اصلاحی خطوط اور ان کے جوابات
ایف جے،وائی(December 27, 2009)
عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
حال: اﷲ تعالیٰ عزوجل شانہ اپنے بندوں سے امتحان کیوں لیتا ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ کون اچھا عمل کرتا ہے تو کیا اس کو پتہ نہیں؟
جواب: تاکہ بندوں کو دکھائے کہ اﷲ کے نیک بندے ایسے ہوتے ہیں اور نافرمان بندے ایسے ہوتے ہیں اور دونوں کا عمل قیامت کے دن خود ان پر حجت ہو اﷲ تعالیٰ کو تو ازل سے ابد تک کا سب علم ہے۔
حال: بلکہ اس نے تقدیر میں پہلے سے سب کچھ لکھ لیا ہے اور اس اعتبار سے کہ تقدیر میں اس نے خود سب کچھ لکھا ہے تو پھر بے بس انسان عذاب کا کیوںکر مستحق ہے۔ کیونکہ انسان لکھے ہوئے تقدیر پر ہی چلایا جاتا ہے چلتا نہیں۔
جواب: تقدیر کے لکھے کی مثال ایسی ہے جیسے ریل کا ٹائم ٹیبل۔ کیا ٹائم ٹیبل میں لکھے ہوئے کی وجہ سے ریل مجبور ہوتی ہے اسٹیشن پر پہنچنے کے لیے، بلکہ ریل جہاں جہاں جانے والی ہے اپنے علم کے اعتبار سے لکھ دیا گیا ہے لیکن انسان کا علم چونکہ ناقص ہے اس لیے اس میں کبھی تخلف ہوجاتا ہے اور ریل کا ٹائم آگے پیچھے ہوجاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ چونکہ عالمِ مطلق ہیں اور ازل سے ابد تک کا علم رکھتے ہیں لہٰذا بندے اپنے اختیار سے جو اعمال کرنے والے تھے ان کو اﷲ نے لکھ دیا۔ پس تقدیر علم الٰہی کا نام ہے امرِالٰہی کا نام نہیں ہے جو کچھ ہم کرنے والے تھے اﷲ نے اپنے علم کامل کی وجہ سے اس کو لکھ دیا ہے لکھے جانے کی وجہ سے وہ عمل صادر نہیں ہوتا، ہم جو کرنے والے تھے وہ تقدیر میں لکھا گیا ہے۔
حال: دوسرا وسوسہ یہ ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ ماضی پر عالم ہے تو امتحان کیوں لیتا ہے کیونکہ امتحان تو ماضی میں آزمانے کا نام ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ ماضی پر عالم ہے۔
جواب: اس کا جواب تو اوپر دیا جاچکا ہے اﷲ تعالیٰ امتحان اپنے جاننے کے لیے نہیں لیتے کیونکہ ان کو توماضی حال مستقبل سب کا علم ہے اﷲ تعالیٰ امتحان بندوں پر حجت قائم کرنے کے لیے لیتے ہیں کہ تم نے یہ اعمال کیے تھے جن کی یہ جزا یا سزا ہے۔
حال: اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ نعوذ باﷲ اﷲ تعالیٰ ماضی پر عالم نہیں بلکہ قادر ہے یعنی جس وقت ماضی میں وہ جو کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ تو کیا یہ آدمی کافر ہوا۔ اگر کسی کے دل میں صرف وسوسہ آجائے تو یہ بھی کافرہوا۔
جواب: کفریہ عقیدہ رکھنے سے کافر ہوتا ہو، وسوسہ سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔ وسوسہ تو ایمان کی علامت ہے۔ وسوسہ آئے تو بس اس پر عمل نہ کریں آپ پکے مومن ہیں۔ وسوسہ کی مثال کتے کی سی ہے وہ بھونکتا رہے آپ اپنا راستہ چلتے رہیں تو آپ کا کوئی نقصان نہیں لیکن اگر اس سے الجھو گے یا اس کو چپ کرنے کی کوشش کرو گے تو اور بھونکے گا۔ وسوسہ کا علاج عدم التفات ہے یعنی نہ اس میں مشغول ہوں نہ اس کو بھگانے کی کوشش کریں کسی مباح کام میں لگ جائیں۔
حال: کیا اﷲ تعالیٰ کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ کل میرا بندہ میری عبادت کرے گا۔
جواب: اﷲ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے واﷲ بکل شئی علیم۔
