حضرت امام ابوحنیفہؒ (نعمان بن ثابت 80ھ 150ھ)۔
مولانا محمد نجیب قاسمی
حضرت امام ابوحنیفہ کے تلامذہ
”سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم “ کے مصنف اول ”علامہ شبلی نعمانی“ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب ”سیرة النعمان“ میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے درس کا حلقہ اتنا وسیع تھا کہ خلیفہٴ وقت کی حدودِ حکومت اس سے زیادہ وسیع نہ تھیں۔ سینکڑوں علماء ومحدثین نے امام ابوحنیفہ سے علمی استفادہ کیا۔ امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص علم فقہ میں کمال حاصل کرنا چاہے اس کو امام ابوحنیفہ کے فقہ کی طرف رخ کرنا چاہیے، اور یہ بھی فرمایا کہ اگر امام محمد(امام ابوحنیفہ کے شاگرد) مجھے نہ ملتے تو شافعی ، شافعی نہ ہوتا بلکہ کچھ اور ہوتا۔ امام ابوحنیفہ کے چند مشہور شاگردوں کے نام حسب ذیل ہیں جنہوں نے اپنے استاذ کے مسلک کے مطابق درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ قاضی ابویوسف، امام محمد بن حسن الشیبانی، امام زفر بن ہذیل، امام یحییٰ بن سعید القطان، امام یحییٰ بن زکریا، محدث عبد اللہ بن مبارک، امام وکیع بن الجراح، اور امام داوٴد الطائی وغیرہ۔
قاضی ابویوسف (متوفی 182ھ): آپ کا نام یعقوب بن ابراہیم انصاری ہے۔ 113ھ یا 117ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ امام ابویوسف کو معاشی تنگی کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا مشکل ہوگیا تھا، مگر امام ابوحنیفہ نے امام ابو یوسف اور ان کے گھر کے تمام اخراجات برداشت کرکے ان کو تعلیم دی۔ ذہانت، تعلیمی شوق اور امام ابوحنیفہ کی خصوصی توجہ کی وجہ سے قاضی ابویوسف ایک بڑے محدث وفقیہ بن کر سامنے آئے۔فقہ حنفی کی تدوین میں قاضی ابویوسف کا اہم کردار ہے۔ عباسی دور حکومت میں قاضی القضاة کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی کو قاضی القضاة کے عہد پر فائز کیا گیا۔ امام ابوحنیفہ سے بعض مسائل میں اختلاف بھی کیا، لیکن پوری زندگی خاص کر قاضی القضاة کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد فقہ حنفی کو ہی نشر کیا۔ مسلکِ امام ابو حنیفہ پر اصول فقہ کی سب سے پہلی کتاب تحریر فرمائی۔ 182ھ میں وفات پائی۔
امام محمد بن الحسن الشیبانی (متوفی 189ھ): آپ 131ھ میں دمشق میں پیدا ہوئے، پھر فقہاء ومحدثین کے شہر کوفہ چلے گئے، وہاں بڑے بڑے محدثین اور فقہاء کی صحبت پائی۔ امام ابوحنیفہ سے تقریباً دو سال جیل میں تعلیم حاصل کی۔ امام ابوحنیفہ کی وفات کے بعد قاضی ابویوسف سے تعلیم مکمل کی، پھر مدینہ منورہ جاکر امام مالک سے حدیث پڑھی۔ صرف بیس سال کی عمر میں مسند حدیث پر بیٹھ گئے۔ یہ فقہ حنفی کے دوسرے اہم بازو شمار کیے جاتے ہیں، اسی لیے امام ابویوسف اور امام محمد کو صاحبین کہا جاتا ہے۔امام محمد کے بے شمار شاگرد ہیں، لیکن امام شافعی کا نام خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ امام محمد کی حدیث کی مشہور کتاب ”موٴطا امام محمد“ آج بھی ہر جگہ موجود ہے۔ امام محمد کی تصنیفات بہت ہیں، فقہ حنفی کا مدار انہیں کتابوں پر ہے، ان کی مندرجہ ذیل کتابیں مشہور ومعروف ہیں، جو فتاویٰ حنفیہ کا مآخذ ہیں۔
المبسوط. الجامع الصغیر. الجامع الکبیر. الزیادات. السیر الصغیر. السیر الکبیر.
امام زفر (متوفی 158ھ): امام زفربن ہذیل 110 ہجری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عمر میں علم حدیث سے خاص شغف وتعلق تھا، علامہ نووی نے ان کو صاحب الحدیث میں شمار کیا ہے، پھر علم فقہ کی جانب توجہ کی اور اخیر عمر تک یہی مشغلہ رہا۔ بصرہ کے قاضی کی حیثیت سے بھی رہے۔ آپ حضرت امام ابوحنیفہ کے خاص شاگردوں میں سے ہیں۔ آپ فقہ حنفی کے اہم ستون ہیں۔
امام یحییٰ بن سعید القطان (متوفی198ھ): آپ 120 ہجری میں پیدا ہوئے۔ علامہ ذہبی نے تحریر کیا ہے کہ فن اسماء الرجال (سند حدیث پر بحث کا علم) سب سے پہلے انہوں نے ہی شروع کیا ہے۔ پھر اس کے بعد دیگر حضرات مثلاً امام یحییٰ بن معین نے اس علم کو باقاعدہ فن کی شکل دی۔ امام یحییٰ بن سعید القطان نے حضرت امام ابوحنیفہ سے علمی استفادہ کیا ہے۔
امام عبداللہ بن مبارک (متوفی 181ھ): یہ بھی امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ علم حدیث میں بڑی مہارت حاصل کی، یہاں تک کہ امیر الموٴمنین فی الحدیث کا لقب ملا۔ 118ھ میں پیدا ہوئے اور181ھ میں وفات پائی۔ امام عبداللہ بن مبارک کا قول ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری کے ذریعہ میری مدد نہ فرماتا تو میں ایک عام انسان سے بڑھ کر کچھ نہ ہوتا۔
تدوین فقہ
عصر قدیم وجدید میں علم فقہ کی مختلف الفاظ کے ساتھ تعریف کی گئی ہے، مگر اُن کا خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام شرعیہ کا جاننا فقہ کہلاتا ہے۔ احکام شرعیہ کے جاننے کے لیے سب سے قبل قرآن کریم اور پھر احادیث کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں کسی مسئلہ کی وضاحت نہ ملنے پر اجماع وقیاس (یعنی قرآن وحدیث کی روشنی میں نئے مسائل کے لیے اجتہاد) کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔
فقہ کو سمجھنے سے قبل‘ امام ابوحنیفہ کے ایک اہم اصول وضابطہ کو ذہن میں رکھیں کہ میں پہلے کتاب اللہ اور سنت نبوی کو اختیار کرتا ہوں، جب کوئی مسئلہ کتاب اللہ اور سنت رسول میں نہیں ملتا تو صحابہٴ کرام کے اقوال وعمل کو اختیار کرتا ہوں۔ اس کے بعد دوسروں کے فتاویٰ کے ساتھ اپنے اجتہاد وقیاس پر توجہ دیتا ہوں۔ جب مسئلہ قیاس واجتہاد پر آجاتا ہے تو پھر میں اپنے اجتہاد کو ترجیح دیتا ہوں۔ یہ حضرت امام ابوحنیفہ کا اپنا خود بنایا ہوا اصول نہیں ہے، بلکہ اُس مشہور حدیث کی اتباع ہے جس میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل کو وصیت فرمائی تھی۔ اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ کا یہ اصول ہے کہ اگرمجھے کسی مسئلہ میں کوئی حدیث مل جائے خواہ اس کی سند میں کوئی ضعف بھی ہو تو میں اپنے اجتہاد وقیاس کو ترک کرکے اس کو قبول کرتا ہوں۔
فقہ کا دارو مدار صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود کی ذات اقدس پر ہے اور اس فقہ کی بنیاد وہ احادیث رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں جن کو حضرت عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ہی حضرت عبداللہ بن مسعود سے صحابہٴ کرام مسائل شرعیہ معلوم کرتے تھے۔ کوفہ شہر میں حضرت عبداللہ بن مسعود قرآن وحدیث کی روشنی میں لوگوں کی راہ نمائی فرماتے تھے۔ حضرت علقمہ بن قیس کوفی اور حضرت اسودبن یزید کوفی حضرت عبداللہ بن مسعود کے خاص شاگرد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود خود فرماتے تھے کہ جو کچھ میں نے پڑھا لکھا اور حاصل کیا وہ سب کچھ علقمہ کو دے دیا، اب میری معلومات علقمہ سے زیادہ نہیں ہے۔ حضرت علقمہ اور حضرت اسود کے انتقال کے بعد حضرت ابراہیم نخعی کوفی مسند نشین ہوئے اور علم فقہ کو بہت کچھ وسعت دی، یہاں تک کہ انہیں "فقیہ العراق" کا لقب ملا۔ حضرت ابراہیم نخعی کوفی کے زمانے میں فقہ کا غیر مرتب ذخیرہ جمع ہوگیا تھا جو ان کے شاگردوں نے خاص کر حضرت حماد کوفی نے محفوظ کررکھا تھا۔ حضرت حماد کے اس ذخیرہ کو امام ابوحنیفہ کوفی نے اپنے شاگردوں، خاص کر امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کو بہت منظم شکل میں پیش کردیا،جو انہوں نے باقاعدہ کتابوں میں مرتب کردیا، یہ کتابیں آج بھی موجود ہیں۔ اس طرح امام ابوحنیفہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے دو واسطوں سے حقیقی وارث بنے اور امام ابوحنیفہ کے ذریعہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے قرآن وسنت کی روشنی میں جو سمجھا تھا وہ امت مسلمہ کو پہنچ گیا۔ غرض کہ فقہ حنفی کی تدوین اُس دور کا کارنامہ ہے جس کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے خیر القرون قرار دیا اور احادیث رسول صلی الله علیہ وسلم مکمل حفاظت کے ساتھ اسی زمانہ میں کتابی شکل میں مرتب کی گئیں۔
وضاحت: ان دنوں بعض ناواقف حضرات فقہ کا ہی انکار کرنا شروع کردیتے ہیں، حالاں کہ قرآن وحدیث کو سمجھ کر پڑھنا اور اس سے مسائل شرعیہ کا استنباط کرنا فقہ ہے۔نیز قرآن وحدیث میں متعدد جگہ فقہ کا ذکر بھی وضاحت کے ساتھ موجود ہیں۔ مشہور کتب حدیث (بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداوٴد، نسائی، ابن ماجہ، طبرانی، بیہقی، مسند ابن حبان، مسند احمد بن حنبل وغیرہ) کی تالیف سے قبل ہی امام ابوحنیفہ کے شاگردوں نے فقہ حنفی کو کتابوں میں مرتب کردیا تھا۔ اگر واقعی فقہ قابل رد ہے تو مذکورہ کتب حدیث کے مصنفوں نے اپنی کتاب میں فقہ کی تردید میں کوئی باب کیوں نہیں بنایا؟ یا کوئی دوسری مستقل کتاب فقہ کی تردید میں کیوں تصنیف نہیں کی؟ غرضیکہ یہ ان حضرات کی ہٹ دھرمی ہے، ورنہ قرآن وحدیث کو سمجھ کر مسائل کا استنباط کرنا ہی فقہ کہلاتا ہے، جسے جمہور محدثین ومفسرین وعلمائے امت نے تسلیم کیا ہے۔
نقطہ: فقہ حنفی کا یہ خصوصی امتیاز ہے کہ سابقہ حکومتوں (خاص کر عباسیہ وعثمانیہ حکومت) کا 80 فی صد قانون عدالت وفوج داری فقہ حنفی رہا ہے اور آج بھی بیشتر مسلم ممالک کا قانون عدالت فقہ حنفی پر قائم ہے۔یہ قوانین قرآن وحدیث کی روشنی میں بنائے گئے ہیں۔
حضرت امام ابوحنیفہ کی کتابیں
حضرت امام ابوحنیفہ نے دوران ِدرس جو احادیث بیان کی ہیں انہیں شاگردوں نے حدثنا اور اخبرنا وغیرہ الفاظ کے ساتھ جمع کردیا۔امام ابوحنیفہ کے درسی افادات کا نام ”کتاب الآثار“ہے، جو دوسری صدی ہجری میں مرتب ہوئی، اس زمانہ تک کتابوں کی تالیف بہت زیادہ عام نہیں تھی۔ ”کتاب الآثار“اس دور کی پہلی کتاب ہے، جس نے بعد کے آنے والے محدثین کے لیے ترتیب وتبویب کے راہ نما اصول فراہم کیے۔ علامہ شبلی نعمانی نے ”کتاب الآثار“کے متعدد نسخوں کی نشان دہی کی ہے، لیکن عام شہرت چار نسخوں کو حاصل ہے۔ ان نسخوں میں سے امام محمد کی روایت کردہ کتاب کو سب سے زیادہ شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی۔
”کتاب الآثار“ بروایت امام محمد
”کتاب الآثار“ بروایت قاضی ابویوسف
”کتاب الآثار“ بروایت امام زفر
”کتاب الآثار“ بروایت امام حسن بن زیاد
مسانید امام ابوحنیفہ: علمائے کرام نے حضرت امام ابوحنیفہ کی پندرہ مسانید شمار کی ہیں، جس میں ائمہ دین اور حفاظ حدیث نے آپ کی روایات کو جمع کرکے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا، ان میں سے مسند امام اعظم علمی دنیا میں مشہور ہے ، جس کی متعدد شروحات بھی تحریر کی گئی ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑا کام ملک شام کے امام ابوالموائد خوارزمی (متوفی665ھ) نے کیا ہے، جنہوں نے تمام مسانید کو بڑی ضخیم کتاب جامع المسانیدکے نام سے جمع کیا ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے مشہور شاگرد امام محمد کی مشہور ومعروف کتابیں بھی فقہ حنفی کے اہم مآخذ ہیں۔
المبسوط. الجامع الصغیر. الجامع الکبیر. الزیادات. السیر الصغیر. السیر الکبیر.
حضرت امام ابوحنیفہ کا تقویٰ
کتاب وسنت کی تعلیم اور فقہ کی تدوین کے ساتھ امام صاحب نے زہد وتقویٰ اور عبادت میں پوری زندگی بسر کی۔ رات کا بیشتر حصہ اللہ تعالیٰ کے سامنے رونے، نفل نماز پڑھنے اور تلاوت قرآن کرنے میں گزارتے تھے۔ امام صاحب نے علم دین کی خدمت کو ذریعہ معاش نہیں بنایا، بلکہ معاش کے لیے ریشم بنانے اور ریشمی کپڑے تیار کرنے کا بڑا کارخانہ تھا جو صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم حضرت عمروبن حریث کے گھر میں چلتا تھا۔ امام ابوحنیفہ کا تعلق خوشحال گھرانے سے تھا اس لیے لوگوں کی خاص طور سے اپنے شاگردوں کی بہت مدد کیا کرتے تھے۔ آپ نے 55حج ادا کیے۔
حضرت امام ابوحنیفہ کی شان میں بعض علمائے امت کے اقوال
٭... امام علی بن صالح (متوفی 151ھ) نے امام ابوحنیفہ کی وفات پر فرمایا: عراق کا مفتی اور فقیہ گزر گیا۔ (مناقب ذہبی ص 18)
٭... امام مسعر بن کدام (متوفی 153ھ) فرماتے تھے کہ کوفہ کے دو شخصوں کے سوا کسی اور پر رشک نہیں آتا۔ امام ابوحنیفہ اور اور ان کا فقہ، دوسرے شیخ حسن بن صالح اور ان کا زہد وقناعت۔ (تاریخ بغداد ج 14 ص 328)
٭... ملک شام کے فقیہ ومحدث امام اوزاعی (متوفی 157ھ)فرماتے تھے کہ امام ابوحنیفہ پیچیدہ مسائل کو سب اہل علم سے زیادہ جاننے والے تھے۔ (مناقب کردی ص 90)
٭... امام داوٴد الطائی (متوفی 160ھ) فرماتے تھے کہ امام ابوحنیفہ کے پاس وہ علم تھا جس کو اہل ایمان کے دل قبول کرتے ہیں۔ (الخیرات الحسان ص 32)۔
٭... امام سفیان ثوری (متوفی 167ھ) کے پاس ایک شخص امام ابوحنیفہ سے ملاقات کرکے آیا۔ امام سفیان ثوری نے فرمایا، تم روئے زمین کے سب سے بڑے فقیہ کے پاس سے آرہے ہو۔ (الخیرات الحسان ص32)
٭... امام مالک بن انس (متوفی 179ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے ابوحنیفہ جیسا انسان نہیں دیکھا۔ (الخیرات الحسان ص 28)
٭... امام وکیع بن الجراح (متوفی 195ھ) فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ سے بڑا فقیہ اور کسی کو نہیں دیکھا۔
٭... امام یحییٰ بن معین (متوفی 233ھ) امام ابوحنیفہ کے قول پر فتویٰ دیا کرتے تھے اور ان کی احادیث کے حافظ بھی تھے۔ انہوں نے امام ابوحنیفہ کی بہت ساری احادیث سنی ہیں۔ (جامع بیان العلم، علامہ ابن البر، ج 2 ص 149)
٭... امام سفیان بن عیینہ (متوفی 198ھ) فرماتے تھے کہ میری آنکھوں نے ابوحنیفہ جیسا انسان نہیں دیکھا۔ دو چیزوں کے بارے میں خیال تھا کہ وہ شہر کوفہ سے باہر نہ جائیں گی، مگر وہ زمین کے آخری کناروں تک پہنچ گئیں۔ ایک امام حمزہ کی قرأت اور دوسری ابوحنیفہ کا فقہ۔ (تاریخ بغداد ج12 ص 347)
٭... امام شافعی (متوفی 204ھ) فرماتے ہیں کہ ہم سب علم فقہ میں امام ابوحنیفہ کے محتاج ہیں۔ جو شخص علم فقہ میں مہارت حاصل کرنا چاہے وہ امام ابوحنیفہ کا محتاج ہوگا۔ (تاریخ بغداد ج 23 ص 161)
٭... امام بخاری کے استاذ امام مکی بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ پرہیزگار، عالم، آخرت کے راغب اور اپنے معاصرین میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ ۔ شیخ موفق بن احمد مکی)
٭... امام موفق بن احمد مکی ‘ امام بکر بن محمد زرنجری (متوفی 152ھ) کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے کتاب الآثار کا انتخاب چالیس ہزار احادیث سے کیا ہے۔ (مناقب امام ابی حنیفہ)
حضرت امام ابوحنیفہ کے علوم کا نفع
حضرت امام ابوحنیفہ کے انتقال کے بعد آپ کے شاگردوں نے حضرت امام ابوحنیفہ کے قرآن وحدیث وفقہ کے دروس کو کتابی شکل دے کر ان کے علم کے نفع کو بہت عام کردیا،خاص کر جب آپ کے شاگرد قاضی ابویوسف عباسی حکومت میں قاضی القضاة کے عہدہ پر فائز ہوئے تو انہوں نے قرآن وحدیث کی روشنی میں امام ابوحنیفہ کے فیصلوں سے حکومتی سطح پر عوام کو متعارف کرایا، چناں چہ چند ہی سالوں میں فقہ حنفی دنیا کے کونے کونے میں رائج ہوگیا اور اس کے بعد یہ سلسلہ برابر جاری رہا، حتی کہ عباسی وعثمانی حکومت میں مذہب ابی حنیفہ کو سرکاری حیثیت دے دی گئی، چناں چہ آج 1200 سال گزرجانے کے بعد بھی تقریباً 75 فی صد امت مسلمہ اس پر عمل پیرا ہے اور ایک ہزار سال سے امت مسلمہ کی اکثریت امام ابوحنیفہ کی قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح اور وضاحت وبیان پر ہی عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان کے مسلمانوں کی بڑی اکثریت جو دنیا میں مسلم آبادی کا 55 فی صد سے زیادہ ہے، اسی طرح ترکیا اور روس سے الگ ہونے والے ممالک، نیز عرب ممالک کی ایک جماعت قرآن وحدیث کی روشنی میں امام ابوحنیفہ کے ہی فیصلوں پر عمل پیرا ہے۔
مصادر ومراجع
حضرت امام ابوحنیفہ کی شخصیت پر جتنا کچھ مختلف زبانوں خاص کر عربی زبان میں تحریر کیا گیا ہے وہ عموماً دوسرے کسی محدث یا فقیہ یا عالم پر تحریر نہیں کیا گیا۔ یہ امام ابوحنیفہ کی علمی وعملی خدمات کے قبول ہونے کی بظاہر علامت ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہکی شخصیت کے مختلف پہلوں پر جو کتابیں تحریر کی گئی ہیں،ان میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں۔
