایک تن لاکھوں انسانوں سے ایک امتیازی شرف رکھتا ہے۔

ضعف قطب از تن بود در روح نے

ضعف درکشتی بود در نوح نے

قطب کا ضعف صرف تن میں ہے یعنی مجاہدات اور کثرت طاعات سے نیز غلبہ محبت سے ان کا جسم تو بظاہر کمزور ہے لیکن باطن میں تعلق مع اﷲ کے فیض سے ایسی قوت رکھتے ہیں جس کے سامنے تمام مادی قوتیں ہیچ ہیں۔ یہ ضعف صرف کشتی میں ہے نوح علیہ السلام میں نہیں ہے۔

ان کے قلب کو چونکہ انعام ولایت کا شرف حاصل ہے اس لیے وہ ہفت اقلیم کی طرف رخ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔

حضرت بڑے پیر صاحبؒ سے جب شاہِ سنجر نے عرض کیا کہ حضرت آپ کی خانقاہ کا خرچ بہت ہے اگر اجازت ہو تو نیمروز کا ملک خانقاہ کے لیے وقف کردوں حضرت بڑے پیر صاحبؒ نے اس کے جواب میں دو شعر لکھ بھیج دیئے

چوں چتر سنجری رُخ بختم سیاہ باد

گر دردلم بود ہوس ملک سنجرم

آں گہہ کہ یافتم خبراز ملک نیم شب

من ملک نیمروز بیک جونمی خرم

بڑے پیر صاحبؒ نے تحریر فرمادیا کہ شاہ سنجر کے چتر کی طرح میرا نصیبہ سیاہ ہوجاوے اگر میرے دل میں ملک سنجر کی ذرا بھی ہوس ہو جس وقت سے کہ حق تعالیٰ نے ہمیں آدھی رات کی سلطنت یعنی تہجد کی نمازوں میں حق تعالیٰ کے ساتھ سرگوشی و مناجات کی لذت عطا فرمائی ہے میں ملک نیمروز کو ایک جو کے عوض میں نہیں خرید سکتا ہوں۔

ملک دنیا تن پرستاں راحلال

ما غلام ملک عشق لازوال

حضرت عارف رومیؒ فرماتے ہیں کہ ملک دنیا تن پرستوں کو مبارک ہو ہم تو ملک عشق حقیقی کے غلام ہیں جس کو کبھی زوال نہیں ہے منعم علیہم بندوں کی یہی شان ہے۔ جب دل باطنی نعمتوں سے بھرا ہوتا ہے تب وہ یہ نہیں کہتا کہ پچاس روپےہ لاﺅ تو وعظ کہوں گا، پچیس روپیہ دو تو سلام پڑھوں گا۔ یہ خوب ہے اﷲ اور رسول کی محبت کا جو پچاس روپے اور پچیس روپے میں بکتی پھرتی ہے۔ ان کے یہ کارنامے بتاتے ہیں کہ یہ منعم علیہم نہیں ہیں یعنی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے انعام یافتہ نہیں ہیں۔

ہمارے حضرت مرشد تھانویؒ تو یہاں تک فرماتے تھے کہ جب کسی عالم کو بہت تکلفات کے لباس میں آراستہ دیکھتا ہوں تو دل میں وسوسہ گذرجاتا ہے کہ یہ شاید خالی خولی ہے یعنی اس کا باطن دین کی حلاوت سے محروم ہے کیونکہ ایمان کامل کی علامت سادگی ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں البذاذة من الایمان سادگی ایمان کامل کی علامت ہے جس کو آخرت کا غم سوار ہوتا ہے اسے دنیا کے نقش و نگار ظاہری بہلاوے نہیں دے سکتے ہیں۔ وما انا من المتکلفین پر مومن کامل کا عمل ہوتا ہے۔ منعم علیہم بندوں کی شان قرآن میں یہی بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ دین کی باتوں کو قوم تک پہنچاتے ہیں اور قوم سے کہتے ہیں کہ

