بلاشبہ اپنی ذات میں ایک ادارہ اورایک انجمن کا درجہ رکھتے ہیں، ان کا سینہ بے بہا یادوں کا خزینہ ہے۔ او رعلم و ادب، نقد ونظر، قلم وتحقیق کے شہسواروں کا یہ معمول ہے کہ وہ عمر کے آخری دور میں اپنے درون خانہ راز ونیاز کے بیتے ہوئے لمحات کو نذر قارئین فرماتے ہیں۔ روزنامچہ، ڈائری ،خودنوشت حیات، آپ بیتی لکھنے کا معمول عرصہ دراز سے پایا جاتا ہے‘ مولانا عبدالمعبود مدظلہ نے اپنے اسلاف کے نقش قدم پہ قدم رکھ کر گزرے ہوئے لمحات نقوش زندگی کے نام زیب قرطاس کرکے شائقین کتاب کو اپنی زندگی کی تجربات کا مشاہدہ کرایا۔نقوش زندگی حضرت کی یادوں کا ایک ایسا قیمتی مرقع ہے جس میں ایک طرف ایسے انسان کی بامقصد شخصی علمی اور تحریکی زندگی کی اہم ترین جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں،جس نے عنفوان شباب ہی میں اپنے کوایک پاکیزہ نصب العین کے لئے وقف کردیا تھا دوسری طرف خود اس کی اپنی زندگی کی داستان کا ایک نمونہ بھی ان سطور اور بین السطور سے ابھرتا ہے۔ اس خودنوشت حیات میں آپ کو سب کچھ مل جائے گا۔ مولانا مدظلہ نے اپنی زندگی کے تجربات کی تجوریوں کو بڑی خوبصورت تحریر میں جمع کردیا جو امت مسلمہ مرحومہ کی موجودہ صورتحال میں نافع اور کارآمداور نسلِ نو کی رہنمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بہرتقدیر نقوش زندگی حضرت کی سوانحی حیات پر مشتمل ایک حسین گلدستہ ہے،جسے عصر حاضر کے نامور محقق مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب نے اپنے ادارہ القاسم اکیڈمی سے شائع کرکے قارئین کتاب پر عظیم احسان فرمایا۔کتاب کی قیمت درج نہیں ۔۲۶۴صفحات پر مشتمل یہ کتاب القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ خالق آباد نوشہرہ سے دستیاب ہے۔…… (مولانا محمد اسلام حقانی )
n امام شاہ ولی اللہ کا معاشی نظریہ …… ڈاکٹر حسین محمد قریشی
عام طورپر انسان مدنی الطبع ہے انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کے تصور کو لئے ہوا ہے اور اجتماعیت کی زندگی کو پسند کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اجتماعی ضروریات بھی پیش آتی ہیں کیونکہ کوئی انسان ،ادارہ اورملک اپنے ضروریات خود پوری نہیں کرسکتیں اور نہ ہی کوئی انسان، ادارہ اورملک اپنی ضروریات میں خود کفیل ہوسکتا ہے بلکہ ہر انسان دوسرے انسان ،ہر ادارہ دوسرے ادارے ،ہرملک دوسرے ملک کی اجتماعی زندگی میں محتاج ہوتا ہے۔ لیکن اس اجتماعیت کے نتیجہ میں ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہوجاتا ہے جو سرمایہ پر کبھی سود، کبھی اجارہ داری کے ذریعے اس کے طبعی بہاؤ پراثرانداز ہوکر غریبوں کے حقوق کا استحصال کرتے ہیں نتیجتاً معاشرہ میں عدل ،انصاف،امن ،روزگار کے مواقع وغیرہ ختم ہوکر اس کی جگہ جبر،ظلم ،بدامنی ،لوٹ کھسوٹ اور بے روزگاری پھیل جاتی ہے اور معاشرہ ایک بھیانک رُخ اختیار کرکے دنیا میں جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔ سرمایہ کی فطری بہاؤ کو بچانے کیلئے شاہ ولی اللہ ؒ محدث دہلوی نے اپنی تعلیمات میں گاہے بگاہے مثالی نظام معاش کا ذکر اپنے مخصوص اصطلاح ’’ارتفاقات‘‘ کے عنوان سے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں بیان کیا ہے ۔ہمارے ممدوح ڈاکٹر حسین قریشی صاحب نے ان ہی ارتفاقات کو جمع کرکے عصر حاضر میں اسکی افادیت کو خوب اجاگر کرکے بیان کیا ہے۔ جس پر مؤلف کتاب قابل صد تحسین ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شاہ ولی اللہ کی تعلیمات پرگہری نظر ہے۔ اس سے پہلے بھی ممدوح جناب ڈاکٹر حسین قریشی صاحب شاہ ولی اللہ ؒ کی تعلیمات پر کئی کتابیں اورمقالات شائع کراچکے ہیں بہرحال یہ کتاب شاہ ولی اللہ کی تعلیمات میں ایک وقیع اضافہ ہے۔ ڈاکٹر موصوف نے اس کتاب میں شاہ ولی اللہ ؒ کے معاشی افکار پرسیرحاصل بحث فرمائی ہے اور موضوع کے کسی پہلو کو تشنہ نہیں رہنے دیا ہے۔کاغذبھی بہترین اور کتابت بھی۔ ۲۱۰ صفحات کی یہ خوبصورت مجلدکتاب ،پورب اکادمی اسلام آباد سے منگوائی جاسکتی ہے ۔قیمت : 325 روپے ۔ 0512317092 (مولانا منفعت احمد )