Deobandi Books

ماہنامہ الابرار فروری 2010

ہ رسالہ

7 - 14
ملفوظات حضرت تھانویؒ
ایف جے،وائی(February 10, 2010)

(گذشتہ سے پیوستہ)

حضرت مولانا گنگوہیؒ نے فرمایا کہ جو بات

حضرت حاجی صاحبؒ میں تھی وہ کسی میں نہ تھی

فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا گنگوہیؒ حضرت حافظ محمد ضامنؒ کی بہت تعریف فرمارہے تھے بعد میں فرمایا مگر جو بات اس شخص میں (یعنی حضرت حاجی صاحب قدس سرہ) میں تھی وہ کسی میں نہ تھی حالانکہ گفتگو سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ حضرت حافظؒ کو ترجیح دے رہے ہیں یہ مقولہ خود حضرت مولانا گنگوہی سے سنا ہے۔

حضرت حاجی صاحب بعض اوقات تمام رات

ایک شعر کو پڑھ کر روتے ہوئے گذار دیتے تھے

فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب بعض اوقات تمام تمام رات اس ایک شعر کو پڑھ پڑھ کر روتے روتے گذار دیتے تھے

اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن

گر بدم ہم سرمن پیدا مکن

یہ حافظ عبدالقادر سے سنا ہے۔

حضرت مولانا گنگوہیؒ نے حضرت حاجی صاحبؒ سے کہا کہ ذکر میں رونا نہیں آتا

فرمایا کہ ایک مرتبہ مولانا گنگوہیؒ نے حضرت حاجی صاحبؒ سے عرض کیا کہ مجھے رونا نہیں آتا حالانکہ اور ذاکرین پر کثرت گریہ طاری ہوتا ہے حضرت نے فرمایا ہاں جی اختیاری بات نہیں کبھی آنے بھی لگتا ہے پھر تو یہ حال ہوا کہ جب مولانا ذکر کرنے بیٹھتے تاب نہ ہوتی پسلیاں ٹوٹنے لگتیں پھر حضرت سے عرض کیا کہ حضرت پسلیاں ٹوٹی جاتی ہیں حضرت نے فرمایا کہ ہاں یہ بھی ایک عارضی حالت ہے جاتی بھی رہتی ہے بس پھر گریہ یکدم موقوف ہوگیا پھر حضرت سے شکایت کی حضرت نے فرمایا کہ پسلیاں ٹوٹ جائیںگی رو کر کیا کروگے۔

حضرت حاجی صاحبؒ کے یہاں زیادہ اہتمام اصلاح قلب کا تھا

فرمایا کہ حضرت حاجی صاحبؒ فرماتے تھے کہ اگر ایک لطیفہ بھی منور ہوجائے تو اس کے ذریعے سے سب منور ہوجاتے ہیں حضرت کے یہاں زیادہ اہتمام قلب کا تھا جیسا کہ حدیث میں ہے ان فی الجسد مضغة اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الاوھی القلب۔

حضرت حکیم الامت مجدد الملتؒ نے سلوک کی چند باتیں

حضرت مولانا گنگوہیؒ سے دریافت کی تھیں

فرمایا کہ مولانا گنگوہیؒ سے میں نے تین چار ہی باتیں سلوک کے متعلق پوچھی ہیں بفضلہ تعالیٰ زیادہ کی حاجت نہیں ہوئی اسی کی برکت سے بہت کچھ حل ہوگیئں۔

حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ نے

ایک مشہور عالم کے اعتراض کا مسکت جواب دیا

فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ مراد آباد کے جلسہ میں تشریف لے گئے لوگوں نے وعظ کے لیے اصرار کیا مولانا نے غدر فرمایا کہ مجھے عادت نہیں ہے مگر لوگوں نے نہیں مانا آخر مولانا کھڑے ہوئے اور حدیث فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد پڑھی اور اس کا ترجمہ یہ کیا کہ ایک عالم شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے وہاں ایک مشہور عالم تھے وہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ ترجمہ غلط ہے جس کو ترجمہ بھی صحیح کرنا نہ آئے تو اس کووعظ کہنا جائز نہیں بس مولانا فوراً ہی بیٹھ گئے اور فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ مجھے وعظ کی لیاقت نہیں ہے مگر ان لوگوں نے نہیں مانا خیر اب میرے پاس غدر کی دلیل بھی ہوگئی یعنی آپ کی شہادت پھر حضرت مولانا نے اس بزرگ سے بطرز استفادہ پوچھا کہ غلطی کیا تھی تاکہ آئندہ بچوں انہوں نے فرمایا کہ اشد کا ترجمہ اثقل کا نہیں آتا بلکہ اضر کا آتا ہے مولانا نے فی الفور فرمایا کہ حدیث وحی میں ہے یاتینی مثل صلصلة الجرس وہو اشد علیَّ کیا یہاں بھی اضر کے معنی ہیں وہ دم بخود رہ گئے۔

حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ کااپنے

ایک وعظ کو دوران آمد مضامین عالیہ دفعةً قطع کردینے کا واقعہ

فرمایا کہ ایک مرتبہ مولانا دیوبندیؒ کو میں نے جلسہ دستار بندی مدرسہ جامع العلوم کانپوربلوایا آپ تشریف لے گئے میں نے وعظ کے واسطے عرض کیا فرمایا کہ میرے بیان سے لوگ خوش نہ ہوں گے اور اس سے میرا تو کچھ نہیں جائے گا تمہاری ہی اہانت ہوگی کہ ان کے استاد ایسے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت اس سے تو ہمارا فخر ہوگا کہ ان کے استاد ایسے ہیں۔ فرمایا ہاں اس طرح فخر ہوگا کہ لوگ کہیں گے یہ (حضرت مرشدی مدظلہم) استاد سے بھی بڑھ گئے غرضیکہ بڑی دقت کے بعد منظور فرمایا مولانا کا علم اور علماءکا مجمع خوب طبیعت کھلی ہوئی تھی مضامین عالیہ ہورہے تھے کہ اتنے میں مولوی لطف اﷲ صاحب علی گڑھی تشریف لے آئے ان کو دیکھتے ہی مولانا یکدم بیٹھ گئے مولوی فخر الحسن صاحب نے دوسرے وقت عرض کیا کہ وعظ کیوں بند کردیا تھا فرمایا کہ اس وقت مجھ کو خیال ہوا کہ اب وقت ہے مضامین کا یہ بھی دیکھیں گے کہ علم کیا چیز ہے تو اس طرح سے وعظ میں خلوص نہ رہا اس لیے قطع کردیا۔

حضرت حکیم الامت مجدد ملتؒ کی حد درجہ تواضع وو قناعت

فرمایا کہ مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب کانپوریؒ کا قلب بڑا نورانی تھا میں ان کے پاس بیٹھنے سے ڈرتا تھا کہ کہیں میرے عیوب منکشف نہ ہوجائیں (جامع کہتا ہے اﷲ اکبر کیا ٹھکانا اس تواضع اور انکساری کا) حاجی صاحبؒ فرماتے ہیں

نیک لوگوں کا تو ایسا حال ہے

اور تیرا یہ خبیث اب قال ہے

میرا ثانی کوئی دنیا میں نہیں

عالم و زاہد ولی پاک دیں

حضرت مولانا گنگوہیؒ کے انتہائی ذکی الحس ہونے کا واقعہ

فرمایا کہ حضرت مولانا گنگوہیؒ اس قدر ذکی الحس تھے کہ ایک مرتبہ جب آپ مسجد میں عشاءکی نماز کو تشریف لائے تو فرمایا کہ آج کسی نے مسجد میں دیا سلائی جلائی ہے تحقیق کرنے سے معلوم ہوا ایک صاحب نے مغرب کے بعد جلائی تھی جس کا اثر مولانا کو عشاءکے وقت محسوس ہوا اور آپ کے یہاں عشاءکی نماز قریب ثلث شب کے وقت ہوتی تھی۔

حضرت حاجی صاحبؒ کے ہاں کسی کی شکایت نہیں سنی جاتی تھی

فرمایا کہ حضرت حاجی صاحبؒ کے یہاں کسی کی شکایت نہیں سنی جاتی تھی اور نہ کسی سے بدگمان ہوتے تھے اگر کوئی کہنے لگا کہ اور حضرت بوجہ حلم منع بھی نہ کرتے مگر جب وہ کہہ لیتا تو فرماتے کہ وہ شخص ایسا نہیں ہے (یعنی تم جھوٹے ہو۔ جامع)

حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ نے

نواب رامپور سے ملاقات سے انکار کردیا

فرمایا کہ ایک مرتبہ مولانا محمد قاسمؒ ریاست رام پور تشریف لے گئے نواب کلب علی خان مرحوم نے مولانا کو اپنے پاس بلانا چاہا تو مولانا نے یہ حیلہ کیا کہ ہم دیہاتی لوگ ہیں آداب شاہی سے واقف نہیں اس پر نواب صاحب کا جواب آیا کہ آپ کو آداب سب معاف ہیں آپ ضرور کرم فرمائیے ہم لوگوں کو سخت اشتیاق ہے اس پر مولانا نے جواب دیا کہ تعجب کی بات ہے کہ اشتیاق تو آپ کو ہو اور ملنے میں آﺅں غرضیکہ تشریف نہیں لے گئے۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter