افتراق وانتشار کا فتنہ
مولاناسید احمدومیض ندوی
یہودیوں کی مسلم دشمنی قدیم ہے، عہد نبوت ہی سے یہود مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے یہودی تفریق بین المسلمین کاحربہ استعمال کرتے رہے ہیں، یہودیوں کو اندازہ ہے کہ اتحاد میں عظیم طاقت ہے، متحد قوم تعداد کی کمی کے باوجود فتح وکام رانی سے ہم کنار ہو جاتی ہے، جب کہ بھاری تعداد رکھنے والی منتشر قوم کے قدم جلد لڑکھڑانے لگتے ہیں، مسلمانوں کو کم زور کرنے کے لیے یہودی لابی شروع ہی سے تفریق کی پالیسی اپناتی رہی ہے، حضورصلى الله عليه وسلم کی مدینہ آمد سے قبل مدینہ کے دومشہور قبیلے باہم دست وگریباں تھے، جو اوس وخزرج کے نام سے جانے جاتے تھے، دورِ جاہلیت کی تاریخ ان کے درمیان چلی مشہور جنگوں کی تفصیلات سے بھری پڑی ہے، لیکن جب انہوں نے نبی صلى الله عليه وسلم کی دعوت کو گلے سے لگایا اور آپ مکہ شریف سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ جلوہ افروز ہوئے تو آپ کی برکت سے یہ دونوں حریف قبیلے آپس میں شیروشکر ہوگئے، لیکن مدینہ کے اطراف آباد یہودی قبائل کو ان دونوں حریف قبائل کا اتحاد کسی طرح ہضم نہیں ہوتا تھا، وہ ہمیشہ ان دونوں قبائل میں قدیم عداوت کو بھڑکانے کی ہرممکن کوشش کرتے تھے، تاکہ مسلمانوں کا شیرازہ پارہ پارہ ہو جائے، یہودیوں کی جانب سے اس قسم کے اقدامات بار بار کیے گئے، ایک مرتبہ کسی مقام پر اوس وخزرج کے دونوں قبائل موجود تھے تو ایک یہودی نے جنگ بعاث کے اشعار سنانا شروع کردیے، اشعار سننا تھا کہ دونوں قبیلوں کے دلوں میں دشمنی کی آگ بھڑک اٹھی اور دونوں پہلے زبانی، پھر ہتھیاروں سے لڑنے پر اترآئے، اس دوران نبی رحمت صلى الله عليه وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کو لے کر وہاں پہنچے اور صورتحال کو دیکھ کر فرمایا: اے مسلمانوں کی جماعت! میں تمہارے درمیان موجود ہوں، پھر یہ جاہلیت کا نعرہ کیسا؟ اللہ نے تم کو جاہلیت سے نکال کر اسلام کی روشنی عطا کی، قرآن کریم میں اسی واقعہ کے پس منظر میں کہا گیا: ﴿وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُوا﴾․(آلِ عمران: 103)
ترجمہ:” سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو“۔
یہودیوں کی تفریق کی پالیسی آج تک جاری ہے، آج بھی یہودی امریکہ اور مغربی ممالک کے تعاون سے امت مسلمہ کے خلاف تفرقہ کا حربہ استعمال کر رہے ہیں، فلسطین میں برسوں سے ساری فلسطینی جماعتیں بیت المقدس کی آزادی کے لیے متحدہ کوشش کر رہی تھیں، لیکن آخر کار یہودی فلسطینیوں میں دراڑ پیدا کرنے میں کام یاب ہوئے اور سرزمین فلسطین نے اس منظر کو بھی دیکھا جب یہودی فوجیوں پر گولیاں چلانے والے فلسطینی خود آپس میں ایک دوسرے کو نشانہ بنارہے تھے اور اس آپسی برادر کشی میں سینکڑوں مسلمان جاں بحق ہوگئے، بالآخر سعودی عرب کی کام یاب ثالثی نے طوفان کو تھمادیا، گذشتہ ماہ کی اخباری اطلاعات کے مطابق صہیونی حکام فلسطینیوں پر براہ راست حملوں کے ساتھ فلسطینی عوام میں پھوٹ ڈالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
اسرائیلی خفیہ ادارے ”شاباک“ کی طرف سے فلسطینی عوام، خصوصاً حماس اور فتح کو آپس میں لڑانے کی ایک نئی سازش بے نقاب ہوئی ہے، اسرائیلی خفیہ ادارے نے قلقبلیہ میں ایک ہینڈ بل تقسیم کیا ہے، جس میں حماس پر مختلف قسم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، بل پر لکھے گئے الزامات کے ساتھ درجنوں شہریوں کے جعلی دستخط بھی دکھائے گئے ہیں، یہ ہینڈبل سینکڑوں کی تعداد میں تقسیم کیے گئے، ان میں حماس اراکین پر حملوں اور اس کے مفادات کو تباہ کرنے کی دھمکی دی گئی ہے، بعض دستخطوں میں دستخط کنندگان نے اپنا تعلق الفتح پارٹی سے ظاہر کیا ہے، خوشی کی بات یہ ہے کہ فلسطینی حکام نے دشمن کی اس سازش کو بھانپ لیا، چناں چہ حماس نے اس اسرائیلی خفیہ ادارے کی سازش کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینی عوام کے درمیان پھوٹ ڈال رہا ہے، چناں چہ حالیہ تازہ جھڑپیں اس کا کھلا ثبوت ہیں، گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران ہوئی جھڑپوں میں اب تک قریب ۵۰/فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں، تفریق بین المسلمین کی مہم میں امریکہ یہودیوں کا سب سے بڑا حلیف ہے، امریکہ منظم انداز میں اس پالیسی پر گام زن ہے، گذشتہ دنوں امریکہ کی تفریق بین المسلمین مہم کے تعلق سے ایک سروے کرایا گیا، اس سروے کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ مسلم دنیا کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ مسلم دنیا کو تقسیم کرنے اور انہیں تباہ کرنے کے لیے امریکی پالیسی اپنی پوری طاقت صرف کر رہی ہے، سروے کے مطابق پاکستان، مصر، انڈونیشیا اور مراکش کی 70فی صد آبادی کا یقین ہے کہ امریکہ مسلم ممالک کو تقسیم کرنے کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کر رہا ہے، امریکی رسالہ کے ایک گروپ کی طرف سے کیے گئے سروے کے مطابق صرف چار مسلم ممالک میں کیے گئے سروے میں 40فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اصل مقصد مسلمانوں کو آپس میں لڑانا ہے، تاکہ وہ آپسی تصادم کا شکار ہو کر تباہ وبرباد ہوجائیں، جب کہ12فیصد افراد کے مطابق امریکہ کی جانب سے چھیڑی گئی جنگ کا مقصد مسلم ملکوں کے حملوں سے محفوظ بنانا ہے،امریکہ مسلمانوں کو عامی، نظریاتی اور مسلکی اعتبار سے مختلف خانوں میں بانٹ دینا چاہتا ہے، چناں چہ اس نے اس مقصد کے لیے انتہا پسند اور اعتدال پسند مسلمانوں کی اصطلاح گڑھ لی ہے۔
امریکہ عراق میں شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دینے میں کام یاب ہوگیا، چناں چہ اس وقت امریکہ کی اس شیطانی پالیسی کے سبب سینکڑوں عراقی خون میں نہارہے ہیں، عراق کی صورت حال سب کے سامنے ہے، وہاں کبھی شیعہ آبادی اور ان کے مذہبی مقامات پر خودکش حملے ہو رہے ہیں تو کبھی سنی آبادی کو حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس وقت عراق میں روزانہ جس قسم کے حملے ہو رہے ہیں ان کے تعلق سے یہ کہنا مشکل ہے کہ ان میں عراقیوں کا کتنا ہاتھ ہے اور اتحادی فوجیں اور امریکی ایجنٹوں کی کتنی کارستانی ہے۔
