نسبت مع اﷲ کے آثار و علامات
ایف جے،وائی(December 27, 2009)
عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
(گذشتہ سے پیوستہ)
شیخ کی اپنے بعض مرید پر خاص شفقت
اسی طرح بعض دفعہ شیخ اپنے مرید کی صلاحیت اور تعلق مع اﷲ کی وجہ سے اس پر عاشق ہوتا ہے۔ تو حضرت میاں جی نور محمد صاحب رحمة اﷲ علیہ نے زمیندار سے وعدہ لے کر اس کے لیے دعا فرمائی۔ اس نے تھانہ بھون میں خانقاہ کی تعمیر کا کام شروع کردیا لیکن پھر اس کی نیت خراب ہوگئی اور اس نے آدھی خانقاہ تعمیر کروا کر کام رکوادیا، کچھ دن بعد اِلٰہ آباد ہائیکورٹ سے فیصلہ بذریعہ رجسٹری آیا کہ آدھی زمین ملے گی آدھی نہیں ملے گی۔ یہ حضرت میاں جی کے پاس رجسٹری لے کر گیا کہ حضرت یہ کیا ہوگیا؟ آپ سے دعا کرنے کو کہا تھا، آپ نے یہ کیسی دعا کی کہ آدھی زمین ملی ؟ حضرت میاں جی نے فرمایا کہ تو نے بھی تو وعدہ پورا نہیں کیا، اللہ کے راستہ میں تیری نیت بھی تو خراب ہوئی۔ اس نے عرض کیا کہ حضرت توبہ کرتا ہوں، اپنا وعدہ پورا کروں گا۔ حضرت میاں جی نے پھر دعا فرمائی اور اس کی زمین بحال ہوگئی۔
دوستو! اللہ کا خزانہ تمہارے پیسوں سے بے نیاز ہے، خدائے تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرکے تو دیکھو،وہ تمہارے دل کووہ بہاریں دیں گے کہ سارے دولت مند تم پر رشک کریں گے، باطنی دولت بھی دیں گے اور دنیامیں بھی برکت دیں گے۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غزوہ تبوک کے موقع پر جب سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چندہ کی اپیل پر اپنا مال پیش کیا تو اشرفیوں، دنانیر اور دراہم کے ڈھیر لگا دئیے حالانکہ اس وقت شدید تنگی کا زمانہ تھا۔ روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان اشرفیوں اور دراہم کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں گرا کر اس کی آواز سے اظہارِ مسرت فرمارہے تھے اور فرمایا کہ اے خدا! تیرا نبی عثمان سے راضی ہوگیا تو بھی عثمان سے راضی ہوجا۔ یہ دولت کیسی بہترین دولت تھی جس سے نبی راضی ہوگیا، اللہ راضی ہوگیا، اصل دولت تو یہی ہے ورنہ جو دولت خدا اور رسول کی راہ میں خرچ نہیں ہوگی وہ دولت جنازے پر دولات مارتی ہے اور مٹی میںدفن کردیتی ہے۔
بڑے پیر صاحب کا ارشاد
حضرت بڑے پیر صاحب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب مجھ سے کوئی اللہ کی محبت سیکھتاہے، ذکر کرتا ہے، گناہ چھوڑنے کی مشقت برداشت کرتا ہے اور کچھ دن میرے مشوروں پر عمل کرکے اللہ والا بن جاتاہے تو بجائے اس کے کہ وہ مجھ پر فدا ہو میں ہی اس پر قربان ہوجاتا ہوں کہ میرا کارخانہ، میری تجارت تیار ہوگئی، قیامت کے دن میں اس کواﷲ کے حضور پیش کردوں گا۔
مولانا رومی کی مولانا حسام الدین سے محبت
جیسے مولانا حسام الدین، مولانا جلال الدین رومی رحمة اﷲ علیہ کے بڑے پیارے خلیفہ تھے، ساری مثنوی ان ہی کی لکھی ہوئی ہے، مولانا رومی پر اشعار وارِد ہوتے جاتے تھے اور مولانا حسام الدین لکھتے جاتے تھے۔ مولانا اپنے اس لائق مرید کے بارے میں فرمارہے ہیں
اے حسام الدیں ضیائے ذوالجلال
میل می جوشد مرا سوئے مقال
پیر اپنے مرید کی تعریف کررہا ہے کہ اے حسام الدین تم اللہ کی روشنی ہو، مثنوی کے لیے مجھے جوش آرہاہے، کاغذ قلم لاو اورمثنوی لکھو تو پیر اپنے مرید کی تعریف کررہا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیثِ پاک میں تو منہ پر تعریف کرنے کی ممانعت آئی ہے، اس کو اچھی طرح سمجھ لو کہ ہر تعریف قابلِ ممانعت نہیں ہوتی، حدیث پاک ہے: اِذَا مُدِحَ المُومِنُ فِی وَجھِہ رَبَا الاِیمَانُ فِی قَلبِہ
(المعجم الکبیر للطبرانی ج:۱، المستدرک علی الصحیحین ج:۵۱، کنز العمال ج:۱)
جب مومن کامل کے منہ پر اس کی تعریف ہوتی ہے تو اس کا ایمان اور بڑھ جاتاہے کہ یہ ہماری نہیں اللہ تعالیٰ کی تعریف ہے، اگر کوئی مٹی کے برتن کی تعریف کررہا ہے تو حقیقت میں یہ اُس کی تعریف ہے جس نے اِسے بنایاہے۔ تو مولانا رومی فرماتے ہیں
مدح توحیف است در زندانیاں
گویم اندر مجمع روحانیاں
یہ زندانی لوگ، یہ تیرے پیر بھائی جو نفس کے قیدی ہیں، جن کی ابھی اِصلاح نہیں ہوئی، یہ حسد میں گرفتار ہیں، جب میں تیری تعریف کرتا ہوں تو یہ حسد سے جل کر خاک ہوجاتے ہیں، ان کے چہرے سیاہ ہو جاتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ پیر صاحب کو کیا ہوگیا کہ یہ حسام الدین کو بہت زیادہ مانتے ہیں، حسد کے بیمار تیرے پیر بھائیوں کو افسوس ہوتاہے کہ میں تیری تعریف کیوں کرتا ہوں؟ اب میں روحانیوں کی مجلس تلاش کروں گا اور ان کے سامنے تیری تعریف کروں گا۔ ایران کے لوگ اﷲ والے صوفیاءکو روحانی کہتے تھے، یہ سینکڑوں سال پرانی اِصطلاح ہے۔ تو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ میں مجمع روحانیاں تلاش کروں گا اور وہاں تیری تعریف کروں گا
قصد کردستند ایں گِل پارہا
کہ بپوشانند خورشیدِ ترا
یہ مٹی کے ڈھیلے، نفس کے غلام، انہوں نے ایک خطر ناک ارادہ کیا ہوا ہے کہ یہ تیرے آفتابِ نسبت مع اللہ کو حسد کی مٹی سے چھپادیں، ان مٹی کے ڈھیلوں کا یہ قصد بہت مذموم قصد ہے۔
آفتابِ نسبت مع اﷲ کو حسد کی خاک نہیں چھپا سکتی
میں نے حاسدین کے لیے ایک شعر کہا ہے جو ایک زمانے میں مجھے بہت ستاتے تھے۔ دوستو! جنہوں نے مجاہدے کیے ہیں اُن مجاہدوں سے اُن کے دل میں خون کے دریا بہہ رہے ہیں، دنیاکے حاسدین حسد کی خاک اُڑا کر اس دریائے خون کو چھپا نہیں سکتے
ایک قطرہ وہ اگر ہوتا تو چھپ بھی جاتا
کس طرح خاک چھپائے گی لہو کا دریا
معارف مثنوی کے آغاز میں میرے تین اشعار ہیں کہ میں نے مثنوی کی شرح کیوں لکھی؟ میں نے اپنی کتاب کانام کتاب دردِ دل رکھا ہے۔ معارف مثنوی پر میرا فارسی کا شعر ہے
ایں کتابِ دردِ دل اے دوستاں
کردہ ام تالیف بہرِ عاشقاں
مولانا رومی فرماتے ہیں
عارفاں زانند ہر دم آمنوں
کہ گذر کردند از دریائے خوں
عارفین اللہ والے ہر وقت سکھ چین اور امن میں کیوں ہیں؟ اس لیے کہ انہوں نے دریائے خون سے عبور کیا ہے، نفس کی خواہشات کا خون کیا ہے۔
گناہ کے تقاضوں سے گھبرانا نہیں چاہیے
اپنے نفس کی اصلاح اور تزکیہ میں، گناہوں کے چھوڑنے میں اور اللہ کے راستہ میں غم اُٹھانے میں خواہشات کے تقاضوںسے آپ دل چھوٹا نہ کریں، جب نفس آپ کو گناہ کے لیے باربار پریشان کرے تو سمجھ لو کہ اب لُوٹنے کا وقت آگیا۔
حفاظتِ نظر پر حسنِ خاتمہ کی بشارت
جب عورتوں کو دیکھنے کے لیے نفس کے تقاضے پیدا ہوں تو نگاہ نیچی رکھو اور سمجھ لو کہ اب حلوہ ایمانی کھانے کا وقت آگیا، بازاروں میں، سڑکوں پر، ائیر پورٹوں پر حلوہ ایمانی لُٹ رہا ہے، حسنِ خاتمہ کے فیصلے ہورہے ہیں کیونکہ حلاوتِ ایمانی نظر بچانے پر موقوف ہے اور حلاوتِ ایمانی پر حسنِ خاتمہ موعود ہے وَقَد وَرَدَ اَنَّ حَلاَ وَةَ الاِیمَانِ اِذَا دَخَلَت قَلباً لَّا تَخرَجُ مِنہُ اَبَداً ملاعلی قاری نے روایت نقل کی ہے کہ حلاوتِ ایمانی عطا ہونے کے بعد واپس نہیں لی جاتی فِیہِ اِشَارَة اِلٰی بَشَارَةِ حُسنِ الخَاتِمَةِ اس میں حسنِ خاتمہ کی بشارت ہے کیونکہ جب دل میں حلاوتِ ایمانی ہوگی تو خاتمہ ایمان پر ہوگا۔ لیکن آپ کو حسنِ خاتمہ کا فیصلہ کہاں ملے گا؟ یہ سٹرکوں پر عورتوں سے نظر بچانے پر، ریلوے اسٹیشنوں پر، ہوائی جہاز کے اڈّوں پر اور لڑکیوں کے اسکول کے روڈ پر نظر بچانے سے ملے گا، آپ جہاں نظر بچائیں گے وہیں اللہ تعالیٰ آپ کو حلاوتِ ایمانی اور ایمان پر مرنے کی بشارت دے گا۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم کو گناہ کا تقاضہ پریشان کرتا ہے، اگر ہم گناہ نہیں کریں گے تو پریشان رہیں گے تو کیا آپ پریشانی کے ڈر سے اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کا دل اللہ تعالیٰ کے حکم سے زیادہ قیمتی ہے؟ مشہور شاعر مومن کا سالہا سال پرانا ایک دوست تھا جس کا نام آرزو تھا، جب مومن اہلِ حق سے منسلک ہوئے تو آرزو سے کہا کہ خبردار! جب تک تم بدعت سے توبہ نہیں کرلیتے مجھ سے بات مت کرنا، اب میں تمہاری صورت بھی نہیں دیکھوں گا، جب تم توبہ کرلو گے تب تمہاری میری قدیم دوستی واپس آئے گی ورنہ اللہ کے لیے اس دوستی کو ختم کررہا ہوں لیکن پرانا دوست انہیں یاد بہت آتا تھا، آرزو کی یاد بہت آتی تھی، ایک دن مومن نے دل سے کہا کہ دیکھ اے دل! اب اگر تو آرزو بدعتی کو یاد کرے گا تو تجھے سینے سے نکال کر پھینک دوں گا، لہٰذا مومن کہتاہے