یٰقوم لا اسئلکم علیہ اجراً ان اجری الا علی الذی فطرنی افلا تعقلون (پ ۲۱ سورہ ھود) وہ انعام یافتہ یعنی انعام نبوت سے مشرف بندہ اپنی قوم کو دینی دعوت دے کر یہ کہتا ہے کہ اے میری قوم میں تم لوگوں سے اس پر (یعنی دعوتِ توحید پر) کچھ معاوضہ نہیں مانگتا میرا معاوضہ تو صرف اس کے ذمے ہے جس نے مجھ کو پیدا کیا ہے پھر کیا تمہیں نہیں سمجھتے۔

یہ افلا تعقلون عجیب عبرت کا کوڑا ہے کہ بھلا وہ شخص جو بدون معاوضہ اپنا کاروبار چھوڑ کر اﷲ کی طرف تم کو بلاتا ہے تو باقتضاءعقل تمہیں ایسے شخص کی نسبت بدگمانی کی راہ نہیں ہے، بدگمانی کی راہ تو اس وقت تھی جب کہ وہ تم سے یہ کہے کہ میری فیس ایک رات تقریر کرنے کی مثلاً پچاس روپے ہیں۔ افسوس کہ اس زمانے میں ایسے ہی لوگوں کو عوام اپنا مقتدا اور امام بھی بنائے ہوئے ہیں۔

اذا کان الغراب دلیل قوم سیہدیہم طریق الہالکین

جب کسی قوم کا راہبر کوا بن جائے گا تو عنقریب قوم کو ہلاک ہونے والوں کا راستہ دکھاوے گا۔

اﷲ والا دین کو اس طرح بیچتا نہیں پھرتا ہے، ان کے اندر ایک خاص شان استغناءکی ہوتی ہے اور یہ استغناءتکبر کے سبب نہیں ہوتا ہے بلکہ غلبہ توحید کے سبب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شان استغناءکے باوجود وہ کسی کی دل آزاری نہیں کرتے ہیں ان کے اخلاق ایسے پاکیزہ ہوتے ہیں کہ کتنے بندے محض ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر ہدایت پاجاتے ہیں۔ حضرت مرشدی رحمة اﷲ علیہ کی شان میں رمزی اٹاوی نے خوب لکھا ہے کہ

نہ لالچ دے سکیں ہرگز تجھے سکوں کی جھنکاریں

ترے دستِ توکل میں تھیں استغناءکی تلواریں

اﷲ والا وعظ کہہ کر فیس نہیں لیتا ہے محض اﷲ کے لیے دین کی طرف اﷲ کے بندوں کو دعوت دیتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو ساڑھے نوسو برس تبلیغ کرتے رہے مگر ان کی فیس کیا تھی؟ صرف اﷲ کی خوشنودی کے لیے اپنی قوم سے ہمیشہ فرماتے رہے کہ ویقوم لا اسئلکم علیہ مالا ان اجری الا علی اﷲ (پ ۲۱ سورہ ھود) اور اے میری قوم میں تم سے اس دینی دعوت پر کچھ مال نہیں مانگتا میرا معاوضہ تو صرف اﷲ کے ذمہ ہے۔

صراط مستقیم کو انعام یافتہ بندوں سے ڈھونڈنا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں صراطِ مستقیم کے متعلق بتادیا ہے کہ صراط مستقیم دراصل صراط الذین انعمت علیہم ہے یعنی جن بندوں پر حق تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے انہیں سے سیدھا راستہ مل سکتا ہے اور انعام یافتہ بندوں کی تفسیر حق تعالیٰ نے پانچویں پارے میں فرمادی الذین انعم اﷲ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداءوالصالحین وہ بندے جن پر کہ اﷲ تعالیٰ کا انعام ہوا ہے وہ نبیین ہیں صدیقین ہیں شہداءاور صالحین ہیں۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter