Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1434ھ

ہ رسالہ

7 - 17
ماہ ِصفَر کی بدعات اور ایک من گھڑت حدیث کا جائزہ
مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف و استاد جامعہ فاروقیہ کراچی
اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ”صَفَرُ المُظَفَّر“ شروع ہو چکا ہے،یہ مہینہ زمانہ جاہلیت سے ہی منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا سمجھا جاتا ہے،زمانہ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات (شادی ، بیاہ اور ختنہ وغیرہ ) کرنا منحوس سمجھتے تھے اور قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ یہی نظریہ نسل در نسل آج تک چلا آرہا ہے، حالاں کہ سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے والے توہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردیداور نفی فرما دی اور علی الاعلان ارشاد فرما دیا کہ:(اللہ تعالی کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ) ، ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور ایک مخصوص پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔ملاحظہ ہو:

عن أبي ھریرة رضي اللہ عنہ قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم :”لا عَدْوَیٰ، ولا صَفَرَ، ولا ھَامَةَ“․ (صحیح البخاري،کتاب الطب،باب الھامة، رقم الحدیث: 5770، المکتبة السلفیة)
مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اس قسم کے فاسد وباطل خیالات و نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، ایسے نظریات و عقائد کو سرکارِدو عالم صلى الله عليه وسلم اپنے پاوٴں تلے روند چکے ہیں۔

ماہِ صفر کے بارے میں ایک موضوع اور من گھڑت روایت کا جائزہ
ماہِ صفر کے متعلق نحوست والا عقیدہ پھیلانے کی خاطر دشمنانِ اسلام نے سرکار دو عالم صلى الله عليه وسلم  کی طرف منسوب جھوٹی روایات پھیلانے جیسے مکروہ اور گھناوٴنے افعال سے بھی دریغ نہیں کیا، ذیل میں ایک ایسی ہی من گھڑت روایت اور اس پر ائمہ جرح و تعدیل کا کلام ذکر کیا جاتا ہے،وہ من گھڑت حدیث یہ ہے:”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “․
ترجمہ:”جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا،میں اُسے جنت کی بشارت دوں گا“۔

اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جاتا ہے، طریقہ استدلال یہ ہے کہ چوں کہ اس مہینہ میں نحوست تھی ،اس لیے سرکارِ ِدوعالم صلى الله عليه وسلم نے اس مہینے کے صحیح سلامت گذرنے پر جنت کی خوش خبری دی ہے۔

تو اس بارے میں جان لینا چاہیے کہ :یہ حدیث صحیح و معتبر نہیں ہے، بلکہ موضوع اور لوگوں کی گھڑی ہوئی ہے،اس کی نبی اکرم صلى الله عليه وسلم  کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے، چناں چہ ائمہ حدیث نے اس من گھڑت حدیث کے موضوع ہونے کو واضح کرتے ہوئے اس عقیدے کے باطل ہونے کو بیان کیا ہے، ان ائمہ میں ملا علی قاری، علامہ عجلونی،علامہ شوکانی اور علامہ طاہر پٹنی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں، ان حضرات ِ ائمہ کا کلام ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

چناں چہ ملا علی القاري رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ“ لا أصل لہ“․(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة․ المعروف بالموضوعات الکبریٰ، حرف المیم، رقم الحدیث: 437،2/324،المکتب الإسلامي)

اورعلامہ اسماعیل بن محمد العجلونی رحمہ اللہ ملا علی قاری رحمہ اللہ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ:”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ“ قال القاري في الموضوعات تبعاً للصغاني: ”لا أصل لہ“․(کشف الخفاء ومزیل الإلباس، حرف المیم،رقم:2418، 2/538، مکتبة العلم الحدیث )

اور شیخ الاسلام محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قال الصغاني: ”موضوع“․ وکذا قال العراقي․(الفوائد المجموعة في أحادیث الضعیفة والموضوعة للشوکاني،کتاب الفضائل، أحادیث الأدعیة والعبادات في الشھور، رقم الحدیث:1260، ص:545، نزارمصطفیٰ الباز، مکة المکرمة)