شیخ جلال الدین سیوطی کی کتاب”تبییض الصحیفة فی مناقب الامام ابی حنیفہ“ سے خصوصی استفادہ کرکے اس مضمون کو تحریر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام مصنفوں کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔
حضرت امام ابوحنیفہ کی سوانح حیات سے متعلق بعض عربی کتابیں
مناقب الامام الاعظم:شیخ ملا علی قاری (متوفی 1014ھ)
ترجمة الامام الاعظم ابی حنیفة النعمان بن ثابت:امام خطیب بغدادی (متوفی 392ھ)
تبییض الصحیفة فی مناقب ابی حنیفة:علامہ جلال الدین سیوطی مصری شافعی (متوفی 911ھ)
تحفة السلطان فی مناقب النعمان : شیخ قاضی محمد بن الحسن بن کاس ابوالقاسم( متوفی ٰ 324ھ )
عقود المرجان فی مناقب ابی حنیفہ النعمان:شیخ ابوجعفر احمد بن محمد مصری الطحاوی (متوفی 321ھ)
عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابو حنیفة النعمان :شیخ محمد بن یوسف صالحی (متوفی 943ھ)
عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابو حنیفة النعمان:رسالہ مقدمہ لنیل درجة الماجستر ۔ مولوی محمد ملا عبد القادر الافغانی
اخبار ابی حنیفة واصحابہ :شیخ قاضی ابی عبد اللہ حسین بن علی الصیمری (متوفی 436ھ)
فضائل ابی حنیفة واخبارہ ومناقبہ :شیخ ابو القاسم عبد اللہ بن محمد(المعروف ب ابی عوام) متوفی 330ھ
شقائق النعمان فی مناقب ابی حنیفة النعمان:شیخ جار اللہ ابو القاسم زمخشری (متوفی 538ھ)
الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفة النعمان: مفتی الحجاز شیخ شہاب الدین احمد بن حجر ہیثمی مکی (متوفی 973ھ)
کتاب منازل الائمة الاربعة:امام ابو زکریا یحییٰ بن ابراہیم (متوفی 550ھ)
مناقب الامام ابی حنیفة وصاحبیہ ابی یوسف ومحمد بن الحسن:امام حافظ ابی عبد اللہ محمد بن احمد عثمان ذہبی (متوفی 748ھ)
کتاب مکانة الامام ابی حنیفہ فی علم الحدیث:شیخ محمد عبدالرشید النعمانی الہندی۔ تحقیق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ
ابوحنیفہ النعمان وآراوٴہ الکلامیہ:شیخ شمس الدین محمد عبداللطیف مصری
ابوحنیفہ النعمان (امام الائمہ الفقہاء):شیخ وہبی سلیمان غاوجی
تانیب الخطیب علی ما ساقہ فی ترجمة ابی حنیفہ من الاکاذیب:شیخ محمد زاہد بن الحسن الکوثری
ابوحنیفہ ۔ حیاتہ وعصرہ ۔ آراوٴہ وفقہہ: شیخ محمد ابوزہرہ
مناقب الامام الاعظم ابی حنیفة (الجزء الاول والثانی): موفق بن احمد المکی ، محمد بن محمد بن شہاب ابن البزار الکردی ۔
ائمة الفقہ الاسلامی: ابوحنیفہ، شافعی، مالک، ابن حنبل:شیخ نوح بن مصطفی رومی حنفی
مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ:شیخ موفق بن احمد الخوارزمی
الجواہر المضےئة فی تراجم الحنفیہ:شیخ عبدالقادر القرشی
حیاة ابی حنیفہ:شیخ سید عفیفی۔
نشر الصحیفة فی ذکر الصحیح من اقوال ائمة الجرح والتعدیل فی ابی حنیفة: شیخ ابی عبد الرحمن مقبل بن ہادی الوادی (متوفی 1422ھ)
تحفة الاخوان فی مناقب ابی حنیفة :علامہ احمد عبد الباری عاموہ الحدیدی ۔
التعلیقات الحسان علی تحفة الاخوان فی مناقب ابی حنیفة :علامہ محمد احمد محمد عاموہ
عقود الجواہر المنیفة فی ادلة مذہب الإمام ابی حنیفة:علامہ محدث السید محمد مرتضیٰ الزبیدی حسینی حنفی (متوفی 1205ھ)۔
