Deobandi Books

ماہنامہ الحق ستمبر 2014ء

امعہ دا

55 - 63
میں قربانی ادا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ قرون ثلثہ یعنی صحابہ کرام ‘ تابعین ‘ تبع تابعین نے فراخی کی حالت میں بقر عید کے دن قربانی کا عمل کیا ہے اور اس پر دوام ظاہر کیا ہے لیکن اس دن قربانی کے بجائے صدقہ کرنے یا دیگر فلاحی کاموں کے سرانجام دینے کو ترجیح نہیں دی ہے جبکہ آج کے دور میں جدید اسلام کے داعیوں نے قربانی کے اس سنت عمل پر طرح طرح کے سوالات اور اشکالات اٹھائے ہیں اور قوم کو یہ مشورہ دیا ہے کہ قربانی پر ہونے والے غیرمعمولی اخراجات کو فلاحی فنڈز میں جمع کیا جائے تاکہ اس سے غریبوں اور بے سہاروں کی مدد ہو سکے۔ قربانی کے اخراجات پر اٹھنے والے اشکالات جو اہل قلم حضرات نے لکھیں ہیں اور اپنا جونقطہ نظر بیان کیا ہے اس کا لب لباب اور نچوڑ حسب ذیل ہے۔
۱۔	عیدالاضحی میں لاکھوں جانور ذبح ہوجاتے ہیں اس کا بڑا اثر اقتصادیات پر پڑ جاتا ہے کیونکہ سال بھرلوگوں کو گوشت ملنے میں مشکلات پیدا ہوجائیں گے اور جانور کم ہوجائیں گے۔
۲۔	اتنی خطیر رقم کا خرچ کرنا اسراف کے زمرے میں آتا ہے اس رقم کو فلاحی فنڈز میں جمع کرنا چاہیے تاکہ یہی رقم معاشرے کے فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جائے۔
۳۔	اس دن گوشت فضول ضائع ہوجاتا ہے اگرسال بھر میں وقتاً فوقتاً ان ہی جانوروں کو ذبح کیا جائے تواس گوشت سے لوگ استفادہ کرسکتے ہیں۔
۴۔	قربانی محض سنت عمل ہے ایک سنت عمل پر اتنی خطیر رقم خرچ کرنا مناسب نہیں۔
۵۔	قربانی کا عمل خودنمائی کا عمل ہے۔
اشکالات کا علمی جائزہ  :
۱۔	محض اقتصادی نقطہ نظر سے قربانی رد کرنا بڑا ظلم ہے۔۱۴ سوسال سے امت کا یہ اجماعی عمل چلا آرہا ہے۔ لیکن کسی بھی دور میں قربانی کی وجہ سے اقتصادی بحران کا ثبوت موجود نہیں ہے اورنہ ہی کسی شہر میں گوشت کی کمی آئی ہوئی ہے موجودہ دور کے نسبت پچھلے زمانے میں قربانیاں زیادہ ہوتی تھیں۔ اسلام کے قرون اولیٰ میں قربانی کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک آدمی سو سو اونٹوں کی قربانی کرتا تھا۔ خود پیغمبرؐ نے سو اونٹوں کی قربانی کی۔ اس وقت میں یہ شکایت کسی جگہ نہیں سنی گئی کہ جانور نہیں ملتے ہیں یا جانور مہنگے ہیں۔ قربانی کے ساتھ جانوروں کی کمی کو خاص کر ناسراسر خلاف واقعات ہیں کیونکہ جن 
Flag Counter