اور علامہ محمد طاہر پٹنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وکذا (أي: موضوع) ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قزویني، وکذا قال أحمد بن حنبل: اللآلیٴ عن أحمد، ومما تدور في الأسواق، ولا أصل لہ․(تذکرة الموضوعات للفتني، ص:116،کتب خانہ مجیدیہ، ملتان)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے :”سألتہ في جماعة لا یسافرون في صَفَر، ولا یبدوٴن بالأعمال فیہ من النکاح والدخول، ویتمسکون بما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم:”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ“ ھل یصح ھذا الخبر؟ وھل فیہ نحوسة ونھي عن العمل؟…قال:أما ما یقولون في حق صفر، فذالک شيء یذکرہ أھل النجوم؛ لتنفیذ مقالتھم ینسبون إلیٰ النبي صلى الله عليه وسلم، وھو کذب محض، کذا في جواھر الفتاویٰ“․ (الفتاویٰ الھندیة،کتاب الکراھیة،باب المتفرقات: 5/461، دارالکتب العلمیة)
ترجمہ:میں نے ایسے لوگوں کے بارے میں دریافت کیاجو ماہِ صفرمیں سفر نہیں کرتے(یعنی: سفر کرنا درست نہیں سمجھتے )اور نہ ہی اس مہینے میں اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں، مثلاً: نکاح کرنا اور اپنی بیویوں کے پاس جاناوغیرہ اور اس بارے میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان ”کہ جو مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا، میں اُسے جنت کی بشارت دوں گا“ سے دلیل قائم کرتے ہیں،کیا نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمانِ مبارک (سند کے اعتبار سے) صحیح ہے؟ اور کیا اس مہینے میں نحوست ہوتی ہے ؟ اور کیا اس مہینے میں کسی کام کے شروع کرنے سے روکا گیا ہے ؟…تو جواب ملا کہ ماہِ صفر کے بارے میں جو کچھ لوگوں میں مشہور ہے، یہ کچھ ایسی باتیں ہیں جو اہلِ نجوم کے ہاں پائی جاتی تھیں، جنہیں وہ اس لیے رواج دیتے تھے کہ ان کا وہ قول ثابت ہو سکے،جسے وہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب کرتے تھے،حالاں کہ یہ صاف اورکھلا ہوا جھوٹ ہے۔

نمبر: 2اس من گھڑت اور موضوع روایت کو ایک طرف رکھیں ، اس کے بالمقابل ماہِ صفر کے بارے میں بہت ساری صحیح احادیث ایسی موجود ہیں جو ماہِ صفر کی نحوست کی نفی کرتی ہیں، تو ایسی صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے موضوع حدیث پر عمل کرنایا اس کی ترویج کرنا اور اس کے مطابق اپنا ذہن بنانا کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے۔

نمبر: 3محدثین عظام کی تصریحات کے مطابق مذکورہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے، لیکن اگر کچھ لمحات کے لیے یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو بھی اس حدیث سے ماہِ صفر کے منحوس ہونے پر دلیل قائم کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں اس کا صحیح مطلب اور مصداق یہ ہو گا کہ چوں کہ سرکار دو عالم صلى الله عليه وسلم  کا ربیع الاول میں وصال ہونے والا تھااور آپ صلى الله عليه وسلم کو اپنے رب عزوجل سے ملاقات کا بے حد اشتیاق تھا، اس لیے ربیع الاول کے شروع ہونے کا انتظار تھا، چناں چہ اس شخص کے لیے آپ نے جنت کی بشارت کا اعلان فرما دیا، جو ماہِ صفر کے ختم ہونے کی (اور ربیع الاول شروع ہونے کی)خبر لے کر آئے۔

خلاصہ کلام ! یہ کہ اس حدیث کا (بصورتِ صحیح ہونے )ماہِ صفر کی نحوست سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے، بلکہ اسے محض مسلمانوں میں غلط نظریات پھیلانے کی غرض سے گھڑا گیا ہے۔

ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعی حیثیت
ماہِ صفر کے بارے میں لوگوں میں مشہور غلط عقائد و نظریات میں ایک ”اس مہینے کے آخری بدھ “ کا نظریہ بھی ہے،کہ اس بدھ کو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کو بیماری سے شفا ملی اور آپ نے غسلِ صحت فرمایا، لہٰذااس خوشی میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے اور بہت سے علاقوں میں تو اس دن خوشی میں روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور خاص طریقے سے نماز بھی پڑھی جاتی ہے، حالاں کہ یہ بالکل خلاف حقیقت اور خلاف واقعہ بات ہے، اس دن تو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے مرضِ وفات کی ابتدا ہوئی تھی ،نہ کہ مرض کی انتہا اور شفا، یہ افواہ اور جھوٹی خبر دراصل یہودیوں کی طرف سے آپ کی مخالفت میں آپ کے بیمار ہونے کی خوشی میں پھیلائی گئی تھی اور مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ ذیل میں اس باطل نظریے کی تردید میں اکابر علماء کے فتاویٰ اور دیگر عبارات پیش کی جاتی ہیں ،جن سے اس رسمِ بد اور غلط روش کی اور صفر کے آخری بدھ میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے شفایاب ہونے یا بیمار ہونے کی اچھی طرح وضاحت ہو جاتی ہے۔