حضرت امام ابوحنیفہ کی سوانح حیات سے متعلق بعض اردو کتابیں
سیرة النعمان:علامہ شبلی نعمانی ۔
سیرة ائمہ اربعة :قاضی اطہر مبارک پوری
حضرت امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی: مولانا مناظر احسن گیلانی
مقام ابی حنیفہ : مولانا سرفراز صفدر خان
امام اعظم اور علم الحدیث:مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی
امام اعظم ابو حنیفة : حالات وکمالات ،ملفوظات : ڈاکٹر مولانا خلیل احمد تھانوی (ترجمة تبییض الصحیفة فی مناقب الامام ابی حنیفة)
تقلید ائمہ اور مقام امام ابوحنیفہ:مولانا محمد اسمٰعیل سنبھلی (راقم الحروف کے حقیقی دادا محترم)۔
امام اعظم ابو حنیفہ ، حیات وکارنامے:مولانا محمد عبد الرحمن مظاہری
حضرت امام ابوحنیفہ پر ارجاء کی تہمت:مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب ۔
علم حدیث میں امام ابو حنیفہ کا مقام ومرتبہ:مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب۔
امام اعظم ابوحنیفة اور معترضین (کشف الغمة بسراج الائمة): مولانا مفتی سید مہدی حسن شاہجہان پوری
فقاہت امام اعظم ابو حنیفہ :مولانا خدا بخش صاحب ربانی
ملفوظات امام ابو حنیفہ :مفتی محمد اشرف عثمانی
حدائق الحنفیة (امام ابوحنیفہ سے1300 ہجری تک دنیا بھر کے ایک ہزار سے زائد حنفی علماء وفقہاء کا ذکر):مولوی فقیر احمد جہلمی ۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے 100سو قصے:مولانا محمد اویس سرور۔
امام اعظم ابوحنیفہ کے حیرت انگیز واقعات:مولانا عبد القیوم حقانی
امام ابوحنیفہ کی تابعیت اور صحابہ سے ان کی روایت:مولانا عبد الشہید نعمانی ۔
امام اعظم ابوحنیفہ شہید اہل بیت :مفتی ابو الحسن شریف اللہ الکوثری۔
الطریق الاسلم۔ اردو شرح مسند الامام الاعظم :مولانا محمد ظفر اقبال صاحب ۔
امام ابو حنفیہ کی محدثانہ حیثیت :مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمی ۔ مولانا مفتی نعمت حقانی ۔
امام ابو حنیفہ کا عادلانہ دفاع: (علامہ کوثری کی کتاب تانیب الخطیب کا اردو ترجمہ) حافظ عبد القدوس خان ۔
حیات حضرت امام ابوحنیفہ : (شیخ ابوزہرہ مصری کی عربی کتاب کا ترجمہ)پروفیسر غلام احمد حریری
حضرت امام ابوحنیفہ کی سوانح حیات سے متعلق انگریزی زبان میں بھی متعدد کتابیں شائع ہوئی ہیں، لیکن علامہ شبلی نعمانی کی کتاب Imam Abu Hanifah: Life and Worksکا مطالعہ انتہائی مفید ہے۔
اعلاء السنن
عصر حاضر کے جید عالم ومحدث شیخ ظفر احمد عثمانی تھانوی نے حضرت امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں سے منقول تمام مسائل فقہیہ کو22 جلدوں میں احادیث نبویہ سے مدلل کیا ہے۔ملک شا م کے مشہور حنفی عالم شیخ عبدالفتاح ابوغدہ (متوفی 1417ھ) نے اس کتاب کی تقریظ تحریر فرمائی ہے۔ عربی زبان میں تحریر کردہ اس عظیم کتاب کی 22 ضخیم جلدیں ہیں،جو عرب وعجم میں آسانی سے حاصل کی جاسکتی ہیں، حتی کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ مفت Download کرنا بھی ممکن ہے۔
(http://www.waqfeya.com/book.php?bid=2378)
اللہ تعالیٰ اس خدمت کو قبول فرماکر اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین۔