Deobandi Books

ماہنامہ الحق ستمبر 2014ء

امعہ دا

46 - 63
جائے باتوں میں حلاوت ومحبت ہو حاکمانہ انداز نہ ہو اور ایک بات کو توجہ کے ساتھ سنیں اور بے رخی بے اعتنائی نہ برتیں اور نہ ہی کوئی بدمزاحی کی جھلک ظاہر ہو۔ ۱۸؎
قرآن میں صرف معاشرت کے لیے ہی نہیں کہا گیا کہ عورتوں کے ساتھ معروف طریقے سے پیش آنا مردوں پر خدا نے فرض کیاہے بلکہ اسی کے ساتھ ہر طرح کے مسائل کے بارے میں کہا گیا ہے۔ جیسے مطلقہ عورت کے باری میں صاف طور پر یہ اعلان کیا گیا ہے کہ:
وَلاَ تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَاراً لَّتَعْتَدُواْ  (البقرہ: ۲۳۱)
’’ایذا دہی کے خیال سے ان کو نہ روک رکھو تاکہ تم زیاد تی کرو۔‘‘
عورتوں کی آزادئ رائے کا حق:
اسلام میں عورتوں کی آزادی کا حق اتنا ہی ہے جتنا کہ مرد کو حاصل ہے خواہ وہ دینی معاملہ ہو یا دنیاوی۔ اس کو پورا حق ہے کہ وہ دینی حدود میں رہ کر ایک مرد کی طرح اپنی رائے آزادانہ استعمال کرے۔
جس طرح اسلام نے مرد کو یہ حق دیا کہ وہ کسی بھی مسئلے میں نبی سے استفسار واعتراض کرسکتے ہیں اور خلیفہ وقت کو بھی کسی بھی بات یا مسئلے میں اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں اور ٹوک بھی سکتے ہیں۔ لہذا یہی حق عورتوں کو بھی حاصل ہے۔ ایک حدیث ہے کہ: ایک موقع پر حضرت عمر نے فرمایا کہ :’’تم لوگوں کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ عورتوں کی مہر زیادہ نہ باندھو، اگر مہرزیادہ باندھنا دنیا کے اعتبار سے بڑائی ہوتی اور عنداللہ تقویٰ کی بات ہو تو نبی ا  اس کے زیادہ مستحق ہوتے۔(ترمذی)
حضرت عمرؓ اس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور کہا کہ عمر یہ کیسے کہتے ہو حالاںکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:   وَآتَیْْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْْئاً (النسائ: ۲۰)
	’’اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیر سا مان تو اس میں سے کچھ نہ لو۔‘‘
یعنی جب ـخدا نے جائز رکھا ہے کہ شوہر مہرمیں ایک قنطار بھی دے سکتا ہے تو تم اس کو منع کرنے والے کون ہوتے ہو۔ حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا کلکم اعلم من عمر تم سب تم سے زیادہ علم والے ہو۔اس عورت کی آزادئ رائے کو مجروح قرار نہیں دیا کہ حضرت عمر کو کیوں ٹوکا گیا اور ان پر کیوں اعتراض کیا گیا۔ کیوں کہ حضرت عمر کی گفتگو اولیت اور افضیلت میں تھی۔ نفس جواز میں نہ تھی۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو پورا حق ہے کہ اپنی آزادئ رائے رکھنے کا۔ حتی کہ اسلام نے 
Flag Counter