سوانح حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
ایف جے،وائی(December 27, 2009)
مرتبہ: سید عشرت جمیل میر
(گذشتہ سے پیوستہ)
حضرت والا کو بچپن ہی سے مثنوی سے جو شغف تھا اس پر ایک واقعہ یاد آیا۔ حضرت جب مدرسہ بیت العلوم میں پڑھتے تھے تو ایک رات حضرت کے قلب مبارک پر مثنوی کے بعض اشعار کی خاص تشریح وارد ہوئی اور حضرت رات ہی کو فجر کے قریب اپنے شیخ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب رحمة اﷲ علیہ کی خدمت میں پھولپور حاضر ہوئے اور فجر کی نماز پھولپور میں پڑھی۔ مدرسہ بیت العلوم پھولپور سے پانچ میل پر ہے۔ حضرت شیخ حضرت کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ اتنے سویرے کیسے آئے؟ عرض کیا کہ حضرت مثنوی کے بعض اشعار کے معانی دل میں آئے ہیں حضرت کی تصدیق کے لیے حاضر ہوا ہوں کہ میں صحیح سمجھا ہوں یا نہیں؟ حضرت شیخ پھولپوری فجر کے بعد تلاوت ،مناجات واذکار کرتے تھے اور اشراق کی نماز پڑھ کر فارغ ہوتے تھے۔ اس دن حضرت شیخ نے اپنے تمام معمولات ملتوی کردئیے اور فرمایا کہ سناو۔ حضرت نے فجر کے بعد تشریح شروع کی یہاں تک کہ دن کے گیارہ بج گئے تقریباً پانچ گھنٹے حضرت پھولپوری مسلسل سنتے رہے اور حضرت شیخ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے
وہ چشم ناز بھی نظر آتی ہے آج نم
اب تیرا کیا خیال ہے اے انتہائے غم
یہ واقعہ سنا کر حضرت دامت برکاتہم نے یہ شعر احقر کو سنایا تھا۔ حضرت پھولپوری رحمة اﷲعلیہ مثنوی کے عاشق تھے، حضرت کی تشریح سن کر حضرت پھولپوری رحمة اﷲ علیہ نے خوش ہوکر فرمایا کہ بتاو!آج کیا کھاوگے؟ حضرت نے عرض کیا کہ جو حضرت کھلا دیں گے۔ حضرت گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ آج حکیم اختر کے لیے تہری پکاو۔ تہری پیلے رنگ کی ہوتی ہے، چاولوں سے بنائی جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت سے مثنوی کی جو عظیم الشان خدمت لی ہے ایسی شرح کی مثال نہیں ملتی اور یہ سب ان بزرگوں کا فیض ہے جن کی جوتیاں حضرت والا نے اٹھائی ہیں۔
یہ باتیں تو درمیان میں آگئیں میں حضرت والا کے بچپن کے حالات کا ذکر کررہا تھاکہ ماں کی گود سے ہی حضرت کو اﷲ تعالیٰ کی طرف جذب تھا۔ حضرت والا ترجمة المصنف میں تحریر فرماتے ہیں :
”احقر ایام طفولیت ہی سے اپنی روح میں حق تعالیٰ کی طرف ایک خاص جذب محسوس کرتا تھا اور دل کو دنیا سے اچاٹ پاتا تھا
نہ میں دیوانہ ہوں اصغر نہ مجھ کو ذوق عریانی
کوئی کھینچے لیے جاتا ہے خود جیب وگریباں کو
عشق خود در جان ما کاریدہ اند
ناف ما بر مہرِ خود ببریدہ اند
حضرت رومی فرماتے ہیں کہ اپنی محبت کا بیج میری جان میں بو دیا ہے اور اپنی محبت کے شرط ایفاءپر مجھے وجود بخشا ہے“
ترجمة المصنف میں ایک اور جگہ پر تحریر فرماتے ہیں کہ :
”احقر کو رات کی تنہائیوں میں آسمان کی طرف نظر کرنے اور چاند ستاروں کے مناظر سے بہت سکون ملتا اور ان مصنوعات سے صانع حقیقی کی یادمیں دیر تک مشغول رہتا اور پھر تھک کر سو جاتا حضرت مولانا محمد احمد صاحب پھولپوری کا یہ شعر اس حالت کا صحیح ترجمان ہے
ان کے جلووں کی رنگیں بہاریں
دیکھتے دیکھتے سو گئے ہم
بچپن میں حضرت کی دینی فہم کا ایک واقعہ
حضرت کے بھانجے محمد احمد صاحب نے یہ واقعہ سنایا جو ان کی والدہ صاحبہ نے ان کو سنایا تھا کہ ہماری دادی مُردوں کو ایصالِ ثو اب کے لیے فاتحہ دیا کرتی تھیں اور مسجد کے موذن کو بلا کر فاتحہ دلواتی تھیں اور اس کو کھانا بھی دیتی تھیں۔ حضرت اگرچہ اس وقت بچے تھے لیکن دادی کو منع کرتے تھے کہ فاتحہ نہ دیا کریں لیکن وہ نہیں مانتی تھیں۔ ایک بار جب انہوں نے کھانا پکا کر موذن کو فاتحہ کے لیے بلایا تو حضرت نے دادی سے کہا کہ یہ موذن ثواب اپنے مُردوں کو پہنچاتا ہے آپ کے مُردوں کو نہیں پہنچاتا آپ کا سارا کھانا بے کار جاتا ہے۔ یہ سن کر دادی نے موذن کو بھگا دیا او رگھر سے یہ بدعت ہمیشہ کوختم ہوگئی۔
تحصیل طب یونانی
ترجمة المصنف میں حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ ” درجہ ہفتم پاس کرنے کے بعد والد صاحب کا تبادلہ پھر ضلع سلطان پور ہوگیا اور وہاں احقر نے جامع مسجد کے خطیب مولانا قاری صدیق صاحب سے فارسی شروع کی۔ کریما مکمل اور گلستاں کے کچھ باب پڑھ کر احقر نے پھر دیوبند جانے کی اجازت چاہی مگر والد صاحب نے میری مرضی کے خلاف طبیہ کالج الٰہ آباد میں داخل کردیا اور فرمایا طب سے فارغ ہوکر عربی شروع کرنا۔ بڑی مشکل سے پھر یہ دن گذارنے پڑے ۔ اس وقت الٰہ آباد میں حضرت مولانا سراج احمد صاحب امروہوی اسٹیشن کے قریب عبد اﷲ والی مسجد میں درس تفسیر دیا کرتے تھے احقر وہاں حاضری دیا کرتا ۔ اس محلہ پر جہاں قیام تھا تقریباً ایک میل پر کچھ صحرا تھا وہاں ایک مسجد تھی جو جنوں کی مسجد مشہور تھی۔ اسی مسجد میں گاہے گاہے حاضر ہوتا اور مناجات مقبول ہمراہ لے جاتا اور اس مسجدمیں خوب تنہائی کا موقعہ پا کر اپنے رب سے دونوں جہاں کا دکھڑا رو لیا کرتا
دونوں جہاں کا دکھڑا مجذوب روچکا ہے
اب اس پہ فضل کرنا یارب ہے کام تیرا“
حضرت نے فرمایا طیبہ کالج میں داخلہ اس وقت مجھے بہت گراں گذرا تھا لیکن میرے والد صاحب نے فرمایا تھا کہ میں تمہیں طب کی تعلیم اس لیے دے رہا ہوں تا کہ دین تمہارا ذریعہ معاش نہ ہو اور دین کی خدمت تم صرف اﷲ کے لیے کرو۔حضرت فرماتے ہیں کہ آج والد صاحب کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ واقعی اس سے بہت فائدہ ہوا کہ آج کوئی اس قسم کا الزام نہیں لگا سکتا کیونکہ میرا اپنا دواخانہ اور کتب خانہ ہے۔ طب پڑھنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے یہ اندازہ ہوگیا کہ اپنے احباب کو اس قدر وظیفہ و ذکر بتایا جائے کہ جس سے وہ غیر معتدل نہ ہوں کیونکہ آج کل اکثر لوگ اعصابی دباو اور ڈیپریشن میں مبتلاءہیں اس لیے مختصر ذکر بتاتا ہوں کیونکہ ولایت کثرت ذکر پر نہیںگناہوں سے بچنے پر موقوف ہے۔ اس سے الحمد ﷲ احباب کو روحانی وجسمانی دونوں فائدے ہیں۔
الٰہ آباد میں حضرت کو حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب کے بارے میں علم ہوا جو حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی کے سلسلہ کے خلیفہ تھے اور بڑے صاحب نسبت بزرگ تھے، ان کی زیارت کے لیے حضرت ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مولانا علمائے ندوہ کے محضر میں بڑے درد سے یہ شعر پڑھ رہے تھے