لے آرزو کا نام تو دل کو نکال دوں
مومن نہیں جو ربط رکھیں آرزو سے ہم
نسبت مع اﷲ کے حصول کا واحد راستہ اہل اﷲ کی محبت ہے
آپ بھی نفس سے کہہ دیں کہ اے نفس! اگر تو اللہ کی نافرمانی سے باز نہیں آتا تو میں تیری سرکوبی کروں گا، تجھے قید کردوں گا مگر یہ ہمت و قوت آئے گی کیسے ؟ گناہوں سے بچنے کے لیے جان دینے کی ہمت کیسے آئے گی؟ اور جان سے زیادہ، اہل وعیال سے زیادہ اور شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہمارے دل میں کیسے آئے گی جبکہ یہ محبت مطلوب بھی ہے۔ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اللہ سے کتنی محبت مانگی ہے؟ بخاری شریف کی حدیث ہے: اَللّٰھُمَّ اجعَل حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِن نَفسِی وَاَھلِی وَمِنَ المَآئِ البَارِدِ
اے اللہ! مجھے اپنی اتنی محبت دے دیں کہ آپ مجھے میری جان سے زیادہ پیارے ہوں، اہل وعیال سے زیادہ پیارے ہوں اور پیاس کی شدت میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ پیارے ہوں۔ مگر یہ محبت ملے گی کیسے؟ اس کا نسخہ بھی اسی حدیث کے پہلے جز میں موجود ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَن یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُّبَلِّغُنِی حُبَّکَ
اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتاہوں اور تیرے عاشقوں کی محبت مانگتا ہوں اور اس عمل کی محبت مانگتا ہوں جو آپ کی محبت کا باعث ہو۔ ظالم ہے وہ ملا جو اہل اللہ سے مستغنی ہوتا ہے، جو مولوی خدا کے عاشقوں سے اِعراض کرتاہے، اِستغناءکرتاہے وہ نبی کی دعا کی رُو سے اپنا فیصلہ کرلے کہ نبیوں کا سردار خدا سے خدا کے عاشقوں کی محبت مانگ رہا ہے اور یہ ظالم شمس بازغہ اور صدرا پڑھا کر اپنے آپ کو اہل اﷲ سے مستغنی سمجھ رہا ہے۔ ایسے ملا کے لیے میرا شعر ہے
کہاں پاوگے صِدرا بازغہ میں
نہاں جو غم ہے دل کے حاشیہ میں
اور اللہ کی محبت کی یہ دولت کیسے ملتی ہے؟
یہ ملتی ہے خدا کے عاشقوں سے
دعاوں سے اور ان کی صحبتوں سے
اللہ تعالیٰ کے نبی نے اﷲ والوں کی محبت درمیان میں مانگی ہے، اللہ کی محبت اور اعمالِ صالحہ کی محبت اِن دونوں محبتوں کے درمیان میں یہ جملہ رکھ دیا کہ اے اﷲ! میں آپ سے آپ کے عاشقوں کی محبت مانگتا ہوں، درمیان کا یہ جملہ دونوں محبتوں کے لیے رابطہ کا کام دے رہا ہے یعنی اس جملہ کا رابطہ اﷲ کی محبت سے بھی ہے اور ان اعمالِ صالحہ کی محبت سے بھی ہے جو اﷲ کی محبت کا سبب ہیں چنانچہ سید سلمان ندوی رحمة اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ روئے زمین پر اللہ تک پہنچنے کا اور اللہ تعالیٰ کی محبت سیکھنے کا راستہ اللہ کے عاشقوں سے محبت کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے، اﷲ والوں کی محبت سے اللہ بھی ملے گا اور اعمالِ صالحہ بھی ملیں گے، اللہ والوں کی محبت سے عشقِ خدابھی ملے گا اور عشقِ اعمال بھی ملے گا اور جب یہ چیزیں جمع ہوجائیں گی تو ان شاءاللہ تعالیٰ اﷲ تعالیٰ جان سے زیادہ عزیز ہوجائیں گے۔
اہل اﷲ کو آزمانا نادانی ہے
جو لوگ اللہ تعالیٰ کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ان کا امتحان کرکے دیکھ لو ان کو ثابت قدم پاوگے، یہ امتحان میرے ایک نادان دوست نے کیا تھا، وہ اس وقت میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمة اللہ علیہ بیعت نہیں ہوا تھا، سیتا پور میں اس شخص کا باپ آنکھ بنوانے گیا، حضرت شاہ عبد الغنی صاحب سے اس کے باپ کی دوستی تھی، اس نے کہا حضرت! سیتاپور میں آپ کے مرید بھی ہیں، اگر آپ تکلیف فرمادیں تو کھانے پینے کا انتظام آپ کے مریدوں کے یہاں ہوجائے گا، اللہ والے کریم ہوتے ہیں لہٰذا حضرت کی برکت سے اس کا یہ مسئلہ حل ہوگیا، اس کے بعد اس نادان نے بتایا کہ میں نے شاہ عبدالغنی صاحب رحمة اللہ علیہ کا امتحان لیا۔ یہ شخص مرید ہونے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں نظر کا سخت بیمار تھا، جس بازار میں یہ ملازم تھا اس سے آدھ میل کی دوری پر ریلوے اسٹیشن تھا، اس اسٹیشن پر مختلف اوقات میں چار ریلیں آتی تھیں، جب ریل کی آواز آتی یہ دکان چھوڑ کر بھاگتا اور زنانہ ڈبہ میں عورتوں کو گھورتا تھا۔ آدمی جیسا خود ہوتا ہے اﷲ والوں کو بھی ویسا ہی سمجھتا ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے حضرت کا امتحان لیا، اس وقت وہ حضرت سے بیعت نہیں ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ حضرت میرے والد صاحب کی عیادت کے لیے سیتاپور آئے اور سڑک پر جارہے تھے کہ سامنے سے ایک بہت خوبصورت لڑکی آئی۔ اس نے کہا کہ آج دیکھتا ہوں کہ مولانا اس کو دیکھتے ہیں یا نہیں۔ جیسے ہی وہ لڑکی سامنے سے گذری حضرت کو ابکائی آگئی اور چہرہ مبارک دوسری طرف کرکے بلغم تھوک دیا ۔ تب اس شخص کی آنکھیں کھلیں اور اپنی حماقت پر بہت نادم ہوا کہ اﷲ والوں کو اپنے اوپر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔
ایک چور پھانسی پر چڑھ رہا تھا تو حضرت جنید بغدادی نے اس کا پیر چوم لیا۔ مریدوں نے کہا کہ آپ نے ایسے نالائق کا پیر کیوں چوما؟ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کو نہیں چوما بلکہ اس کی استقامت کو چوما ہے کہ یہ ظالم کتنی استقامت اور ہمت والا تھا کہ چوری کی سزا میں ڈنڈے کھاتے کھاتے پھانسی تک پہنچ گیا، جان دے دی مگر چوری کرنا نہیں چھوڑا، ہم لوگ نیک کام میں جان نہیں دیتے اور یہ شر پر اتنا جماہوا تھا کہ جان تک دے دی، ہمیں اﷲ نیکی پر ایسی استقامت دے۔
توبہ سے رِند بادہ نوش بھی ولی اﷲ ہوجاتا ہے
تو جناب وہ نظر باز نظر بازی کرنے چار مرتبہ ریلوے اسٹیشن جاتا تھا، پھر وہ حضرت سے بیعت ہوا اور اتنا عبادت گذار ہے کہ اس سے کرامتیں ظاہر ہورہی ہیں، اس لیے کسی کو حقیر مت سمجھو، بعض اوقات یہ پتنگ باز، یہ نظر باز جب اللہ کی طرف آتے ہیں تو بہت بڑے ولی اللہ بن جاتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے
نیا توبہ شکن جب داخلِ مے خانہ ہوتا ہے
نہ پوچھو رنگ پر پھر کس قدر مے خانہ ہوتا ہے
خواجہ صاحب نے تھانہ بھون کو، تھانہ بھون کے رِندوں کو، تھانہ بھون کے مستوں کو اور شرابِ محبتِ الٰہیہ کے عاشقوں کو اس طرح سے تعبیر کیا
میں اب بادہ نوشوں میں جاکر رہوں گا
میں جینے کا اب کچھ مزہ چاہتا ہوں
بادہ نوشوں سے مراد ہے کہ میں اللہ کے عاشقوں کی مجلس میں جارہا ہوں، میں جینے کا اب کچھ مزہ چاہتا ہوں، تو خواجہ صاحب فرماتے ہیں
نیا توبہ شکن جب داخلِ مے خانہ ہوتا ہے
نہ پوچھو رنگ پر پھر کس قدر مے خانہ ہوتا ہے
اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی گنہگار دین میں داخل ہوتا ہے تو بتاو کتنی خوشی ہوتی ہے، کوئی ڈاکو، کوئی چور، کوئی شرابی کبابی توبہ کرکے خانقاہ میں آجائے اور اللہ کی یاد میں رونے لگے تو دل چاہتاہے کہ اس کے قدم چوم لیں۔
حضرت عبد اﷲ ابن مسعود ص اور زازان کا واقعہ
ملاعلی قاری رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں جارہے تھے تو دیکھا کہ زازان نامی گویّا ساز بجابجا کر گا رہا تھا اور شائقینِ خمر یعنی شرابی اس کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کاش یہ اس اچھی آواز سے قرآن پڑھتا، یہ بات اس تک پہنچ گئی، اس نے پوچھا مَن ھٰذا یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا ھٰذَا صَاحِبُ رَسُولِ اﷲِیہ رسول اللہ کے صحابی ہیں، اس گویّے نے پوچھا اَیش قَال انہوں نے کیا کہا؟ لوگوں نے کہا یٰالَیتَ ھُو یَقرَاُ القُراٰنَ بِھٰذَا الصَّوتِ الحَسَنِ کاش یہ اس اچھی آواز سے قرآن پڑھتا۔ بس اس نے ساز توڑ دیا اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قدموں سے لپٹ گیا اور کہا کہ میں توبہ کرتا ہوں اور رونے لگا، حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شرابی اور گانے بجانے والے کو گلے لگا کرخود بھی رونے لگے، سب نے اعتراض کیا کہ ایک فاسق و فاجر کو جو ابھی ابھی گندے ماحول سے آرہاہے آپ نے اتنا اونچا درجہ دے دیا کہ آپ اس سے لپٹ کر رو رہے ہیں تو فرمایا کہ اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ جب اس نے توبہ کرلی تو قرآن میں خدا کا وعدہ ہے کہ ہم توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں تو جب خدا کا محبوب مجھ سے لپٹ کر رو رہا ہے تو میں کیوں نہ رووں؟ خواجہ صاحب کا شعر ہے
