کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
ماہ صفر کو منحوس سمجھنا
سوال… صفر کو منحوس سمجھنا اورا س میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات سے پرہیز کرنا یا اس مہینے میں کچھ پکاکر اس نیت سے تقسیم کرنا کہ اس کی نحوست سے حفاظت ہوجائے، درست ہے یا نہیں؟
جواب… اسلام جس طرح بتُ پرستی کا مخالف ہے، اسی طرح توہم پرستی کا بھی اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو جس طرح باطل خیالات اور غلط نظریات و عقائد سے منع فرمایا،اسی طرح توہم پرستی سے بھی لوگوں کو منع فرمایا۔
موجودہ دور میں ماہ صفر کے متعلق کچھ غلط نظریات و خیالات پائے جاتے ہیں، اسی طرح کے خیالات زمانہ جاہلیت میں بھی لوگوں کے اذہان میں موجود تھے جن کو حضرات محدثین نے بیان فرمایا ہے، چناں چہ صاحب مظاہر حق لکھتے ہیں:
”صفر سے متعلق متعدد اقوال بیان کیے گئے ہیں، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس سے تیرہ تیزی کا مہینہ مراد ہے جو محرم کے بعد آتا ہے اور جس کو صفر کہتے ہیں، کمزور عقیدے والے لوگ اس مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مہینے میں آفات و بلا اور حوادث و مصائب کا نزول ہوتا ہے، ارشاد نبوی کے ذریعے اس کو باطل بے اصل قرار دیاگیا ہے۔
صفر سے متعلق زمانہ جاہلیت میں ایک خیال یہ بھی تھا کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہوتا ہے جس کو صفر کہا جاتا ہے اور بقول ان کے جب پیٹ خالی ہو اور بھوک لگی ہو تو و ہ سانپ کاٹتا ہے اور تکلیف پہنچاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ بھوک کے وقت پیٹ میں جو بے چینی پیدا ہوتی ہے وہ اسی سانپ کے سبب ہوتی ہے۔
علامہ نووی نے مسلم شریف کی شرح میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں کا گمان تھا کہ صفر ان کیڑوں کا نام ہے جو پیٹ میں ہوتے ہیں اور بھوک کے وقت کاٹتے ہیں، ان کے سبب سے آدمی کا رنگ فق ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ ختم ہو جاتا ہے، یہ سب بے اصل توہمات ہیں جن کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں۔“(مظاہر حق، ج:4،201)
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سب توہمات کی تردید فرمائی، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”لاطیرة ولاھامة ولاصفر“ یعنی بدشگونی اور پرندوں سے فال لینا اور صفر کے بارے میں غلط خیالات یہ سب باتیں بے بنیاد ہیں۔(بخاری شریف)
دوسری روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لاصفر ولاغول“ یعنی صفر اور غول بیابانی سب فاسد خیالات ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں۔(مسلم شریف)