حال: تیسرا وسوسہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے یا پسند ہے کہ ساری مخلوق ہدایت پر آجائے۔ لیکن مخلوق آتی نہیں۔ تو کیا اﷲ تعالیٰ اس پر قادر نہیں ہے کہ ساری مخلوق کو ہدایت کرے۔
جواب: بالکل قادر ہے لیکن اگر ہر ایک کو ہدایت دے دیں تو امتحان کس چیز کا ہو۔ دنیاوی امتحان میں کیا ممتحن ہر ایک کو پاس کرنے پر قادر نہیں لیکن گر پاس کردے تو امتحان کس چیز کا۔ اس لیے ہدایت کا اختیار بندوں کو دے دیا کہ جو چاہے عمل کرکے جنت لے لے اور جو چاہے اس پر عمل نہ کرکے جہنم خرید لے۔ ہدایت کو قبول کرنے اور نہ کرنے پر جزا اور سزا ہے فمن یعمل مثقال ذرة خیراً یرہ ومن یعمل مثقال ذرة شراً یرہ۔ بندوں کا عمل ان پر حجت ہوگا۔
حال: توپھر کیوں نہیں کرتا؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کہتے ہیں کہ انسان خود ہدایت پر آجائے تو کیا انسان اﷲ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر کوئی کام کرسکتا ہے۔
جواب: جو ہدایت کا ارادہ کرتا ہے اس کو توفیق بھی عطا فرمادیتے ہیں۔
حال: ان وساوس کے ہاتھوں میری نماز میں وہ مزہ نہیں جو کبھی تھا۔
جواب: یہ اس لیے ہے کہ آ پ کو شیطان نے اس مسئلہ میں الجھا دیا جس پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس پر غوروخوض کرنے کو منع فرمایا گیا ہے۔ بس کہہ دو اٰمنت باﷲ و رسلہ اور مطمئن رہو۔
حال: لہٰذا جہاں تک ہوسکے عقلی دلائل سے رحم فرمائیں تاکہ میرا دل بھی مطمئن ہوجائے اور بعض جاہل لوگوں کا جواب بھی بن جائے۔ ورنہ پھر ہم ویسے بھی کہتے ہیں کہ امنت باﷲ ورسلہ ۔ میں حضرت والا سے بیعت ہوں۔
جواب: عقلی دلائل سے کام نہیں بنتا بے دلیل اﷲ و رسول کے احکام کو ماننے سے کام بنتا ہے ۔ ایمان پر قائم رہنے کا اور ایمان پر مرنے کا یہی راستہ ہے دلائل والا راستہ نہیں۔ آپ لوگوں کی فکر نہ کریں اپنی فکر کریں کوئی آپ سے الجھے تو کہہ دو کہ کسی عالم سے رجوع کرو میں عالم نہیں ہوں۔
……………………….
حال: بندہ مجموعہ رذائل و امراض ہے ، کس مرض کا ذکر کروں اﷲ کاشکر ادا کرتا ہوں کہ اتنے عظیم شخص سے باوجود اپنی نااہلیت و سفاہت کے ملاقات ہوگئی محض اﷲ کا فضل سمجھتا ہوں لیکن حضور والا سے براہ راست بالمشافہ ملاقات کی ہمت نہیں ہوتی اس لیے اکثر خدمت میں حاضر نہیں ہوپاتا۔ بعض سے سنا کہ ہچکچانا بھی عظمتِ شیخ کی دلیل ہے۔ لیکن ایک محترم خلیفہ جو میرے انتہائی مشفق ہیں ان سے سنا کہ نہ ملنا قلت محبت ہے تو یہ جملہ سننے کے بعد اب میرا کوئی ٹھکانہ نہیں الٰہی یہ کہاں آکر اٹک گیا ہوں…. سچ عرض کرتا ہوں میں اپنی نالائقیوں کے سبب ملنے سے کتراتا ہوں الحمدﷲ پاکستان کے تمام بزرگوں سے ملاقات کرتا ہوں کبھی ایسی حالت نہ ہوتی تھی جیسی ہیبت مجھ پر یہاں آکر طاری ہوجاتی ہے۔ معلوم نہیں میری قسمت کا کیا بنے گا۔ مجھے معاف کردیں حضور دعا فرمادیں کہ یہ حجاب پر ے ہٹ جاوے الحمدﷲ مجھے کبھی کبھار لگتا ہے کہ یہ عظمتِ شیخ ہی ہے۔
جواب: عظمتِ شیخ تو مبارک حال ہے لیکن محبت ایسی ہو جو عظمتوں کی رعایت کے ساتھ محبوب کی ملاقات پر مجبور کردے۔ عاشق کا تو یہ حال ہوتا ہے
حیا طاری ہے تیرے سامنے میں کس طرح آﺅں
نہ آﺅں تو دل مضطر کو لے کر پھر کہاں جاﺅں
حال: الحمدﷲ! بدنظری وغیرہ سے اجتناب کرتا ہوں لیکن قلبی میلان میں بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات مبتلا رہتا ہوں اگر کبھی کسی حسین یا حسینہ سے نظر بچا لیتا ہوں تو سوچتا رہتا ہوں کہ وہ کیا سوچ رہا ہوگا یا ہوگی۔ بلکہ اگر کوئی حسین پیچھے کھڑا ہو تو خیالات کا دائرہ پشت کی طرف ہوتا ہے اگرچہ عیناً نہیں دیکھتا۔ اس مرض کا ازالہ چاہتا ہوں۔
