Deobandi Books

ماہنامہ الحق جولائی 2014ء

امعہ دا

48 - 65
تازہ اسپرم کا استعمال نہ کیا کریں۔ ۱۹۸۸ء میں امریکہ میں صحتی نگہہ داشت کے اداروں (1) American Fertility Society  (2) Food & drugs Administration (3) Centre for disease Control نے بھی تجویز دی کہ مصنوعی تلقیح کے لیے اجنبی مردوں کے صرف منجمد اسپرم استعمال کیے جائیں۔  موجودہ دور میں اسپرم بینکوں کا دائرہ اور طریقہ ٔ کارمغرب میں اسپرم بینکوں سے تین طرح کی خواتین استفادہ کرتی ہیں:
۱-  وہ شادی شدہ خواتین جن کے شوہر کسی وجہ سے تولیدی صلاحیت سے محروم ہوں۔
۲-  ہم جنسیت میں مبتلا خواتین (Lesbians)۔
۳- وہ خواتین جنکا نکاح نہ ہوا ہو، لیکن وہ ماں بننا چاہتی ہوں(Single Patents) 
	ان خواتین کو اختیار رہتا ہے کہ وہ اسپرم بینک سے ایسے مجہول افراد کا اسپرم لیں جنھیں اپنی خاندانی زندگی کا جز نہ بنانا چاہتی ہوں، یا ایسے افراد کا اسپرم حاصل کریں جن سے بعد میں وہ خود یا پیدا ہونے والا بچہ بالغ ہونے کے بعد رابطہ کرسکیں۔
	یہ خواتین عموماً اسپرم حاصل کرکے خود اپنے اندر مصنوعی تلقیح کرواتی ہیں اور استقرار حمل کے بعد متعینہ ایام گزرنے پر بچے جنتی ہیں۔ کچھ خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں جو حمل کے لیے کسی دوسری عورت کا رحم کرایے پر لیتی ہیں۔ بیضہ بچہ چاہنے والی عورت کا ہوتا ہے اور اسپرم عطیہ دینے والے مرد کا ۔ دونوں کو ٹیسٹ ٹیوب میں بار آور کرکے کرایے کے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے ، جس میں استقرار شدہ جنین کی پرورش ہوتی ہے۔ 
بعض بینک اسپرم حاصل کرنے والی خواتین کو آئندہ ہونے والے بچے کی جنس کے انتخاب کی بھی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ سائنسی طور پر یہ بات معلوم و متحقق ہے کہ اسپرم میں Y Chromoseme لڑکے (Male) کی پیدائش کے ذمے دار ہوتے ہیں، جبکہ X Chromosome سے لڑکی (Female) پیدا ہوتی ہے۔ X اورY کروموزوم کو الگ الگ کرنے کیلئے اسپرم بینک ’طریقۂ سباحت‘ (Swimup Method) اختیار کرتے ہیں۔ ٹیسٹ ٹیوب میں تازہ حاصل کیے گئے اسپرم کیساتھ Sperm Extender شامل کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نصف گھنٹے کے بعدY کرو موزوم، جو ہلکے ہوتے ہیں ، اوپر تیرنے لگتے ہیں، جبکہX کرو موزوم ، جو بھاری ہوتے ہیں ،نیچے بیٹھ جاتے ہیں۔ اولاً جنس کی تعیین میں یہ طریقہ سو فی صد کامیاب نہیں ہے، ثانیاً بعض ممالک میں قانونی طور سے اس پر پابندی عائد ہے۔ 
	
Flag Counter