کیا صفر کا مہینہ منحوس ہے؟
مفتی عطاء الرحمن
استاذ ورفیق دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
صفر المظفر کی آمد آمد ہے اور اس بابرکت مہینے کے ایّام اپنی رحمتیں بکھیرنے کے واسطے منتظر ہیں۔ابھی یہ مبارک ایام شروع ہی نہ ہوئے تھے کہ لوگوں کے تاثرات میں بدشگونی اور بدفالی کی لہریں موج زن ہونے لگیں،اس ماہ کی ابتدا سے ہی لوگوں کے اقوال وافعال سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ کس قدر جہالت کی تقلید کرتے ہوئے اس مہینے کو منحوس گردانتے ہیں اور اس کے اختتام پر آپس میں اس طرح خوش خبریاں سناتے پھرتے ہیں گویا کوئی بہت بڑی مصیبت ٹل گئی ہواور خوشی کی انتہا کہ پھولے نہیں سماتے۔ ان حضرات کا یہ حال ان کے غلط عقیدے کی وجہ سے ہے،ان کا عقیدہ ہے کہ اس ماہ میں سخت مصائب کا سامنا ہوتا ہے،پریشانیوں اور دکھوں کا نزول اور آزمائش و آفات کا وقوع ہوتا ہے، اسی طرح کی اور بھی بہت سی بے بنیاد باتیں ہیں، یہ سراسر باطل عقیدہ ہے اور جاہلیت کی باقیات میں سے ہے،اس طرح کی ہر لغو سوچ وفکر کی قید سے حق سبحانہ وتقدس کی ذات عالی نے نعمت ِاسلام ودولتِ ایمان سے ہمیں نواز کر آزادفرمادیا ہے۔
زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگوں کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ ماہِ صفر کی آمد پر بُرا شگون لیتے تھے اور اسے آفات اور مصائب کے وقوع کے اعتبار سے خاص قرار دیتے تھے، پس اسلام نے آکر اس جہالت پر حق کی کاری ضرب لگائی اور اس کا سدِ باب کیا ،آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ”لا عدوی ولاصفر ولا غول“․
ترجمہ:”مرض کے متعدی ہونے،صفر اور غول کی کوئی حقیقت نہیں۔“(الصحیح لمسلم ،باب:لا عدوی ولا طیرة الخ)
حدیث قدسی میں ”لاصفر “کا لفظ واقع ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ صفر کا مہینہ بھی دوسرے مہینوں کی طرح ہے، یعنی وقوع شر کے ساتھ یہ مختص نہیں ہے ایک اور مقام پر حدیث میں وارد ہوا کہ:”قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم :لاطیرة،وخیرھا الفأل قالوا:وماالفأل؟قال:الکلمة الصالحة یسمعھا احدکم“․
ترجمہ”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا،بد شگونی کچھ نہیں ہے، اس سے بہتر فال نیک ہے ،صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ! فال کیا ہے؟فرمایا”اچھی بات جو تم میں سے کوئی سنے“۔(صحیح البخاری)
فال (اچھی توقع کرنا)کہتے ہیں کہ آدمی کوئی کلمہ یا بات سنے اور اس سے کوئی نیک معنی مراد لے اور ”طیرة“اس کے بر عکس ہے، یعنی براشگون لینا،شریعت نے ہمیں بدشگونی سے روکا اور نیک فالی کی اجازت دی ہے،ایک تو اس سے عقل وعقیدے میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا، دوسرا اس میں مصلحت بھی ہے، مثلاً کسی مریض کو کہا جائے کہ ”آپ تو صحت مند ہیں“اور اس سے مراد لیا جائے کہ مریض جلدا پنی بیماری سے چھٹکارا پاکر صحت مند ہوجائے گا۔ اسی طرح کسی گمشدہ چیز کو تلاش کرنے والے کو کہا جائے کہ آپ تو واصل ہیں،اگر غور کیا جائے تو نیک فالی سے ثابت ہونے والے فوائد آپ کو نظر آئیں گے، مثلاً دل میں خوش گواری اور بشا شت کا پیدا ہونا ،عزائم میں قوت اور حوصلوں میں بلندی ،نیک مقاصد کے حصول میں ہمتوں کی زیادتی، نیز غموں میں کمی کا واقع ہونا اور بہت کچھ اس کے فوائد میں سے ہے۔