صراطِ مستقیم
ایف جے،وائی(December 27, 2009)
ملفوظات حضرت پھولپوریؒ مرتب شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
(گذشتہ سے پیوستہ)
ہماری محبت کا تقاضا تھا کہ ہم تمہیں عالمِ ارواح سے ایک مدت عمر کے لیے دنیا میں بھیج دیں تاکہ تمہاری عبدیت پر ہم اپنی ولایت یعنی دوستی کا تاج رکھ دیں۔ کیونکہ ہماری دوستی کے لیے دو شرطیں ہیں (۱)ایمان بالغیب اور (۲)تقویٰ۔ ارشاد فرماتے ہیں
الا ان اولیاءاﷲ لاخوف علیہم ولا ہم یحزنون الذین اٰمنوا وکانوا یتقون۔
﴾بیان القرآن پارہ ۱۱ سورہ یونس﴿
ترجمہ: یاد رکھو اﷲ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ناک واقعہ پڑنے والا ہے اور نہ وہ کسی مطلوب کے فوت ہونے پر مغموم ہوتے ہیں یعنی اﷲ تعالیٰ ان کو خوفناک اور غمناک حوادث سے بچاتا ہے اور وہ اﷲ کے دوست وہ ہیں جو ایمان لائے اور معاصی سے پرہیز رکھتے ہیں یعنی ایمان اور تقویٰ سے اﷲ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔
ہمارے مرشدی حضرت تھانویؒ نے اس مقام پر فائدہ کے تحت تحریر فرمایا ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے دوستوں سے جس خوف اور جس غم کی نفی فرمائی ہے اس خوف سے خوف حق اور غم سے غمِ آخرت مراد نہیں ہے بلکہ دنیوی خوف اور غم کی نفی مراد ہے جس کا احتمال دین کے مخالفین سے ایذاءرسانیوں سے ہوسکتا ہے وہ مومنین کاملین کو نہیں ہوتا کیونکہ ہر وقت ان کو اﷲ تعالیٰ پر اعتماد ہوتا ہے، ہر واقعہ کی حکمت کا اعتقاد ہوتا ہے۔
(ازتفسیر القرآن)
اس آیت میں یتقون کا صیغہ مضارع کا ہے جس کے اندر خاصیت تجدد استمراری ہوتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اولیاءاﷲ خوفِ حق سے اور غمِ آخرت سے ہروقت ڈرتے رہتے ہیں۔
اس آیت میں حق تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس بات کا پتہ بتادیا ہے کہ ہماری ولایت یعنی دوستی کا شرف تم کو کب نصیب ہوگا جب تم ان دو شرطوں کو پورا کردکھاﺅ گے اور وہ دو شرطیں کیا ہیں ایمان بالغیب اور تقویٰ۔
نحن اولیاءکم فی الحیوة الدنیا وفی الاٰخرة
حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اور ہم تمہارے رفیق تھے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی رہیں گے۔
اس آیت میں ولایت حیات دنیوی کی تقدیم سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کی رفاقت اور ولایت کے لیے دنیا کی حیات اول ظرف ہے یعنی اولاً دنیا میں ایمان بالغیب اور تقویٰ اختیار کرکے حق تعالیٰ کی ولایت یعنی دوستی سے بندہ مشرف ہوتا ہے پھر اسی عالمِ ناسوت کی یعنی دنیا کی دوستی آخرت میں بھی کام آتی ہے یعنی ولایت فی الآخرة دراصل ولایت فی الحیوٰة الدنیا ہی کا ثمرہ ہوتی ہے جو دنیا میں حق تعالیٰ کا ولی نہ ہوگا وہ آخرت میں بھی حق تعالیٰ کا ولی نہ ہوگا۔ ہمارے حضرت مرشدی تھانویؒ نے ارشاد فرمایا تھا کہ نبوت کا دروازہ بند ہوا ہے ولایت کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے۔ نبوت محض وہبی نعمت ہے اور ولایت کو بندوں کے اختیار میں دے دیا ہے کیونکہ ایمان اور تقویٰ دونوں امور اختیاریہ سے ہیں اور جوش میں فرمایا کہ اب بھی حضرت غوث پاکؒ کی کرسی پر بیٹھنے والے لوگ موجود ہیں کرسیاں خالی نہیں ہیں سب پُر ہیں۔
ہنوز آں ابر رحمت درفشاں است
خم و خمخانہ بامہر و نشان است
(اس وقت حضرت والا رحمة اﷲ علیہ پر ایک خاص حالت طاری ہوگئی تھی)
البتہ ایمان اور تقویٰ اگرچہ امور اختیاریہ سے ہیں لیکن ان کے اختیار کرنے میں مجاہدات اختیار کرنے پڑتے ہیں ایمان تو بفضلہ تعالیٰ ہم لوگوں کو حاصل ہی ہے صرف جزءثانی یعنی تقویٰ کی تحصیل کے لیے کوشش اور مجاہدہ کرنا ہے۔ اسی مجاہدہ کے متعلق ہمارے خواجہ صاحب فرماتے ہیں
برسائیں گے جب خون دل اور خون جگر ہم
دیکھیں گے تبھی نخلِ محبت میں ثمر ہم
تقویٰ کے حاصل کرنے کا طریقہ بھی حق تعالیٰ نے ارشاد فرمادیا ہے۔ فرماتے ہیں یا ایہاالذین امنوا اتقوا اﷲ و کونوا مع الصادقین حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو اﷲ سے ڈرتے رہا کرو۔ اس ترجمہ میں بھی خاصیت تجدد استمرار کی ملحوظ ہے کیونکہ امر کا صیغہ مضارع ہی سے بنتا ہے۔ اب سوال ہوتا ہے کہ کیسے ڈریں ،ڈرنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو خود ہی اس سوال کا جواب ارشاد فرماتے ہیں وکونوا مع الصادقین کسی اﷲ والے کی صحبت میں رہ پڑو چند دن کسی کاملِ کی صحبت میں رہ کر اس کے صدق اعمال اورصدق مقال کو دیکھا کرو کہ وہ اﷲ والا کس طرح اﷲ سے ڈرتا ہے، غصہ کی حالت میں وہ اﷲ والا کس طرح غصہ کو حق تعالیٰ کے خوف سے پی جاتا ہے اور کس طرح وہ خدا کے دشمنوں پر غصے کو نافذ کرتا ہے، اسی طرح وہ حالت مصیبت میں کس طرح خدا کے خوف سے صراط مستقیم پر جما رہتا ہے اس حالت میں اس کے صبر کی کیفیت دیکھو اسی طرح وہ نعمتوں کی حالت میں کس طرح خدا کا شکر گذار رہتا ہے اس حالت میں اس کا شکر دیکھو اور اس کی عبدیت دیکھو کہ وہ نعمتوں میں اترانے نہیں لگتا، ناز اور تکبر کی باتیں نہیں کرتا، نہ اپنی چال میں اینٹھ مروڑ کرتا ہے۔ اسی طرح وہ دوستوں کے ساتھ کس طرح خندہ پیشانی سے ملتا ہے اور دشمنوں کی ایذاءرسانیوں کو کس طرح برداشت کرتا ہے اور اس کا اپنے بڑوں کے ساتھ ادب دیکھو اور چھوٹوں کے ساتھ اس کی شفقت دیکھو، اس کی عبادت میں اس کا اخبات اور اس کی خشوع و خضوع کی کیفیت دیکھو، اس کی گفتگو اور اس کے لب و لہجے میں اس کی شانِ عبدیت دیکھو۔ اور اس پر خاتمہ کے خوف سے جو آثار حزن غالب رہتے ہیں اس کو دیکھو نیز خوف خاتمہ کے سبب اس کا اپنے کو تمام مخلوقات حتیٰ کہ سور اور کتوں سے بدتر سمجھنے کی حالتِ رفیعہ کو دیکھو۔ الغرض اس صادق القول اور صادق العمل یعنی بندہ کامل کی ہر ہر حالت کو دیکھتے رہو اس دیکھنے کا تمہارے اوپر یہ اثر ہوگا کہ تمہاری طبیعت آخذہ خفیہ خفیہ اس مومن کامل کے تمام اخلاق و عادات حسنہ اپنے اندر لے لے گی۔ کیونکہ ایک دل سے دوسرے دل تک خفیہ راہ ہوتی ہے