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ماہ صفر کو منحوس سمجھنایا اس میں شادی وغیرہ نہ کرنا سب فاسد خیالات ہیں ان کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں اور اسلام اس قسم کی فضول باتوں سے برأت کا اظہار کرتا ہے، لہٰذا جو لوگ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں ان کو توبہ کرنی چاہیے، الله تعالیٰ ہمیں ان توہمات وخرافات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
قضانمازوں کا فدیہ
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام درج ذیل سوالات کے بارے میں کہ میری پیدائش1937 میں ہوئی،1982 سے پابندی کے ساتھ نمازیں پڑھ رہا ہوں، اس سے پہلے نمازوں میں بہت کوتاہیاں ہوئیں، نماز پڑھی تھیں اور چھوٹ بھی گئیں، جن کا حتمی حساب بالکل صحیح انداز ے سے نہیں کیا جاسکتا۔ میں اگر اپنی نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی کوشش کروں تو 12 سال میں نماز فرض ہوئی30 سال سے بحمدالله نمازیں قائم ہیں بقایہ33 سال رہتے ہیں۔
توکیا فدیہ پورے33 سال کا ادا کیا جائے گا یکمشت۔
چھ نمازوں کا فدیہ ( بمع وتر) کتنا ہو گا ایک دن کا۔
فدیہ موجودہ ریٹ کے حساب سے لگانا ہو گا یا1949ء سے 1982ء تک ان سالوں کا ریٹ اگر معلوم ہو سکے تو ان سالوں کے حساب سے دیا جائے گا؟
کیا یہ رقم اقساط میں دی جاسکتی ہے اور یا یہ وصیت چھوڑ دیں کہ ہمارے بچے ہوئے اثاثے میں سے پہلے ہمارا اس قدر روپیہ۔ فدیہ کی مد میں دے دیا جائے اور اگر کچھ باقی بچے تو ورثاء اس کو حسب شرعی تقسیم کر لیں، یہ سوال اس لیے ذہن میں آیا کہ غالباً مرنے والا اپنے لیے 33 فی صد سے زیادہ وصیت نہیں سکتا، جب کہ یہ رقم اسی فی صد سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
اپنی زندگی میں سب دینے میں ایک قباحت یہ محسوس ہوئی، الله مجھے معاف کرے گناہ گارہوں کہ معلوم نہیں کتنی عمر ہو او رکن حالات اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑے اس وقت محتاجی یا دوسروں کا ( اولاد) کا دست نگر ہونا پڑے یہی سوال زکوٰة کے حوالے سے بھی ہیں۔ گو زکوٰة کی رقم غالباً زیادہ نہیں بنے گی چوں کہ پچھلے تیس سال سے تو ہم کو یہ ادا کرنے کی الله نے توفیق دی اور اس سے قبل ہمارے قابل زکوٰة اثاثے صرف زیور کی حد تک محدود ہوں گے جب کہ مکان وگاڑی کے قرض سامنے کھڑے ہوں گے۔
آپ کی راہ نمائی سے اس عاجز گناہ گار کو نہ صرف مسئلہ کا حل اور راہ نمائی حاصل ہو گی بلکہ آپ کی دعاؤں کے زیر سایہ، مجھ جیسے کمزور عقیدہ والوں کو حوصلہ او راعتماد بھی حاصل ہو گا۔
جواب… سوال میں چند امور غور طلب ہیں:
قضاء نمازوں کی ادائیگی کا صحیح طریقہ۔
فدیہٴ نماز کی ادائیگی کا شرعی طریقہ۔
گزشتہ سالوں کی زکوٰة ادا کرنے کا طریقہ۔
امراول کا حکم یہ ہے کہ بلوغ کے بعد سے جو نمازیں آپ نے غفلت یالاپرواہی کی وجہ سے نہیں پڑھی ہیں ان کا ( توبہ واستغفار کے ساتھ ساتھ ) اندازہ کرکے شمار متعین کر لیں او رپھر احتیاطاً اس میں مزید کچھ نمازوں کا اضافہ کر لیں ، حتمی حساب اگر مشکل ہے تو محتاط حساب لگا کر انہیں ادا کرنے کی فکر کریں۔ اپنی ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد جتنی نمازیں پڑھ سکیں قضا کرتے رہیں ، بہتر یہ ہے کہ عام نوافل کے اوقات میں بھی نوافل کے بجائے قضاء نمازوں کی ادائیگی میں مصروف رہیں۔
بعض علماء نے مزید آسانی کے لیے یہ طریقہ بھی بتایا ہے کہ روزانہ ہر فرض نماز کے ساتھ پہلے یا بعد میں اسی وقت کی ایک نماز قضا پڑھ لیا کریں ، اس طرح ایک دن میں پانچ نمازیں آسانی سے ادا ہو جائیں گی ، البتہ جب موقع ملے تو غیر مکروہ اوقات ( طلوع، زوال اور غرب) میں اس سے زیادہ بھی پڑھتے رہیں۔
تاہم قضاء پڑھنے میں ایک تو نیت کا خیال رکھیں اور یوں نیت کریں کہ سب سے پہلے قضا ہونے والی نماز پڑھتا ہوں، مثلاً فجر کی قضا پڑھ رہے ہیں تو یہ نیت کریں کہ میرے ذمہ فجر کی جو سب سے پہلی نماز ہے اس کی قضا پڑھتا ہوں۔دوسرے یہ کہ قضا صرف فرائض اور وتروں کی کریں ، سنتوں کی قضاء لازم نہیں، تیسرے یہ کہ نماز کا فدیہ زندگی میں نہیں دیا جاتا ، بلکہ قضاء پڑھنا لازم ہے اگرچہ نمازیں بہت زیادہ ہوں، لہٰذا اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر پڑھیں، اس پر بھی قدرت نہ ہو تو لیٹ کر اشارہ سے نماز پڑھیں۔
امر ثانی کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ فدیہٴ نماز کی وصیت درست ہے ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ قضاء نمازیں بھی پڑھتے رہیں اور روزانہ کی ڈائری میں ان کا حساب بھی لکھتے رہیں اور ساتھ ساتھ یہ وصیت بھی کر دیں کہ جو نمازیں میں اپنی زندگی میں ادا نہ کر سکوں ان کا فدیہ میرے ترکے سے ادا کیا جائے تو امید ہے کہ ان شاء الله آپ کا یہ عمل الله تعالیٰ قبول فرما کر آپ کی کوتاہی کو معاف فرما دیں گے۔
البتہ وصیت ترکے کے ایک تہائی حصہ (33.3333 فی صد) تک نافذ ہو گی اگر فدیہ کی مقدار ایک تہائی سے بڑھ گئی تو زائد مقدار میں وصیت پر عمل کرنا وارثوں کے ذمے لازم نہ ہو گا ، البتہ عاقل او ربالغ وارثین اگر اپنے حصہ اور مال میں سے رضاکارانہ طور پر ادا کریں گے تو ان کا یہ احسان ہوگا اور الله تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ ان شاء الله معافی ہو گی۔
ہر نماز کے فدیہ کی کم از کم مقدار پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت ہے او روتر مستقل نماز کے حکم میں ہے، لہٰذا ایک دن میں چھ نمازوں و کا فدیہ ساڑھے دس کلو گندم یا اس کی قیمت ہو گا ، قیمت دی جائے تو فدیہ دیتے وقت جو گندم کی قیمت فروخت ہو گی اس کا اعتبار ہو گا۔
فدیہ ان نمازوں کا دیا جائے گا جو محتاط حساب لگانے کے بعد آپ ادا نہ کرسکیں ، جو قضاء نمازیں زندگی میں پڑھ لیں ان کا فدیہ نہیں دیں گے۔
فدیہ کا مصرف وہی ہے جو زکوٰة کا ہے یعنی فقراء ومساکین ، البتہ بہترین مصرف مدارس کے غریب طلباء ہیں کہ ان کو فدیہ دینے میں صدقہ کا ثواب بھی ہے او راشاعت دین کے لیے تعاون کا اجر بھی!
