مسئلہ معاش اور اسلامی تعلیمات
مفتی ابو الخیر عارف محمود
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
انسان کی معاشی کفالت کا خدائی اعلان
اللہ بزرگ وبرترنے حضرت آدم علی نبیناوعلیہ الصلاة والسلام کی تخلیق سے سلسلہ بنی آدم کی بنیادرکھی اوربتقاضا حکمت الہٰی جسم آدم کی تخلیق کے ساتھ اس میں مختلف نوع کے تقاضہائے بشریت کوبھی ودیعت فرمایا،بنی نوع انسان ان ہی تقاضوں کے پیش نظرکائنات ارضی میں مصروف کار نظرآتے ہیں۔حضرت انسان کی ابتدائے آفرینش میں غورکرنے سے پتہ چلتاہے کہ جس طرح خالق بشریت نے اسے وجودعطافرمایا، اسی طرح اس کی تمام ضروریات کابھی انتظام فرمایا، تخلیق آدم علیہ الصلاة والسلام کے وقت سے ہی انسان کی بنیادی ضرورتوں اورحوائج کے پیش نظراللہ رب العزت نے جب اسے جنت میں مکین فرمایاتواس کی معاشی کفالت بھی فرمائی، اوراس کی بھوک،پیاس،لباس اوررہائش کے انتظام کااعلان بھی ان الفاظ میں فرمایا:﴿إِنَّ لَکَ أَلَّا تَجُوعَ فِیْہَا وَلَا تَعْرَی، وَأَنَّکَ لَا تَظْمَأُ فِیْہَا وَلَا تَضْحَی﴾․ (طہ:118،119)
(ترجمہ):”تجھ کویہ ملاکہ نہ بھوکاہوتواس میں اورنہ ننگا اوریہ کہ نہ پیاس کھینچے تواس میں نہ دھوپ“۔
حضرت مولاناادریس کاندھلوی رحمہ اللہ آیت مذکورہ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:”غرض یہ کہ کھانے اورپینے اورغذااورقیام اورطعام اورلباس کے سب آرام تجھ کویہاں حاصل ہیں،اگریہاں سے نکالاگیاتودنیاوی رزق اورغذاکے حصول کے لیے تجھے بڑی مشقتیں اٹھانی پڑیں۔“ (معارف القرآن،سورة طہ،آیت :118،119:166/5، (1422ھ)ط، مکتبہ المعارف، شہدادپور، سندھ)
حضرت مولانامفتی محمدشفیع عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”جنت میں ضروریات زندگی کی یہ بنیادی چاروں چیزیں بے مانگے بلامشقت ملتی ہیں“۔
(معارف القرن،سورة طہ،آیت :118،119:166/5، (1422ھ) ط، ادارة المعارف،کراچی)
یعنی جنت میں توضروریات زندگی کی ان چاربنیادوں کاحصول بغیرکسی مشقت کے ہے،لیکن دنیامیں ان کے حصول میں مشقت ومحنت کی ضرورت ہوگی،لہٰذاجب اللہ تعالی نے انسان کودنیاکے اندربھیجاتوضرورت معاش کے ساتھ اسے کسب معاش کی صلاحیتوں سے بھی نوازا اوراس صلاحیت کو خوب سے خوب ترکی مہمیزلگائی،چناں چہ بتدائے انسانیت سے لے کرعصرحاضرتک انسان اپنی ضرورتوں اورصلاحیتوں کے مطابق کسب معاش کے لیے تگ ودوکرتانظرآتاہے اوراسے ہمیشہ سے خوب سے خوب ترکی جستجورہی ہے۔
انسانی ضروریات اور معیشت کا تعلق
یہ بات بھی روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی ضروریات کا عمومی تعلق انسانی معیشت کے ساتھ جوڑاگیاہے اورمعیشت کوآسمانی بارش اورزمین کے خزانوں سے منسلک کردیاگیاہے۔اللہ رب العزت کاارشادہے:﴿وَلَقَدْ مَکَّنَّاکُمْ فِیْ الأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِش﴾․ (الأعراف:10)
ارشادربانی کامطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہیں زمین میں باختیار بنا کرتمہاری معیشت کاسامان اس میں رکھ دیاہے،جس طرح اللہ رب العزت نے انسان کے رزق اورمعیشت کوزمین اوراس کے خزانوں کے ساتھ مربوط فرمایاہے، اسی طرح آسمان سے بذریعہ بارش رزق اتارکرجسم کی غذا کے اسباب مہیاکیے ہیں،قرآن مجیدمیں ارشادربانی ہے:﴿وَفِیْ السَّمَاء رِزْقُکُمْ وَمَا تُوعَدُون﴾ ․(الذاریات:22)
(ترجمہ)”اورآسمان میں ہے روزی تمہاری اورجوکچھ تم سے وعدہ کیا“۔
﴿وفی السماء رزقکم﴾کی تفسیرمیں بعض حضرا ت نے بیان کیاکہ یہ بارش ہے، جس سے اللہ بندوں کارزق پیدافرماتاہے۔ (معارف القرآن للکاندھلوی :6/7ص5،طةمکتبہ المعارف، شہدادپور)
خالق کون ومکان نے انسان کی تخلیق فرماکرپیدائش سے لے کرموت تک،ہرمرحلے میں اس کے حال کے مناسب اس کی ضروریات کے اسباب مہیافرمائے ہیں،نہ صرف اس کی غذا،بلکہ پرورش کانظام بھی قائم فرمایاہے،پیدائش کے روزاول سے ہی اللہ کی مہربانیوں کاسلسلہ شروع ہوجاتاہے کہ نومولودکی ماں کے محبت اوردردبھرے سینے سے دودھ کے چشمے جاری فرمادیتے ہیں،پھرجوں جوں بچپن سے لے کربلوغ اورشعورکوپہنچتاہے تواس کے رزق اوروسائل رزق رزّاق العالمین کی طرف سے فراہم کیے جاتے ہیں،جن کے ذریعے وہ اپنی ضروریات کاانتظام کرتاہے،اللہ تعالی کی رزاقی کاکیاکہناکہ وہ تمام عالم کے انسانوں کوان کے ماحول کے مطابق رزق فراہم کرتاہے،اس کی عطاسے بدترین دشمن اورنافرمان بھی محروم نہیں رہتا۔
انسان کی بے راہ روی
مگریہ انسان ہی ہے کہ جب اس پرنفسیاتی خواہشات کاغلبہ ہوجاتاہے اورشیطان اس کوراہِ مستقیم سے ہٹاکراتباع نفس کی راہ پرڈال دیتا ہے تویہ اپنی جائز وناجائزخواہشات کی تکمیل کے لیے افراط وتفریط سے کام لیتاہے ،دیگرانسانوں کے حقِ معاش پربھی ڈاکا ڈالنے لگتاہے،کبھی طاقت کے نشے میں مست ہوکردولت اوروسائلِ دولت پرقابض ہوجاتاہے،توکبھی دوسرے انسانوں سے محنت مزدوری کرواکران کاحق محنت اور اجرت ادا نہیں کر تا اورکبھی خوب سے خوب ترکی تلاش وجستجومیں خدائی پابندیوں کو پھلانگ کرسود اوردیگرناجائزذرائع آمدن کواختیارکرتاہے،غرض ہرممکن طریقہ سے اپنی ناجائزخواہشات کی تکمیل ہوتی ہے۔
کسب معاش میں افراط وتفریط سے ممانعت
رب العالمین نے تمام مخلوقات کی روزی اپنے ذمہ لی ہے، اوردنیاکودارالاسباب قراردے کراپنی سنت جاری فرمائی کہ محنت اور کوشش کے بقدرمعاش اوراسباب معاش فراہم کیے جائیں گے،انسان خداکی عطاکردہ کسبی صلاحیتوں سے خداکے خزانوں سے بھرپوراستفادہ کرسکتاہے،مگریادرہے کہ انسانیت کاتقاضا ہے کہ اس حوالے سے افراط وتفریط سے کام نہ لیاجائے ، عدل وانصاف کادامن چھوٹنے نہ پائے، جائز اورصحیح ذرائع آمدن ومعاش کواختیارکیاجائے،خداکی منع کردہ چیزوں سے مکمل اجتناب کیاجائے، جوچیزجس شخص کی ملکیت میں ہے اس کے حق کااحترام کیاجائے،البتہ دوسرے کی شے مملوکہ کوحاصل کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ خریدوفروخت اورلین دین کے ذریعے تبادلہ کی شکل اختیارکی جائے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا قول
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”حجة اللہ البالغہ“ میں اس مضمون کو بہت ہی خوبصورت پیرائے میں بیان فرمایاہے: ”اعلم!أن اللہ تعالی لماخلق الخلق وجعل معایشہم فی الأرض، وأباح لہم الانتفاع بما فیہا، وقعت بینہم المشحة والمشاجرة، فکان حکم اللہ عند ذلک تحریم أن یزاحم الإنسان صاحبہ فیما اختص بہ؛ لسبق یدہ إلیہ أو یدمورثہ،أولوجہ من الوجوہ المعتبرة عندہم؛ إلا بمبادلة أو تراض معتمد علی علم من غیر تدلیس ورکوب غرر، وأیضاً الما کان الناس مدنیین بالطبع لاتستقیم معایشہم إلا بتعاون بینہم، نزل القضاء بإیجاب التعاون، وأن لایخلو أحد منہم مما لہ دخل فی التمدن، إلا عند حاجة لایجد منہا بدّا․“(حجة اللہ البالغہ، باب من أبواب ابتغاء الرزق: 273/2، ط،زمزم پبلشرز،کراچی)
(ترجمہ)یہ واضح رہے کہ اللہ تعالی نے جب مخلوق کو پیدا کیا اور زمین میں اس کی معاشی ضروریات کے لیے سامان فراہم کردیا اوران کوسب کے لیے مباح اورعام کردیاتومخلوق میں(ان سے متمتع ہونے کے حوالے سے) مزاحمت اورمناقشت شروع ہوگئی،تب اللہ تعالی نے حکم دیاکہ کوئی شخص سبقت اور پہل کرکے کسی شے کواپنے قبضے میں کرلے، یامورث کے قبضہ کی وجہ سے اس کی وراثت میں آجائے،یاان کے علاوہ ایسے دوسرے طریقوں سے اس کاقبضہ ہوجائے جواللہ تعالی کے نزدیک جائزطریقے قرارپاچکے ہیں، تودوسرے شخص کواس کی مقبوضہ شے میں مزاحمت کاحق نہیں،البتہ دوسرے کی مقبوضہ شے کوحاصل کرنے کے لیے جائز طریقہ یہ ہے کہ خریدوفروخت اورلین دین کے ذریعے تبادلہ کی شکل اختیارکی جائے، یامعتبرطریقوں یاباہمی رضامندی سے لین دین انجام پائے توبہت بہترہے، انسان چوں کہ مدنی الطبع یعنی معاشرے میں مل جل کررہنے والا واقع ہواہے ،لہٰذااس کی زندگی تعاون واشتراک کے بغیر ناممکن ہے، تواللہ تعالی نے تعاون واشترک ِباہمی کوواجب قراردیاہے اوریہ بھی لازم کیاکہ بغیرضرورت ِ شدیدہ کے کسی فردکوایسے امورسے کنارہ کش ہونے کاحق نہیں جوتہذیب ومعاشرت کے مسئلہ میں دخیل ہوں“۔
مسئلہ معاش اور انسانی کوششیں
مشاہدہ ہے کہ انسان اپنے معاشی مسائل کے حل اوراس کے تقاضوں کوپوراکرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ سرگرم عمل رہتاہے، بلکہ جنون کی حد تک اس میں مصروف کارہوتاہے،اسی تگ ودومیں بعض دفعہ اس کی سوچنے اور سمجھنے کی قوتیں ماؤف ہوجاتی ہیں اوروہ اپنے ہوش وحواس تک کھو بیٹھتا ہے، غرض معاشی تحفظ کے لیے جوبھی راہ سوجھتی ہے ،یاجس راہ پربھی روشنی دکھائی دیتی ہے اس کے نتائج وعواقب سے بے نیازہوکر خواہشات کے بے لگام گھوڑے پرسوارہوکر سرپٹ دوڑے چلے جاتاہے،کبھی ایک راہ اختیار کرتا ہے توکبھی دوسری،درست راہ کی طرف راہ نمائی نہ ہونے کی وجہ سے ہربارگوہرمقصودہاتھ نہیں آتا،اس کادامن یاس وحرمان کے کانٹوں میں مزیدالجھ جاتاہے،مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جاتے ہیں، معاشی بوجھ سے سبک دوش ہونے کے بجائے وہ مزیداس کے پنجے میں دبتاچلاجاتاہے۔
مختلف زمانوں میں انسانی ذرائع معاش
ہرزمانہ میں انسان نے اپنے معاشی مسائل کے حل اورضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے مختلف ذرائع کواختیارکیا،اوّلارزق کے تمام ذرائع زمین سے تھے اورانسانی زندگی کاپہلادوراسی زمین کی پیداوارپراکتفا کرتا تھا، یا زمین پرچلنے والے جانور اسے شکارکی صورت میں مل جاتے تھے، صدیوں تک یہی عمل جاری رہا،پھرتہذیب وتمدن کاعمل بڑھتا گیا اور ضروریات میں اضافہ ہواتونئے نئے ذرائع معاش بھی وجود میں آنے لگے اوریوں مصنوعات کادورشروع ہوا،انسانی زندگی کے ابتدائی دورمیں تبادلہ اشیا کانظام رائج ہوااورایک طویل زمانہ تک اسی کارواج رہا،ہرایک اپنی ضرورت کی چیزلے کردوسرے کواس کی ضرورت کی چیزفراہم کرتاتھا،مرورِزمانہ کے ساتھ اس مقصدکے لیے مختلف ذرائع ایجادہوتے رہے،یہاں تک کہ سونے، چاندی ، دھاتوں کے بدلے معاملات انجام پانے لگے،پھرسکوں کادورآیا، پھرمعیشت کی جدیدشکلیں اورنظریے وجودپذیر ہوئے اور دنیا سکوں سے کاغذی کرنسی کی طرف آگئی اورآج نوبت کاغذی کرنسی سے مختلف کارڈزتک پہنچ گئی کہ ضرورت مندخریداری کرکے بجائے عوض میں کاغذی نوٹ دینے کے تاجرکوکارڈدکھاتاہے اور اپنی مطلوبہ اشیا حاصل کر لیتاہے،جس رفتارسے ایجادات ہورہی ہیں اورجس طرح انسان لامحدود خواہشات کی تکمیل میں لگاہواہے،اس سے یہ محسوس ہوتاہے ہے کہ اسی پر بات رکے گی نہیں،بلکہ مزیدبھی نئی صور تیں جودمیں آئیں گی۔
کسب معاش اور اسلامی تعلیمات
اسلام کسی معاشی نظام اورمعاشی نظریے کانام نہیں،بلکہ یہ ایک دین اورمکمل نظام حیات ہے،جس میں زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق کامل واکمل راہ نمائی موجودہے،دیگرشعبہ جات زندگی کی طرح معاش،کسب معاش اوران سے متعلقہ امورکے لیے اسلام نے احکامات بیان فرمائے ہیں،بعض حضرات اسلام کوبھی ایک معاشی نظریہ اورنظام سمجھ کراس کاتقابل دیگر جدید وقدیم معاشی نظاموں سے کرتے ہیں،جوکسی طرح بھی درست نہیں،اس لیے کہ تاریخ انسانی کے ہردورمیں معاشی مسائل کے حل کے لیے ہمہ نوع اورباہم دیگرمتضادنظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں اورآئندہ بھی ایسا ہوتارہے گا، لیکن زمانہ شاہدہے کہ یہ نظریات زمان ومکان کے ساتھ سا تھ بدلتے مٹتے اورتبدیل ہوتے رہتے ہیں،جب کہ اسلام نوع انسانی کے لیے عالم گیر،دائمی ،ابدی ،حتمی اورکام یابی کاضامن لائحہ عمل مہیا کرتا ہے،اپنی وسعت ،ہمہ گیری،جامعیت اوراکملیت کے باوصف اسلام نے حیات انسانی کے تمام پہلوؤں کے لیے جامع ومانع پروگرام مرحمت فرمایاہے،اس میں معاشی زندگی کے حوالے سے بھی راہ نمائی کی گئی ہے۔
