Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1434ھ

ہ رسالہ

14 - 17
متاع گم گشتہ کے لیے
محترم یریداحمدنعمانی

سیدنا حضرت عیسیٰ بن مریم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰة والسلام کی آمد کو پانچ سو برس سے زائد عرصہ بیت چکاتھا۔ بنی نوع انسانیت ضلالت وگم راہی کے گڑھے میں گرچکی تھی۔ چہا رسو تاریکی اورظلمت کا راج تھا۔انسان اپنے خالق ومالک اورربّ العالمین کو بھلا بیٹھا تھا۔ یہودیت وعیسائیت محض چند ظاہری رسموں کو دین خداوندی کانام دے چکی تھیں۔انجیل وتورات میں ہزاروں طرح کے تغیرو تبدل کیے جاچکے تھے۔ یہودونصاریٰ کے مذہبی پیشوا،راہ نمایان قوم وملت اورزعمائے سیاست نے احکام الٰہی کو ،دین فروشی کی بدترین مثال قائم کرتے ہوئے بیچ ڈالا تھا۔ وہ اس قدرنفس پرست اوردین بیزار بن چکے تھے کہ ذرا ذرا سے روپے پیسوں کے حصول کی خاطر ،خداوندی پیغامات اوررسولوں کے بتائے ہوئے طریقوں سے دست بردار ہوجاتے تھے۔انہیں جن جن تعلیمات الٰہی پر عمل کرنے کا حکم دیاگیا تھا،شیطان نے مختلف فاسد تدبیریں سجھاکر، انہیں ان پر عمل کرنے سے روک رکھاتھا۔ یہ حال توان لوگوں کا تھا جو خود کو آسمانی ہدایات کا وارث وامین جانتے،سمجھتے اور بتلاتے تھے۔دوسری طرف سرزمین عرب میں بسنے والے مشرکین تھے۔جن کی حالت ان سے زیادہ دگرگوں اورقابل رحم تھی۔اخلاق،شرافت، پاک دامنی، اورسچائی جیسی اعلیٰ واشرف انسانی صفات ان میں یکسر ناپید تھیں۔ جھوٹ، مکر، دھوکا، خیانت، شراب نوشی ،بے حیائی ، زناکاری اوران سب سے بڑھ کر بت پرستی کی مختلف صورتیں اورشکلیں ،ان میں اس قدرجڑپکر چکی تھیں کہ وہ ننگے ہوکر طواف کرنے کو عزت کا معیار سمجھتے تھے۔عورت کو ذلت ورسوائی کی علامت سمجھا جاتاتھا۔ یتیموں، بے کسوں اورمظلوموں کے حقوق دبالیے جاتے تھے۔ غرض وہ کون سی برائی تھی جو مشرکین عرب میں موجود نہ تھی۔ ہر طاقت ور اپنی طاقت وقوت پر نازاں تھا،جب کہ ہر بے بس اورمجبور اپنی لا چاری پر خاموش بہ لب۔

ظلمتوں اوراندھیریوں کی اس تاریک رات میں آفتاب نبوت کا ظہور ہوا۔ جس کی درخشاں وتاباں کرنوں نے عالم انسانیت کو پھر سے وہ مقام ومرتبہ بخشا،جو اس کے جد امجد آدم علیہ السلام کو حاصل تھا۔انسانوں کو انسانوں کی بندگی اورغلامی سے نجات ملی۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ونبوت اورآپ کی رسالت کسی خاص طبقے،قوم اورقبیلے کے لیے ہرگزنہیں تھی۔بلکہ آپ علیہ السلام تمام جہان والوں کے لیے سراپا رحمت للعالمین بناکر بھیجے گئے تھے۔ حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہم الصلوٰة والسلام تک جتنے انبیا وپیغمبر تشریف لائے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جامع اورخاتم تھے۔ مشرق کا کالا ہو یا مغرب کا گورا،حجاز کا عرب ہو یا ہندکا عجمی، افریقہ کا حبشی ہویا خراسان کا فارسی، ہر ایک آپ کے دامن نبوت میں پناہ لے سکتا ہے۔ ہر ایک آپ کے آخری ،ابدی اوردائمی پیغام کو قبول کرکے اس خداوندی بشارت کا مستحق بن سکتاہے ،جس کا وعدہ ربّ ذوالجلال والاکرام نے آپ علیہ السلام سے فرمایاہے۔

