Deobandi Books

ماہنامہ الحق جولائی 2014ء

امعہ دا

4 - 65
مذاکرات کی نائو آہستہ آہستہ ساحل ِ عافیت کی جانب بڑھتی رہی۔ لہٰذا یہ خوش آئند صورتحال امریکہ اور مذاکرات مخالفت عناصر کوایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے اِس کامیاب ہوتے ہوئے عمل کی بیخ کنی کیلئے کئی محاذوں پر کام شروع کردیا اور بلآخر اپنے عزائم میں یہ کامیاب ہوگئے او رمذاکراتی عمل کواچانک بغیر کسی اطلاع کے سبوتاژ کردیا گیا اوراچانک ہی شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا اعلان کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں اب تک ۹ لاکھ کے لگ بھگ معصوم ،بے گناہ قبائلی ،شہری اس شدید گرمی اور رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں وہاں سے ہجرت کرنے پر منتقل ہوگئے ہیں۔اور بنوں ،ڈی آئی خان، کرک وغیرہ کے گرم ترین صحرائی علاقوں میں بے یارومددگار پڑے ہوئے ہیں۔ گوکہ اب حکومت ان کے لئے انتظامات کررہی ہے لیکن ۹ لاکھ افراد کو بنیادی ضر وریات پہنچانا انسانی بساط سے باہر لگ رہا ہے۔اگر آپریشن کا ارادہ تھا ہی تو اِن بے گناہ شہریوں کے لئے مہینوں پہلے کیمپوں اوردیگر بنیادی ضروریات کا خیال اورانتظام کرنا حکومت وقت کا کام تھا، اسی طرح حکومت پاکستان سے اٹھارہ کروڑ عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر کیوں مذاکرات کی میز کس کی ایماء پر یکایک اُلٹ دی گئی۔ مذاکرات کی ناکامی کی ٹھوس وجوہات وزیرداخلہ اور وزیراعظم پاکستان قوم کو کیوں نہیں بتاتے؟ وہ کیا بنیادی عوامل تھے جس کی بنیاد پر پانچ چھ مہینے کی محنت پر راتوں رات پانی بہا دیا گیا؟ یہ آپریشن دس برس سے کیوں نہیں کیا جارہا تھا ؟ اور کیا سوات ،اورکزئی،باجوڑ ایجنسی ،جنوبی وزیرستان فوجی آپریشنز سے دہشت گردی پر قابو پالیا گیا؟ اور کیا امریکہ نیٹو نے اپنے تمام جدید فوجی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے بعد بھی تحریک طالبان افغانستان کو قابوکرکے شکست دے دی ہے؟ اور کیا امریکہ نے قبائلی علاقوں میں سینکڑوں ڈرون حملوں کے بعد القاعدہ کو ختم کردیا ہے ؟ یا حقیقت میں القاعدہ وزیرستان ،افغانستان سے پھیل کر یمن ،صومالیہ،سوڈان،عراق،شام وغیرہ میں بھی مزید قوت کے ساتھ جدید شکل ’’داعش ‘‘کی صورت میں نہ اُبھری ؟ پھر اِسی طرح قبائل کی تمام ایجنسیوں اور خصوصاً کراچی جیسے شہر میں طالبان قوت کیا اب تک موجود اور موثر نہیں؟ سوال یہ ہے کہ ماضی کے تمام تجربات اور زمینی حقائق اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات اور امن وصلح کے ذریعے ہی ٹھوس ،دیرپا اور حقیقی امن قائم ہوسکتا ہے۔ ورنہ آگ و خون کا یہ خطرناک کھیل بدقسمتی سے برسوں مزید جاری رہے گا۔ پھر افغانستان سے امریکی نیٹو افواج کے انخلاء اور وہاں پر پُراِسرار ناکام صدارتی انتخابات کے نتیجے میں پشتونوں اور فارسی بانوں کے درمیان اختلافات مزید ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔ جس سے افغانستان کی تقسیم کا خطرہ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ان تمام عوامل کے ہوتے ہوئے اور خصوصاً تحریک طالبان افغانستان کے بڑھتے ہوئے اثرات     و فتوحات کے 
Flag Counter