دل مضطرب کا یہ پیغام ہے
ترے بن سکوں ہے نہ آرام ہے
تڑپنے سے فقط ہم کو کام ہے
یہی بس محبت کا انعام ہے
جو آغاز میں فکر انجام ہے
ترا عشق شاید ابھی خام ہے
حضرت نے فرمایا کہ مولانا کو دیکھ مولانا سے بہت محبت ومناسبت محسوس ہوئی مولانا سراپا محبت سراپا جمال تھے اور سینہ میں درد بھرا دل رکھتے تھے۔ حضرت طبیہ کالج سے فارغ ہوکر روزانہ شام پانچ بجے سے رات کے گیارہ بجے تک مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمة اﷲ علیہ کی خدمت میں رہتے ۔ پندرہ سال کی عمر سے اٹھارہ سال کی عمر تک تین سال مسلسل شاہ محمدا حمد رحمة اﷲ علیہ کی خدمت میں رہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ میں تو اﷲ والوں کی گود میں بالغ ہوا ہوں۔ کالج سے فارغ ہو کر میرے ساتھی شام کو دریائے جمنا پر جاتے تھے نہاتی ہوئی عورتوں کو دیکھنے اور میں مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمة اﷲ علیہ کی خدمت میں جاتا تھا۔ مولانا بھی حضرت سے بہت ہی شفقت اور محبت فرماتے تھے۔ کبھی حضرت مولانا اپنے وطن پھولپور تشریف لے جاتے تو حضرت آپ کی ملاقات کے لیے پھولپور حاضر ہوتے اور وہاں قیام فرماتے تو مولانا گھر سے اپنا بستر لے کر مہمان خانے میں تشریف لے آتے اور فرماتے کہ یہاں بڑے بڑے علماءآتے ہیں میں کسی کے لیے اپنا بستر باہر نہیں لاتا لیکن صرف آپ کے لیے گھر سے باہر آکر سوتا ہوں۔ ایک بار الٰہ آباد سے حضرت مولانا محمد احمد صاحب نے حضرت کو کراچی خط بھیجا تھا جس میں لکھا تھا کہ آپ مجھ سے جیسی محبت کرتے ہیں دنیا میں ایسی محبت مجھ سے کوئی نہیں کرتا ۔ حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب رحمة اﷲ علیہ نے مفتی محمود الحسن گنگوہی مفتی اعظم ہند رحمة اﷲ علیہ سے پوچھا کہ ہندوستا ن میں سلسلہ نقشبندیہ میں سب سے قوی النسبت بزرگ کون ہیں تو حضرت مفتی صاحب نے جواب دیا کہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب۔ حضرت نے اپنے شیخ اوّل حضرت پھولپوری سے عرض کیا کہ ایک بزرگ مولانا شاہ محمد احمد صاحب ہیں جن کی خدمت میں میں بچپن سے حاضر ہوتا ہوں اﷲ کی محبت میں بالکل جلے بھنے ہیں تو حضرت پھولپوری نے فرمایا کہ ہم بھی ان سے ملیں گے۔ حضرت پھولپوری مولانا سے ملنے پھولپور تشریف لے گئے (مولانا شاہ محمد احمد صاحب کے وطن کا نام بھی پھولپورہے) اور مولانا سے ملاقات کی مولانا جب چائے لینے گھر کے اندر تشریف لے گئے تو حضرت پھولپوری نے زمین کی طرف دیکھا پھر آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ مولانا محمد احمد صاحب کا نور مجھے زمین سے آسمان تک نظر آرہا ہے اور ایک بار فرمایا کہ مولانا محمد احمد صاحب سراپا محبت ہیں۔ آغاز جوانی ہی میں حضرت والا کو ایسے بزرگ کی صحبت نصیب ہوئی جو اﷲ کی محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ مولانا زبردست عاشق خدا تو تھے ہی لیکن اﷲکے عاشق تو بہت دیکھے مگر اﷲ کے بندوں سے ایسی محبت کرنے والا نہیں دیکھا۔ مولانا کے مہمان اور مریدین جب آتے تھے تو حضرت بہت خوش ہو جاتے تھے اور کچھ دن رہ کر جب وہ رخصت ہوتے تھے تو جہاں تک وہ نظر آتے تھے مولانا دور تک ان کو دیکھتے رہتے تھے اور ان کے رہنے کی جگہ اور ان کے برتنوں کو دیکھ کر اشکبار ہوتے تھے کہ یہاں میرے مہمان رہتے تھے اور ان برتنوں میں کھاتے تھے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ مولانا کی مجلس میں میں نے کبھی دنیا کا ذکر نہیں سنا، ہر وقت یادِ الٰہی میں سرشار اور اﷲ کی محبت میں مولاناکے درد بھرے اشعار، مولانا کی مجلس اشعار کی مجلس ہوتی تھی۔ حضرت مولانا کی آواز بھی ایسی درد ناک تھی جیسے بانسری بج رہی ہو۔ ہر بزرگ کے یہاں نسبت منتقل ہونے کے طریقے مختلف ہیں، مولانا کے یہاں نسبت اشعار سے منتقل ہوتی تھی۔ بعض دفعہ ایسا ہوا ہے کہ عشاءکے بعد اشعار کی مجلس شروع ہوئی مولانا کیف ووجد کے عالم میں اشعار پڑھ رہے ہیں اور سامعین پر بے خودی طاری ہے یہاں تک کہ نصف شب ہوگئی لوگوں نے تہجد پڑھی تہجد کے بعد پھر مجلس شروع ہوگئی اور حضرت فجر تک درد بھرے ترنم سے اشعار پڑھتے رہے لوگوں نے مسجد میں جماعت سے نماز ادا کی اور پھر آگئے اور پھر مجلس شروع ہوگئی اور اشراق کی نماز پڑھ کر لوگ گھر گئے اور نصف شب کے قریب اگر کسی نے گھڑی دیکھ لی تو مولانا کو سخت تکلیف ہوتی تھی اور فرماتے تھے کہ نصف شب کے بعد جب مجھ پہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو لوگوں کو نیند آنے لگتی ہے اور بہت درد بھرے انداز میں یہ شعر پڑھتے
داستاں عشق کی ہم کس کو سنائیں آخر
جس کو دیکھووہی دیوار نظر آتاہے
اور حضرت سے فرماتے کہ میری مجلس میں کبھی آپ کی آنکھ نہیں جھپکتی۔
حضرت والا کو اﷲ تعالیٰ نے شعر وسخن کا فطری ذوق عطا فرمایا ہے اس کی تربیت مولانا محمد احمد کی صحبت سے ہوئی لیکن حضرت فرماتے ہیں کہ شاعری میں میرا کوئی استاد نہیںمیںنے کسی سے ردیف قافیہ نہیں سیکھا شاعری میں میرا درد میرا ستاد ہے۔ چنانچہ آغاز جوانی میں حضرت کی زندگی کا پہلا شعر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی کہنہ مشق استاد کا ہے اور حضرت کے سینہ میںمنجانب اﷲ جو آتش محبت ودیعت ہوئی ہے اس کا ترجمان ہے، وہ شعر یہ ہے
درد فرقت سے مرا دل اس قدر بے تاب ہے
جیسے تپتی ریت میں اک ماہی بے آب ہے
پاکستان آنے کے سولہ سال بعد جب حضرت اپنے شیخ ثانی حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمةاﷲ علیہ کی خدمت میں پہلی بار ہندوستان گئے تو شاہ ابرار الحق صاحب نے تمام اکابر اور دیگر احباب ومتعلقین کو اطلاع کر دی حضرت مولانا محمد احمد صاحب الٰہ آباد سے تشریف لائے اور مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی مغربی بنگال میں تھے جہاں ان کی آنکھوں کا آپریشن ہوا تھا لیکن مفتی صاحب تشریف لائے اور حضرت سے فرمایاکہ ڈاکٹر مجھ کو سفر سے منع کررہے تھے کہ سفر نہ کریں آنکھ کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے لیکن میں آپ کی محبت میں آگیا۔
