Deobandi Books

ماہنامہ الابرار فروری 2010

ہ رسالہ

6 - 14
اخلاص کی اہمیت
ایف جے،وائی(February 10, 2010)

مولانا محمد افضل صاحب

عن ابی ہریرہ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسمل ان اول الناس یقضیٰ علیہ یوم القیٰمة رجل استشہد فاتیٰ بہ فعرفہ نعمتہ فعرفہا فقال فما عملت فیہا قال قاتلت فیک حتی استشہدت قال کذبت ولکٰنک قاتلت لان یقال جری فقد قیل ثم امربہ فسحب علیٰ وجہہ حتیٰ القی فی النار و رجل تعلم العلم و علمہ وقرات فیک القرآن قال کذبت ولکنک تعلمت العلم لیقال انک عالم و قرات القرآن لیقال ہو قاری فقد قیل ثم امربہ فسحب علیٰ وجہہ حتیٰ القی فی النار و رجل وسع اﷲ علیہ اعطاہ من اصناف المال کلہ فاتی بہ فعرفہ نعمہ فعرفہا قال فما عملت قال ماترکت من سبیل تحب ان ینفق فیہا الا انفقت فیہا لک قال کذبت ولٰکنک فعلت لیقال ہو جواد فقد قیل ثم امربہ فسحب بہ علیٰ وجہہ ثم القی فی النار

(رواہ مسلم) (مشکوٰة المصابیح، کتاب العلم ص ۳۳ قدیمی)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت کے دن سب سے پہلا شخص جس کے خلاف (خلوص نیت کو ترک کرنے کا) فیصلہ کیا جائے گا، وہ آدمی ہوگا جس کو شہید کردیا گیا تھا۔ چنانچہ اس کو (میدان حشر میں) لایا جائے گا پھر اﷲ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائیں گے اور اسے یاد آجائیں گی تو اﷲ تعالیٰ اسے فرمائیں گے کہ تونے ان نعمتوں کے شکر میں کیا اعمال کیے؟ وہ کہے گا کہ میں تیری راہ میں لڑتا رہا یہاں تک کہ شہید ہوگیا تو اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے تونے جھوٹ بولا! کیونکہ تونے اس لیے لڑائی کی تھی تاکہ تجھے بہادر کہا جائے تو یقینا یہ کہا جاچکا پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل کھینچا جائے یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے علم حاصل کیا اور اس کی تعلیم دی اور تلاوت قرآن کی، چنانچہ اسے بھی (دربار خداوندی) میں لایا جائے گا اور اﷲ رب العزت اسے اپنی نعمتیں یاد دلائیں گے اور وہ اﷲ کی نعمتیں پہچان لے گا تو اﷲ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ تو نے ان کے بدلے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے علم حاصل کیا اور اس کی تعلیم کو عام کیا اور تیرے ہی لئے قرآن پڑھا تو اﷲ فرمائیں گے تو جھوٹ بولتا ہے تونے علم اس لیے حاصل کیا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لیے پڑھا تاکہ کہا جائے کہ فلاں قاری ہے چنانچہ تجھے (عالم و قاری) کہا جاچکا۔ پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھیسٹا جائے حتیٰ کہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور تیسرا وہ شخص ہوگا جس پر اﷲتعالیٰ نے (مال و دولت میں) وسعت کی تھی اور اس کو ہر قسم کی چیزوں سے مالا مال کیا تھا اسے بھی اﷲ کے (دربار عالی میں)حاضر کیا جائے گا، اور اﷲ کی نعمتیں یاد دلائی جائیں گی اور وہ تسلیم کرلے گا تو اﷲ تعالیٰ اس سے بھی پوچھیں گے کہ تونے ان نعمتوں کے شکرانہ میں کون سے اعمال اختیار کیے؟ وہ کہے گا کوئی ایسا راستہ جس میں خرچ کرنا تجھے پسند ہو میں نے نہیںچھوڑا اور اس میں اپنا مال خرچ کرڈالا، اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے تو جھوٹا ہے بلکہ تونے وہ سب اس لیے کیا تھا تاکہ کہا جائے کہ فلاں بڑا سخی ہے سویہ کہا جاچکا پھر اسے بھی منہ کے بل گھسیٹنے کا حکم دیا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

تشریح: اس حدیث مبارک کی روشنی میں عوام کے لیے بالعموم اور اہل علم و خواص کے لیے بالخصوص بہت بڑا سبق ہے، ساری زندگی کا جہاد ، قرات و تلاوت قرآن، علم دین کی اشاعت و ترویج ساری زندگی کی خدمات اور خیر کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، صرف نیت کی خرابی کے سبب ضائع اور بے فائدہ ہوجاتا ہے۔ اعمال میں نیت کا مقام، خلوص کی ضرور ت اور ریا سے حفاظت کی اہمیت اس حدیث سے عیاں ہے۔ اپنی جان قربان کردینا، محنت سے کمایا ہوا مال دوسروں کے ہاتھ میں تھما دینا، ہزاروں طالبان علم و عمل کی تشنگی کو دور کرنا یہ معمولی اعمال نہیں ہیں، لیکن دل کی خرابی کی وجہ سے اعضاءسے صادر ہونے والے یہ اعمال اور ریا کی نحوست سے جسے ایک دوسری حدیث میں شرک قرار دیا ہے باہمہ اہمیت و وقعت و بال کا باعث بن جاتے ہیں۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں اخلاص کی دولت عطا فرمائیں اور ہم سب کی حفاظت فرمائیں، آمین۔
Flag Counter