جواب: میلان تک تو گناہ نہیں لیکن اس کے بعد اس کا قصداً دھیان یا اس کی طرف توجہ رکھنا اقدام فاسقانہ اور دائرہ رحمت حق سے دور ہونا ہے کیونکہ یہ حسین سے صرف عیناً دوری ہے، قلباً اور قالباً اس سے قرب ہے لہٰذا ایسے مقامات سے جسم کو فوراً دور لے جاﺅ اور قلب کو بھی دور لے جاﺅ یعنی کسی مباح کام یا گفتگو میں لگادو۔
حال: میر ے لیے دعا فرمادیں کہ جس طرح کا دردِ محبت خداوند کریم نے حضور والا کو بخشا ہے حضور نے تو غم اٹھانے میں بہت ہی عمیق قسم کے زخم سہے ہیں اور ہمارا اتنا حوصلہ کہاں بس خداوند کریم اس جلے ہوئے کباب دل کی صحبت کی برکت سے ایک ذرہ دردِ محبت عطا کردے۔
جواب: دل سے دعا ہے۔
حال: مجلس میں حضور والا کی ایک نظر مبارک یکبارگی اچانک ٹکرائی اس کی کسک اور جلن اپنے قلب میں بڑی شدت سے محسوس ہوئی۔ اے کاش! اس نظرِ کرم کی برکت سے میرا بیٹرا پار لگ جائے۔
جواب: آپ کا مزاج عاشقانہ ہے آپ ذرا سی محنت کرلیں ان شاءاﷲ بہت جلد منزل مقصود تک پہنچوگے۔ شیخ سے محبت تمام مقامات کی مفتاح ہے۔
……………………….
حال: بعد تسلیم بعد تعظیم کے گذارش خدمت سراپا خیروبرکت میں یہ ہے کہ مجھ میں بے صبری کا مرض ہے کسی بھی قسم کا صبر مجھ میں نہیں عبادات میں صبر نہیں دل غیر حاضر رہتا ہے کوئی بھی عمل کرتا ہوں اس پر دوام نہیں اور کسی عبادت میں دل نہیں لگتا۔
جواب: بہ تکلف عبادت کرنا بھی صبر ہے دل کو بار بار حاضر کرنا اور نماز و ذکر میں بہ تکلف دل لگانا بھی صبر ہے عبادت مطلوب ہے دل لگنا مطلوب نہیں بہ تکلف دل لگانا مطلوب ہے۔
حال: اور صبر کی یہ قسم تو مجھ میں نہیں یعنی گناہوں سے نفس کو روکنا یہ بڑا ہی مشکل کام ہے کئی کئی روز تک رکنے کے بعد پھر کوئی نہ کوئی غلطی ہوہی جاتی ہے اور گناہ ہوجانے کے بعد اس کی تلافی میں بھی سستی ہوتی ہے اور نہ ہی ندامت ہوتی ہے اور جس طرح توبہ کا حق ہے وہ بھی نہیں ہوتا اور گناہ سے بچنے کے لیے ہمت کو استعمال کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی اور تقویٰ کا عزم دل میں پیدا ہو ایسا بھی نہیں ہوتا۔ حضور نفس کو گناہوں سے بچانا مشکل کام ہے۔
جواب: مشکل ہے اس لیے تو اجر بھی عظیم ہے جب غلطی ہوجائے تو بہ تکلف توبہ کریں خواہ دل میں ندامت نہ محسوس ہو ندامت نہ محسوس ہونے پر جو قلق ہورہا ہے یہ بھی ندامت کی ایک قسم ہے۔ توبہ کا حق یہ ہے کہ بہ تکلف توبہ کریں تقویٰ کا عزم پیدا ہونا ضروری نہیں عزم کرنا ضروری ہے۔
حال: اور مصیبتوں پر بھی صبر نہیں ہوتا دل میں اعتراض پیدا ہونے لگتا ہے اور زیادہ پریشانی میں اس مصیبت کو لوگوں سے شکایت کرنا بھی ہوجاتا ہے اور اگر کوئی شخص میری طبیعت کے خلاف کچھ کہہ دے تو اس پر صبر نہیں ہوتا غصہ بھڑک اٹھتا ہے۔
جواب: اعتراض کا وسوسہ آنا اور ہے اعتراض اور ہے اگر وسوسہ ہو یا اعتراض پیدا ہو تو اپنے اعمال کو یاد کریں کہ جو سر آگ برسنے کے قابل تھا اس پر ہلکی مصیبت آئی اﷲ نے ہلاکت سے بچالیا۔ دل ہلکا کرنے کے لیے اپنے ہمدرد سے اپنی پریشانی کو بیان کرنا بھی شکایت نہیں بس اﷲ تعالیٰ پر اعتراض نہ کرو راضی برضا رہو طبیعت کے خلاف بات اگر حق ہے تو پھر اس پر غصہ کرنا تکبر ہے، لہٰذا اگر سچی بات ہے تو قبول کرو اور اپنی غلطی کا اعتراف کرو۔
……………………….