کسب معاش کے لیے اسلامی احکامات اوراس کے فراہم کردہ اصولوں میں محنت،اس کی ضرورت واہمیت، سرمایہ کاحصول وحرفت،زمین کی ملکیت ،پیداواری صلاحیت اورپیداوارکے احکام،لین دین میں معاہدات اورعہدکی پابندی،صداقت ،امانت،دیانت داری ،راست بازی ،حق گوئی اورسچائی کی تلقین،دھوکہ دہی،ذخیرہ اندوزی،ناجائزمنافع خوری ،بلیک مارکیٹنگ اورملاوٹ کی مذمت و ممانعت،رشوت اورسودکی قباحت وحرمت اورمخرب اخلاق ذرائع آمدنی سے اجتناب ودیگرکئی اورپہلوؤں سے متعلق احکام وہدایات کووضاحت کے ساتھ بیان کیاگیاہے۔اس کے علاوہ معاشرتی زندگی کے حوالہ سے ہم دردی ،غم گساری ،ایثاروقربانی اوراللہ کی راہ میں خرچ کواہمیت دی گئی ہے،فرداورمعاشرہ کوان کاحکم دیاگیاہے۔
محنت
کسب معاش کی جدوجہدمیں محنت کوخاص اہمیت حاصل ہے، خود محنت کرکے کمانے کوسراہاگیاہے،چناں چہ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے :”ماأکل أحدطعاماقط خیرا من أن یأکل من عمل یدہ، وأن نبی اللہ داؤدعلیہ السلام کان یأکل من عمل یدہ“․ (البخاری، ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، کتاب البوع، باب کسب الرجل وعملہ بیدہ، (رقم الحدیث: 2074) :412، دارالکتاب العربی ،بیروت․)
(ترجمہ):تم میں کوئی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہترکوئی چیز نہیں کھاتااوراللہ کے نبی داؤدعلیہ السلام اپنے ہاتھ سے کماکرکھاتے تھے۔
ایک دوسری روایت میں ہے: ”لأن یحتطب أحدکم حزمة علی ظہرہ خیرمن أن یسأل أحدافیعطیہ أویمنعہ“۔(حوالاسابقہ،رقم :2074)
(ترجمہ):”تم سے کوئی اپنی پشت پرلکڑیوں کاگٹھااٹھائے یہ اس بات سے بہتر ہے کہ کسی سے کوئی سوال کرے،کوئی اسے دے یانہ دے۔“
حلال کمائی کوفریضہ سے تعبیرکیاگیاہے،چناں چہ ارشادنبوی صلی الله علیہ وسلم ہے:”کسب الحلال فریضة بعدالفریضة“․ (البیہقی، أبوبکرأحمد بن الحسین بن علی، السنن الکبری،کتاب الاجارة، باب کسب الرجل وعملہ بیدہ“․(رقم الحدیث:1230):128/6‘ط 1344ھ ،مجلس دائرة النظامیة،حیدرآباد،الہند)
(ترجمہ):”حلال روزی کمانافرائض (لازمہ)کے بعدفریضہ ہے۔“
حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے طلب معاش کی فکرکو(مخصوص)گناہوں کاکفارہ قراردیاہے، چناں چہ ارشاد گرامی ہے:”ان من الذنوب ذنوبا،لاتکفرہا الصلوة ولاالصیام ولاالحج ولاالعمرة، قالوا:فما یکفرہا یارسول اللہ؟! قال: الہموم فی طلب المعیشة“․(الہیثمی، نورالدین علی بن أبی بکر، مجمع الزوائد، کتاب البیوع،باب الکسب والتجارة ومحبتہا والحث علی طلب الرزق(رقم الحدیث: 6239): 109/4، دارالفکر‘بیروت)․