امریکہ عراق میں پیدا ہونے والی شیعہ سنی منافرت کو دیگر ان ملکوں میں بھی عام کرنا چاہتا ہے جہاں شیعہ سنی مخلوط آبادیاں پائی جاتی ہیں، جیسے ایران اور پاکستان، امریکہ چاہتا ہے کہ ایران میں سنی اقلیت کو شیعہ اکثریت اور پاکستان میں شیعہ اقلیت کو سنی اکثریت کے خلاف کھڑا کیا جائے، بیشتر مسلم ممالک میں شیعہ سنی تصادم کی فضا نظر آتی ہے، شام، لبنان، سعودی عرب، بحرین وغیرہ میں وقتاً فوقتاً تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں،اس وقت شام میں شیعہ ظالم حکم راں سنی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑتوڑرہے ہیں، امریکہ ایران کے نیوکلیئر معاملہ کو بھی شیعہ سنی اختلافات کے پس منظر میں دیکھنا چاہتا ہے، امریکہ اس بات کا پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ اگر شیعہ اکثریتی ایران ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہو جاتا ہے تو پھر مغربی ایشیائی ممالک سنی بم کے لیے پاکستان کی طرف رخ کریں گے، امریکہ کی تفریق بین المسلمین کی پالیسی کسی حد تک افغانستان میں بھی کام یابی سے ہمکنار ہوئی، اب افغانستانی عوام عملاً طالبان اور موجودہ حکومت کے حامی ومخالف میں بٹ کر رہ گئے ہیں، اگرچہ افغانستان میں عوام کی اکثریت طالبان کی حامی ہے، لیکن ایک بڑا طبقہ امریکہ نواز قائدین کا ہے، جو امریکہ کا حق ِ نمک ادا کر رہا ہے، ابتدا میں اگر سارے افغان گروہ اتحاد کا مظاہرہ کرتے تو دشمن کو قدم جمانے کا موقع ہاتھ نہ آتا۔
افسوس اس کا ہے کہ امت مسلمہ تاریخ کے پچھلے واقعات سے قطعی عبرت حاصل نہیں کرتی، شروع سے دشمنوں کی جانب سے ملت کے شیرازہ کو نشانہ بنایا جاتا رہاہے، لیکن بڑے سے بڑا حادثہ مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانہ سکا،اندلس میں جہاں سینکڑوں برس مسلم حکم رانی کا پرچم لہراتا رہا، اسی وبال انتشار کے نتیجہ میں مسلمانوں کوزوال کا منھ دیکھنا پڑا، جب مسلمان اندلس میں فاتحانہ داخل ہوئے تو ان کی صفوں میں اتحاد تھا، لیکن جب موحدوں اور مرابطوں کی چپقلش رونما ہوئی، قبائلی تعصب رنگ دکھانے لگا، یمنی، حجازی اور نجدی وصحرائی جھگڑے سراٹھائے تو دشمنوں کو موقع ہاتھ آگیا اور انہیں خانہ جنگی کا شکار کم زور مسلمانوں کو مار بھگانے میں کام یابی حاصل ہوئی، اندلس کا آخری خلیفہ عبداللہ عامر المنصور جب اندلس سے تباہ وبرباد ہو کر واپس جارہا تھا تو وہ زاروقطار رورہا تھا، ایک بوڑھا شخص نمودار ہوا اور خلیفہ کو مخاطب کر کے کہنے لگا: ”یہ دن تمھیں دیکھنا ہی تھا، تم نے آپس کی لڑائی میں مسلمانوں کا قتل کرایا، میرے چار بیٹے تمہاری سلگائی ہوئی آپس کی لڑائی میں شہید ہوگئے، میں نے شہر چھوڑ کر پہاڑوں میں پناہ لی، میں اس دن کا منتظر تھا، جب تمھیں عیسائی رسوائی کے ساتھ ملک بدر کریں گے، آج وہی دن ہے، ابھی کیا روتے ہو؟ قیامت میں تم کو بہت رونا ہے۔“