حقیقت میں تو میخانہ جبھی میخانہ ہوتا ہے
تیرے دستِ کرم میں جب کبھی پیمانہ ہوتا ہے
ارواحِ عارفین کی مستی و سرشاری
جب اللہ والوں کے ہاتھ سے پیمانہ مل رہا ہو، خدا کے عاشق جام و مینا لُٹا رہے ہوں تو اﷲ کی محبت کا مے خانہ تو اسی وقت گرم ہوتا ہے اور بقول مولانا رومی
بادہ افراواں و خم و جامِ مے
بوسہ بے اندازہ و لب ناپدید
اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کو اپنی محبت کے بے شمار بادہ و خم و جام پلاتا ہے، خم کے خم پلاتا ہے، جامِ مے دیتا ہے اور لبِ نادیدہ سے بے اندازہ و غیر محدود بوسے لیتا ہے، خدا کے ہونٹ نظر تو نہیں آتے لیکن اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کے قلب و جان محسوس کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بے شمار بوسے لے رہے ہیں، بے شمار پیار لے رہے ہیں، ہم نے مرنے، گلنے سڑنے، ہگنے موتنے والی لاشوں سے نظر بچائی، مقاعد الرجال اور فروج النساءکو چھوڑا، کوئی مرکزِ بول ہے، کوئی مرکزِ براز ہے، یہ سب ہگنے موتنے والے ہی تو ہیں، جب ان سے نظر بچائی اور چند دن اللہ اللہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے قلب و جاں کو کیا انعام عطا فرمایا؟ اللہ والے جو محسوس کرتے ہیں وہ ہم اور آپ نہیں سمجھ سکتے، کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جلال الدین رومی نے غلط بیانی کی، میں کہتا ہوں کہ یہ بالکل حقیقت ہے یعنی اللہ کے عاشقین اور عارفین اس بادہ فراواں کو محسوس کرتے ہیں، خدائے تعالیٰ اپنے عاشقوں کو محبت کی بادہ فراواں و خم و جام ِ مے عطا کرتا ہے، بادہ افراواں پلاتا ہے۔
دوستو! بس چند دن محنت کرلوپھر آپ کے دل وجان محسوس کریں گے کہ ڈھالکہ نگر کی اس مسجد میں اور رمضان کے اس مبارک مہینہ میں اختر کیا کہہ گیا تھا، ان شاءاﷲ اس کے بعد آپ کے قلب وجان وہی محسوس کریں گے جو مولانا رومی نے فرمایا ہے
بادہ افراواں و خم و جامِ مے
بوسہ بے اندازہ و لب ناپدید
اﷲ تعالیٰ کے ہونٹ نہیں نظر آئیں گے ورنہ یومنون بالغیب کا پرچہ آوٹ ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ پرچہ آوٹ نہیں کرنا چاہتے، پرچہ آوٹ ہونے کے بعد یہ عالمِ امتحان نہیں رہے گا، ایمان بالغیب نہیں رہے گا اس لیے اپنے لبوں کو پوشیدہ رکھتے ہیں مگر پیار کو محسوس کرا دیتے ہیں، ہونٹوں کو چھپائے ہوئے ہیں تاکہ میرے عاشقین یومنون بالغیب رہیں، ان کا عالمِ امتحان عالمِ امتحان رہے تاکہ عالمِ غیب قبل از وقت عالمِ شہادت نہ بن جائے چنانچہ اپنے ہونٹوں کو تو پوشیدہ کردیا لیکن اپنے بے شمار بوسے محسوس کرادئیے، اتنا پیار تو ماں باپ بھی نہیں دے سکتے، اماں اپنے بچہ کے بے شمار بوسے کیسے لے سکتی ہے؟ چند بوسوں کے بعد ہی اس کے سرمیں درد ہو جائے گا، وہ تھک جائے گی مگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت کے نزول سے نہیں تھکتے، جس کے دل وجان کو خدا کا پیار عطا ہوتا ہے واللہ! اس کے سامنے سلطنت اور تخت و تاج کیا چیز ہے، اگر ساری دنیا کے مرنے والے حسین اس کا چوما لے لیں تو بھی خدا کے پیار کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔
دنیا بھر کے حسین مردہ ہی تو ہیں، اگرچہ ابھی مرے نہیں ہیں لیکن مرنے والے تو ہیں، اگر ایک مردہ دوسرے مردے سے لپٹا ہوا ہو تو آپ اس کو دیکھ کر لالچ کریں گے یا یہ کہیں گے کہ دونوں بے وقوف ہیں، اسی لیے اللہ والوں نے ساری کائنات سے نظر ہٹا کر اللہ تعالیٰ سے دوستی و محبت کا رشتہ قائم کیا ہے، یہ تعلق مع اﷲ وہ دولت ہے جو آپ کو سارے بنگلہ دیش بلکہ پورے عالم سے بے نیاز کردے گی اور جب آپ جنگل کی تنہائی میں ٹاٹ کے بورئیے پر پھٹے پرانے لباس میں پِنتھا بھات اور چٹنی روٹی کھا کر محبت سے اللہ کہیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ مجھ سے بڑھ کر کوئی سلطانِ وقت نہیں ہے
