Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1434ھ

ہ رسالہ

2 - 17
علمائے کرام کی قدروقیمت
مولانا رضوان احمد ندوی

انسان کی سماجی زندگی مذہبی اقدار کی حفاظت اور ملی تشخص کے تحفظ سے استوار رہی ہے، جس طرح ہوا اور پانی زندگی کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتے ہیں اسی طرح دین ومذہب انسانوں کے لیے چراغ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں،اس کے ذریعہ ہی انسان مہذب ،شائستہ اور صاحب کردار انسان بنتا ہے،اگر ملک اور سماج میں علماء اور مذہبی رہنما موجود نہ ہوں تو سماجی زندگی بے سمتی کی زندگی بن کر رہ جائے گی، لوگ فکرآخرت سے بے نیاز ہوجائیں گے، اس لیے دینی پیشوا ان کے لیے عمل کی راہ متعین کرتے ہیں ،نیکیوں کوپھیلاتے ہیں اور برائیوں کو مٹانے کی جدوجہد کرتے ہیں،اسی لیے حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ علمائے کرام زمین کے چراغ ہیں اور نبیاء کے قائم مقام ہیں۔

”العلماء مصابیح الارض وخلفاء الانبیاء“اور کہیں فرمایا”العلماء امین فی الارض“کہ علماء زمین میں اللہ کے امین ہیں،وہ سوسائٹی کی دینی واخلاقی رہنمائی کے ذمہ دار ہیں۔

ایک موقعہ پر اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ ”العلماء ورثة الانبیاء“ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء نے دینار ودرہم کی میراث نہیں چھوڑی ،بلکہ ان کی میراث علم ہے،پس جس نے ان کاعلم حاصل کیا اس نے بڑا حصہ پایا۔وراثت کا یہ شرف عظیم ذمہ داریوں کے ساتھ ان کے دوش پر ڈالا گیا کہ وہ معاشرے اور سماج کو حق وصداقت کی راہ دکھلائیں اور انسانیت کو عدل وانصاف ، امن وشانتی کا پیغام سنائیں۔

ہم سب کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ آج دنیا میں دینی اقدار اور اسلامی تہذیب وثقافت کی جوقندیلیں روشن ہیں وہ انہیں علمائے کرام کی مصلحانہ کوششوں کا ثمرہ ہے، علمائے کرام کی اس دینی ومذہبی حیثیت کو حدیث پاک میں ایک دلنشیں مثال کے ذریعہ سمجھایا گیا کہ !

”زمین میں علماء کی ایسی مثال ہے جیسے آسمان میں ستاروں کی ،جن سے خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راستے کی راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے،پھر اگر ستارے ڈوب جائیں تو قریب ہے کہ راہ چلنے والے راستہ سے بھٹک جائیں“۔

علماء کی اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ وہ سماج میں قبلہ نما کی حیثیت رکھتے ہیں، جس طرح قبلہ نما سے سمت کا پتہ چلتا ہے کہ یہ جانب مغرب ہے،یہ مشرق ہے،یہ جنوب اور شمال ہے، اسی طرح علمائے کرام وقت کو صحیح سمت میں چلانے اور راہ حق پر چلنے کی راہ نمائی کرتے ہیں ،حضرت عبداللہ بن جعفر کہا کرتے تھے کہ”علماء دنیا کے لیے روشنی کا مینارہ ہیں، ان ہی سے وہ نور پھوٹتا ہے جس سے گمراہ لوگ ہدایت پاتے ہیں“۔

وہ بار ان رحمت کی طرح ہر جگہ نفع بخش ہوتے ہیں، قرآن کریم کی متعدد آیات میں علمائے کرام کی عظمت واحترام کو بیان کیا گیا ہے۔

