ملفوظات حضرت والا ہردوئی
ایف جے،وائی(December 27, 2009)
(گذشتہ سے پیوستہ)
ملفوظ نمبر۲۲۳:
ارشاد فرمایا کہ مسجد کے اندر دارالاقامہ اور مدرسہ جائز نہیں اس لیے مسجد خواہ چھپر ہی کی ہو پہلے مدرسہ بنانا چاہیے حدود مدرسہ میں کاغذ کے ٹکڑے نہ پڑے رہیں اکرام علم کے خلاف ہے۔ قرآن پاک کے اوراق بوسیدہ کے لیے بڑا تھیلہ رہے جب جمع ہوکر بھرجاوے دفن کرادیں۔
ملفوظ نمبر۳۲۳:
ارشاد فرمایا کہ جہاں انتقال ہو وہاں دفن کیا جاوے، اور جلد دفن کیا جاوے رونمائی وغیرہ کی رسم کے لیے تاخیر جائز نہیں بالخصوص دینی مراکز میں اس کا اہتمام ہونا چاہیے۔ عمل کو کتاب سے ملائیں بعض وقت اکابر سے بھی تسامح ہوسکتا ہے۔
ملفوظ نمبر۴۲۳:
ارشاد فرمایا کہ بمبئی میں دعوة الحق کی شاخ ہے وہاں کے حضرات نے مسجد کی دو منزلہ عمارت میں تعلیم قرآن شروع کردیا۔ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی دامت برکاتہم نے معائنہ کیا اس کی نقل مجھے بھیجی گئی کہ آپ تو مسجد میں مدرسہ کو منع کرتے ہیں اور یہاں کیا ہورہا ہے میں نے مقامی احباب کو لکھا کہ اگر اتنے دن تک کے اندر مدرسہ مسجد سے الگ نہ کیا گیا تو مدرسہ بند کردیا جاوے گا۔
ملفوظ نمبر۵۲۳:
ارشاد فرمایا کہ بچیوں کی آستین پوری ہو اور دوپٹہ اتنا موٹا ہو کہ بالوں کی سیاہی نظر نہ آئے اگر باریک ہو تو دوہرا کرکے اوڑھیں۔
ملفوظ نمبر۶۲۳:
ارشاد فرمایا کہ جو وقت چائے میںصرف ہوگا وہ مدرسہ کے معائنہ میں صرف ہو۔ بوقت واپسی کچھ پھل ہدیہ پیش کیا گیاتو قبول فرمایا اور مزاحاً فرمایا کہ اب ان احباب کی دل شکنی نہیں ہوگی اور نہ ہمارے ساتھیوں کی بطن شکنی ہوگی۔
ملفوظ نمبر۷۲۳:
ارشاد فرمایا کہ ایک دینی ادارہ میں معائنہ کے بعد فرمایا کہ (۱) اذان مسجد میں ہوئی حالانکہ لایوذن فی المسجد کتاب فقہ میں مصرح ہے۔
(۲) کلمات اذان جلدی جلدی کہے گئے اتنا فصل نہ ہوا کہ اذان کا جواب دیا جاسکے۔
(۳) اذان کی ادائیگی بھی غلط تھی اﷲ کو مدطبعی سے زیادہ کھینچا جبکہ نکیر موجود ہے۔
(۴) منیة المساجد فی اداب المساجد کو بار بار پڑھیں اور اس پر عمل کریں بعض جگہ تعلیم قرآن مساجد میں ہورہی ہے اور دارالاقامہ بھی یہ کیسے جائز ہوگا۔
(۵) کھانے کی قطار میں آپس میں جسم ملنا نہ چاہیے اتنا فاصلہ ہو کہ درمیان سے ایک آدمی گزر سکے قطار میں ایک دوسرے پر ایثار سے کام لیں۔
(۶) کمرے میں اور کمروں کے سامنے صفائی کا خیال ہو بالخصوص آلہ علم یعنی کاغذکا اکرام ہو اس کے ٹکڑے ادھر ادھر پڑے نہ ہوں۔
(۷) روٹی کے ٹکڑوں کو اٹھا لیا جاوے اکرام خبز پر صریح حدیث ہے روٹی کے ٹکڑے ادھر ادھر پڑے رہنے سے رزق کی برکت چلی جاتی ہے۔
(۸) اپنا کام خود کرنا سنت ہے۔
(۹) بال ہپی کی طرح بڑے بڑے نہ ہوں۔
(۰۱) دورے کے طالبعلموں کو طویل سورتیں یاد نہیں ،کیا نماز فجر میں الم تر کیف پڑھائیں گے۔
(۱۱) بعض طلباءنے قرآن کو صحت حروف سے نہیں پڑھا کافیہ اور مرقاة کی عبارت تو صحیح پڑھیں اور قرآن پاک غلط پڑھیں کتاب اﷲ کی عظمت نہیں ہے۔
(۲۱) اہل مال نے تو خوب کام کیا اور مسجد خوب شاندار ہے مگر آپ حضرات طلبائے کرام کا معاشرہ قابل افسوس ہے۔ چارپائیوں پر بستر تو صاف ہیں نہ قاعدے سے بچھے ہیں کھانے کے برتن بھی بے قاعدہ اور گندے۔
(۳۱) بعض طلباءکے مونچھوں کے وسط میں بال صاف ہیں دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ قینچی سے درمیان میں بالوں کو صاف کرنے کا فیشن ہے مونچھوں کو برابر سے کاٹنا چاہیے درمیان میں مکھی کے برابر جگہ کیوں چھوڑدی کیا مکھی بیٹھنے کے لیے یہ جگہ خالی ہے۔