(ترجمہ):”گناہوں میں سے بعض گناہ ایسے ہیں،جنہیں نہ نماز معاف کرواتی ہے‘نہ ہی روزہ اورنہ حج وعمرہ معاف کراتے ہیں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یارسول اللہ!پھرانہیں کون سی چیزمعاف کرواتی ہے؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:ان کاکفارہ کسب معاش میں پیش آنے والی پریشانیاں ہیں“۔
خودحضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کااولین پہلویہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم خودمحنت فرماکراللہ تعالی کے خزانوں سے روزی کماتے، خود کھاتے اوردوسروں کوکھلاتے تھے،قبل ازنبوت کی حیات طیبہ میں کئی ایک تجارتی اسفارجوشام،بصرہ اوریمن کی طرف اختیارفرمائے قابل ذکرہیں۔ (علامہ شبلی نعمانی،سیرة النبی صلی الله علیہ وسلم ، ظہورقدسی،شغل تجارت: 187/1 کواپریٹیو کیپٹل پرنٹنگ پریس،لاہور،ط:پنجم)
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی مبارک اورپاکیزہ تعلیمات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ خوداپنے ہاتھ سے محنت کرکے حلال روزی کماناشریعت میں محمود اورمطلوب ہے۔
سرمایہ اوراس کاحصول
اسلام دولت اورسرمایہ کوناپسندیدہ نظرسے نہیں دیکھتا،بلکہ اسلامی تعلیمات میں جگہ جگہ اسے ”خیر“کے لفظ سے تعبیرکیاگیاہے،چناں چہ قرآن مجید میں ارشادربانی ہے:﴿وَإِنَّہُ لِحُبِّ الْخَیْْرِ لَشَدِیْد﴾․(العادیات:8)
(ترجمہ):”بے شک وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہیں“۔
سورة البقرة میں ارشادخداوندی ہے:﴿وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَیْْرٍ یُوَفَّ إِلَیْْکُم﴾․(البقرة:272)
(ترجمہ):”اورتم مال میں سے جوکچھ خرچ کروگے تمہیں پورا پورا کردیاجائے گا“۔
حلال ذرائع آمدن
لیکن یادرہے کہ مال کاحصول حلال طریقے سے ہوناضروری ہے،حلال مال وہی ہوگا جس کاذریعہ بھی حلال ہو،ورنہ حلال رزق بھی حرام اورناپاک تصورہوگا،جیسے حلال اناج اورگندم چوری کے ذریعے ،اسی طرح حلال روپے رشوت اورغبن کے ذریعے،ناپ تول میں کمی،یاملاوٹ کرکے اورجھوٹ بول کرکمائے جائیں تویہ ساری چیزیں حلال رزق کوبھی حرام کردینے والی ہیں۔
مال کے حصول میں دیانت وامانت کے اصول کومرکزی نکتہ کی حیثیت دی گئی ہے،تاکہ باہمی مفادات کااحترام وتقدس قائم رہ سکے، چناں چہ باطل طریقہ سے ایک دوسرے کے مال کوکھانے سے منع کیا گیاہے، ارشاد باری تعالی ہے:﴿وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِل﴾․ (البقرة:188)
(ترجمہ)”اور اپنے مال آپس میں باطل طریقہ سے مت کھاؤ“۔
حلال رزق کوحلال طریقہ سے کمانے کی ترغیب آپ علیہ الصلوة السلام نے ایک دوسرے اندازمیں بھی ارشاد فرمائی ہے،چناں چہ ارشاد مبارک ہے:”أیماعبد نبت لحمہ من السحت والربا،فالنارأولی بہ“․(الطبرانی،أبوالقاسم سلیمان بن أحمد،المعجم الأوسط، (رقم الحدیث:6495) :310/6،ت:طارق بن عوض اللہ الحسینی، ط:دارالحرمین‘القاہرة 1415ھ)
(ترجمہ):”جس شخص کا گوشت پوست ظلم اور سود سے پلے بڑھے، اس کے لیے جہنم کی آگ ہی زیادہ بہترہے“۔