کہیں فرمایا﴿قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون﴾آپ کہہ دیجیے کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔وجہ ظاہر ہے کہ ان کے اندر خشیت واناہت،زہدوتقویٰ دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتا ہے ﴿انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء﴾.اللہ سے تو اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنے بندوں کو جتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں علم کی نعمت سب سے افضل وبرتر ہے،اس لیے اس نعمت کی نسبت رب کریم نے اپنی طرف کی،﴿اقرأ باسم ربّک الذی خلق.خلق الانسان من علق﴾اپنے رب کے نام سے پڑہیے جس نے آپ کو پیدا کیا۔ اس کے بالمقابل مال ودولت ،جاہ و منصب اور عزت وشہرت ،شرافت ووجاہت کی نعمتوں کو وقتی اور عارضی قرار دیا﴿المال والبنون زینةالحیاةالدنیا﴾مال واولادسب دنیوی زندگی کی زینت ہیں۔ جو وقت اور حالات کے تغیرات کے ساتھ الٹ پھیر ہوتے رہتے ہیں، ان میں سے کسی نعمت کو دوام واستقرار حاصل نہیں ،مال ومتاع کے بارے میں نہیں کہا گیا کہ اس میں اضافہ کی تمنا کرو، یہ دعا نہیں سکھائی گئی کہ انسان کہے”رب زدنی مالاً“اے اللہ! میرے مال کو بڑھا دے”یارب زدنی ملکا“اے اللہ! میری بادشاہت میں اضافہ فرما ”ہاں“ علم کے بارے میں ضرور کہا گیا کہ اس کی زیادتی کی دعا کرو”رب زدنی علما“اے اللہ! میرے علم میں اضافہ فرما۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم کا حاصل کرنا عبادت ہے اور صاحب علم کی قدر کار ثواب ہے، یہی وہ وجہ امتیاز ہے جس کے باعث سماج میں علمائے کرام قدر ومنزلت اور عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔

اس کا ایک دوسرا پہلویہ ہے کہ مسلم سماج کا علمائے دین اور مذہبی راہ نماوٴں سے روحانی اور ایمانی بنیادوں پر رشتہ اور تعلق قائم رہتاہے،ان سے ان کے دینی وشرعی احکام ومسائل وابستہ رہتے ہیں، لوگ اپنی شرعی زندگی گزارنے کے لیے قدم قدم پر ان کی راہ نمائی اور رہبری کے محتاج ہوتے ہیں، حدیث پاک میں اس کی تلقین کی گئی کہ علماء سے مسائل پوچھا کرو۔جالسوا الکبراء، وسائلوا العلماء، وحافظوا الحکماء،بڑے لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرو،علماء سے مسائل دریافت کرو،حکماء اور دانش وروں سے تعلق رکھو۔ یہی علماء کرام کہیں منبر ومحراب کو زینت بخشتے ہیں تو کہیں دار ورسن ان کی جلوہ سامانیوں سے عزت پاتے ہیں ،کہیں تخت وتاج ان کی ہیبت سے کانپتے ہیں تو کہیں مدارس ان کے قال اللہ اور قال الرسول کے نغموں سے گونجتے ہیں،کہیں خانقاہیں ان کے وجد وحال اور ذکر واشغال سے بقعٴہ نو ر بنتی ہیں تو کہیں ان کی حق گوئی سے ایوان سیاست میں کپکپی طاری ہوتی ہے، وہ امت کی عزت ووقار کو قائم رکھنے کے لیے ہر جہت سے کوشش کرتے ہیں ،سماج میں امن و آشتی کو فروغ دینے کے لیے احترام انسانیت کے جذبے کو ابھارتے ہیں،حقوق وفرائض کی ادائیگی پر لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں ،سماج میں ایسے علمائے صالحین ہر دور میں پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے بلا تفریق مذہب وملت ہر طبقہ کی قابل لحاظ خدمات انجام دیں،ان کی نگاہ زمانے کے بدلتے ہوئے تیور سے کبھی نہیں ہٹی ،جب اور جس وقت امت کو رہبری کی ضرورت پیش آئی بڑھ کر قدم اٹھایا اور کتاب وسنت کی روشنی میں امت کی راہ نمائی کی ۔
        ہوا ہے گو تند وتیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
        وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ 
Flag Counter