ماہِ صفر کے آخری بدھ روزہ رکھنے کا شرعی حکم
حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ ”امداد المفتین“ میں ایک سوال کے جواب میں صفَر کے آخری بدھ کے روزے کی شرعی حیثیت واضح کرتے ہیں ،جو ذیل میں نقل کیا جاتا ہے
سوال: ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ بلادِ ہند میں مشہور بایں طور ہے کہ اس دن خصوصیت سے نفلی روزہ رکھا جاتا ہے اور شام کو کچوری یا حلوہ پکا کر کھایا جاتا ہے،عوام اس کو ”کچوری روزہ“ یا ”پیر کا روزہ“ کہتے ہیں، شرعاً اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں؟
جواب:بالکل غلط اور بے اصل ہے، اس (روزہ) کو خاص طور سے رکھنا اور ثواب کا عقیدہ رکھنا بدعت اور ناجائز ہے، نبی اکرم ا اور تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم سے کسی ایک ضعیف حدیث میں (بھی) اس کا ثبوت بالالتزام مروی نہیں اور یہی دلیل ہے اس کے بطلان و فساد اور بدعت ہونے کی ، کیوں کہ کوئی عبادت ایسی نہیں ، جو نبی اکرم ا نے امت کو تعلیم کرنے سے بخل کیا ہو۔(امداد المفتین، فصل فی صوم النذر و صوم النفل، ص: 416، دارالاشاعت)

ماہِ صفر کے آخری بدھ ایک مخصوص طریقے سے ادا کی جانے والی نماز کا حکم
اس دن میں روزہ رکھنے کی طرح ایک نماز بھی ادا کی جاتی ہے، جس کی ادائیگی کا ایک مخصوص طریقہ بیان کیا جاتا ہے، اس نماز کو بتلانے والے حضرات صوفیائے کرام ہیں،نماز کا طریقہ یہ بیان کیا جاتا ہے، کہ ماہِ صفر کے آخری بدھ دو رکعت نماز ،چاشت کے وقت ،اس طرح ادا کی جائے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ﴿قل اللھم مالک الملک﴾ والی دو آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ﴿ قل ادعوا اللہ أو ادعوا الرحمن﴾ والی دو آیتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد نبی اکرم صلى الله عليه وسلم پر درود بھیجیں اور ان الفاظ سے دعا کریں ”اللّٰھم اصرِف عنِّيشرَّ ھذا الیومِ، واعصِمْنِي شُوٴمَہ، واجْعَلْہ علَيَّ رحمةً وبرکةً، وجنِّبْنِي عَمّا أخافُ فیہ من نُحوساتہ وکرباتہ، بفضلک یا دافعَ الشرور، ویا مالکَ النشور، یا أرحمَ الراحمین“․

اس طریقہ نماز کی تخریج علامہ عبد الحیٴ لکھنوی رحمہ نے اپنی کتاب ”الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة“ میں کی ہے، آپ لکھتے ہیں: ومنھا: ”صلاة الأربعاء الآخر“ من شھر صفَر، وھي رکعتان تصلیان وقت الضحیٰ، في أولٰھما یقرأ بعد الفاتحة ﴿قل اللھم مالک الملک﴾ الآیتین مرّةً، وفي الثانیة ﴿ قل ادعوا اللہ أو ادعوا الرحمن﴾ الآیتین، ویصلي علی النبي بعد ما یسلّم، ثم یقول:”اللّٰھم اصرِف عنِّيشرَّ ھذا الیومِ، واعصِمْنِي شُوٴمَہ، واجْعَلْہ علَيَّ رحمةً وبرکةً، وجنِّبْنِي عَمّا أخافُ فیہ من نُحوساتہ وکرباتہ، بفضلک یا دافعَ الشرور، ویا مالکَ النشور، یا أرحمَ الراحمین“․(مجموعة رسائل اللکنوي،”الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة“، فيذکر صلوات وأدعیة مخصوصة، القول الفیصل في ھٰذا المقام: 5/94،إدارة القرآن کراتشي)

اس کے بعدحضرت علامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ”اس قسم کی مخصوص طریقوں سے ادا کی جانے والی نمازوں کا حکم یہ ہے کہ اگر اس مخصوص طریقہ کی شریعت میں مخالفت موجود ہو تو کسی کے لیے ان منقول طریقوں کے مطابق نمازادا کرنا جائز نہیں ہے اور یہ مخصوص طریقے والی نماز شریعت سے متصادم نہ ہو تو پھر ان طریقوں سے نماز ادا کرنا مخصوص شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے جائز ہے، وگرنہ جائز نہیں ہے۔

وہ شرائط یہ ہیں:
(1) اِن نمازوں کو ادا کرنے والااِن کے لیے ایسا اہتمام نہ کرے۔ جیسا کہ شرعاً ثابت شدہ نمازوں ( فرائض و واجبات وغیرہ)کے لیے کیا جاتا ہے۔
(2) ان نمازوں کو شارع علیہ السلام سے منقول نہ سمجھے۔
(3) ان منقول نمازوں کے ثبوت کا وہم نہ رکھے۔
(4) ان نمازوں کو شریعت کے دیگر مستحبات وغیرہ کی طرح مستحب نہ سمجھے۔
(5) ان نمازوں کا اس طرح التزام نہ کیا جائے جس کی شریعت کی طرف سے ممانعت ہو۔جاننا چاہیے کہ ہر مباح کام کو جب اپنے اوپر لازم کر لیا جائے ،تو وہ شرعاً مکروہ ہو جاتا ہے۔اس کے بعد حضرت رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ موجودہ زمانے میں ایسے افراد معدوم (نہ ہونے کے برابر)ہیں جو مذکورہ شرائط کی پاس داری رکھ سکیں اور شرائط کی رعایت کیے بغیر ان نمازوں کو ادا کرنے کا حکم اوپر گذر چکا ہے کہ یہ عمل ”نیکی برباد ،گناہ لازم“ کا مصداق تو بن سکتا ہے، تقرب الی اللہ کا نہیں۔

”والحکم في ھذین القسمین: أن نفسَ أداءِ تلک الصلوات المخصوصة بتراکیبَ مختصةٍ لا یضرُّ، ولا یمنعُ عنہ ما لم تشتَمِل تلک الکیفیةُ علیٰ أمرٍ یمنَع عنہ الشرعُ ویزجر عنہ، فإن وجدت کیفیة تخالف الشریعة، فلارخصة فيأدائھا لأحدٍ مِن أرباب المشیخة، زعماً منھم أن ھذا ثابتٌ في الطریقة، وإن خالف الشریعة لما ذکرنا سابقاً أن الطریقة لیست مباینة للشریعة، ومَن توھَّم ذلک فھو إما جاھل، وإما مجنون، وإما غافل، وإما مفتون، لکن یشترط في الأخذ بھا: أن لا یھتم بھا أزید من اھتمام العبادات المرویة، لا سیما الواجبات والفرائض الشرعیة، وأن لا یظنھا منسوبة إلی صاحب الشریعة، ولا یتوھم ثبوت تلک الأحادیث المرویة، ولا یعتقد سُنیتھا واستحبابھا کاستحباب العبادات الشرعیة، ولا یلتزمھا التزاماً زجر عن الشرع، فإن کلَ مباحٍ یوٴدّي إلی التزام ما لم یلزم یکون مکروھاً في الشرع، ولا یعتقد ترتب الثواب المخصوص علیہ کترتب الثواب المخصوص علی ما نص علیہ الرسول ا، ویشترط مع ذلک في کلیھما: ألّا ینجر التزامھا وأداء ھا إلیٰ فساد عقائد الجھلة، ولایفضي إلیٰ المفسدة بأن یظن ما لیس بسنة سنة، وما ھو سنة بدعة، ومِن ثمّ منَع صاحبُ ”البحر الرائق“ وغیرہ عن أداء أربع الظھر بعد الجمعة، وإن اختارہ جمع من الفقھاء للعلة الاحتیاطیة․

ثم إن القسم الأول یجب کون الاھتمام بہ أقل من الاھتمام بالقسم الثاني؛ لئلا یورث ذلک إلیٰ ظن الأحادیث الموضوعة غیر موضوعة، بل لو قُبِل ترکُھا لم یُبعَد عند العالم الرباني․ واللہ أعلم، وعلمہ أحکم․

ولعمري! وجودُ مَن یشتغل بھا مع الشروط التي ذکرناھا في زماننا ھذا نادرٌ، وحکم أدائھا بدون ھذہ الشرائط ممَّا أسلفنا ذکرہ ظاھرٌ، ولعلمي مَن التزم بأنواع العبادات الثابتة بطرقھا الواردة․کفیٰ ذلک لہ في الدنیا والآخرة من غیر حاجة إلیٰ التزام ھذہ الصلوات المخترعة والعمل بالأحادیث المختلفة- فافھم واستقم-“․(مجموعة رسائل اللکنوي،”الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة“، فيذکر صلوات وأدعیة مخصوصة، القول الفیصل في ھٰذا المقام :5/103، 104،إدارة القرآن کراتشي)

فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:
صفر کے آخری چار شنبہ کا حکم
سوال: صفر کے آخری چہار شنبہ کو اکثر عوام خوشی و سرور وغیرہ میں اطعام ُ الطعام (کھانا کھلانا) کرتے ہیں ،شرعاً اس باب میں کیا ثابت ہے؟
جواب: شرعاً اس باب میں کچھ بھی ثابت نہیں ، سب جہلاء کی باتیں ہیں۔ (فتاوی رشیدیہ، کتاب العلم، ص:171،عالمی مجلس تحفظ ِ اسلام،کراچی)

کفایت المفتی میں ہے:
صفر کے آخری بدھ کی رسومات اور فاتحہ کاحکم
سوال: آخری چہار شنبہ جو صفر کے مہینے میں ہوتا ہے، اس کا کرنا شریعت میں جائزہے یا نہیں؟
الجواب: آخری چہار شنبہ کے متعلق جو باتیں مشہور ہیں اور جو رسمیں ادا کی جاتی ہیں، یہ سب بے اصل ہیں۔ (کفایت المفتی، کتاب العقائد: 2/302، ادارہ الفاروق، جامعہ فاروقیہ کراچی)

فتاوی محمودیہ میں ہے:
صفر کے آخری چہار شنبہ کو مٹھائی تقسیم کرنا
سوال: یہاں مراد آباد میں ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو ”کارخانہ دارانِ ظروف“ کی طرف سے کاریگروں کو شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، بلامبالغہ یہ ہزارہا روپیہ کا خرچ ہے، کیوں کہ صدہا کاریگر ہیں اور ہر ایک کو اندازاً کم و بیش پاوٴ بھر مٹھائی ملتی ہے، ان کے علاوہ دیگر کثیر متعلقین کو کھلانی پڑتی ہے، مشہور یہ روایت کر رکھی ہے کہ اس دن حضرت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے غسل ِ صحت کیا تھا، مگر از روئے تحقیق بات برعکس ثابت ہوئی کہ اس دن حضرت رسولِ مقبول صلى الله عليه وسلم کے مرضِ وفات میں غیر معمولی شدت تھی، جس سے خوش ہو کر دشمنانِ اسلام یعنی یہودیوں نے خوشی منائی تھی،احقر نے اس کا ذکر ایک کارخانہ دار سے کیا تو معلوم ہوا کہ جاہل کاریگروں کی ہوا پرستی اور لذت پروری اتنی شدید ہے کہ کتنا ہی ان کو سمجھایا جائے وہ ہرگز نہیں مانتے اور چوں کہ کارخانوں کی کام یابی کا دارومدار کاریگروں ہی پر ہے،تو اگر کوئی کارخانہ دار ہمت کر کے شیرینی تقسیم نہ کرے تو جاہل کاریگر اس کے کارخانہ کو سخت نقصان پہنچائیں گے، کام کرناچھوڑ دیں گے۔

الف: حقیقت کی رو سے مذکورہ تقسیم شیرینی کا شمار افعال ِکفریہ ، اسلام دشمنی سے ہونا تو عقلاً ظاہرہے ،تو بلا عذر ِ شرعی اس کے مرتکب پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے یا نہیں ؟اگرچہ وہ مذکورہ حقیقت سے ناواقف ہی کیوں نہ ہو؟

ب:جاہل کاریگروں کی ایذا رسانی سے حفاظت کے لیے کارخانہ داروں کو فعلِ مذکور میں معذور مانا جا سکتا ہے؟

ج: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ سے متعلق جو صحیح روایات اوپر مذکور ہوئیں ،وہ کس کتاب میں ہیں؟

د: حضرت رسولِ مقبول صلى الله عليه وسلم کے مرضِ وفات میں شدت کی خبر پا کر یہودیوں نے کس طرح خوشی منائی تھی؟

الجواب حامداً و مصلیاً: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو خوشی کی تقریب منانا، مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا شرعاً بے دلیل ہے، اس تاریخ میں غسل ِ صحت ثابت نہیں، البتہ شدتِ مرض کی روایت ”مدارجُ النبوة“ (2/704 -707 ، مدینہ پبلشنگ کمپنی،کراچی)میں ہے۔

یہود کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے شدتِ مرض سے خوشی ہونا بالکل ظاہر اور ان کی عداوت و شقاوت کا تقاضاہے۔