خدا کی یاد میں بیٹھے جو سب سے بے غرض ہوکر
تو اپنا بوریہ بھی پھر ہمیں تختِ سلیماں تھا
عشقِ مجازی کی تباہ کاریاں اور ان سے نجات کا طریقہ
دوستو! ذرا سوچو کہ ہم کہاں پڑے ہوئے ہیں؟ یہ مرنے والے تمہیں مار ڈالیں گے، تمہارے دل کو مردہ کردیں گے، تمہیں عذابِ الٰہی میں مبتلاءکردیں گے، تمہارے چہروں پر ایسی لعنتیں برسا دیں گے جن کی وجہ سے تمہارے چہروں پر خباثتیں معلوم ہوں گی، تمہاری کمر ٹیڑھی کردیں گے، تمہارے دل میں اختلاج پیدا کردیں گے، تمہاری آنکھوںکی روشنی ختم کردیں گے، تمہارے پاوں گھسیٹتے ہوئے تمہیں کتے کی موت ماردیں گے، اگر تم نے توبہ نہ کی، یہ تو دنیا کی ذلت ہے اور آخرت میں مرنے کے بعد پتہ چلے گا لہٰذا ہمت کرو
ہِیں تبر بردار و مردانہ بزن
چوں علی وار ایں درِ خیبر شکن
بھالہ اٹھاو اور نفس پر مردانہ وار حملہ کرو، زنانہ چوڑیاں اُتار دو اور نفس کے خیبر کو توڑ کر پارہ پارہ کردو، جنہوں نے چوڑیاں پہنی ہوئی ہیں، جو اپنی نظر نہیں بچا رہے ہیں، نفس کا کہنا مان لیتے ہیں اور نفس کا مقابلہ نہیں کرتے سمجھ لو کہ وہ نفس کے مقابلہ میں چوڑیاں پہن چکے ہیں، عورتیں بن چکے ہیں، یہ مرد نہیں ہیں کیونکہ یہ ھویٰ پرست ہیں، ان کو خواہشاتِ نفسانیہ کا حیض آرہا ہے جو حیض الرجال ہے۔ مولانا رومی ان کے بارے میں فرماتے ہیں
اے رفیقو! ایں مقیل و ایں مقال
اتقوا! ان الھویٰ حیض الرجال
لہٰذا ارادہ کرلو کہ آج سے حسین عورتوں اور امردوں کو نہیں دیکھیں گے، ارادہ کرلو کہ اپنے مالک کو راضی کرناہے، جان جائے تو جانے دو مگر تمام گناہوں سے توبہ کرلو اور جان کی بازی لگانے کاارادہ کرلو، اے خدا! ہماری جانوں کو قبول کرلے اورہمارے اس ارادہ کو بھی قبول کرلے، ہمیں جان لُٹانے کا ارادہ اور ہمت عطاکردے
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
آپ یہ بھی تو سوچیں کہ جب آپ نے گناہ چھوڑے تو اللہ نے آپ کو جو دیاوہ مولانا رومی رحمة اللہ علیہ کی زبان سے سنو
بادہ افراواں و خم و جامِ مے
بوسہ بے اندازہ و لب ناپدید
بادہ افراواں اللہ تعالیٰ بے شمار محبت کی شراب پلا رہے ہیں، یہ بادہ معرفت، یہ محبت کی شراب اگر بادشاہ پی لیں تو واللہ! اپنی سلطنت اورتخت و تاج پر ان کو ندامت ہوگی، وہ کہیں گے کہ ہم کس خسارہ میں مبتلاءہیں، اصلی بادشاہ تو یہ اﷲ والے ہیں، ہم لوگ تو ہوائی بادشاہ ہیں، ہماری شاہی ہوا پر ہے، اصلی شاہ یہ ہیں اور اصلی شاہ کس کو کہتے ہیں
شاہ آں باشد کہ از خود شہ شود
نے ز لشکر نے ز دولت شہ شود
اصلی شاہ وہ ہے جو اپنی باطنی دولت سے شاہ ہو، اپنی ذات سے شاہ ہو، فوج اور دولت سے شاہ نہ ہو کہ دولت ضائع ہوسکتی ہے، لشکر اور فوج بغاوت کرسکتی ہے لیکن کسی اللہ والے کو کسی فوج کی بغاوت کا اندیشہ نہیں ہوتا، اس کی شاہی اپنی ذات سے ہے، اس کی نسبت مع اللہ کی دولت اس کے اپنے قلب میں ہے۔ اسی لیے مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اﷲ والے اصلی شاہ ہیں اور دنیا والے بادشاہ ہیں، ان کی بادشاہت باد یعنی ہوا پر ہے، اللہ والوں کو بادشاہ کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ بادشاہوں کی بادشاہت لشکر، شاہی خزانہ اور فوج سے ہوتی ہے اور اللہ والوں کی شاہی نسبت مع اللہ کے اُس چاند سے ہوتی ہے جو اُن کے باطن میں ہوتا ہے، وہ یہ چاند قبروں میں لے کر جاتے ہیں اور میدانِ حشر میں بھی نسبت مع اللہ کے اس چاند کو اپنے ساتھ لیے ہوئے ہوںگے، وہ ہر جگہ اس کے قرب کی دولت سے مالا مال ہیں چاہے جہاں کہیں بھی ہوں
جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں
کو ئی محفل ہو، تیرا رنگِ محفل دیکھ لیتے ہیں
دوستو! اللہ والوں کی دولت کاہمیں پتہ نہیں ورنہ یہ نظر نہ بچانا اور دیگر گناہ ہم پر سخت گراں گذرتے، گناہوں میں ملوث ہونا بد بختی کی علامت ہے، جس کی قسمت خراب ہوتی ہے وہی اللہ کے غضب میں گرفتار ہوتا ہے، اس لیے مولانا رومی فرماتے ہیں
ہِیں تبر بردار مردانہ بزن