خلافتِ عثمانیہ کا زوال ہمارے سامنے ہے، کتنا دبدبہ اور کیسی شان وشوکت تھی؟ لیکن آپسی انتشار نے اس کی طاقت وقوت کو پاش پاش کر کے رکھ دیا، لوگ خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے متعدد اسباب بتاتے ہیں، لیکن اہل نظر جانتے ہیں کہ بنیادی سبب آپسی خلفشار اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا اعلان تھا۔
ہم پر عجیب بے حسی طاری ہے، نہ ہم ماضی سے سبق لیتے ہیں اور نہ ہی حال کی تباہی ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار کرتی ہے ،ان معروضات کے لیے قلم کوجنبش دینے کا داعیہ اس وقت پیدا ہوا جب گذشتہ دنوں احقر کی نظر گلبرگہ سے شائع ہونے والے ایک روزنامے پر پڑی، روزنامہ انقلاب دکن گلبرگہ کی 15اپریل کی اشاعت میں صفحہ اول کی سرخی اور تصویر دیکھ کر احقر کے حواس اڑگئے، ابتدا میں تصویر دیکھ کر ذہن میں کسی حادثہ کا تصور آیا، لیکن تصویر کے نیچے دی گئی تحریر پڑھ کر دم بخود رہ گیا، پانچ کالمی تصویر میں کئی مسلمان افراد زخمی حالت میں دکھائے گئے تھے، جن کے سروں پر پٹی باندھی گئی تھی، بظاہر بے ہوش اور نیم مردہ نظر آرہے تھے، اوّلِ وہلہ میں خیال آیا کہ یہ کسی حادثہ کا شکار افراد ہوں گے، لیکن جب نیچے دی گئی تحریر پڑھی تو شدتِ غم سے آنکھوں میں اندھیرا چھاگیا، نیچے لکھا تھا کہ سنگتراش واڑی کی مسجد میں پیش آئے ایک واقعہ میں زخمی افراد کی تصویر ہے، تفصیلات کے بموجب سنگتراش واڑی گلبرگہ کی مسجد میں حی علی الصلوٰة پر اٹھنے کے مسئلہ کو لے کر دومسلم گروہوں کے درمیان تصادم پیش آیا اور شدید زدوکوب ہوئی، ایک چھوٹے سے مسئلہ پر اس طرح کا تشدد انتہائی افسوس ناک ہے، آخر یہ مسلکی تشدد ہمیں کہاں لے جائے گا؟ آخر کب ہماری آنکھیں کھلیں گی؟ کیا عراق میں برپا قیامت ہمیں بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؟ کیا لبنان کی تباہی سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا؟ اگر ہم نے اپنے رویہ میں تبدیلی نہیں لائی اور اختلاف کے باوجود اپنے شیرازہ کو متحد نہیں رکھا تو پھر ہمیں مزید تباہی کے لیے تیار رہنا ہوگا، گذشتہ کچھ عرصہ سے شہر حیدرآباد کی فضا بھی مکدر نظر آرہی ہے، ایک طرف ملت کے عمائدین اور صحافت وسیاست کی نمائندگی کرنے والی شخصیات باہم دست وگریباں ہیں تو دوسری طرف بعض لوگ مسلکی اختلاف کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔
اختلاف ہر باشعور سماج کا لازمی جز ہے، اختلاف کا رونما ہونا برا نہیں، بلکہ اختلاف کا نزاع کی شکل اختیار کرنا افسوس ناک ہے، نزاع اور تفرقہ بازی ملت کے لیے سم قاتل ہے، میرا ذہن اس وقت مولانا آزاد مرحوم کے اس اقتباس کی طرف منتقل ہو رہا ہے، جس میں مولانا نے آپسی انتشار کے مسئلہ پر مسلمانوں کو جھنجھوڑا ہے، مولانا کی یہ تحریر گوش دل سے سننے اور سرمہ بصیرت بنانے کے لائق ہے، مولانا لکھتے ہیں ”قرآن نے اسلام کی حقیقت دراصل اس چیز کو بتلایا ہے جو اختلاف اور تفریق کے ساتھ جمع ہی نہیں