حال:بعد سلام مسنون بندہ ناچیز تقریباً ۸ سال سے خانقاہ سے متعلق ہے اور مجلس میں بھی آتا جاتا ہے مواعظ بھی پڑھتا ہے اور تین خطوط بھی لکھ چکا ہے جس سے بندہ نے اپنے زندگی میں ایک انقلاب محسوس کیا ہے اور کبھی تو سوچتا ہے کہ اگر یہ تعلق نہ ہوتا تو پتہ نہیں ہمارا کیا حال ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود جب دوسرے پہلوﺅں سے سوچتا ہوں کہ دوسرے لوگ تھوڑی مدت میں کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتے ہیں اور میں وہیں کا وہیں کھڑا ہوں۔
جواب: پچھلی حالت پر غور کرو کہ گناہ کم ہوئے یا نہیں؟ اگر کم ہوئے تو یہ کامیابی نہیں ہے؟ رفتہ رفتہ ہی بندہ اﷲ تک پہنچتا ہے ترقی ہوتی رہتی ہے پتہ نہیں چلتا۔ مطمئن رہیں۔
حال: اس کے وجوہات جو میرے ذہن میں ہیں پہلا تو یہ کہ خط و کتابت کی سستی بہت ہے دوسری یہ کہ بندہ نے تقریباً چار پانچ مرتبہ دس دس دن وغیرہ خانقاہ میں لگائے ہیں لیکن حضرت والا سے جو تعلق پیدا ہونا چاہیے تھا وہ پیدا نہ کرسکا اور جس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ جب حضرت والا سے ملنے کا ارادہ کرتا ہے تو دل میں فوراً یہ بات آجاتی ہے کہ میرے اس عمل سے حضرت والا کو تکلیف ہوگی جس کی وجہ سے حضرت والا سے ملاقات بھی بہت کم ہوجاتی ہے اور دل میں خدمت کا جذبہ بھی ہے لیکن مذکورہ بالا وجہ سے رک جاتا ہوں براہ کرم میری ایسی رہنمائی فرمائیں جس سے میرا استفادہ کرنا آسان ہو اور حضرت والا کو بھی تکلیف اور بار خاطر نہ ہو۔
جواب: ملاقات سے کیوں تکلیف ہوگی جیسے اور لوگ آتے ہیں آپ کو بھی آنا چاہیے اجازت لے کر خدمت بھی کرسکتے ہو ادب کے ساتھ کوئی عمل بار خاطر نہیں ہوتا۔
حال: حضرت والا بندہ اپنے اصلاح کا طالب ہے اور اﷲ تعالیٰ کا تعلق چاہتا ہے اور آپ سے عاجزانہ اور مودبانہ عرض ہے کہ بندہ کی رہنمائی فرمائیں تاکہ وصول الی اﷲ آسان ہوجائے اس میں حضرت والا جو حکم فرمائیں گے بندہ کو انشاءاﷲ مطیع پائیں گے۔
جواب: اصلاح کا یہی طریقہ ہے جو آپ نے اپنا یا ہوا ہے یعنی مجلس میں حاضری، اطلاع حالات اور اتباع تجویزات لیکن پابندی کریں، سستی نہ کریں۔
……………………….