دوسرے کاحق، چاہے زیادہ ہویامعمولی ،ناجائزطریقہ سے قبضہ کرنے سے منع کیاگیاہے، حدیث میں آیا ہے:”من اقتطع شبرامن الأرض ظلما طوقہ اللہ ایاہ یوم القیمة من سبعین أرضین“․ (القشیری، أبوالحسین مسلم بن حجاج بن مسلم، صحیح مسلم،کتاب البیوع، باب تحریم الظلم وغصب الأرض وغیرہا، (رقم الحدیث:4132)،ص:703،ط،دارالسلام ،الریاض 1419ھ)
(ترجمہ):”جس شخص نے ظالمانہ طورپرکسی سے زمین کاکچھ حصہ لے لیا، قیامت کے روزاللہ تعالی سات زمینوں کابوجھ اس کے گلے میں ڈال دے گا“۔
ایک اورروایت میں معمولی اشیا کے بارے میں فرمایا: ”من اقتطع حق امرئ مسلم بیمینہ فقد أوجب اللہ لہ النار وحرم علیہ الجنة، فقال لہ رجل: وإن کان شیئا یسیرا یارسول اللہ؟!قال:وإن کان قضیبا من أراک“۔(الأصبحی،مالک بن أنس بن مالک بن أبی عامربن الحارث، مؤطاالإمام مالک،کتاب الأقضیة، باب ماجاء فی الحنث علی منبرالنبی صلى الله عليه وسلم،ص:636،قدیمی،کراچی)
(ترجمہ):”جس نے کسی مسلمان کاحق قسم کے ذریعے ختم کردیا، اللہ نے اس کے لیے جہنم واجب کردی اوراس پرجنت کوحرام کر دیا، ایک شخص نے عرض کیاکہ اگربہت معمولی سی چیزکامعاملہ ہوتو؟(پھربھی ایساہی ہوگا) فرمایا:اگرچہ اراک (پیلو) کے درخت کی شاخ ہی کیوں نہ ہو“۔
جدیدمعاشی نظریات اوراسلام
معاشی مسائل میں غوطہ زنی سے پہلے ایک بنیادی نکتے کا سمجھنا ضروری ہے، جس کی وجہ سے جدیدمعاشی نظریات اورمعاش کے اسلامی احکام میں تمیزاورفرق سہل ہوجاتاہے،وہ یہ کہ اسلام اگرچہ سہولیات دنیوی کے ترک اورطلب رزق کی مشغولیت کوناپسندیدہ سمجھنے میں رہبانیت کامخالف ہے اورمعاشی میدان میں انسانی حرکت کونہ صرف مباح بلکہ بعض اوقات اسے پسندیدہ اورضروری قراردیتاہے،لیکن اس سب کے باوجود معاش کوانسان کے لیے بنیادی اوراساسی مشکل ومسئلہ قرار نہیں دیتا، جیسا کہ معاشی ترقی کوحیات انسانی کامقصودومنتہانہیں سمجھتا،یہیں سے مادیت پرمبنی معیشت اورمعیشت کے اسلامی احکام میں بڑااوربنیادی فرق واضح ہوجاتاہے کہ مادیت پرست معیشت ہی کوانسان کی زندگی کا مقصود ومنتہا قرار دیتے ہیں، جب کہ اسلام یہ کہتاہے کہ بقدرضرورت طلب معاش سے کوئی فرد بشر مستغنی نہیں،لیکن اسی کوانسانیت کی معراج سمجھنے کی ہرگزاجازت نہیں کہ انسان اسے اپنے علم، فکر وچاہت اورکام یابی وناکامی کے لیے معیار قرار دے۔ (مفتی محمدتقی عثمانی صاحب،تکملة فتح الملہم، کتاب البیوع، مسئلہ الاقتصاد فی الإسلام (ملخصا):300/1، 301، مکتبة دارالعلوم کراتشی، 1414ھ)
مسائل اربعہ کا حل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
معاش کوانسانی زندگی کامقصدومنتہاقراردینے والوں نے جن چارمسائل کومعیشت کی بنیادبنایااورانہیں حل کرنے کے لیے اپنے مذعومہ نظریات پیش کیے ،اسلامی احکامات کے تناظرمیں ان کاجائزہ لینے سے جوباتیں سامنے آتی ہیں،ان کاخلاصہ درج ذیل ہے:
طلب ورسدکے فطری قوانین کااعتراف