کہ ز دل تادل یقیں روزن بود
نے جدا و دور چوں دو تن بود
متصل نبود سفال دو چراغ
نورشاں ممزوج باشد درمساغ
حضرت مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ دو جسم اگرچہ دور اور جدا جدا ہوتے ہیں لیکن بالیقین ایک دل سے دوسرے دل تک مخفی راہ ہے پھر اس نظری کو مولانا ایک مثال سے سمجھا کر بدیہی فرماتے ہیں کہ تم دیکھتے ہو کہ جب دو چراغ روشن ہوں تو ہر ایک کا دیا الگ الگ ہوتا ہے لیکن فضاءمیں دونوں کی روشنی مخلوط اور متصل ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک مومن کامل کے قلب کا نور دوسرے ناقص مومن کے قلب کے نور سے متصل اور مخلوط ہوکر ناقص کے نور کو بھی کامل کردیتا ہے اگرچہ دونوں کے قلب الگ الگ قالب میں ہیں معیت صادقین کے اندر عجیب کیمیاوی اثر ہے۔ اسی کو حضرت حافظ شیرازی فرماتے ہیں کہ
کیمیا ایست عجب بندگیِ پیر مغاں
خاک او گشتم و چندیں درجاتم دادند
جتنا ہی زیادہ شیخ کامل کی صحبت نصیب ہوگی اسی قدر اس کے فیوض اور برکات سے مالا مال ہوجاﺅ گے۔ مولانا فرماتے ہیں
سالہا باید کہ تا از آفتاب
لعل یابد رنگ رخشانی و تاب
مولانا فرماتے ہیں کہ ایک معتدبہ زمانہ چاہیے کہ آفتاب سے اس کی شعاعیں پتھر کے ذرات پر بحکم الٰہی اپنا بتدریج اثر پہنچاتی رہیں یہاں تک کہ وہ ذرات شدہ شدہ لعل بن جائیں اسی طرح شیخ کامل کا قلب جو ہدایت کا آفتاب ہے اور جس کے اندر براہ راست آفتابِ حق سے انوار آتے ہیں اس کی شعاعیں بحکمِ الٰہی طالبِ صادق کے قلب پر بتدریج اپنا اثر کرتی رہتی ہیں۔ ایک مدت کے بعد وہ اپنے باطن میں محسوس کرتا ہے کہ روز بروز طاعات میں جی لگتا جاتا ہے اور گناہوں سے دل ہٹتا جاتا ہے یہی مطلب ہے صوفیہ کے اس قول کا کہ اس کا دل نورانی ہوگیا۔ حاشا وکّلا دل میں نور آنے کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دل میں کوئی لالٹین یا گیس جل جاتی ہے۔ حضرت عارف رومیؒ فرماتے ہیں کہ ہمارا پیر شمس الدین تبریزی آفتابِ حق ہے
شمس تبریزی کہ نور مطلق است
آفتاب است و ز انوار حق است
حضرت شمس الدین تبریزیؒ نور مطلق ہیں وہ خود ایک آفتاب ہیں اور اس آفتاب کے انوار حق تعالیٰ کے انوار سے مستفاد ہیں۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ شیخ کے قلب میں حق تعالیٰ کے انوار کس راہ سے آتے ہیں اس کا جواب بھی حضرت رومیؒ فرماتے ہیں
درمیان شمس دیں روزن رہے
ہست روزنہا نہ شد زاں آگہے
اس آفتابِ حقیقی اور عارفین کے قلوب کے درمیان ایک مخفی راستہ ہے جس سے حق تعالیٰ کے نفحات کرم پے درپے آتے رہتے ہیں، دوسرے لوگ اس دریچہ باطنی سے آگاہ نہیں ہیں انہیں باطنی نعمتوں کے متعلق حضرت شاہ فضل رحمن صاحب گنج مراد ٓبادیؒ ارشاد فرماتے تھے کہ
جو دل پر ہم اس کا کرم دیکھتے ہیں
تو دل کو بہ از جام جم دیکھتے ہیں
(جاری ہے۔)