ملفوظات حضرت تھانویؒ
ایف جے،وائی(December 27, 2009)
از جدید ملفوظات
(گذشتہ سے پیوستہ)
حضرت مولانا گنگوہیؒ کی شانِ انتظام کا واقعہ
فرمایا کہ مولانا محمد یعقوبؒ کے قطب الدین ایک صاحبزادے تھے ان کی شادی لکھنو ہوئی تھی اور ولیمہ نانوتہ میں ہوا تھا۔ مولانا نے بڑی خوشی میں ولیمہ کیا تھا اور اس میں پلاﺅ زردہ بہت اچھا پکوایا تھا کھانے میں ذرا دیر ہوگئی تھی جمعہ کا دن تھا گاﺅں والے بھی جمعہ میں آئے تھے تو مولانا نے فرمایا کہ پہلے ان گاﺅں کے آدمیوں کو کھلا دو کیونکہ ان کو دور جانا ہے گھر کے آدمی پھر کھالیں گے جب ان کے کھانے بٹھایا تو چاروں طرف زردہ کی مانگ ہونے لگی مولانا پریشان ہوئے کیونکہ زردہ بہ نسبت پلاﺅ کے تھوڑا پکتا ہے مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کو بھی اس کی خبر ہوئی تو مولانا فوراً تشریف لائے اور مجمع میں آکر فرمانے لگے کہ یہ پلاﺅ بھی کھانے ہی کے واسطے پکا ہے اور زردہ اندازہ سے پکا ہے اور کھلانے والوں کو حکم دیا کہ اب پلاﺅ دو زردہ نہ دو بس سب دم بخود ہوگئے پھر کسی نے نہ مانگا اور کام حسن و خوبی کے ساتھ انجام کو پہونچ گیا ہمارے حضرت نے فرمایا کہ مولانا کے اندر شان انتظام بڑی تھی کسی کے کہنے کی پرواہ نہ کرتے تھے اسی وجہ سے اکثر لوگ متشدد کہتے تھے ہنس کر فرمایا اور الحمدﷲ اب یہ میراث مجھے ملی ہے۔
حضرت حاجی محمد عابد صاحب دیوبندیؒ کے تعویذ کی برکت
فرمایا کہ میں نے دیوبند کے ایک انگریزی داں سے سنا ہے کہ ایک شخص کا مقدمہ ڈپٹی ظہیر عالم کے یہاں تھا۔ سہارنپور میں ڈپٹی تھے۔ وہ شخص حضرت حاجی محمد عابدؒ کے پاس آیا کہ حاجی جی مجھے ایک تعویذ دے دو۔ میرا مقدمہ ڈپٹی ظہیر عالم کے یہاں ہے حاجی صاحبؒ نے اس کو تعویذ دیا کہ اس کو پگڑی میں رکھ لینا۔ جب یہ عدالت میں اجلاس پر پہنچا ڈپٹی صاحب نے کچھ سوال کیا تو اس نے کہا کہ ٹھہر جا میں دیوبند والے حاجی کا تعویذ لایا آہوں۔ وہ لے آﺅں، پھر پوچھنا۔ ڈپٹی صاحب اس پر ہنسے کیونکہ وہ عملیات کے معتقد ہی نہ تھے۔ جب وہ تعویذ لے آیا۔ تو ڈپٹی صاحب سے کہا کہ اب پوچھ کیا پوچھے ہے اور دیکھ حاجی صاحب کا تعویذ یہ رکھا ہے (پگڑی دکھلادی) ڈپٹی صاحب نے وہ مقدمہ قصداً بگاڑا۔ لیکن جب فیصلہ لکھ کر پڑھنے بیٹھے ہیں تووہ موافق تھا۔ پھر وہ ڈپٹی صاحب حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں معذرت کو حاضر ہوئے ہمارے حضرت نے فرمایا کہ عمل کا یہ اثر ہوتا ہے۔ بعض اوقات جب معمول پر اس کا اثر ہوتا ہے تو دماغ صحیح نہیں رہتا۔ پھر جب دماغ صحیح نہیں رہتا تو کام بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔
حضرت حاجی محمد عابد صاحبؒ کے تابع جن تھا
فرمایا کہ میرے ایک عزیز دیوبند کے رہنے والے کہتے تھے کہ میری پھوپھی جب شروع شروع میں دلہن ہونے کے زمانہ میں اپنے میکہ آئیں تو انہوں نے اپنے دوپٹہ الگنی پر ڈال دیا اسے کوئی عورت لے گئی عورتیں بوجہ عقیدت کے اس زمانے میں ایسی بے فکر تھیں بولیں کہ کچھ ڈر نہیں ہے۔ حاجی محمد عابد صاحبؒ سے کہلا بھیجو یہیں آجائے گا چنانچہ حاجی صاحبؒ کے پاس کہلا بھیجا انہوں نے ایک تعویذ دے کرفرمایا کہ وہ الگنی ہی پر آجاوے گا چنانچہ دوپٹہ وہیں آگیا۔ ہمارے حضرت نے فرمایا کہ ایسا سنا ہے کوئی جن وغیرہ تابع تھا۔
حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ بچوں سے ہنسی مذاق بھی کرتے تھے
فرمایا کہ ایک مرتبہ بنو پہلوان نے جو دیوبند کا رہنے والا تھا باہر کے کسی پہلوان کو پچھاڑ دیا تو مولانا قاسم صاحبؒ کو بڑی خوشی ہوئی اور فرمایا ہم بھی بنو کو اور اس کے کرتب کو دیکھیں گے حافظ انوار الحق کی بیٹھک میں اسے بلایا اور سب کرتب دیکھے۔ مولانا بچوں سے ہنستے بولتے بھی تھے اور جلال الدین صاحبزادہ مولانا محمد یعقوبؒ سے جو اس وقت بالکل بچے تھے بڑی ہنسی کیا کرتے تھے کبھی ٹوپی اتارتے کبھی کمر بند کھول دیتے تھے۔
”دکان معرفت“ میں ”اقطاب ثلاثہ“ کی کبھی چھینا جھپٹی بھی ہوتی تھی
فرمایا کہ جب حاجی صاحبؒ یہاں (یعنی خانقاہ امدادیہ اشرفیہ میں) تشریف رکھتے تھے تو ایک کچھالی میں کچھ چنے اور کشمش ملی ہوئی رکھتے تھے صبح کے وقت مولانا شیخ محمدؒ اور حافظ محمد ضامن صاحبؒ اور حضرت حاجی صاحبؒ ساتھ مل کر کھایا کرتے تھے اور آپس میں خوب چھینا جھپٹی ہوا کرتی تھی بھاگے بھاگے پھرتے تھے اس وقت مشایخ اس مسجد کو دکانِ معرفت کہتے تھے اور ان تینوں حضرات کو اقطاب ثلثہ۔ حضرت حاجی صاحب دہلی کے شہزادوں میں علماءمیں بزرگ مشہور تھے مگر پیر بھائیوں سے چھینا جھپٹی کرتے تھے۔
حضرت حافظ محمد ضامن شہیدؒ کی خانقاہ میں آنے والوں سے کیا گفتگو ہوتی تھی؟
فرمایا کہ جب کوئی حافظ محمد ضامن صاحبؒ کے پاس آتا تو فرماتے کہ دیکھ بھائی اگر تجھے کوئی مسئلہ پوچھنا ہے تو وہ (مولانا شیخ محمد کی طرف اشارہ کرکے) بیٹھے ہیں مولوی صاحب ان سے پوچھ لے اور اگر تجھے مرید ہونا ہے تو وہ (حضرت حاجی صاحبؒ کی طرف اشارہ کرکے) بیٹھے ہیں حاجی صاحبؒ ان سے مرید ہوجا اور اگر حقہ پینا ہے تو یاروں کے پاس بیٹھ۔
حضرت حافظ محمد ضامن صاحبؒ کی ظرافت
فرمایا کہ حضرت حافظ ضامن صاحبؒ سے اگر کوئی آکر کہتا کہ حضرت میں نے اپنے لڑکے کو حفظ شروع کرادیا ہے دعا فرمادیجئے تو فرماتے ارے بھائی کیوں جنم روگ لگایا یہ تنبیہ ہے اس پر کہ عمر بھر اس کی حفاظت واجب ہوگی اگر اس کی امید نہ ہو تو ناظرہ ہی پڑھا دو اور حفظ سے روکنا نہیں ہے مگر پیرایہ ظرافت کا ہے باعتبار مذاق مخاطب کرکے کہ کہیں اخیر میں اس کو مصیبت نہ سمجھنے لگو۔
حضرت حافظ محمد ضامن صاحب شہیدؒ کا
ایک صاحب کشف بزرگ سے ان کے فاتحہ پڑھتے وقت مذاق
فرمایا کہ ایک صاحب کشف حضرت حافظ محمد ضامن صاحبؒ کے مزار پر فاتحہ پڑھنے لگے بعد فاتحہ کہنے لگے کہ بھائی یہ کون بزرگ ہیں بڑے دل لگی باز ہیں۔ جب میں فاتحہ پڑھنے لگا تو مجھ سے فرمانے لگے کہ جاﺅ فاتحہ کسی مردہ پر پڑھیو یہاں زندوں پر فاتحہ پڑھنے آئے ہو یہ کیا بات ہے جب لوگوں نے بتلایا کہ یہ شہید ہیں ۔
ہمارے اکابر حضرات خلوت عرفیہ پسند نہیں کرتے تھے
فرمایا کہ ہمارے حضرت خلوت عرفیہ پسند نہیں کرتے تھے اس سے شہرت ہوتی ہے۔ مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ نے بھی کبھی گوشہ نشینی اختیار نہیں کی البتہ مولانا رائپوریؒ پر بہ نسبت دوسرے حضرات کے قدرے اس کا غلبہ تھا (اور یہ اثر ان کے پہلے پیر کا تھا) باقی بقدر ضرورت خلوت یہ سب حضرات کا معمول تھا چنانچہ مولانا گنگوہیؒ بھی تھوڑی سی دیر حجرہ بند کرکے اس میں بیٹھتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے مولانا گنگوہیؒ کو لکھا کہ میرا جی یوں چاہتا ہے کہ سب سے علیحدہ ہوکر ایک گوشہ میں بیٹھ جاﺅں، مولانا نے تحریر فرمایا کہ ہمارے بزرگوں نے ایسا کیا نہیں اس سے شہرت ہوتی ہے۔
حضرت حکیم الامت مجدد ملتؒ پر ایک دفعہ
زمانہ طالب علمی میں خوف کا بے حد غلبہ طاری ہوا
فرمایا کہ ایک مرتبہ مجھ پر طالب علمی کے زمانہ میں خوف کا بے حد غلبہ ہوا۔ میں حضرت مولانا محمد یعقوبؒ کی خدمت میں حاضر ہوا ور عرض کیا کہ حضرت کوئی ایسی بات بتلادیجئے جس سے اطمینان ہوجائے۔ فرمایا ہائیں کفر کی درخواست کرتے ہو کیونکہ بالکل مامون ہوجانا کفر ہے۔
حضرت میانجیوؒ کے مزار پر انوار و برکات کا مشاہدہ
فرمایا کہ جھنجانہ میں ایک صاحب کشف آئے اور حضرت میانجیوؒ کے مزار پر حاضر ہوئے بعد میں انہوں نے کہا کہ افسوس کس ظالم نے ان کو امام سید محمودؒ کے پاس دفن کردیا یہ یہاں ادب کی وجہ سے اپنے انوار روکے ہوئے ہیں اگر کسی ویرانے میں ہوتے تو دنیا ان کے انوار سے جگمگاجاتی اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ان کی ہڈیاں نکال کر دوسری جگہ دفن کرتا پھر ان کے انوار و برکات کا مشاہدہ ہوتا۔
حضرت مولانا گنگوہیؒ اور حضرت مولانا نانوتویؒ کو
ہدیہ دینے والوں کی تالیف قلوب کا واقعہ
فرمایا کہ مولانا گنگوہیؒ کے پاس کسی شخص نے دریدہ عبا بھیجا آپ نہ ہنسے نہ تحقیر کی بلکہ اس کو رفو کراکر نماز جمعہ اسی سے پڑھی ایسے ہی مولانا محمد قاسم صاحبؒ کے پاس ایک شخص نے ایک ٹوپی چھینٹ کی جس پر مثالباف کی گوٹ اور گوٹہ لگا ہوا تھا بھیجی آپ نے اس لانے والے کے سامنے فوراً اوڑھ لی کہ مُہدی سن کر خوش ہوگا۔
(جاری ہے۔)