Deobandi Books

ماہنامہ الحق جولائی 2014ء

امعہ دا

39 - 65
تعالیٰ کے جو دوسخا میں اضافہ ہوتاہے،کیونکہ جنتیوں کیلئے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں،شیاطین کو پابند سلاسل کردیاجاتاہے۔جب رمضان میں حق تعالیٰ کے جودوسخا میں اضافہ فرماتے ہیں تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کے صفات کے مظہرِ اتم تھے ان کے جود میں اضافہ ہوتاتھا۔ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ’’ رسول اکرم ا سب سے زیادہ جود وسخاوالے تھے اوررمضان میں جب جبرائیل علیہ السلام آپ اسے ملتے توبہت سخاوت فرماتے تھے۔جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ اسے ملاقات کرتے اوران کے ساتھ قرآن کا دَورکرتے غرض مخلوق کی نفع رسانی میں آنحضرت ابارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔‘‘ [بخاری]
	رسول اللہ ا توویسے بھی سب لوگوں سے زیادہ فیاض اوردریا دل تھے،لیکن رمضان میں آپ ااس طرح راہِ خدا میں خرچ کرتے تھے جیسے تازہ ہوا کے جھونکے چلتے ہیں،کہ ہر کوئی اس سے فیض یاب ہوتا،آپ اکی اسی عادت مبارکہ کا اثر آپ کی امت میں بھی دیکھنے میں آتاہے۔اصحاب خیران تیس دنوں میں خوب دل کھول کر راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں،اورغریبوں وفقیروں کی امداد واعانت اوران کو شکم سیر کیاجاتاہے۔
جود کی تشریح :
	حدیث شریف میں لفظ جود آیاہے،جود کے معنی ہیں بغیر سوال کے دیناہے،تاکہ سائل ذلت سے بچ جائے،اس طرح جود کے معنی کثرت سے دینے کے بھی ہیں،یہی وجہ ہے کہ موسلادھار بارش کو جود کہا جاتا ہے۔ علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں کہ جود کا مطلب یہ ہے کہ جو مناسب ہوااورجس کے مناسب ہو اس کو دینا۔علامہ محمد اعلیٰ تھانویؒ فرماتے ہیں کہ جو مناسب ہواس کوبغیر عوض اوربدلے کے دیناجودکہلاتاہے۔
	ان تعریفات کی روشنی میں مذکورہ حدیث سے یہ مستفاد ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے صدقات وخیرات دیتے تھے اوربالخصوص رمضان المبارک میں سخاوت نبویؐ بادِ رواں کی طرح ہوتی تھی،بغیر سوال کے سائل کو دیتے تھے تاکہ سائل ذلت سے بچ جائے اورجو کچھ دیتے تھے وہ کسی غرض ومقصد کے تحت نہیں دیتے تھے بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضاوخوشنودی کیلئے دیتے تھے۔جو 
Flag Counter