Deobandi Books

ماہنامہ الابرار دسمبر 2009

ہ رسالہ

12 - 13
شرعی مسائل کے جوابات
ایف جے،وائی(December 27, 2009)

دارالافتاءجامعہ اشرف المدارس کراچی۔

سوال: جناب مفتی صاحب کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں صلوٰة عید کے بعد مروجہ مصافحہ و معانقہ کو دیوبند کی کتابوں میں بدعت لکھا ہے جبکہ ہمارے سرحد کے بعض علماءجو اپنے آپ کو دیوبندی تصور کرتے ہیں وہ اس مصافحہ و معانقہ کو مستحب کہتے ہیں کیا اہل سنت والجماعت کی کسی کتاب میں اس کو مستحب لکھا ہے یا نہیں اور اور اس کو مستحب کہنے والے کا حکم کیا ہے۔ اور کیا ایک ہی چیز بدعت و مستحب دونوں ہوسکتی ہے۔

جواب: (الف) عید کی نماز کے بعد مروجہ مصافحہ و معانقہ کو لازم، مسنون یا مستحب سمجھنا اور کہنا صحیح نہیں ہے، محقق علما نے اسے بدعت قرار دیا ہے اور اس کی اجازت دینے والوں کی تردید فرمائی ہے، لہٰذا عید کے بعد مصافحہ اور معانقہ کو مستحب کہنے والوں کا موقف صحیح نہیں ہے۔

(ب) لغوی معنی کے اعتبار سے ایک ہی چیز کا بدعت اور مستحب ہونا ممکن ہے لیکن جو چیز شرعاً بدعت ہو وہ مستحب نہیں ہوسکتی۔

سوال: میرا نام محمد ظہیر الدین ہے والدہ کا نام رحیمہ بی بی ہے۔ (۱) کیا زکوٰة کا پیسہ میں اپنے بیٹے کو قرض اتارنے کے لیے دے سکتا ہوں اس پر بینک کارڈ کا سود ہے۔

(۲) میں اسٹیٹ کا کام کرتا ہوں جو کمیشن آتا ہے اس کا ٪۲/۱ ۲ زکوٰة اور ٪۱ صدقہ دیتا ہو جب کمیشن آتا ہے تو دیتا ہوں سال کا انتظار نہیں کرتا یہ ٹھیک ہے یا نہیں۔

(۳) دو مہینے سے میرا کام نہیں چل رہا ہے۔ کسی کے پاس میرا بھتیجا گیا تھا اس نے استخارہ نکال کر کہا کہ کسی نے جادو کردیا ہے کہ کاروبار نہ چلے مہربانی کرکے مجھکو صحیح راستہ بتائیے۔

جواب: آپ کی اپنی زکوٰة کی رقم اپنے بیٹے کو دینا جائز نہیں، اس سے آپ کی زکوٰة ادا نہیں ہوگی۔

(۲) زکوٰة کی پیشگی ادائیگی جائز ہے، لہٰذا اگر آپ حاصل شدہ کمیشن کا ڈھائی فیصد زکوٰة کی نیت سے مستحق زکوٰة کو مالک اور قابض بناکر دے دیں اور سال گذرنے کا انتظار نہ کریں تو اس کمیشن کی رقم سے آپ کی زکوٰة ادا ہوجائے گی البتہ اس کمیشن کے علاوہ اگر آپ کے پاس کوئی قابلِ زکوٰة مال ہے تو اس کی زکوٰة کی ادائیگی آپ پر الگ سے واجب ہوگی۔

(۳) آپ کا یہ مسئلہ عامل حضرات سے متعلق ہے، لہٰذا اس کے حل کے لیے کسی صحیح العقیدہ اور متبع سنت عامل سے رجوع کریں۔

سوال: مسجد حرام (مدینہ منورہ) میں نمازی کے آگے سے گذرنے کے کیا احکامات ہیں؟ کیا نمازی کے آگے سے اتنی جگہ چھوڑ کر گذرا جاسکتا ہے کہ نمازی بآسانی سجدہ کرلے؟ مفتی حبیب اﷲ صاحب، (جوکہ مدینہ۰ منورہ کے رہائشی ہیں) نے بتایا کہ طواف کے دوران نمازی کے آگے سے گذرا جاسکتا ہے چاہے نمازی کو سامنے کچھ جگہ ملے یا نہیں۔ برائے مہربانی اس نظریہ کا احاطہ بھی اپنے فتوی میں کیجئے۔ برائے مہربانی اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ آپ کے جوابات میں حجاج کرام تک پہنچانا چاہتا ہوں کیونکہ متعدد زائرین اس سلسلے میں حرمین شریفین میں دوسروں کی تقلید کرتے ہیں، شاید اس طرح وہ ایک بڑے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ ایک بہت اہم معاملہ بن چکا ہے کیونکہ زائرین کا احساس کئے بغیر دوسروں کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔

جواب: احادیث مبارکہ میں نمازی کے آگے سے گذرنے کی سخت ممانعت ہے، جیسا کہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص یہ جان لے کہ اپنے نماز پڑھنے والے بھائی کے سامنے سے گذرنے میں کس قدر گناہ ہے تو اس کے لیے سو برس تک کھڑے رہ کر انتظار کرنا نمازی کے سامنے گذرنے سے بہتر ہو۔ (سنن ابن ماجہ۔ ص۷۶)

اس کے علاوہ دیگر احادیث سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نمازی کے آگے سے گذرنا سخت گناہ اور وبال کا باعث ہے اس لیے اس سے احتراز ضروری ہے اور ہرممکن طور پر اس سے بچنا چاہیے۔ اس تمہید کے بعد ذیل میں آپ کے سوالوں کا جواب بالترتیب بیان کیا جاتا ہے:

(۱) مسجد نبوی (علی صاحبہ الصلوات والتسلیمات) میں اگر نمازی کے سامنے سُترہ (وہ چیز جو نمازی کے سامنے حائل اور آڑ کے لیے ہو) ہو اور گذرنے والا سترہ کے آگے سے گذرے تو یہ جائز ہے اور اگر نمازی کے آگے سترہ نہیں اور گذرنے والے کو کوئی شدید عذر یا مجبوری بھی لاحق نہیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ نمازی کے آگے سے تین ذراع (تقریباً آٹھ فٹ کی مقدار) چھوڑ کر گذرے اور دو ایسی صفیں جو قدرے چوڑی ہوں ان سے یہ فاصلہ حاصل ہوجاتا ہے، احتیاطاً تین صفوں کی مقدار چھوڑ کر گذرا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ البتہ گذرنے والے کو شدید عذر یا مجبوری لاحق ہونے کی صورت میں جبکہ متبادل راستہ نہ ہو نمازی کی سجدہ کی جگہ چھوڑ کر گذرنے کی بھی گنجائش ہے۔ واضح رہے کہ یہ تفصیل مسجد نبوی (علی الصاحبہ الصلوات والتسلیمات) کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر مسجد کبیر (بڑی مسجد) کے لیے ہے، جس کا اندازہ فقہائے کرام کی عبارتوں سے یہ لگایا گیا ہے کہ وہ مسجد چالیس ذراع (۰۰۶۳ مربع فٹ) یا اس سے زائد رقبہ پر مشتمل ہو۔

(۲) مسجد حرام میں طواف کرنے والا ہر صورت میں نمازی کے آگے سے سجدہ کی جگہ چھوڑ کر گذر سکتا ہے البتہ وہ شخص جو طواف نہیں کررہا اس کے لیے نمازی کے آگے سے گذرنے کا حکم وہی ہے جو مسجد نبوی (علی صاحبہ الصلوات والتسلیمات) میں نمازی کے آگے سے گذرنے کی صورت میں تفصیل سے اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔ 
Flag Counter