تمام فدیہ ایک شخص کو بھی دینا جائز ہے او رکئی کو بھی یکمشت بھی دے سکتے ہیں اور اقساط کی صورت میں بھی ، تاہم ایک شخص کو ایک فدیہ (پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت ) سے کم دینا جائز نہیں ۔ اسی طرح ایک شخص کو یکمشت اس قدر فدیہ دینا کہ وہ خود صاحب نصاب بن جائے مکروہ ہے ۔
امر ثالث کا حکم یہ ہے کہ کہ زکوٰة مال تجارت ، سونا، چاندی اور نقدی وغیرہ پر واجب ہوتی ہے ، کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ (87 گرام479 ملی گرام) سونے پر زکوٰة ہو گی ، اس سے کم پر نہیں، صرف چاندی ہو تو ساڑھے باون تولہ (612 گرام35 ملی گرام) چاندی پر زکوٰة لازم ہو گی ، لیکن اگر صرف مال تجارت یا صرف نقدی ہو یا چاروں ( مالِ تجارت ، سونا، چاندی اور نقدی) ہوں یا اس میں سے بعض کا مجموعہ مالیت کے اعتبار سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا زیادہ ہو جائے تو زکوٰة فرض ہو گی۔
لہٰذا اگر گزشتہ سالوں میں زیور صرف سونا تھا اور ساڑھے سات تولہ سے کم تھا یا زیور ( خواہ سونا ہو یا چاندی ) کے ساتھ کچھ نقدی بھی تھی ( خواہ وہ ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو ) اور اس کی مالیت قرضوں کو نکالنے کے بعد بھی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد تھی تو آپ پر زکوٰة فرض ہو گی ورنہ نہیں۔
زکوٰة فرض ہونے کی صورت میں گزشتہ سالوں کی زکوٰة ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر ہر سال کی مالیت کا علم ہے تو اس حساب سے ہر سال کی رقم سے ڈھائی فی صد زکوٰة نکالتے جائیں او راگر علم نہیں تو ایک محتاط اندازہ کر لیں کہ ہر سال کتنی مالیت موجود تھی ، اگر وہ قرضوں کو نکالنے کے بعد نصاب تک پہنچتی ہے تو اسی حساب سے زکوٰة ادا کریں ، اندازہ لگاتے وقت کچھ زیادہ ادا کریں۔
دونوں صورتوں میں زکوٰة ادا کرتے وقت اُس سے پہلے سال کی زکوٰة او راس سال کے قرضے بھی منفی کرتے جائیں، مثلاً پہلے سال قرضوں کو منہا کرنے کے بعدایک لاکھ کی مالیت تھی تو ڈھائی ہزار روپیہ زکوٰة میں دیں اور دوسرے سال یہ اندازہ ہو کہ سال کے آخر میں ڈیڑھ لاکھ کی مالیت تھی تو ڈیڑھ لاکھ سے ڈھائی ہزار او راس سال کے قرضے کو منفی کرنے کے بعد جو رقم بچے اُس کا ڈھائی فی صد زکوٰة میں ادا کریں اسی طرح ہر سال کرتے جائیں ۔
اور اگر کسی سال مال، نصاب سے کم رہ جاتا ہے تو زکوٰة ساقط ہو جائے گی اور اس کے بعد پھر اگر نصاب کے مالک بن گئے تو ایک سال پورا ہونے پر اسی طریقہ سے زکوٰة ادا کریں گے۔
سونا، چاندی کی زکوٰة میں سال ادا کی قیمت معتبر ہو گی ، یعنی زکوة کو ادا کرنے کے وقت جو قیمت فروخت ہے اس کے اعتبار سے حساب لگائیں گے ۔
زکوٰة کا مصرف وہی ہے جو فدیہ میں بیان ہوا ، گزشہ سالوں کی زکوٰة یکمشت بھی ادا کر سکتے ہیں او راقساط کی صورت میں بھی ، ایک شخص کو بھی دے سکتے ہیں او رکئی کو بھی لیکن یکمشت ادا کرنے کی صورت میں اگر زکوٰة کی رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا زیادہ ہے تو ایک شخص کو دینا ( کہ وہ خود صاحب نصاب بن جائے) مکروہ ہے۔
خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ آپ اپنی قضا نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں اور ساتھ ساتھ گزشتہ سالوں کی زکوٰة بھی اپنی ضروریات کو دیکھتے ہوئے یکمشت یا اقساط کی صورت ادا کرنے کی فکر کر یں اور یہ وصیت بھی کر دیں کہ جو نمازیں میں اپنی زندگی میں ادا نہ کر سکوں ان کا فدیہ او رجو زکوٰة میرے ذمے رہ جائے تووہ بھی میرے ترکہ سے ادا کر دی جائے۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو اس کو تاہی کے ازالہ کی مکمل تو فیق عطا فرمائیں اور ہم سب کو دینِ حق پر چلنے کی او راس پر استقامت سے جمے رہنے کی سعادت سے بہرہ ور فرمائیں۔ آمین!
میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق ؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ: عورت پر اپنے شوہر کی خدمت کرنا ، کپڑے دھونا، کھانا پکانا، بدن دبانا ودیگر خانگی امور شرعاً واجب ہیں یا نہیں؟
زید کہتا ہے کہ یہ امور عورت پر دیانةً واجب ہیں قضاءً نہیں زید اپنے اس قول میں حق پر ہے یا غلطی پر؟ اگرحق پرہے تو دیانةً اور قضاءً سے کیا مراد ہے؟ نیز اگر عورت پر یہ امورواجب نہیں ہیں تو پھر عورت کی ذمے داریوں میں کیا کیا امور ہیں؟
مرد اور عورت پر ایک دوسرے کے کیا حقوق واجب ہیں؟ جن میں کوتاہی کی بنیاد پر یہ افراد عند الله مجرم ہوں گے ؟
براہ کر م تفصیلی جواب مرحمت فرما کر تشفی فرمائیں۔
جواب…، اگر عورت کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ جہاں عورتیں گھریلو کام ( کھانا پکانا، کپڑے دھونا وغیرہ) خود نہیں کرتیں یا بیماری کی وجہ سے گھریلو کام کرنے سے عاجز ہیں تو اس صورت میں شوہر پر واجب ہے کہ وہ اس کے لیے پکا پکایا کھانا مہیا کرے، یا خادمہ رکھ لے جو تمام گھریلو کاموں کو سر انجام دے او راگر عورت کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ جہاں عورتیں گھریلو کام خود کرتی ہیں تو ایسی عورت پر اپنے شوہر کے لیے کھانا پکانا ، کپڑے دھونا، شوہر کی خدمت کرنا اور ضرورت ہو تو بدن دبانا دیانة واجب میں قضا ءً واجب نہیں۔
”دیانةً“ کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان امور کو سر انجام دے گی تو الله تعالیٰ کی طرف سے اجر وثواب کی مستحق ہو گی ، لیکن اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا،”قضاء“ کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان امور کو انجام نہ دے تو قاضی اپنے فیصلہ کے ذریعہ ان امور کی انجام دہی کو اس پر لازم نہیں کرسکتا۔
دوسرے لفظوں میں دیانةً اخلاقی فرض کو اور قضاءً قانونی فرض کو کہا جاتا ہے الغرض! عورت اخلاقی فرض پر عمل کرتے ہوئے گھریلو امور کو انجام دینے کے ساتھ ساتھ شوہر کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائے تاکہ میاں بیوی میں الفت ، محبت ہو او رگھریلو سکون برقرار رہ سکے ۔
خاوند او ربیوی کے ایک دوسرے پر بہت سے حقوق ہیں جن کا پورا کرنا شر عاً لازم ہے او ران میں کوتاہی کرنے والاعندالله مجرم ہے، چناں چہ شوہر کے ذمے بیو ی کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق نان نفقہ ،کپڑا اور رہائش کے علاوہ دیگر ضروری اخراجات ( مثلاً صابن، تیل، کنگھی وغیرہ) واجب ہیں اور بیوی کے ساتھ عدل وانصاف کرنا او راس کو اپنے محارم سے حسبِ ضرورت ملنے کی اجازت دینا بھی حق واجب ہے۔
بیوی کے ذمے شوہر کے حقوق واجبہ یہ ہیں کہ بیوی ہر جائز کام میں شوہر کی اطاعت کرے، شوہر کی اجازت یا مرضی کے بغیر اس کے گھر سے نہ نکلے ، اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے کوئی چیز نہ لے او رنہ کسی کو کوئی چیز دے ، شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے مال ، بچوں کی اور اپنی عصمت کی حفاظت کرے او راگر شوہر ازدواجی تعلقات کے لیے بلائے تو شرعی مانع (حیض نفاس ، بیماری) کے بغیراس کا انکار نہ کرے اورشوہر کے سامنے زبان درازی نہ کرے ۔
حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا، صبر وشکر کے ساتھ نبھانا، خلاف طبع باتوں کو برداشت کرنا، عیب کی پردہ پوشی کرنا اور دلجوئی کرنا یہ حقوق مشترکہ ہیں جنہیں میاں بیوی میں سے ہر ایک کے ذمے پورا کرنا لازم ہے۔