ہردوئی میں قیام کے دوران حضرت مولانا ابرار الحق صاحب نے حضرت کو وعظ کہنے کا حکم دیا۔ حضرت مفتی محمودحسن صاحب بھی مجلس میں موجود تھے حضرت نے فرمایا کہ مفتی صاحب کی موجودگی میں ان کے علم کے اکرام کی وجہ سے مجھے جھجھک ہورہی تھی۔ میںنے مفتی صاحب سے عرض کیا کہ حضرت آپ اپنے کمرے میں تشریف لے جا کر آرام فرمائیں تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ اچھا آپ مجھے اپنے وعظ سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ غرض حضرت نے بیان فرمایا جس سے تمام سامعین پر وجد طاری تھا اور اکابر بھی اشکبار تھے۔ بیان کے بعد حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب نے حضرت کو سینہ سے لگالیا اور فرمایا کہ اﷲ کسی کو زبان دیتا ہے تو دل نہیں دیتا کسی کو دل دیتا ہے تو زبان نہیں دیتا۔ آپ کو مبارک ہو کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دل اور زبان دونوں عطا فرمائے ہیں۔
ایک او رسفر میں حضرت جب ہردوئی تشریف لے گئے تو مولانا محمد احمد صاحب سے حضرت والا کے تعلق کی وجہ سے شیخ نے حکم دیا کہ الٰہ آباد میں مولانا محمد احمد صاحب آپ کے منتظر ہیں جا کر ان سے مل آئیے۔ مولانا نے وہاں حضرت کا بیان کرایا۔ بیان کے بعد فرمایا کہ روح المعانی کے حوالوں سے توبہت سے علماءبیان کرتے ہیں لیکن آپ جو روح المعانی سے بیان کرتے ہیں اس کا مزہ ہی کچھ او رہے یعنی اﷲ تعالیٰ نے جو درد آپ کو عطا فرمایا ہے وہ روح المعانی کی لذت بڑھا دیتا ہے۔
اور مکہ معظمہ میں ایک بار حج کے موقع پر حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب کا ساتھ ہوگیا۔ حج کے بعد اپنے حجرہ میں مولانا کی طبیعت کچھ مضمحل تھی حضرت سے فرمایا کہ کچھ سنائیے۔ حضرت نے مثنوی کے اشعار کی تشریح فرمائی تو مولانا شاہ محمد احمد صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ میرے سر میں شدید درد تھا آپ کی تقریر سے بالکل جاتا رہا اور طبیعت بالکل ٹھیک ہوگئی۔
خیر میں تو حضرت والا کے زمانہ طفولیت کے حالات بیان کررہا تھا کہ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ترتیب باقی نہ رہی اور ترتیب مقصود بھی نہیں،مقصود تو حضرت والا کے حالات بیان کرنا ہے ۔
حکیم الامت تھانوی سے سلسلہ مکاتبت برائے بیعت
طبیہ کالج کے زمانے میں حضرت حکیم الامت مجدد الالملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اﷲ علیہ کا وعظ راحت القلوب مل گیا جس کے مطالعہ سے حضرت حکیم الامت سے عقیدت ہوگئی اور طے کیا کہ اسی سلسلہ میں داخل ہونا ہے۔ ترجمة المصنف میں حضرت تحریر فرماتے ہیں:
” اسی زمانے میں حضرت تھانوی رحمة اﷲ علیہ کا ایک وعظ راحت القلوب ہاتھ لگ گیا۔ اس کے مطالعہ نے میری بڑی رہبری کی اور صحیح راہ دکھا دی حضرت اقدس تھانوی رحمة اﷲ علیہ سے بیعت ہونے کے لیے سلسلہ مکاتبت شروع کیا۔ افسوس کہ حضرت اس وقت اپنی زندگی کے آخری ایام میں تھے مولانا شبیر علی صاحب نے لکھا کہ حضرت والا علیل ہیں خلفاءمیں سے کسی مصلح کا انتخاب کرلیا جاوے چند دن بعد خبر معلوم ہوئی کہ حضرت حکیم الامت تھانوی کا وصال ہوگیا۔ طبیہ کالج میں چھٹی ہوگئی۔ روتا ہوا گھر آیا اور آہ و بکا کے ساتھ کچھ تلاوت کر کے ایصال ثواب کیا۔ دل پر سخت صدمہ تھا۔ مثنوی نالہ غمناک پڑھنا شروع کی اور خوب جی بھر کے رویا۔ صرف دو اشعار اس کے اب بھی یاد ہیں
جو تھے نوری وہ گئے افلاک پر
مثل تلچھٹ رہ گیا میں خاک پر
بلبلوں سے گھر کیا گلشن میں جا
بوم ویرانے میں ٹکراتا رہا
(جاری ہے۔)