حال: حضرت میں خود محسوس کرتی ہوں معمولات میں وہ اخلاص نہیں رہا۔ کیونکہ معمولات میں کوئی مزہ نہیں آتا مجبوراً کرتی ہوں۔
جواب: مزہ نہ آنا عدم اخلاص کی دلیل نہیں، جب مخلوق کو دکھانے کی نیت نہیں ہے تو اخلاص ہے۔ انشراح نہیں ہے جس میں کوئی حرج نہیں۔
حال: مجھے لگتا ہے میرے سارے تعلق ختم ہوگئے ہیں حضرت شیخ سے عقیدت اور محبت کا تعلق جو پہلے محسوس ہوتا تھا وہ بھی اب اس حد تک محسوس نہیں ہوتا ۔
جواب: اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ کبھی اﷲ تعالیٰ سے تعلق اور محبت بہت محسوس ہوتی ہے اور کبھی کم محسوس ہوتی ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو شیخ سے اگر محبت کم محسوس ہوتو کیا تعجب ہے، شیخ نعوذباﷲ کیا اﷲ تعالیٰ سے زیادہ ہے۔ تعلق کم محسوس ہونا تعلق کم ہونے کی دلیل نہیں۔
حال: حضرت میرے دیور پچھلے دنوں عید پر سعودی عرب سے آئے۔ مجھے ڈرتھا پردہ کیسے کروں گی مشکل ہوگی، ساس ناراض ہوگی۔ الحمدﷲ پردہ بھی ہوگیا اور کوئی ناراض بھی نہیں ہوا۔ کبھی کبھی سامنا ہوگیا جس کی بڑی شرمندگی ہوئی وہ(دیور) ۰۲ دن رہے دو دفعہ ایسا ہوا کہ کھانا ایک ہی دسترخوان پر کھانا پڑا لیکن الحمدﷲ سامنا نہیں ہوا اور میں چند لقموں کے بعد ہی اٹھ گئی۔ اس کے بعد میرے شوہر نے بہت کہا کہ کچھ نہیں ہوتا تم نقاب کرلینا لیکن میں نے ساتھ نہیں کھایا۔
جواب: الحمد ﷲ تعالیٰ۔ جو اﷲ تعالیٰ کو راضی رکھنے کا ارادہ کرتا ہے ا ﷲتعالیٰ مدد فرماتے ہیں ۔
……………………….
حال: حضرت والا یہاں ہمارا خواتین کا مدرسہ ہے جہاں ایک قاری صاحب ہیں وہاں سے میں نے نو پارے ناظرہ پڑھے ہیں اب گھر میں بچوں کی مصروفیت کی وجہ سے مدرسہ نہیں جاسکتی۔
جواب: ہمارے بزرگوں نے عورتوں کا مردوں سے پردہ سے پڑھنا بھی پسند نہیں فرمایا۔اگر پڑھنا ہے تو کسی قاریہ سے پڑھو۔
حال: میں چاہتی ہوں کہ اپنی بچی سے جس کی عمر بارہ سال ہے اسی مدرسہ سے ناظرہ پڑھ چکی ہے اور تیسرا پارہ حفظ کررہی ہے پڑھ لوں لیکن ہمارے قاری صاحب منع کرتے ہیں اور میں خود بھی مطمئن نہیں ہوتی کہ پتہ نہیں یہ غلطیاں صحیح نکالے گی یا نہیں بہت پریشان ہوں کہ پتہ نہیں پورا قرآن پاک کب صحیح ہوگا۔ قاری صاحب کہتے ہیں کہ کم عمر استاد سے قرآن پاک نہیں پڑھنا چاہیے۔
جواب: غلط کہتے ہیں۔ حضرت مفتی محمد حسن امرتسری خلیفہ حضرت حکیم الامت تھانویؒ نے اپنے شاگرد سے قرآن پاک کے حروف کی تصحیح کی لیکن شرط یہ ہے کہ پڑھانے والے کی تجوید صحیح ہو۔
حال: حضرت والا قضائے عمری پہلے پڑھتی تھی اب مصروفیت کی وجہ سے نہیں پڑھ سکتی بہت پریشان ہوتی ہوں کیا کروں۔
جواب: کیسی مصروفیت ! نوافل و وظائف ضروری نہیں قضائے عمری ضروری ہے۔ ہر فرض نماز کے ساتھ ایک وقت کی قضا پڑھ لیں۔ فرض اور وتر کی قضا ہے سنتوں کی قضا نہیں ہے۔
……………………….