اسلام طلب ورسدکے فطری قوانین کانہ صرف معترف ہے ،بلکہ اس حوالے سے ہدایات بھی فراہم کرتاہے،قرآن کریم میں اللہ رب العزت کاارشادہے:﴿ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْْنَہُم مَّعِیْشَتَہُمْ فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضاً سُخْرِیّاً﴾ (الزخرف:32)
(ترجمہ):”ہم نے ان کے درمیان معیشت کوتقسیم کیاہے اوران میں سے بعض کوبعض پردرجات میں فوقیت دی ہے ،تاکہ ان میں سے ایک دوسرے سے کام لے سکیں“۔
یہاں کام لینے والے کوطلب اورکام کرنے والے کورسدسے تعبیرکیاجاسکتاہے،یہی وہ چیزہے جس کی باہمی کشمکش اورامتزاج سے ایک متوازن معیشت وجودمیں آسکتی ہے۔
ہم نے پہلے عرض کیاتھاکہ اسلام اس حوالے سے ہدایات بھی فراہم کرتاہے،لہذاایک موقعہ پرجب آپ علیہ السلام سے بازارمیں فروخت ہونے والی اشیا کی قیمتیں اورنرخ متعین کرنے کی درخواست کی گئی توجواب میں آپ علیہ السلام نے ارشادفرمایا:”إن اللہ ہو المسعر القابض الباسط الرازق“․ (السجستانی، أبوداؤد سلیمان بن الأشعث الأزدی، سنن أبی داود، کتاب الإجارة، باب فی الشعیر، (رقم الحدیث:3451) :374/3، 375، دارإحیاء التراث العربی،1421ھ)
(ترجمہ):”بے شک اللہ تعالی ہی قیمت مقررکرنے والے ہیں، وہی چیزوں کی رسدمیں کمی اورزیادتی کرنے والے ہیں اوروہی رزاق ہیں“۔
ایک اورحدیث میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایاگیاہے کہ بازارمیں رائج طلب ورسدکے قوانین فطری ہیں،ان میں تبدیلی درست نہیں،آپ نے شہریوں کودیہات والوں کے لیے یعنی ان سے مال لے کرخودشہرمیں مہنگے داموں فروخت کرنے سے منع فرمایااورساتھ ہی یہ بھی ارشادفرمایا:”دعوا الناس یرزق اللہ بعضہم من بعض“․ (الترمذی، أبوعیسی محمد بن عیسی بن سورة،سنن الترمذی، کتاب البیوع، باب ماجاء لایبیع حاضرلباد، (رقم الحدیث:1223) :266/2، دارالکتب العلمیة،بیروت 1421ھ)
(ترجمہ):”لوگوں کوآزادچھوڑدو،تاکہ اللہ تعالی ان میں سے بعض کوبعض کے ذریعے رزق عطافرمائے“۔
اس حدیث میں تیسرے شخص کی مداخلت کومنع فرمایاگیا،تاکہ طلب ورسدکاصحیح توازن قائم ہواورذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی قلت پیداکرکے طلب ورسدکے قدرتی نظام میں بگاڑسے حفاظت ہوسکے، گویا اسلام کے معیشت کے حوالے سے بیان کردہ احکام سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فی الجملہ طلب ورسداورذاتی منافع کے محرک کا اعتبار ہے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیاکہ جدیدمعاشی نظریات کی طرح ان کوبے لگام نہیں چھوڑاگیاکہ جس طرح چاہیں معاملہ کریں،کیوں کہ مطلق آزادی ذخیرہ اندوزیوں کوجنم دیتی ہے، جس سے مارکیٹ کانظام درہم برہم ہوجاتاہے۔ (مفتی محمدتقی عثمانی صاحب، تکملة فتح الملہم،کتاب البیوع، المذہب الاقتصادی الإسلامی: 311,310/1،مکتبة دارالعلوم کراتشی)
(جاری)