(۴۱) طلباءکو مسجد میں داخلے کی سنتوں میں صرف دو سنتیں یاد ہیں۔
(۵۱) مسجد کے داخل حصے اور خارج حصے میں فرش یکساں ہونے سے پتہ نہیں چلتا کہ کہاں سے مسجد شروع ہے پھر دخول اور خروج کی دعائیں کس طرح پڑھیں گے۔ کوئی مابہ الفرق علامت ہونی چاہیے۔
(۶۱) مصافحہ وعظ کا نہیں ثابت ہے البتہ یہ رخصت ہونے کا مصافحہ ہے اس کے لیے قطار بنالیں اور داہنے طرف سے شروع کریں بائیں طرف سے نکلتے جائیں۔ بوڑھے اور بچوں کو ترجیح دی جاوے اگر سب بے ترتیبی سے سامنے آجاویں گے تو پھر کسی کو کس طرح ترجیح دی جاوے گی۔
(۷۱) مدرسہ کا دفتر اور دارالحدیث سے مسجد گذرگاہ بنی ہوئی ہے اس کا دروازہ الگ ہونا چاہیے۔
(۸۱) مسجد میں بدبودار پینٹ ناجائز ہے۔
(۹۱) طلباءنے کار کو روک لیا اژدھام سے تو فرمایا کہ مہمان کو جانے کے لےے راستہ دیجئے مہمان کی درخواست قبول کرلیا کرتے ہیں۔
ملفوظ نمبر۸۲۳:
ارشاد فرمایا کہ سنگین مقدمہ میں جو پھنس گیا ہو وہ شخص یا حلیم یا علیم یا علی یا عظیم ایک لاکھ اکیاون ہزار صاف کپڑے پہن کر عطر لگا کر پڑھے نہ وقت کی قید نہ عمر کی قید نہ مرد اور نہ عورت کی قید ایک جوڑا کپڑا اس کے لیے الگ رکھے یہ عمل برائے سنگین مقدمہ مجرب ہے۔
ملفوظ نمبر۹۲۳:
ارشاد فرمایا کہ جو سالک جذب سے واصل ہوجاتا ہے وہ دوسروں کی رہبری نہیں کرسکتا جو قدم بہ قدم منزل بہ منزل سفر کرتے ہیں وہ دوسروں کی رہنمائی کرسکتے ہیں اور اگر بے ہوش کو عرفات کے میدان میں لے جائیں تو حاجی تو ہوجاوے گا مگر دوسرے عازمین حج کی رہبری نہیں کرسکتا۔
ملفوظ نمبر۰۳۳:
ارشاد فرمایا کہ صحت کی دعا کرتے رہنا چاہیے لیکن جب بیماری آجاوے تو اس کو بھی اپنے لیے خیر سمجھے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے اور عاجزی و تواضع پیدا ہوتی ہے اور تکوینی طور پر ڈاکٹر کی روزی ٹیکسی والوں کی روزی تیمارداروں کو ثواب اور دواخانوں کا نفع اور نجانے کیا کیا حکمتیں ہیں بالخصوص جب مقتدائے دین اور مشایخ بیمار ہوتے ہیں تو وہ ضعفاءاور کم ہمت جو دین کے کنوئیں تک نہیں جاسکتے ہیں تو بیماری کی راہ سے کنواں وہاں تک پہنچادیا جاتا ہے۔ میں حضرت مولانا شاہ وصی اﷲ صاحبؒ کے بارے میں کہا کرتا ہوں کہ مولانا جب بیمار ہوکر علاج کے لیے بمبئی تشریف لے گئے تو بمبئی کے کتنے لوگوں کو دینی نفع ہوا اور کتنے ڈاکٹروں کی اصلاح ہوئی۔
ملفوظ نمبر۱۳۳:
ارشاد فرمایا کہ جب بڑھاپے میں بھول بڑھ جاوے تو نماز کی اعادہ کی ضرورت نہیں البتہ جب رکوع اور سجدہ میں اتنا شبہ قوی ہوجاوے کہ رکوع نہ کرنے پر قسم کھا سکے تو رکوع دوبارہ کرلے۔
احقر مولف عفی عنہ عرض کرتا ہے اسی طرح ایمان کے بارے میں جن لوگوں کو وسوسہ تنگ کرتا ہے کہ خدا ہے یا نہیں جنت ودوزخ اور قیامت عذاب قبر وغیرہ میں شیطان وسوسہ ڈالتا ہے پس اس سے ایمان کو کچھ نقصان نہیں بلکہ عین ایمان کی علامت ہے کیونکہ دولت ایمان کی نہ ہوتی تو شیطان وہاں چوری کے لیے نہ پہنچتا۔ اور جس طرح وضو کرنے کے بعد محض شبہ اور وسوسوں سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک کہ وضو ٹوٹنے کا اتنا یقین ہوکہ اس پر خدا کی قسم کھا سکے تو بے شک وضو ٹوٹ جانا ثابت ہوگا۔
ملفوظ نمبر۲۳۳:
ارشاد فرمایا کہ توکل ترک اسباب کا نام نہیں بلکہ اسباب ضروریہ اختیار کرکے نظر اسباب پر نہ رکھے ان کو موثر نہ سمجھے بلکہ حق تعالیٰ ہی پر نظر رکھے کہ ہمارا کام حق تعالیٰ ہی سے ہوگا۔ جب اسباب نہ ہوں تو پھر مسبب پر نظر آسان ہے کمال یہ ہے کہ اسباب ہوتے ہوئے اسباب پر نظر نہ کرنا اور مسبب پر نظر رکھنا۔
(جاری ہے۔)