(الف) مسلمانوں کا اس دن مٹھائی تقسیم کرنا نہ شدتِ مرض کی خوشی میں (ہوتا) ہے، نہ یہود کی موافقت کی خاطر (ہوتا)ہے،نہ ان کو اس روایت کہ خبر ہے، نہ یہ فی نفسہ کفر و شرک ہے، اس لیے ان حالات میں کفر وشرک کا حکم نہ ہو گا۔ ہاں! یہ کہا جائے گا کہ یہ طریقہ غلط ہے، اس سے بچنا لازم ہے، حضور اکرم صلى الله عليه وسلم  کا اس روز غسل ِصحت (کرنا) ثابت نہیں ہے،(اور آپ صلى الله عليه وسلم  کی طرف) کوئی غلط بات منسوب کرنا سخت معصیت ہے، (نیز!) بغیر نیتِ موافقت بھی یہود کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
(ب) نہایت نرمی و شفقت سے کارخانہ دار اپنے کاریگروں کو بہت پہلے سے تبلیغ و فہمائش کرتا رہے اور اصل حقیقت ان کے ذہن میں اتار دے ، ان کا مٹھائی کا مطالبہ کسی دوسری تاریخ میں حُسنِ اُسلوب سے پورا کر دے، مثلاً: رمضان، عید (الفطر)، بقر عید وغیرہ کے موقع پر دے دیا کرے، جس سے ان کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ یہ بخل کی وجہ سے انکار کرتا ہے، بہر حال کارخانہ دار بڑی حد تک معذور ہے۔
(ج) مدارج ُ النبوہ میں ہے۔ (2/704 -707 ، مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی)
(د) یہود نے کس طرح خوشی منائی؟ اس کی تفصیل نہیں معلوم۔(فتاویٰ محمودیہ،باب البدعات و الرسوم: 3/ 280،ادارہ الفاروق، جامعہ فاروقیہ کراچی)

احسن الفتاوی میں ہے:
صفر کے آخری بدھ میں عمدہ کھانا پکانا
سوال:ماہِ صفر کے آخری بدھ کو بہترین کھانا پکانا درست ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ماہِ صفرکے آخری بدھ کو نبی کریم صلى الله عليه وسلم  کو مرض سے شفا ہوئی تھی، اس خوشی میں کھانا پکانا چاہیے، یہ درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب:یہ غلط اور من گھڑت عقیدہ ہے، اس لیے ناجائز اور گناہ ہے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم (احسن الفتاویٰ، کتاب الایمان والعقائد ،باب فی رد البدعات:1/360، ایچ ایم سعید)

فتاویٰ فریدیہ میں ہے:
صفر کے آخری بدھ کو چُری کرنا بدعت اور رسم قبیحہ ہے
سوال: ہمارے علاقے صوبہ سرحد میں ماہِ صفر میں خیرات کرنے کا ایک خاص طریقہ رائج ہے، جس کو پشتو زبان میں (چُری) کہتے ہیں، عوام الناس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی صحت یابی کی خوشی میں کی تھی۔ ”ماہنامہ النصیحہ“ میں مولانا گوہر شاہ اور مولانا رشید احمد صدیقی مفتی دارالعلوم حقانیہ نے اپنے اپنے مضامین میں اس کی تردید کی ہے کہ یہ (چُری ) و خیرات یہودیوں نے حضور صلى الله عليه وسلم کی بیماری کی خوشی میں کی تھی اور مسلمانوں میں یہ رسم (وہاں ) سے منتقل ہوگئی ہے، اس کی وضاحت فرمائیے؟

الجواب: چوں کہ چُری نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ آثار اور کتبِ فقہ سے۔ لہٰذا اس کو ثواب کی نیت سے کرنا بدعتِ سیئہ ہے اور رواج کی نیت سے کرنا رسمِ قبیحہ اور التزام ما لا یلزم ہے، نیز حاکم کی روایت میں مسطور ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم کی بیماری کے آخری چہار شنبہ میں زیادتی آئی تھی اور عوام کہتے ہیں کہ بیماری میں خفت آگئی تھی اور عوام حضور صلى الله عليه وسلم کی طرف نسبت کرتے ہیں کہ ”انہوں نے چُری مانگی “ اور یہ نسبت وضع حدیث اور حرام ہے، لعدم ثبوت ھذا الحدیث في کتب الأحادیث ولا بالإسناد الثابت، وھو الموفق․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة والبدعة، 1/296،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )

چُری کے بارے میں دلائل غلط اور من گھڑت ہیں
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ، مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ صفر کے آخری بدھ کو جو چُری کی جاتی ہے، اس کے جواز میں دو دلائل پیش کیے جاتے ہیں، کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم اس صفر کے مہینے میں بیمار ہوئے تھے،پھر جب اس مہینے میں صحت یاب ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے شکریہ میں خیرات و صدقہ کیا ہے،حضور صلى الله عليه وسلم جب اس مہینے میں بیمار ہوئے، تو یہود نے اس کی خوشی ظاہر کرنے کے لیے اس مہینے میں خیرات کی اور خوشی منائی، لہٰذا ہم جو یہ خیرات کرتے ہیں یا تو اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے خیرات کی تھی یا یہود کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے خوشی منائی تھی، ہم قصداً ان سے مقابلے میں تشکر ِ نعمت کے لیے کرتے ہیں، لہٰذا علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ یہ دلائل صحیح ہیں یا غلط؟

الجواب:ثواب کی نیت سے چُری کرنا بدعت ِسیئہ ہے،کیوں کہ غیر سنت کو سنت قرار دینا غیرِ دین کو دین قرار دینا ہے ، جو کہ بدعت ہے، ان مجوزین کے لیے ضروری ہے کہ ان احادیث ِ مذکورہ کی سند ذکر کریں اور یا ایسی کتاب کا حوالہ دیں جو کہ سندِ احادیث کو ذکر کرتی ہو یا کم ازکم کتب فقہ متداولہ کا حوالہ ذکر کریں، ولن یأتوا بھا ولو کان بعضھم لبعضٍ ظھیراً․

مزید بریں! یہ کہ حاکم نے روایت کی ہے کہ پیغمبر صلى الله عليه وسلم آخری چہار شنبہ کو بیمار ہوئے، یعنی بیماری نے شدت اختیار کی اور تاریخ میں یہ مسطور ہے کہ یہود نے اس دن خوشی منائی اور دعوتیں تیار کیں اور یہ ثابت نہیں کہ اہلِ اسلام نے ان کے مقابل کوئی کاروائی کی․ وھو الموفق․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة، 1/298،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )

چُری کی خوراک کھانے کا حکم
سوال: چُری کا شرعاً کیا حکم ہے؟ اور اس کی خوراک کھانا کیا حکم رکھتا ہے؟ بینوا وتوجروا
الجواب: چُری بقصدِ ثواب مکروہ ہے، لأن فیہ تخصیص الزمان والنوع بلا مخصص، یدل علیہ ما في البحر:2/159․ البتہ عوام کے لیے اس کا کھانا مکروہ نہیں ہے، لما في الھندیة: ولا یباح اتخاذ الضیافة ثلاثة أیام في أیام المصیبة، وإذا اتخذ لا بأس بالأکل منہ، کذا في خزانة المفتین:5/380․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة،1/299،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )

فتاویٰ حقانیہ میں ہے:
صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشی منانے کی شرعی حیثیت
سوال: جناب مفتی صاحب ! بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ کچھ لوگ ماہِ صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو مرض سے شفا ہوئی تھی اور اس دن بلائیں اوپر چلی جاتی ہیں، اس لیے اس دن خوشیاں مناتے ہوئے شیرینی تقسیم کرنی چاہیے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ ماہِ صفر میں اس عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟

الجواب:ماہِ صفر المظفرکو منحوس سمجھنا خلافِ اسلام عقیدہ ہے اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، اس ماہِ مبارک میں نہ تو آسمان سے بلائیں اترتی ہیں اور نہ اس کے آخری بدھ کو اوپر جاتی ہیں اور نہ ہی امام الانبیا جنابِ محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو اس دن مرض سے شفا یابی ہوئی تھی، بلکہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ 28 صفر کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم بیمار ہوئے تھے، لما قال العلامة مفتی عبد الرحیم : ”مسلمانوں کے لیے آخری چہار شنبہ کے طور پر خوشی کا دن منانا جائز نہیں۔”شمس التواریخ“وغیرہ میں ہے کہ 26صفر 11ھ دو شنبہ کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے لوگوں کو رومیوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور 27صفر سہ شنبہ کو اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ امیرلشکر مقرر کیے گئے، 28صفر چہار شنبہ کو اگرچہ آپ صلى الله عليه وسلم  بیمار ہوچکے تھے، لیکن اپنے ہاتھ سے نشان تیار کر کے اُسامہ کو دیا تھا،ابھی (لشکر کے)کوچ کی نوبت نہیں آئی تھی کہ آخر چہار شنبہ اور پنج شنبہ میں آپ صلى الله عليه وسلم کی علالت خوف ناک ہوگئی اور ایک تہلکہ سا مچ گیا، اسی دن عشا سے آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے پر مقرر فرمایا۔ (شمس التواریخ:2/1008)

اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ28 صفر کو چہار شنبہ (بدھ) کے روز آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے مرض میں زیادتی ہوئی تھی اور یہ دن ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ تھا، یہ دن مسلمانوں کے لیے تو خوشی کا ہے ہی نہیں، البتہ! یہود وغیرہ کے لیے شادمانی کا دن ہو سکتا ہے، اس روز کو تہوار کا دن ٹھہرانا، خوشیاں منانا، مدارس وغیرہ میں تعظیم کرنا، یہ تمام باتیں خلافِ شرع اور ناجائز ہیں“۔(فتاویٰ حقانیہ،کتاب البدعة والرسوم :2/84،جامعہ دارالعلوم حقانیہ ،اکوڑہ خٹک ، وکذا فی فتاویٰ رحیمیہ،ما یتعلق بالسنة والبدعة: 2/68،69،دارالاشاعت)

”سیرت مصطفیٰ صلى الله عليه وسلم “میں ہے: حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی تالیف ”سیرت المصطفیٰ “ میں لکھتے ہیں کہ :” ماہِ صفر کے اخیر عشرہ میں آپ صلى الله عليه وسلم ایک بار شب کو اُٹھے اور اپنے غلام” ابو مویہبہ“ کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اہلِ بقیع کے لیے استغفار کروں، وہاں سے واپس تشریف لائے تو دفعةً مزاج ناساز ہو گیا، سر درد اور بخار کی شکایت پیدا ہو گئی۔یہ ام الموٴمنین میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کی باری کا دن تھا اور بدھ کا روز تھا“۔(سیرت مصطفیٰ صلى الله عليه وسلم ، علالت کی ابتداء: 3/156،کتب خانہ مظہری، کراچی)

”سیرة النبی صلى الله عليه وسلم “میں ہے: سیرة النبی صلى الله عليه وسلم میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ” صفر 11ہجری میں آدھی رات کو آپ صلى الله عليه وسلم جنت البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان تھا، تشریف لے گئے، وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج ناساز ہوا، یہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا اور روز چہار شنبہ (یعنی: بدھ کا دن) تھا“ ۔(سیرة النبی :2/115،اسلامی کتب خانہ)

اسی کے حاشیہ میں ”علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ“ لکھتے ہیں: ”اس لیے تیرہ (13) دن مدتِ علالت صحیح ہے، علالت کے پانچ دن آپ صلى الله عليه وسلم نے دوسری ازواج کے حجروں میں بسر فرمائے، اس حساب سے علالت کا آغاز چہار شنبہ (بدھ) سے ہوتا ہے“۔ ( حاشیہ سیرة النبی: 2/114،اسلامی کتب خانہ)

”سیرة خاتم الانبیاء صلى الله عليه وسلم‘ ‘ میں ہے:سیرة خاتم الانبیا صلى الله عليه وسلم  میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ”28 صفر 11 ہجری چہار شنبہ (بدھ) کی رات آپ صلى الله عليه وسلم قبرستان بقیع غرقد میں تشریف لے جا کر اہلِ قبور کے لیے دعا ءِ مغفرت کی اور فرمایا:اے اہلِ مقابر!تمہیں اپنا حال اور قبروں کا قیام مبارک ہو ، کیوں کہ اب دنیا میں تاریک فتنے ٹوٹ پڑے ہیں،وہاں سے تشریف لائے تو سر میں درد تھا اور پھر بخار ہو گیا اور بخار صحیح روایات کے مطابق تیرہ روز تک متواتر رہا اور اسی حالت میں وفات ہو گئی“۔(سیرت خاتم الانبیا ، ص:126، مکتبة المیزان،لاہور)۔

آخری بات
اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّة“ والی روایت ثابت نہیں ہے ، بلکہ موضوع اور من گھڑت ہے، اس کو بیان کرنا اور اس کے مطابق ا پنا ذہن و عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ نیز! ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس دن نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کو بیماری سے شفا ملنے والی بات بھی جھوٹی اور دشمنانِ اسلام یہودیوں کی پھیلائی ہوئی ہے،اس دن تو معتبر روایات کے مطابق نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی بیماری کی ابتدا ہوئی تھی نہ کہ شفا۔

لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود بھی اس طرح کے توہمات و منکرات سے بچیں اور حتیٰ الوسع دوسروں کو بھی اس طرح کی خرافات سے بچانے کی کوشش کریں۔
”اَللَّھُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا سَأَلَکَ مِنْہ نَبِیُّک مُحَمَّدٌصلى الله عليه وسلم وَ عِبادُکَ الصَّالِحُوْنَ، وأَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ مِنْہ نَبِیُّک مُحَمَّدٌصلى الله عليه وسلم وَ عِبَادُکَ الصَّالِحُوْنَ“.
Flag Counter