عورتوں کی طرح مت رہو، عورتوںجیسی زندگی مت گذارو، ہمت سے کام لو، رمضان کے اس مبارک مہینہ میں نفس پر مردانہ وار حملہ کرو، سارے گناہوں سے توبہ کرو، بد نگاہی والا بد نگاہی سے، غیبت والا غیبت سے، گانا سننے والا گانا سننے سے، عورتوں کا عاشق عورتوں کے عشق سے، لڑکو ں کا عاشق لڑکوں کے عشق سے ان ساری چیزوں سے توبہ کر کے آج اللہ تعالیٰ سے عہد کرو کہ ہم تقویٰ کی حیات گذاریں گے پھر دیکھنا کہ اللہ تعالیٰ کے بے اندازہ بوسہ وپیار ملیں گے۔
مجلس ختم ہورہی ہے، اب آخری شعر سن لو، دیکھو دین کی مجلس ویسے ہی کم نصیب ہوتی ہے لہٰذا جو موقع ملے اسے غنیمت جان لو، خواجہ صاحب فرماتے ہیں
حقیقت میں تو مے خانہ جبھی مے خانہ ہوتا ہے
تیرے دست ِکرم میں جب کبھی پیمانہ ہوتاہے
دین کی مجلس کے لیے، اللہ والوں کی مجلس کے لیے اس سے بہترین تعبیر کیا ہوسکتی ہے اور مے خانہ سے مراد دنیاوی شراب نہ سمجھ لینا، اس سے اللہ کی محبت و معرفت مراد ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی محبت کی شراب کے سامنے دنیاوی شراب کی کیا حقیقت ہے؟ مولانا رومی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں
بادہ از ما مست شد نے ما ازو
شراب مجھ سے مست ہوتی ہے، میں شراب سے مست نہیں ہوتا
بادہ در جوشش گدائے جوشِ ماست
چرخ در گردش اسیرِ ہوشِ ماست
دنیاوی شراب میری مستی کی گدا اور فقیر ہے اور آسمان اپنی گردش میں میرے ہوش کا قیدی ہے، میرے باطن کا ایک جز ہے۔ اب خواجہ صاحب کے اسی شعر پر آج کی مجلس ختم ہورہی ہے
حقیقت میں تو مے خانہ جبھی مے خانہ ہوتا ہے
تیرے دست ِکرم میں جب کبھی پیمانہ ہوتاہے
کسی اللہ والے کے ہاتھ میں جب شرابِ محبت کا پیمانہ ہوتاہے تو واقعی وہ مجلس حقیقت میں میخانہ بن جاتی ہے۔ خواجہ صاحب کے اشعار دیکھو تھانہ بھون کا نقشہ کھینچ دیا۔
اب اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ خدائے تعالیٰ ہمارے دلوں میں اپنے دردِ محبت کا موتی داخل کردے، ہمارے سیپ خالی ہیں اور منہ پھیلائے ہوئے ہیں
دست بکشا جانبِ زنبیلِ ما
ہمارے خالی سیپ کی طرف اپنے کرم اور اپنی رحمت کا ہاتھ بڑھا دیجئے، رمضان کامہینہ ہے، روزہ کی حالت میں بھوکے پیاسے ہیں، مبارک زمانہ ہے، مبارک مکان ہے، مسجد میں صالحین، محدثین، طلباءکرام جمع ہیں، اے خدا! ان کی برکتوں سے ہمارے دل و جان کے سیپ میں اپنی محبت کے درد کا موتی داخل فرمادیجئے اور کون سا موتی؟ جو اولیاءصدیقین کے سینوں میں آپ داخل کرتے ہیں وہ دردِ محبت ہماری جانوں کو عطاءفرمادیجئے اور ہمارے دل و جان کو، ہماری روح کو، ہمارے قلب اور قالب کو، ہمارے بچوں کو، ہمارے ماں باپ کو، ہمارے رشتہ داروں کو، ہمارے تمام دوستوں کو جو یہاں موجود ہیں اور جو موجود نہیں سارے عالم کے دوستوں کو اور اے اللہ جنہوں نے دوستی نہیں کی ان کو بھی، ہر کلمہ گو کو اپنی رحمت سے صاحبِ نسبت بنا دیجئے، سارے عالم کے اہلِ کفر کو اہلِ ایمان بنادیجیے اور اہلِ ایمان کو اہلِ تقویٰ بنادیجئے، اہلِ ابتلاءومصیبت کو اہلِ عافیت بنا دیجئے، اہلِ جہل کو اہلِ علم بنا دیجئے اور جو اہلِ معصیت ہیں ان کو اہلِ تقویٰ بنادیجئے۔
چیونٹیوں کو بلوں میں، مچھلیوں کو دریاوں میں اور پرندوں کو فضاوں میں عافیت نصیب فرما دیجئے، سارے عالم پر اپنی رحمت کے دریا اُنڈیل دیجئے، وَ ِﷲِ خَزَائِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضِ اے زمین و آسمان کے خزانوں کے مالک آپ اپنے خزانوں سے بے نیاز ہیں، آپ کے خزانے ہم فقیروں کے لیے ہیں، دنیا کے بادشاہ اپنے خزانوں کے محتاج ہوتے ہیں مگر آپ اپنے خزانوں سے بے نیاز ہیں تو ہم فقیروں پر اپنے غیر محدود خزانے برسا دیجئے اور ہم سب کو اس کا تحمل بھی عطاءفرمادیجیے تاکہ ہم عجب و کبر میں مبتلاءنہ ہوں، یااللہ! ہم سب کو ان خزانوں میں ایک عمر بسر کرنے کے لیے زندگی میں برکت بھی عطا فرمائیے تاکہ ہم آپ کی نعمتوں میں رہ کر کچھ دن آپ کے گیت گا لیں، آپ کی حمد و ثناءاور تعریف کرلیں اور دوستوں کی ملاقات سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرلیں، اے اللہ! میرے جتنے محدثین، علماءاور احباب ہیں ہم سب کی زندگی میں برکت ڈال دیجیے اور ہم سب کو اولیاءصدیقین کی منتہاءتک پہنچا دیجیے اور ایک عمر اس نسبتِ صدیقین کے ساتھ زندہ رکھیے تاکہ آپ کی نسبت و تعلق کے جو مزے دنیا میں ان اولیاءکی مبارک جانیں لوٹتی ہیں ایک عمر ہم بھی وہ مزے لوٹ کر آپ کے پاس آئیں اور اسی حالت میں ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائیے، آمین۔