جہاں تک بات ہے بدشگونی کی تو اس کے نقصانات واضح ہیں،اس سے سوچ وفکر میں فساد پیدا ہوتا ہے ،دل تنگ ہو جاتا ہے ،ہمتیں سلب ہو جاتی ہیں اور انسان ایک انجانے نقصان سے ڈرتے ہوئے جیتا ہے، مثلاً کوئی پرندہ(جس کے بارے میں بدشگونی کی جاتی ہے)آکر گھر کی دیوار پر بیٹھ جائے تو گھر والے پورا دن ڈر کے سائے میں کاٹتے ہیں کہ اب کوئی آفت آئے گی اور ہمیں تباہ کردے گی، پھر اس بات کوبھی بھول جاتے ہیں کہ نفع ونقصان ،آبادی وبربادی اللہ کے ہاتھ میں ہے یہی مثال کسی زمانے اور نام وغیرہ سے بدشگونی کی ہے۔
صفر کے مہینے میں کسی بھی کام کی ابتدا سے اجتناب کرنا
بہت سے حضرات جو یہ باطل عقیدہ رکھتے ہیں وہ اس ماہ میں کسی کام کی ابتدا نہیں کرتے اس بات سے ڈرتے ہوئے کہ یہ مبارک نہیں ہے،پس وہ لوگ اس ماہ میں سفر کرنے سے بھی پرہیز کرتے ہیں کہ اگر ہم نے سفر کیا تو دشمنوں سے سامنا ہو جائے گا، اسی طرح نکاح و دیگر خوشی کی تقریبات کا انعقاد بھی اس ماہ میں کرنے سے کتراتے ہیں، ان حضرات کا عقیدہ ہے کہ اگر اس ماہ میں کوئی خرید و فروخت کی(مثلا کار ،گھر ،کارخانے ،زمین وغیرہ )تو وہ تجارت منافع بخش نہ ہوگی، حالاں کہ یہ عقیدہ سراسر غلط ہے وجہ یہ ہے کہ کسی ایک مہینے کو نحوست کے ساتھ خاص کردینا درست نہیں، اس لیے کہ تمام مہینے اللہ نے پیدا کیے ہیں اور انسان ان مہینوں میں افعال و اعمال کرتا ہے، سو ہر وہ مہینہ (زمانہ)مبارک ہے جس میں اللہ کی اطاعت کی جائے اور ہروہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ کی نافرمانی کرے ۔اللہ کی معصیت اور گناہوں کی کثرت اللہ کو ناراض کرنے کاسبب ہے اور اس طرح گنا ہ گار فی نفسہ منحوس ہوتا ہے، سو وہ اللہ کی امان سے نکل جاتا ہے اور مصائب و مشاکل سے مامون و محفوظ نہیں رہتا۔
کیا یہ وہمی لوگ مسلمانوں کی تاریخ کی طرف نظر نہیں دوڑاتے کہ بڑی بڑی فتوحات اور عظیم مقاصد اسی ماہ میں حاصل ہوئیں ،نیز سلف صالحین او ر امت کے بہترین لوگوں کی ازدواجی زندگی کا آغاز اکثر اس ماہ سے ہوا، دراصل یہ فساد عموماً دین سے ناواقفیت اور خصوصاً عقیدہ توحید میں کمزوری کی وجہ سے ہے ۔
ماہ صفر میں آسمان سے جنات کے اتر نے کا عقیدہ
یہ بات بھی ہمارے بعض شہروں میں مشہور ہے کہ اندھے اور لنگڑے جنات کی ایک جماعت اس ماہ میں آسمان سے اترتی ہے لہذا ہمارے نادان حضرات زمین پر بڑی احتیاط سے قدم رکھتے ہیں اوربہت چوکس اور محتاط ہوکر چلتے پھرتے ہیں کہ کہیں ہماری وجہ سے کسی جن کو تکلیف نہ پہنچ جائے اور ہمیں کسی بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے ،پھر مہینے کے آخرمیں گھر کے درودیوار ،الماریاں ،صندوق اور دیگر سامان کو ڈنڈوں سے کوٹتے ہیں (تاکہ جو کوئی بھی جن چھپا بیٹھا ہو وہ واپس بھاگ جائے )یہ بھی سراسر باطل ہے، اسلامی شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔
ماہ صفر کے پہلے تیرہ دن اور اس میں ختم شریف
بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ اس ماہ کے اول تیرہ13دن سب سے زیادہ کٹھن ہوتے ہیں، ان ایام کو ”تیرہ تیزی “یا ”تیز تیرہ“کے نام سے جاناجاتا ہے،ان میں وہ لوگ مخصوص کھانے (مثلاًاُبلے ہوئے چنے یا اُبلی ہوئی گندم اور چوری وغیرہ)بنا کر تقسیم کرتے ہیں، تاکہ بلائیں ٹل جائیں ،اسی طرح بعض گھرانوں میں مصائب کو ٹالنے کی غرض سے اجتماعی قرآن خوانی اور ختم شریف کی مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔یہ سب بدعات ہیں، قرآن و حدیث میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ان افعال کا باطل ہونا عقل والوں کے لیے روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔
ماہ صفر کا آخر ی بدھ
بدعات کا ارتکاب کرنے والے اور منکرات پر یقین رکھنے والے نادان مسلمان ماہ صفر کے آخری بدھ کے حوالے سے بھی مختلف عقائد رکھتے ہیں اور مختلف افعال اختیار کرتے ہیں، جو درج ذیل ہیں ۔بعض حضرات اس بدھ کو عید مناتے ہیں،بعض اس دن چھٹی کرنے کو اجر وثواب سمجھتے ہیں اور دوسرے بعض اس بدھ کو سال کا سب سے بھاری دن تصور کرتے ہیں ،اس دن مٹی کے تمام برتن توڑ دیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
مزید یہ کہ اس دن یہ لوگ چاشت کے وقت چار رکعت نماز ایک سلام سے پڑھتے ہیں، ہر رکعت میں ایک سورت کو کئی مرتبہ مکر ر پڑھا جاتا ہے، پھر نماز کے بعد”دعائے معین“پڑھتے ہیں اور فقرا میں روٹی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے نازل شدہ بلائیں دفع ہو جاتی ہیں
نیز بعض علاقوں میں لوگ آیت سلام:﴿سَلَامٌ عَلَی نُوحٍ فِیْ الْعَالَمِیْنَ﴾ (الصافات، آیت:79)کو برتن میں لکھ کر تبرّکاً اس میں پانی پیتے ہیں ،ان کے اعتماد کے مطابق ایسا کرنا شروفساد کو دور کرتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دن میں روزے کا اہتمام اور شام میں پر تکلف حلوے بھی قابلِ ذکر ہیں،بعض حضرات تو ان دنوں شہر کے مضافات کی طرف چلے جاتے ہیں، تاکہ شروفتنے سے بچ جائیں۔
یہ سب بلا مبالغہ باطل اور من گھڑت ہے، ہمیں اس کی کوئی دلیل نہیں ملی اور نہ ہی ہم نے کسی نبی،صحابی ،تابعی یا کسی ولی اللہ کو ایسا عمل کرتے ہوئے یا ایسا عقیدہ رکھتے ہوئے پایا ہے،یہ اعتقاد وافعال صرف اسلام سے پہلے دورِجہالت میں پائے جاتے تھے،یاد رہے اسلام کے علاوہ کسی چیز میں خیر نہیں۔
ماہ صفر کے منحوس ہونے پر ضعیف العقیدہ لوگوں کا استد لال اور اس کا رد
بعض لوگ ماہِ صفر کے منحوس ہونے کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور درج ذیل آیت پیش کرتے ہیں:﴿إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَیْْہِمْ رِیْحاً صَرْصَراً فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرّ ﴾. (القمر، آیت :19)
ترجمہ:”ہم نے ایک مسلسل نحوست کے دن میں اُن پر تیز آندھی والی ہوا چھوڑ دی تھی۔“
اسی طرح کی چند اور آیات پیش کرتے ہیں۔
سو اس کے جواب میں علمائے کرام یہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی دن کو جب نیک بختی یا بد بختی کے ساتھ متصف کیا جائے تو اس کی نسبت لوگوں کی طرف کی جاتی ہے اور یوں کہا جاتا ہے کہ فلاں دن فلاں شخص کے لیے بڑا نیک بخت ثابت ہوا ،وہ شخص اس دن خوش اور سود مند رہا اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دن فلاں آدمی پر بڑا بھاری اور منحوس تھا ،وہ آدمی اس دن بڑی مصیبت میں رہا ،اس دن اسے سزا دی گئی۔اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی بھی دن اپنے اوقات کی وجہ سے منحوس نہیں ہوتا، بلکہ انسان کے اپنے کرتوت اور گناہوں کی سزا کی وجہ سے اس پر نحوست پڑتی ہے۔وگرنہ قرآن کی ایک اور آیت سے توہفتہ کے پورے سات دنوں کی نحوست ثابت ہوتی ہے،سورة فصلت کی آیت16 میں اللہ فرماتے ہیں کہ :﴿فَأَرْسَلْنَا عَلَیْْہِمْ رِیْحاً صَرْصَراً فِیْ أَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَی وَہُمْ لَا یُنصَرُون﴾․(فصلت، آیت:16)