حال: حضرت اقدس ایک بات یہ دریافت کرنی تھی کہ اب گھر میں امی کے پاس میں ہوتی ہوں۔ امی کو بازار وغیرہ کبھی جانا پڑے تو لازماً نا چاہتے ہوئے بھی مجھے جانا پڑتا ہے حضرت والا میں دو تین بار گئی ہوں مگر جانے سے اتنی بری حالت ہوتی ہے کہ بیان سے باہر ہے اور حضرت والا مجھے لگتا ہے جیسے کوشش کے باوجود نظر کی حفاظت صحیح نہیں ہوئی عام چلتے پھرتے تو الحمدﷲ نظر جھکی رہی مگر جس دکان سے کچھ خریدا وہاں لگتا ہے جیسے نظر پڑ گئی اور حضرت والا نفس و شیطان دل میں ڈالتے ہیں کہ نظر اچانک پڑی ہے ارادہ نہیں تھا۔
جواب: بس استغفار کرلیں۔ اگر بار بار نظر پڑی تویہ پڑی نہیں نفس نے ڈالی ہے۔ دس نفل پڑھیں۔
حال: حضرت والا ایک بات یہ کہ مجھے لگتا ہے جیسے مجھے نیکی کا بڑازعم رہنے لگا ہے جیسے میں شرعی پردہ کرتی ہوں تو دل چاہتا ہے کہ میرے ہر انداز سے ظاہر ہو کہ میں شرعی پردہ کرتی ہوں حضرت والا یہ مجھے اس لیے لگا کہ ایک دن امی نے مجھے کہا کہ جیسے اور لڑکیاں Skinرنگ کے موزے پہنتی ہیں تم وہ پہن لیا کرو کالے رنگ کے نہ پہنا کرو اس پر میں نے کہا کہ امی جان مجھے ایسا کرنا ایک تو اچھا لگتا ہے دوسرا یہ کہ کالے رنگ کے موزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی پردہ کیا ہے Skinرنگ کے موزے تو لگتا ہے جیسے پہنے ہوئے ہی نہیں۔ حضرت والا تب سے مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں یہ سب شرعی پردہ کرنا دکھاوا ہی نہ ہوجائے…. حضرت والا دعا فرمادیں کہ اﷲ تعالیٰ اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائیں، آمین۔
جواب: اس زمانے میں شرعی پردہ کا اظہار کرنا جبکہ لوگ پردہ کو اچھا نہیں سمجھتے باعث اجر عظیم ہے ان شاءاﷲ تعالیٰ اور یہ دکھاوا مبارک ہے، دکھاوا وہ مذموم ہے جس میں مخلوق کی رضا کا قصد ہواور اکثر لوگ پردہ سے راضی نہیں تو دکھاوا کہاں ہوا۔
حال: حضرت والا دل میں مال و دولت کی محبت لگتی ہے حضرت والا کپڑوں کی محبت، زیب و زینت کی خواہش، پیسے والے کی عزت کرنا، دل ان سب باتوں سے بھرا ہوا لگتا ہے اپنے آپ کو امیر ظاہر کرنے کی خواہش بھی معلوم ہوتی ہے۔
جواب: دنیا کی فنائیت کو سوچا کریں کہ جو چیزیں چھوٹنے والی ہیں ان سے کیا دل لگانا۔ نہ عزت و تعریف کرنے والے رہیں گے، نہ مال و دولت رہے گا نہ میں رہوں گی۔
……………………….
حال: تربیتِ عاشقان خدا میں حضرت ڈاکٹر صاحب کے خطوط/ جوابات پڑھے دوبارہ سہ بارہ پڑھے ایک عجیب سا روحانی سرور ملا۔ میں کافی دنوں تک یہ پڑھتا رہا پھر اس کی فوٹو کاپی کراکے وہ حال/جواب جو مجھے بعینہ اپنے حال پر موزوں لگتے تھے انہیں مارکر سے انڈرلائن کیا ہے مثلاً یہ فقرہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ” ذکر کا ناغہ روح کا فاقہ ہے، معمولات کی ادائیگی کو زندگی کا سہارا سمجھیں تعلق مع اﷲ اور رضائے الٰہی کی دولت کو اپنا سرمایہ، باقی ایام و لیالی خالی ہی خالی ہیں۔ تدبیرِ مناسب، محنت اور دعا کرکے بے فکر رہیں اور نتیجہ کو حق تعالیٰ کے سپرد کرکے راضی بہ رضا رہیں۔ دعا ہی اصل سبب ہے پھر حق تعالیٰ کے فیصلے کے بعد اسباب خود دعا کرنے والے کو تلاش کرتے ہیں۔“ مندرجہ بالا احوال کے علاوہ حضرت ڈاکٹر موصوف کا یہ حال کہ حضرت والا کے والا نامہ کا انتظار رہتا ہے میرے حال کا ترجمان ہے۔ پھر آخر میں قابل رشک مقام وہ ہے جہاں آپ نے ڈاکٹر صاحب موصوف کی شیخ کی نسبت اور عقیدت اور اظہارِ محبت کی جھلک کو پرمسرت انداز میں دعاﺅں سے نوازا اور دعائیں بھی ایسی کہ بار بار پڑھ کر مجھے عجیب تسلی ہوتی ہے کہ ہمارے شیخ ہمارے لیے کتنی دعائیں کرتے ہیں اور بار بار حرمین شریفین کی حاضری کی دعا سے میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