اے اللہ! جو بیمار ہیں ان کو خوب اچھی صحت دے دیجیے، صحت و عافیت کے ساتھ کم ازکم ایک سو بیس سال کی عمر دے دیجیے، دین کی خدمات کے ساتھ اپنی رضاءکے ساتھ، دوستوں کی ملاقاتوں اور معیتوں کے ساتھ، آپ کی رضاءکامل کے ساتھ ہم سب کے سانس میں ابھی کچھ اور برکت ڈال دیجئے کیونکہ ابھی ہماری سانسیں آپ کی نافرمانیوں میں گذر رہی ہیں، ابھی ہماری جوانی آپ کا حق ادا نہیںکرسکی، زندگی میں دوبارہ جوانی عطاءکردیجئے اور جب زندگی میں دوبارہ جوانی عطاءہو تو وہ جوانی آپ کے لیے وقف ہو، جوانی کے تقاضے ختم ہوگئے، بال سفید ہوگئے، اے خدا دوبارہ عالمِ شباب دے دیجئے اور اپنی راہ میں اس کو قبول کرلیجئے۔ اے اﷲ! اس جوانی کو دین کے پھیلانے میں اور تقویٰ کی راہوں میں خرچ کرنے کی توفیق عطاءفرمادیجئے۔
یااللہ! اس خانقاہ کی تعمیر کا غیب سے انتظام فرمادیجیے، اس کی تعمیر کا جلد سے جلد انتظام فرمادیجئے اور تعمیر اچھی، مضبوط اور عافیت کی ہو اور اس خانقاہ کو اپنے اولیاءسے قیامت تک آباد رکھیے، جب ہم قبروں میں ہوں تب بھی یہ آباد رہے۔
میرا صبح ٹہلنے کا معمول ہے، اکثر دریاوں کے کنارے جاتا ہوں اور سلطان ابراہیم ابن ادھم کی سنت کی نقل کرتا ہوں کیونکہ اکثر اولیاءدریاوں کے کنارے رہے ہیں، دریاوں کی موجوں سے اپنے قلب میں اللہ کے قرب اور معرفت کی لہریں حاصل کیں لیکن ہمارے پاس موٹر کم ہیں، ایک موٹر میں بیس آدمی بیٹھ گئے، دوسری میں چار بیٹھ گئے اور باقی لوگ دیکھتے رہ گئے، ان کے چہرے کی افسردگی دیکھ کر مجھے غم ہوتاہے، اس لیے اللہ سے مانگتا ہوں کہ میرے جتنے دوست ہیں سب کو صاحبِ کار کر دیجئے اور ان کو توفیق بھی دیجئے کہ جب تک یہاں قیام رہے علماءاور صلحاءکے لیے اپنی کار کو سرکاری کام میں لگا لیں، اپنی کار کوکارِ سرکار میں یعنی اللہ تعالیٰ کے کام میں لگالیں جو دین کا کام ہے، یہ دین کے خادم ہیں، جیسے بھی ہیں، ٹوٹے پھوٹے خادموں کی بھی قدر کرلو۔
ایک شخص نے شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمة اللہ علیہ سے کہا کہ آج کل کے سفیر چندہ کھا جاتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ ان کی بھی قدر کر لو کام تو کررہے ہیں، ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کھا کر بھی دین کا کام کرنے والے نہیں ملیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی اِصلاح کردے اور ہم سب کا تزکیہ نفس فرمادے، یااللہ! قَد اَفلَحَ مَن زَکّٰھَا کی آیت کے صدقہ میں، اس آیت کی برکت سے ہم سب کا تزکیہ فرمائیے اور ہم سب کو فلاح دے دیجئے اور وَ قَد خَابَ مَن دَسّٰھَا کی خبیث زندگی سے نجات عطاءفرمادیجیے، ایسا نہ ہو کہ ہم سب خاب ہوجائیں۔
اللہ تعالیٰ دین ونیا کی تمام عافیتوں سے مالامال فرمائیے، عفو و عافیت و معافات دے اور جو دعا ہم نہیں مانگ سکے اللہ تعالیٰ بے مانگے ہم سب کو عطا کردے۔ آخر میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ دعا مانگتے ہیں تاکہ ہر خیر ہمیں مل جائے اور سارے شرور سے پناہ مل جائے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ مِن خَیرِ مَاسَئَلَکَ مِنہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّد
صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَ اَعُوذُ بِکَ مِن شَرِّ مَا استَعَاذَ
مِنہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّد صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَ اَنتَ
المُستَعَانُ وَ عَلَیکَ البَلاَغُ وَ لاَ حَولَ وَ لاَ قُوَّةَ
اِلاَّ بِا اﷲِ العَلِیِّ العَظِیمِ
وَصَلَی اﷲُ تَعَالٰی عَلٰی خَیرِ خَلقِہ مُحَمَّدٍ وَّ
عَلٰی اٰلِہ وَ صَحبِہ اَجمَعِینَ
بِرَحمَتِکَ یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