ترجمہ:” چناں چہ ہم نے کچھ منحوس دنوں میں اُن پر آندھی کی شکل میں ہوا بھیجی، تاکہ انہیں دنیوی زندگی میں رسوائی کا مزہ چھکائیں اور آخرت کا عذاب اس سے بھی رسوا کن ہے اور ان کو کوئی مدد میسر نہیں آئے گی۔“
عذاب کے یہ ایام سات راتیں اور آٹھ دن تھے، اس طرح سے تو قیامت تک ہر ایک دن نحوست والا ٹھہرے گا، پھر یہ حضرات حدیث سے تمسک واستدلال کی کوشش کرتے ہیں، اس سلسلے میں حدیث پیش کرتے ہیں کہ:” جس نے مجھے صفر کے گزر جانے کی خبری دی میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔“
اسی طرح ایک اورروایت بدھ کے دن کی نحوست پر پیش کرتے ہیں کہ : ” بدھ کا دن مستقل نحوست کا دن ہے ۔“
یہ دونوں روایتیں من گھڑت اور موضوع ہیں ملا علی قاری رحمہ الله نے موضاعات کبری ( ص:275,225) میں اور علامہ ابن جوزی رحمہ الله نے اپنی کتاب موضوعات (376/1) میں ا س کی وضاحت کی ہے۔
مکروہ اشیاء کو دیکھتے وقت دعا پڑھ لیں
آپ میں سے جب کوئی شخص کسی ایسی چیز کو دیکھے کہ جس سے بد فالی کی جاتی ہے تووہ اپنی حاجت او رکام سے نہ رکے، بلکہ اپنا کام کرتا رہے (عموماً لوگ کا لی بلی کے راستہ کاٹ لینیپر واپس گھر کو لوٹ آتے ہیں اور جس کام کے لیے جارہے ہوتے ہیں اس سے رک جاتے ہیں ) ابوداؤد میں عروة بن عامر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ” میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ” طیرة“ کا ذکر کیا ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
پس جب تم میں سے کوئی ایسی کسی شے کو دیکھے تو یہ کہے: ”اللھم لا یأتی باالحسنات إلا أنت، ولا یدفع السیئات إلا أنت، ولاحول ولا قوة إلا بک“․( باب فی الطیرة)
ترجمہ ” اے الله! بھلائی صرف آپ کی طرف سے ہی آتی ہے اور برائی کو صرف آپ ہی دورفرماتے ہیں ، نیک کام کرنے کی طاقت اور گناہوں سے بچنے کی قوت صرف آپ کی طرف سے ہے ۔“
اگر ایسے موقع پر انسان اپنی حاجت سے رک جائے تو وہ گناہ کا مرتکب کہلائے گا، حضورصلى الله عليه وسلم نے فرمایا” جو پرندے کی وجہ سے حاجت سے رک گیا اس نے شر ک کیا۔“
خلاصہ کلام
الله کی تقدیر وتاثیر میں زمانے کو کوئی دخل نہیں ، لہٰذا صفر کا مہینہ بھی دیگر مہینوں کی طرح ہے ۔اسی سلسلے میں ایک جگہ ایک لطیفہ نظر سے گزرا جب آپ راستہ پر اپنے کسی کام سے جارہے ہوں او رکالی بلی آپ کا راستہ کاٹ لے تو سمجھ لیں کہ وہ بھی آپ ہی کی طرح اپنے کسی کام سے راستہ سے گزر رہی ہو گی۔“
پس ہمیں اسلامی عقائد اور اسلامی اصول سیکھ کر اس کے مطابق زندگی گزارنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے اور جو بات دین میں نہ ہو اسے دین کی طرف منسوب نہ کیا جائے، نیز نفع ونقصان کے اختیار کا سو فی صد یقین الله کی ذات سے ہونا چاہیے کہ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔
﴿وَإِن یَمْسَسْکَ اللّہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہُ إِلاَّ ہُوَ وَإِن یُرِدْکَ بِخَیْْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہِ یُصِیْبُ بِہِ مَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْم﴾․(سورة یونس:107)
ترجمہ:” اور اگر خدا تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تم سے بھلائی کرنا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔“