ملفوظات حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
ایف جے،وائی(December 27, 2009)
مرتبہ: سید عشرت جمیل میر
(گذشتہ سے پیوستہ)
اچھے اور برے اخلاق کے ثمرات
فرمایا کہ ایک حدیث ہے: لاَخَیرَ فِیمَن لاَّیَالَفُ وَلاَ یُولَفُ
(المشکوٰة،کتاب الاداب، ج:۳،ص:۲۹۳۱، المکتب الاسلامی )
اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو نہ کسی سے محبت کرتا ہے اور نہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ اس بارے میں ایک حدیث اور سن لیجئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عورتیں تھیں، ایک عورت بہت عبادت کرتی تھی، صحابہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے اس عورت کے متعلق عرض کیا کہ ایک عورت بڑی عبادت گذار ہے مگر اس کے اخلاق نہایت خراب ہیں، زبان کی نہایت کڑوی ہے، ہر ایک سے ذرا ذرا سی بات پر لڑتی ہے، ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتی، سارا محلہ اس سے تنگ ہے۔ آپ نے فرمایا ھِیَ فِی النَّارِ یہ جہنم میں جائے گی۔ آہ! کہاں گیا تہجد، کہاں گئی تلاوت، کہاں گئی نماز، کہاں گیا روزہ، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جہنم کی وعید سنا دی تو جو اخلاق کا کڑوا ہو اور اس کا کڑوا پن لوگوںمیں مشہور ہو کہ یہ آدمی غصے کا تیز اور اخلاق کا بدتمیز ہے، مغلوب الغضب ہے، ہر آدمی اس سے پناہ مانگتا ہو، ڈرتا ہو تو سمجھ لو کہ ایسا شخص انسان نہیں بھیڑیا ہے۔ اور دوسری عورت کے بارے میں خبر دی گئی کہ یا رسول اﷲ! ایک عورت ہے جو فرض، واجب اور سنت موکدہ ادا کرتی ہے، ضروری ضروری اعمال کرتی ہے لیکن اس کے اخلاق سے سارا محلہ خوش ہے، اس کا ایسا ٹھنڈا مزاج اور نرم دل ہے کہ سارا محلہ اس سے خوش ہے، کسی کے مصیبت میں کام آنا، کسی کے غم میں غم زدہ ہوجانا، ہر وقت اپنے پڑوسیوں کا خیا ل رکھنا اور سن لو کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اپنے مسلمان بھائی سے خندہ پیشانی سے، مسکراتے چہرے سے ملاقات کرناصدقہ ہے، اگرچہ مال نہیں خرچ ہو ا لیکن مفت میں صدقہ کا ثواب مل گیا۔ اگر آپ غمگین بھی ہیں تو بھی اس وقت قصداًتبسم لے آئیے، دل نہیں چاہتا مسکرانے کو لیکن ایک مسلمان کو خوش کرنے کے لیے اس سے مسکرا کر پوچھ لیں کہ بھائی کیا حال ہے؟ خیریت ہے؟ جب پیٹ کے لیے تبسم کرسکتے ہو تو اﷲ کو خوش کرنے کے لیے تبسم تو مفت کا صدقہ ہے۔ تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اچھے اخلاق والی عورت کے بارے میں فرمایا ھِیَ فِی الجَنَّةِ یعنی وہ جنتی ہے۔
مسلمان کے لیے مجلس میں جگہ بنانا اس کا حق ہے
اسی طرح اگر کوئی ملنے آئے تو وہیں اپنی جگہ پہاڑ کی طرح نہ بیٹھے رہیں، ذرا سا کھسک کر اسے جگہ دے دیں، ایسا نہ ہو کہ وہ بے چارہ تنگی سے بیٹھا ر ہے کیونکہ آگے دوسرا بیٹھا ہوا ہے اور اس کو کچھ ہوش نہیں، یہ بے خودی والے لوگ ہیں، اتناہوش نہیں کہ ذرا سا کھسک کر جگہ دے دیں اگر جگہ نہیں ہے پھر بھی تھوڑا سا حرکت کرلو کہ آئیے آئیے تشریف لائیے۔ یہ سنتِ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہے۔
ایک صحابی مسجدِ نبوی میں آئے، مسجد میں بہت جگہ تھی مگر پھر بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہا آو آو مرحبا اور اپنی جگہ سے ذرا سا کھسک گئے، صحابی نے عرض کیا یا رسول اﷲ!مسجد میں تو بہت جگہ تھی پھر آپ نے اپنی جگہ سے کیوںحرکت فرمائی؟ فرمایا مسلمان پر مسلمان کا حق ہے کہ جب وہ ملنے آئے تو تھوڑا سا جسم کو حرکت دے دے، ذرا سی جگہ بنادے تاکہ معلوم ہوکہ اس نے ہمارا اکرام کیا، دیکھا آپ نے! اسلام اس کا نام ہے: اَکمَلُکُم اِیمَانًا اَحسَنُکُم خُلُقًا (تھذیب التھذیب، کتاب النساء،ج:۲،ص:۹۲۱، دار الفکر)
سب سے کامل ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ آج تصوف کی بنیاد تسبیحات، وظائف، اذکار، نوافل اور مختلف ختمات پر رکھ دی گئی اور اخلاقیات میں یہ معاملہ ہے کہ جب دیکھو بس غصہ چڑھا ہوا ہے۔ بارہا اپنے دوستوں کو دیکھتا ہوں کوئی ملنے آیا ذرا سا حرکت نہیں کرتے کہ آئیے آیئے تشریف لائیے، بیٹھ جائیے۔ یہاں تک کہ بعض کو دیکھا کہ تنگی سے بیٹھے ہیں تو مجھے کہنا پڑا کہ ذرا جگہ دے دو بھائی، تھوڑا سا کھسک جاو، ادھر جگہ موجود ہے، لیکن انہیں خود سے ہوش نہیں آتا، عالمِ بے خودی سے خدا نہیں ملتا، دین سراسر بیداری کا نام ہے، ہر لمحہ حیات، ہرسانس یہ خیال ہوکہ میرا اﷲ اس سانس میں ہم سے خوش ہے یا نہیں یہ اصلی پاس انفاس ہے، پاس معنیٰ خیال رکھنا اور انفاس جمع ہے نفس کی، نفس معنیٰ سانس، بعض لوگوں کے ہر سانس میں ذکر جاری ہے مگر کسی گناہ سے پرہیز نہیں ہے، ایسا پاس انفاس اﷲوالوں کا شیوہ نہیں ہے۔
مخلوق کے ساتھ بھی اخلاص مطلوب ہے
حکیم الامت مجددالملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اﷲعلیہ فرماتے ہیں کہ اصلی پاس انفاس یہ ہے کہ ہرسانس میں خیال رکھو کہ کون سی سانس اﷲ کی مرضی کے مطابق گذری اور کون سی سانس اﷲ کے تحت الغضب اور نافرمانی میں گذری، جس شخص کو یہ خیال ہو جائے تو سمجھ لو کہ یہ اﷲ والا ہوگیا، اس کو اﷲ تعالیٰ سے نسبت قائم ہوگئی لہٰذا دل کی نگرانی کرو کہ دل میںکیسے خیالات آرہے ہیں، ان خیالات سے اﷲ خوش ہے یا نہیںیا اپنی ہی حرام لذت سمیٹ رہے ہو، جب دل میں کوئی خیال آئے فوراً سوچو کہ اس خیال سے اﷲ تعالیٰ خوش ہوں گے یا ناراض جب دل فیصلہ کرے کہ اﷲ تعالیٰ کو تو گندے خیالات سے خوشی نہیں ہوتی تو فوراً کہو یا اﷲ ان خیالات سے ہم توبہ کرتے ہیں، معافی چاہتے ہیں اگر یاد ہو تو یہ دعا بھی پڑھ لو: اَللّٰھُمَّ اَخلِصنِی بِذَاتِکَ وَبِمَخلُوقَاتِکَ
اے اﷲ! میں آپ کی ذات کے ساتھ بھی اخلاص چاہتا ہوںاور آپ کی مخلوق کے ساتھ بھی اخلاص اور اچھے اخلاق چاہتا ہوں۔ آپ بتاو! کسی کی بیٹی کو کوئی بری نظر سے دیکھ رہا ہو، کسی کے بیٹے کو کوئی بری نظر سے دیکھ رہا ہو تو کیا اس وقت باپ کی دوستی کا حق ادا ہورہا ہے؟ جو اس کی اولاد کا نہیں ہے وہ باپ کابھی نہیں ہے، جو اﷲ کی مخلوق کا نہیں ہے وہ اﷲ کا بھی نہیں ہے، جواﷲکی مخلوق کو بری نظر سے دیکھتا ہے یا مخلوقِ خدا کے ساتھ بدگمانی اور بد خیالی اور خیانت کے خیالات میں مشغول ہے اﷲ تعالیٰ اس سے خوش ہوں گے یا ناراض ہوں گے؟ بتاو! کیا اﷲ تعالیٰ کو پتہ نہیں چلتا؟ اﷲ تعالیٰ سینوں کے راز سے باخبر ہیں۔
میری گذارشات غور سے سنیے! آنکھ بند کرکے مت سنیے، آنکھ کھول کر سنیے، کان کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، کان کے اوپر کوئی پردہ نہیں ہے، آنکھ کے اوپر پردہ ہے تاکہ آنکھ نامناسب جگہ نہ دیکھے، اس لیے اﷲ نے پلکوں کا پردہ لٹکا دیا کہ جب میرے بندہ کو ضرورت پڑے اور نامناسب جگہ آنکھ جانے کی کوشش کرے تو جلدی سے پردہ لٹکا لے لیکن جہاں دیکھنا عبادت ہو وہاں یہ پردہ اٹھالے، بتاو!عالم کو دیکھنا عبادت ہے یا نہیں؟ اَلنَّظَرُ اِلٰی وَجہِ العَالِمِ عِبَادَة (کنزل العمال، ج:۵۱،ص:۱۷۳، دار الکتب العلمیة)
عالم کو دیکھنا عبادت ہے، بیت اﷲ کو دیکھنا عبادت ہے، اپنے ماں باپ کو محبت و اکرام سے دیکھنے کا ثواب مقبول حج کے برابر ہے لہٰذا میری باتیں جتنی محبت سے سنیں گے اور مجھے غور سے دیکھتے رہیں گے اتنا ہی آپ کی برکت سے مضمون کی آمد ہوگی۔
مخلوق کی تکلیف دور کرنے پر جنت کی بشارت
تو میں عرض کررہا تھا کہ اگر آپ لو گ چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن ہم کامل ایمان کے ساتھ اُٹھیں اَکمَلُکُم اِیمَانًابلکہ کامل نہیں اکمل ایمان جو کامل سے اعلیٰ درجہ کا ہے تو اپنے اخلاق کی اصلاح کرائیے، ہم سب اپنے اخلاق کی فکر کریں، بعض وقت ایک خُلق اﷲ کو پسند آگیا، کوئی ایک عبادت بھا گئی اور اسی سے جنت مل گئی۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ ایک بد کار عورت جنگل میں جارہی تھی، ایک کنویں کے پاس ایک کتا پیاس سے مررہا تھا، اس بد کار عورت نے اپنا موز ہ نکالا اور اسے اپنے دوپٹہ سے باندھا۔ بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوپٹہ اوڑھتی تھی، آج تو شریف لڑکیاں بھی سر سے دوپٹہ اتار چکی ہیں، اگر کسی نے بہت زیادہ شرافت دِکھائی تو گلے میں لپیٹ لیا یا کندھے پر ڈال لیا مگر سر کھلا ہوا ہے جبکہ بالوں کا کھولنا حرام ہے، حرام کاموں سے امت کو فلاح کیسے ملے گی؟ لاکھ رات دن وظیفے پڑھ لو، وظیفوں سے کام نہیں بنے گا، جب تک اﷲ کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوگا، اﷲ خوش نہیں ہوگا وظیفہ کچھ نہیں کر سکتا۔ گھر میں وی سی آر، ٹیلی ویژن، ننگی فلمیں، لڑکے لڑکیوں کا مخلوط نظامِ تعلیم جہاں لڑکیاں ننگے سر پڑھ رہی ہیں آپ بتاو کہ یہ سب اﷲ تعالیٰ کے غضب اور قہر کے اعمال ہیں یا نہیں؟ جبکہ حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو نابینا صحابی سے پردہ کرایا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی دو بیویوں حضرت میمونہ اور حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے پاس تشریف فرما تھے کہ اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبد اﷲ ابن مکتوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حاضر ہوئے، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو، دونوں بیویوں نے کہا کہ اے اﷲکے نبی یہ تو اندھے ہیں، فرمایا یہ اندھے ہیں تم تو اندھی نہیں ہو۔
تو دوستو! میں کہہ رہا تھا کہ اس بد کار عورت نے اپنا موزہ نکال کر دوپٹے سے باندھا پھر اسے کنویں میں ڈال کر پانی سے موزہ بھگویا اور کتے کے منہ میں نچوڑ کر اس کی پیاس بجھائی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسی عمل پر اﷲ تعالیٰ نے اس کو جنت عطا فرما دی۔ اخلاق کا درجہ دیکھا آپ نے! لیکن افسوس ہے کہ جو تصوف سیکھ رہے ہیں وہ بھی اخلاقیات کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں، جو خانقاہوں سے جڑے ہیں وہ بھی اخلاقیات کو اہمیت نہیں دیتے، حج اور عمرے تو خوب کرتے ہیں لیکن کسی مسلمان کو اذیت پہنچ جائے تو ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کہ لاو کم ازکم اس سے معافی تو مانگ لیں، کسی کو اذیت پہنچانا حرام ہے، تکلیف دینے والا کبھی اﷲ کا ولی نہیں ہوسکتا، ولی ہونا تو درکنار ابرار کے رجسٹر سے، نیک لوگوں کے رجسٹر سے بھی خارج ہوجاتا ہے۔
مخلوق میں محبوبیت اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہے
ارشاد فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے کہ اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو نہ کسی سے محبت کرتا ہے اور نہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مخلوق میں محبوب ہونا بھی اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اسی لیے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خواجہ حسن بصری رحمة اﷲ علیہ کو دو دعائیں دیں: اَللّٰھُمَّ فَقِّہہُ فِی الدِّینِ وَحَبِّبہُ اِلَی النَّاسِ
اے خدا! اس کو دین کا علم عطافرما اور اپنی مخلوق میں محبوب کردے، یہ جملہ بتاتا ہے کہ انسان کا اپنی بیوی میں، ماں میں، باپ میں، دوستوں میں اور اپنے ماحول میں محبوب ہونا اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اسی طرح قرآن پاک کی دعا ہے: رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَةً (سورة البقرة، آیة:۱۰۲)
کہ اے اﷲ!ہمیں دنیامیں بھی حَسَنَةًیعنی بھلائی دے اور آخرت میں بھی حَسَنَةًدے۔ مفسرین حَسَنَةً کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ آخرت کے حسنہ سے مراد بے حساب مغفرت اور جنت میں داخلہ ہے اور دنیا میں حَسَنَةًکی دس تفسیریں ہیں:
۱)نیک بیوی
۶)صحبتِ صالحین
۲)نیک اولاد
۷)تفقہ فی الدین
۳) علمِ دین
۸) صحت و عافیت
۴)اعمالِ صالحہ
۹)نصرة علی الاعدائ
۵)رزقِ حلال
۰۱) ثناءالخلق
یعنی مخلوق میں تعریف ہو کہ بہت اچھے آدمی ہیں لیکن جب مخلوق میں کسی کا ہر وقت برائی سے تذکرہ ہورہا ہو تو سمجھ لو کہ اس کے اخلاق خراب ہیں مگر متکبر انسان اس کو تسلیم نہیں کرتا، وہ کہتا ہے کہ ہم کسی کی پرواہ نہیں کرتے، ہم تو اﷲ پر نظر رکھتے ہیں، اس جیسا بدتمیز اور متکبر انسان کوئی نہیں ہوگا کہ اﷲ پر نظر ہے مگر مخلوق کو ستا رہا ہے، جیسے کوئی کسی کو ستائے اور اس سے کہے کہ مجھے تمہاری پرواہ نہیں، مجھے تمہارے ابا کو خوش کرنا ہے تو بتاو کسی کا ابا اپنی اولاد کو ستانے والے سے خوش ہوگا؟ تو ربا بھی اپنی مخلوق کو ستا نے والوں سے خوش نہیں ہوتا اس کے برعکس ایک بدکار عورت کتے کو پانی پلا کر اس کی زندگی کا سبب بن کر جنت لے لیتی ہے۔
میں خواجہ حسن بصری رحمة اﷲعلیہ کا واقعہ عرض کررہا تھا کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو بہت پیاری دعائیں دیں، آج ہم اپنے لیے، آپ سب کے لیے اور یہاں جو پردہ نشین عورتیں بیٹھی ہیں ان کے لیے یہ دعا مانگتے ہیں اَللّٰھُمَّ فَقِّہنَا فِی الدِّینِ اے اﷲ!ہم سب کو علمِ دین عطافرما اور خالی علمِ دین مراد نہیں ہے ورنہ فرماتے اَللّٰھُمَّ عَلِّمہُ الدِّینَ اﷲتعالیٰ اس کو دین کا علم دے دے بلکہ فرمایا اَللّٰھُمَّ فَقِّہہُ فِی الدِّینِ اے اﷲ!دین کی فہم، دین کی سمجھ عطا فرما۔اب ہم ان دعاوں کو اپنے لیے کیسے مانگیں اَللّٰھُمَّ فَقِّہنَا فِی الدِّینِ وَحَبِّبنَا اِلَی النَّاسِ اے اﷲ! ہمیں دین کی فقہ اور سمجھ عطا فرما اور ہم سب حاضرین و حاضرات کو مخلوق میں محبوب کر دے اور ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ ہو تب سمجھ لو کہ وہ اﷲ کا پیار ا بندہ بن گیا، مخلوق کو ستانے والا اﷲ کا ولی نہیں ہو سکتا تو یہ دونوں دعائیں یاد کرلیجئے۔ ثناءخلق پر ایک بات یاد آئی، میدانِ عرفات میں سب سے اعلیٰ دعا جو حدیث سے ثابت ہے، وہ ہے:لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَحدَہٰ لاَ شَرِیکَ لَہ لَہ المُلکُ وَلَہ الحَمدُ یُحی وَیُمِیتُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیئٍ قَدِیر
(کنز العمال، کتاب الحج، ج:۵،ص:۴۷، دار الکتب العلمیة)
آپ بتاو اس کلمہ میں کو ئی دعا ہے سوا اس کے کہ اﷲ کے سوا کو ئی معبود نہیں ہے لَہ المُلکُ سلطنت اسی کی ہے وَلَہُ الحَمدُ سب تعریف اسی کی ہیں غرض اس میں کوئی دعا نہیں ہے، اس میں کچھ نہیں مانگا گیا سوائے اﷲ کی تعریف کے، اگر کوئی پوچھے کہ یہ کیسی دعا ہے جس میں نہ دنیا مانگی گئی نہ آخرت مانگی گئی پھر بھی اسے سب سے اعلیٰ دعا قرار دیا گیا تو اس کا جواب فقہاءکرام نے دیا ہے کہ ثَنَائُ الکَرِیمِ دُعَائ کریم کی تعریف کرنا دعا ہے مثلاً کوئی کسی کریم کی تعریف کرے تو گویا اس نے اپنی ہر حاجت مانگ لی کیونکہ کریم خوش ہوکر اس کی حاجت روائی کرے گا اور اﷲتعالیٰ تو اصلی کریم ہیں لہٰذا اس کی تعریف میں ساری دعائیں آگئیں۔
تو مخلوق میں کسی بندہ کا تذکرہ حَسَن ہونا کہ ماشاءاﷲبڑے حلیم الطبع ہیں، بڑے ٹھنڈے مزاج کے ہیں، بڑے ضبط اور صبروالے ہیں، اپنی بیوی کو بھی آرام سے رکھتے ہیں اور دوستوں سے بھی آرام اور اخلاق سے رہتے ہیں، صاحب میں نے تو ان پر کبھی غصہ دیکھا ہی نہیں الاّ یہ کہ شریعت کا کوئی معاملہ ہو، شریعت کے خلاف غصہ کرنا بھی تو ضروری ہے تو یہ شخص رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَةً کی تفسیر ہے کہ ثناءالخلق کی نعمت اس کو حاصل ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے حضرت خواجہ حسن بصری رحمة اﷲ علیہ کے حق میں حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی دونوں دعائیں قبول فرمالیں۔ آج کی مجلس میں آپ نے بھی یہ دو دعائیں سیکھ لیں، آج آپ کا آنا سولہ آنہ ہوگیا ان شاءاﷲ، اﷲ سے یہ دونوں دعائیں مانگ لو اَللّٰھُمَّ فَقِّہنَا فِی الدِّینِ وَحَبِّبنَا اِلَی النَّاسِ اے خدا ہم سب کو دین کی سمجھ عطافرما اور اپنی مخلوق میں ہمیں محبوب کردے۔ اب خواجہ حسن بصری کی ایک تفسیر سنیئے۔
ابرار کون لوگ ہیں؟
علامہ بدر الدین عینی رحمة اﷲعلیہ بخاری شریف کی شرح عمدة القاری میں لکھتے ہیں کہ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : اِنَّ الاَبرَارَ لَفِی نَعِیمٍo وَاِنَّ الفُجَّارَ لَفِی جَحِیمٍo(سورةانفطار، آیات:۴۱،۳۱)
یعنی نیک بندے جنت میں جائیں گے اور نافرمان جہنم میں جائیں گے توہمیں ابرار بننا چاہیے یا نہیں؟ لیکن ابرار کون لوگ ہیں؟ خواجہ حسن بصری رحمة اﷲ علیہ ابرار کی تفسیر کرتے ہیں کہ ابرار کون بندے ہیں؟
قَالَ الحَسَنُ البَصَرِی فِی تَفسِیرِ الاَبرَارِاَلَّذِینَ لاَ یُوذُونَ الذَّرَّ
ابرار وہ ہیں جو چیونٹی کوبھی تکلیف نہ دیں، سن لو اس کو، بعض لوگ بے خیالی میں چیونٹیوںپر پیر رکھے چلے جاتے ہیں۔ سعدی شیرازی رحمة اﷲعلیہ نے فرمایا کہ جب کوئی چیونٹی پر پیر رکھتا ہے تو چیونٹی کا وہی حال ہوتا ہے جیسے انسان پر ہاتھی پیر رکھ دے۔ پس اگر ابرار بننا ہے تو بیوی بچوں اور ماں اور باپ کو ستانا تو بہت بڑی بات ہے چیونٹیوں کو بھی تکلیف نہ دو: اَلَّذِینَ لاَ یُوذُونَ الذَّرَّّ وَلاَ یَرضَونَ الشَّرَّ
(عمدة القاری،کتاب مواقیت الصلٰوة، ج:۱،ص:۳۲۱، داراحیاءالتراث العربی)
ابرار وہ بندے ہیں جو کسی چیونٹی کوبھی تکلیف نہ دیں اور کسی گناہ سے خوش نہ ہوں۔ آہ! گندے گندے خیالات پکا کر اندر اندر حرام خوشی لی جارہی ہے اور ابرار بنے ہوئے ہیں جبکہ ابرار کی تفسیر یہ ہے کہ ابرار وہ بندے ہیں جو اﷲ کی نافرمانی سے خوش نہیں ہوتے۔ آپ بتائیے! دل میں گندے گندے خیالات پکانا یا پرانے گناہوں کو سوچ سوچ کر حرام مزہ لینا، گھنٹوں اس میں مشغول رہنا اور توبہ نہ کرنا، کیا یہ شخص اﷲ کا مقبول ہے؟ اگر یہ اﷲ کا مقبول ہوتا تو فوراًتنبیہ ہوجاتی کہ میں یہ کیا کررہا ہوں، کیسے خیالات لارہا ہوں اور نفس سے کہتا کہ نالائق خبیث کیا سوچ رہا ہے، جس گناہ پر اﷲ نے ایک قوم پر عذاب نازل کیا اس گناہ کے خیالوں سے مزہ لیتا ہے، تو جس پر اﷲ کی مہربانی ہوتی ہے اسے فوراً توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے، جس کو توفیقِ توبہ نہ ہو تو سمجھ لو کہ وہ اﷲ کی رحمت سے محروم ہے۔ علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:ثُمَّ تَابَ عَلَیھِم لِیَتُوبُوا(سورة توبة، آیة: ۸۱۱) یعنی اﷲ نے ان پر اپنی مہر بانی فرمائی، اس کا کیا مطلب ہے؟
اَی وَفَّقَھُم لِلتَّوبَةِ (تفسیر روح المعانی، ج:۱۱،ص:۲۴،داراحیاءالتراث العربی)
اﷲ نے مہربانی فرمائی یعنی توفیقِ توبہ بخشی۔ معلوم ہوا کہ توفیقِ توبہ آسمان سے آتی ہے اور زمین والوں پر یہ اﷲ کی رحمت کی علامت ہے کہ اس کو توفیقِ توبہ نصیب ہوجائے۔ اخترقرآن پاک کی آیت پیش کررہا ہے تَابَ عَلَیھِم اﷲ نے اپنی مہربانی کی۔ واہ! اس آیت کی علامہ آلوسی رحمة اﷲ علیہ نے کیا تفسیر کی ہے اَی وَفَّقَھُم لِلتَّوبَةِاﷲ نے آسمان سے توفیقِ توبہ زمین والے کو بھیج دی، تو جس کو توفیق توبہ نصیب ہوجائے، یہ اس زمین والے پر اﷲ کی رحمت کی علامت ہے، لِیَتُوبُوا تاکہ وہ توبہ کریں اور ہمارے بن جائیں، گناہ کرکے نفس کے بن رہے تھے اب تو بہ کرکے دوست کے بن گئے۔
تو میں عرض کررہا تھا کہ ابرار کے رجسٹر میں ہمارا نام کیسے درج ہوجائے تو چاہیے کہ ہم چیونٹیوں کو بھی تکلیف نہ دیں اور اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے خوش نہ ہوں، نہ اپنے گناہ سے خوش ہوں نہ دوسروں کے گناہ سے خوش ہوں، اﷲ کی نافرمانی دیکھ کر دل غمگین ہو جائے، اپنا گناہ ہو یا کسی اور کو گناہ کرتے دیکھا تو دل کو صدمہ پہنچ جائے۔ یہ تعلق مع اﷲ کی دلیل ہے، جس کو اپنے باپ سے محبت ہوتی ہے تو باپ کی نافرمانی کرنے والے بھائیوںکو دیکھ کر وہ دل میں غمگین ہوجاتا ہے کہ تم کیسے نالائق بھائی ہو کہ ابا کو تکلیف دیتے ہو۔ پس مومن کے دل میں خدائے تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے وہ گناہ کے کاموں سے صدمہ محسوس کرتا ہے۔
ایک مرتبہ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے تین مرتبہ اپنی جگہ سے ہٹ کروضو کیا، ایک جگہ وضو شروع کیا پھر اُٹھ کر دوسری جگہ بیٹھ گئے پھر وہاں سے ہٹ کر تیسری جگہ بیٹھ گئے، لوگوں نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا معاملہ ہے؟ فرمایا وہاں چیونٹیاں تھیں جو وضو کے پانی سے منتشر ہوجاتیں اور اُن کا خاندان اِدھر اُدھر بکھر جاتا جس سے ان کو اذیت پہنچتی۔ آہ! یہ ہیں اﷲ والے، یہ ہیں ابرار جو چیونٹیوں کو بھی اذیت نہیں پہنچاتے۔
(جاری ہے۔)