جواب: آپ کے خط سے دل خوش ہوا احقر کے جوابات سے آپ کو جو نفع ہوا یہ احقر سے آپ کی مناسبت کی دلیل ہے اور نفع کا مدار مناسبت پر ہے کمالات پر نہیں۔
حال: خط ہر بار پوسٹ کرتے ہوئے خیال آتا تھا کہ نہ جانے حضرت والا خود خط پڑھتے ہوں گے علالت اور ضعف کی وجہ سے یا نہیں۔ مگر حضرت والا آپ کا یہ فقرہ کہ ”آپکا یہ محبت نامہ یہاں کے بعض خصوصی احباب کو دکھایا بہت مسرور ہوئے۔“ پڑھ کر حضرت ڈاکٹر صاحب موصوف اور ان کے تعلق شیخ کی مزید ترقی کے لیے دعا دل سے نکلی۔ پھر اپنی بھی ہمت بڑھی کہ اتباع شیخ میں ہمت کرو تو محبتِ کاملہ بھی تمہیں عطا ہوگی۔ آپ سے دعاﺅں کی درخواست ہے کہ مجھ جیسے کاہل ناکارہ کو حق تعالیٰ نفس پرستی اور شہوت پرستی کی زندگی سے چھٹکارا دیں اور نفس و شیطان کے شکنجے سے جان چھڑانے کی ہمت و توفیق عطا ہو۔
جواب: جملہ مقاصد حسنہ کے لیے دل و جان سے دعا ہے۔
……………………….
حال: اﷲ پاک سے دعا ہے کہ حضرت اقدس کو کامل صحت نصیب فرمائیں اور آپ کا سایہ ہمارے سروں پہ سلامت رہے اور ہمیں آپ کی صحیح قدر کرنے کی توفیق نصیب ہو آمین۔ حضرت اقدس سے بیعت ہوئے مجھے ۴ سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔ بیعت کے وقت مجھے اس کا مقصد پتا نہ تھا۔ بس سنا کہ یہ سنت ہے تو سوچا کہ چلو سنت پوری کرلوں میں چونکہ دنیاوی تعلیم کافی حاصل کرچکی تھی اور وہ بھی بڑے بڑے اداروں میں ہوسٹلوں میں رہ کر میرے علم میں ایسے بیسیوں واقعات تھے کہ اولاد کس طرح والدین کو بے وقوف بنادیتی ہے۔ آج کل آدمی کس طرح اپنے محرم رشتوں کو پامال کررہے ہیں۔ لڑکیوں کے ساتھ خاندانوں میں کیا ہورہا ہے۔ والدین کو پڑھنے کا بتاکر اولاد کہاں جاتی ہے کیا کرتی ہے کمپیوٹر پر کیا ہورہا ہے میں چونکہ ایک بیٹے کی ماں بن گئی تھی باہر کے حالات کو کافی جانتی تھی اور یہ سوچتی تھی کہ جب یہ بچہ جوان ہوگا (انشاءاﷲ) تو میں اس کو کس طرح صحیح راستہ دے پاﺅں گی اور میں اپنے آپ کو اس بات کا اہل نہیں سمجھتی تھی کہ میں اس کی تربیت اکیلے کرسکوں گی۔ حضرت اقدس جس مضمون پر اتنا اچھا بیان کرتے ہیں وہ مجھے اپنے خوف کے عین مطابق لگا اور میں اس کو گود میں اٹھاکر اتوار کو خانقاہ آنا شروع ہوگئی۔ لیکن میں مسلسل نہیں آتی تھی کبھی آتی کبھی نہیں۔ ایک دھاگے سے زیادہ باریک تعلق میرا آپ سے تھا لیکن اﷲ پاک نے اپنے کرم سے وہ تعلق ٹوٹنے نہیں دیا۔ تقریباً ڈیڑھ سال پہلے میں نے ”سفر نامہ رنگون و ڈھاکہ“ پڑھا جس سے حضرت اقدس کی محبت اور عظمت میرے دل میں جم گئی اور مجھے احساس ہونے لگا کہ مجھے تو بن مانگے کوئی موتی مل گیا ہے۔ اور اب ۸،۹ ماہ پہلے بیان سنتے ہوئے میرے دماغ میں اچانک یہ خیال آیا کہ حضرت والا کیا باتیں کرتے ہیں یہ ”اﷲ کی محبت“ کیا چیز ہے، میں تو سمجھتی تھی کہ میرے پاس تو اﷲ کی ساری نعمتیں ہیں۔ پھر یہ کون سی نعمت ہے جو میرے پاس نہیں۔ میں اتنا عرصہ انتظار کرتی رہی اور آپ کو خط نہ لکھا کہ شاید یہ جذبہ وقتی ہو اور یہ ”محبت کرنے“ کی جھاگ بیٹھ جائے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ شوق کہ میں بھی ا ﷲ سے محبت کروں ابتداءمیں اتنا زیادہ نہ تھا جتنا اب بڑھ گیا ہے۔