آج ہم اور آپ انہی نبی آخرالزماں ،ساقی کوثر، شفیع المذنبین، رحمة للعالمین اورشافع محشر صلى الله عليه وسلم کے نام لیوا اورامتی ہیں۔چشم فلک نے آپ علیہ السلام کی صحبت وتربیت یافتہ ایسی جماعت بھی دیکھی ہے،جس نے چاردانگ عالم میں آپ صلى الله عليه وسلم کے پیغام کو پہنچایا۔ جس نے مشرق ومغرب اورشمال وجنوب کی کوئی سمت ایسی نہ چھوڑی جہاں آپ علیہ السلام کی دعوت، آپ کی ختم نبوت اورآپ کی رسالت کاپیام نہ سنا یا ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی یہ فتوحات اوران کا رعب ودبدبہ ،فیض تھا منبع وحی صلى الله عليه وسلم  کا۔ یہ دلیل تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی۔ یہ حقانیت تھی آپ علیہ السلام کی۔ یہ معجزہ تھا جناب نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا۔لیکن پھر جیسے جیسے زمانہ گزرتاگیا، زمانہ نبوت سے لو گ دورہوتے چلے گئے ،مسلمانوں میں انحطاط اورتنزل آتاچلاگیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام ،صاحب اسلام اورقرآن کریم کی عظمت وسچائی آج بھی مسلم اورلاریب ہے۔آج سسکتی اورتشنہ لب ا نسانیت کی سیرابی صرف اورصرف دین قیم کے چشمہ صافی ہی سے ممکن ہے۔ ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں ،وہاں انفرادی واجتماعی حیثیتوں میں اہل ایمان نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ،فرمودات اوراحکامات کو پس پشت ڈال رکھاہے۔ امروز ہم نے مغرب،اس کی کافر تہذیب اورباطل قانون کو سینے سے لگاناتو گوارا کرلیا ،لیکن سیرت محمدی علیٰ صاحبھا الصلوٰة والسلام کے روشن اورجامع پہلووٴں سے اپنی نظریں ہٹالی ہیں۔فی زمانہ ہماری ثقافت،ہماری معاشرت اورہماراطرز بود وباش غیروں کے رنگ میں ڈھل چکاہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کفار پر ہمارارعب ختم ہوچکاہے۔ ہم کثرت میں ہوتے ہوئے بھی مغلوبیت کا شکارہیں۔ ہمارے درمیان اتحاد واتفاق ناپید اور انتشار وفساد عام ہے۔

بلاشبہ دنیائے کفر اپنے خود ساختہ تمام نظاموں اورقوانین کو آزماکر دیکھ چکی ہے ۔ ہر طرف سقم ہی سقم ہے۔ خامی اورکمی تو انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کی پہچان ہے۔ طاغوتی قوتوں کو اس بات کا یقین حاصل ہے کہ اگردنیا میں کوئی ایسانظام حکومت ہے ،جس میں حصول انصاف کے لیے امیر وغریب کے درمیان ، یکساں سلوک کیا جاتاہوتو وہ صرف اورصرف اسلام ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی شعائر، تعلیمات اوراحکامات کے خلاف جتنا بے بنیاد پروپیگنڈا آج کر رہی ہیں، اس کا تصور بھی پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ نت نئے ابلاغی وسائل کو بروئے کار لاکردین مبین کی روشنی کو مٹانے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہیں۔مگراب دنیا کروٹ لے رہی ہے۔ہرسمت وجہت میں اسلام کی مقبولیت ومحبوبیت کاگراف بڑھتا جارہا ہے۔انصاف پسند،سلیم الطبع اورحق کے متلاشی شمع ہدایت کے گردپروانہ وارجمع ہورہے ہیں۔

ان حالات میں ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم اورآپ بھی اپنی ”متاع گم گشتہ“ کو حاصل کرنے کے لیے ایک بارپھر کمر بستہ ہوجائیں۔ہم دل وجان سے یہ عزم وارادہ کرلیں کہ ہم اپنی زندگیوں کو کتاب وسنت کے سانچے میں ڈھالیں گے۔ ہماری زندگی کا ہرپہلو سیرت نبوی کا آئینہ دارہوگا۔ اگرہم نے یہ نیت کرلی اوراس پر عمل شروع کردیا توکوئی وجہ نہیں کہ ہماری موجودہ ذلت ونکبت ایک بار پھر عزت ورفعت میں تبدیل نہ ہو۔اتباع سنت علیٰ صاحبھاالصلوٰة والسلام کا یہ شوق وجذبہ ہی دنیا وآخرت کی تمام کام یابیوں اورکامرانیوں کی کنجی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اورآپ کو صدق دل سے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ (آمین)
Flag Counter