Deobandi Books

ماہنامہ الحق جولائی 2014ء

امعہ دا

41 - 65
روایت ہے جس کا آج بھی مسلمانوں کے ہاں اہتمام کیاجاتاہے۔
روزے کا فلسفہ  :
	روزے کی مشروعیت میں ایک خاص نکتہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے مالدار لوگوں کو یہ پتہ چلتاہے کہ فاقہ میں کیسی اذیت اوربھوک وپیاس کی تکلیف ہوتی ہے،روزے کی حالت میں بھوک وپیاس کی وجہ سے ان امراء وا غنیاء کو اپنے غریب اورفاقے سے نڈھال بھائیوں کی تکلیف کا احساس ہوتاہے اورمعلوم ہوتاہے کہ تھوڑاسا کھانا کھلانے سے ان کی تکلیف کو دورکرنا کتنا بڑا ثواب ہے،جو خود بھوکا نہ ہواس کو دوسرے غریب لوگوں کی بھوک اورجو خو د پیاسانہ ہو اس کو دوسروں کی پیاس کی تکلیف کا احساس کیونکر ہوگا؟
	روزے کا بدل یعنی فدیہ اورکفارہ کے احکام پر اگر نظر ڈالی جائے تومعلوم ہوگا کہ ان سب مواقع پر روزہ کا بدل غریبوں کا کھانا کھلانا قراردیاہے،چنانچہ روزے کا فلسفہ اورحکمت یہی ہے کہ معاشرے میں غریب اورفاقے سے نڈھال بھائیوں کے ساتھ امداد ،ایثار اورہمدردی کے جذبے کوبیدار کیاجائے۔
رمضان المبارک میں نیک کاموں کااہتمام کرنا:
زندگی کاکاروبار قبر کے کنارے پہنچنے تک ختم ہونے والا نہیں ہے ۔اس کے برعکس یہ مبارک ساعتیں خدا جانے پھر میسر آئیںیا نہ آئیں،لہذا ہمیں چاہیے کہ نیک کاموں کا اہتمام کریں،اس مہینے میں خوب خوب مال خرچ کریں،غریب رشتہ داروں ،یتیموں ،مسکینوں اور فقیروں تک خرچہ،کھانا اورکپڑے پہنچائیں،روزے داروں کو افطارکرائیں۔یہی ہمارے لئے مفید ترین ذخیرہ ثابت ہوگا اوراس دنیا سے جانے کے بعد بھی ان سے حاصل ہونے والا اجر قبر کی تنہائیوں میں ہمارا رفیق بن جائیگا۔
	دوسری بات یہ کہ اس مہینے کو دوسرے افکار سے فارغ ہوکر ہمہ تن عبادت کی طرف متوجہ ہوں۔دوسری مصروفیات کو کم سے کم کرکے زیادہ سے زیادہ وقت قرآن پاک کی تلاوت اذکار وتسبیحات،نفلی نمازوں اوردوسری عبادتوں میں صَرف کیاجائے۔
	اگر ہم سچے دلوں سے اس ماہ مبارک میں نیک کاموں کا اہتمام کریں توپھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاوعدہ ہے :’’من سلم لہ رمضان سلمت لہ السنۃ‘‘ جس شخص کا رمضان سلامتی سے گزرااس کا پورا سال سلامتی سے گزرے گا۔	 

Flag Counter