جواب: مبارک حال ہے، بہت دل خوش ہوا۔ اﷲ تعالیٰ کی محبت کی لگن ہونا اس کے لیے کڑھن رہنا اور یہ حسرت ہونا کہ مجھے بھی محبت حاصل ہوجائے یہ سب اﷲ تعالیٰ کی محبت میں شامل ہے۔ جس کے دل میں اﷲ کی محبت کا ایک قطرہ آگیا وہ قطرہ بھی غیر محدود سمندر ہے۔
حال: میرے تین بچے ہیں میں صبح ۵ بجے سے رات کو ۰۱،۱۱ بجے تک ان ہی کے کسی نا کسی کام میں مصروف رہتی ہوں میں جب نماز پڑھتی ہوں تو کوئی میرے اوپر چڑھ جاتا ہے اور کوئی سامنے بیٹھ جاتا ہے۔ ذکر بھی ان ہی طرف توجہ میں ختم ہوجاتا ہے۔
جواب: کوئی مضائقہ کوئی حرج نہیں ایسی عبادت اﷲ کے یہاں اور زیادہ مقبول ہے کیونکہ زیادہ مجاہدہ کرنا پڑ رہا ہے۔
حال: لیکن مجھے کبھی بھی یکسوئی ملے تو پتا نہیں کیوں آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں اور یہ ہی کیفیت حضرت اقدس آپ کے یبان سنتے ہوئے بھی اکثر ہوتی ہے۔
جواب: ماشاءاﷲ مبارک حال ہے۔
حال: آپ سے دعا کی درخواست ہے کہ میں جلد از جلد اپنے بچوں کی تمام ذمہ داریوں سے عافیت و کامیابی سے عہدہ براءہوجاﺅں میری آنکھیں ان کی طرف سے ٹھنڈی رہیں اور میں دنیا کی ہر فکر سے آزاد ہوکر یکسوئی کے ساتھ اﷲ سے اُس کا قرب مانگ سکوں۔
جواب: یکسوئی کا انتظار نہ کرو موجودہ حالت بھی قرب کی موجب ہے بلکہ زیادہ باعث قرب ہے۔
حال: آپ اﷲ سے دعا کریں کہ میری زندگی کو اتنی مہلت ضرور ملے، مجھے مرنے سے پہلے کچھ عرصہ ایسا ضرور ملے جس میں میرا دل اﷲ کے درد سے آشنا ہوجائے میں اﷲ کی یاد میں گُم ہوجاﺅں کچھ تنہائیاں کچھ لمحے ایسے ضرور ملیں زندگی تو صرف ایک بار ملتی ہے اﷲ کی یاد میں آہ و فغاں کئے بغیر میں مرنا نہیں چاہتی۔
جواب: یہ اب بھی کرسکتی ہو رونا نہ آئے تو رونے والوں کا منہ بنالو آہ و فغاں کرنے والوں ہی میں شمار ہوگا حدیث پاک میں وعدہ ہے۔ جملہ مقاصد حسنہ کے لیے دل سے دعا ہے۔
Yahoo MailAOL MailTwitterWordPress
This entry was posted on ایف جے،وائی(December 27, 2009) at 12:52 pm and is filed under تربیت عاشقان خدا. You can follow any responses to this entry through the RSS 2.0 feed.
2 Responses to اصلاحی خطوط اور ان کے جوابات
farrukh raza khan on %A %B %e%q, %Y at 11:57 pm
After i read hazaratwalas literature ,i think that i am the most bad person of this earth .i cannot say my feelings in words .please hazrat i need your dua.
حافظ نسيم أحمد صديقي on %A %B %e%q, %Y at 09:15 pm
بسم الله الرحمن الرحيم
محترمي ومكرمي جناب حضرت مولانا حكيم محمد أختر صاحب دامت بركاتهم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ماشاءالله جناب كا وجود مبارك إيك عظيم نعمت هخداوندي هـــ عاشقان خدا كيلئـــ إيك جام هــ رب كريم جناب كي عمر مين بركت عطا فرمائـــــ . آمين