ہوسکتی، وہ ہرجگہ اسلام کو وحدت وتالف اور کفر کو تعدد وتشتت قرار دیتا ہے اور جس شدت اور تکرار کے ساتھ شرک سے روکتا ہے، ٹھیک ٹھیک اسی طرح تفریق وشقاق سے بھی باز رکھنا چاہتا ہے، وہ بار بار کہتا ہے کہ تم ”مغضوب علیہم“یعنی یہود اور ”الضالین“ یعنی نصاریٰ کی ضلالتوں سے اپنے آپ کو بچاوٴ اور انعام یافتہ جماعتوں کی راہ پر چلو، پھر جابجا تشریح کرتا ہے کہ یہود ونصاریٰ کی سب سے بڑی ضلالت یہ تھی کہ انہوں نے نزول علم، یعنی نزول شریعت کے بعد راہ شقاوت اختیار کی، خدا نے ان کو ایک کردیا تھا، پر وہ ایک نہ رہے اور مختلف مذہبوں، مختلف جماعتوں، مختلف ناموں اور مختلف غیر الٰہی دینوں میں متفرق ہوگئے ﴿الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا کل حزب بمالدیھم فرحون﴾․ (الروم:۳۲)اس سے بھی زیادہ یہ کہ جابجا واضح کیا کہ کسی امت کے لیے تالیف واتحاد رحمتِ الٰہی اور تخریب وتفریق عذابِ الٰہی ہے۔
خدا جب بھی کسی قوم کو سزا دینا چاہتا ہے تو اس میں باہمی تفرقہ اور اختلاف ڈال دیتا ہے، ارشادِ ربانی ہے: ”کہہ دو کہ اللہ اس پر قادر ہے کہ تم پر اوپر سے کوئی عذاب لائے یا تمہارے قدموں کے نیچے ہی سے اس کا عذاب نمایاں ہو یا پھر تمہارے اندر پھوٹ ڈال دے، تم گروہ گروہ اور جماعت جماعت ہو جاوٴ اور باہم ایک دوسرے سے لڑکر خود اپنی ہی تلوار سے اپنے کو ہلاک کرلو“۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے سب سے بڑی وصیت امت کو یہی کی کہ ”لاترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض“․ (بخاری 1048/2، مسلم58/1) میں نے تم کو عذاب شقاق وافتراق سے نکال کر اتحاد وتالیف کی رحمت کا پیکر بنادیا ہے، لیکن میرے بعد کافروں کا طریق اختیار نہ کرنا کہ باہم ایک کی تلوار دوسرے کی گردن پر چلے ۔اور یہی چیز ہے جس کی طرف باب مدینة العلم حضرت علی رضی الله عنہ نے اپنے ایک خطبہ مقدسہ میں دعوت دی: ”الٰھھم واحد، ونبیھم واحد، وکتابھم واحد، أیأمرھم اللّٰہ بالاختلاف فاطاعوہ؟ أم نھاھم عنہ فعصوہ؟ أم انزل اللّٰہ دینا ناقصا فاستعان بہ علی اتمامہ؟“(نہج البلاغة) ان کا خدا ایک ہے، نبی ایک ہے، پھر کیا ہے کہ وہ باہم اختلاف کرتے ہیں؟ خدا نے کیا ان کو اختلاف کا حکم دیا ہے کہ اس کی پیروی میں مختلف ہو رہے ہیں، یا اس نے اختلاف سے روکا ہے اور وہ حکم الٰہی کی نافرمانی کر رہے ہیں؟ یا پھر یہ ہے کہ خدا نے ناقص دین اتارا اور اس کے اس طریقہ سے اب اس کو مکمل کرنا چاہتے ہیں؟
لیکن بدبخت مسلمانوں نے وہی کیا جس سے وہ روکے گئے تھے، خدا نے ان کو دوسروں کے لیے تلوار دی تھی، انہوں نے خود اپنوں پر چلائی، خدا نے ان کو ایک بنایا تھا وہ متعدد جماعتوں میں متفرق ہوگئے، خدا نے ان کو ایک شریعت دی تھی، انہوں نے بہت سی شریعتیں بنالیں، خدا نے ان کا ایک ہی نام ”مسلم“ رکھا تھا، مگر ان میں سے ہر جماعت نے اپنا الگ الگ نام رکھا، پس یہ اختلاف وشقاوت ایک عذاب الٰہی ہے، مسلمانوں کی سب سے بڑی مصیبت ہے، سب سے بڑا طغیان ہے، سب سے بڑا عدوان ہے، ان کے تمام مصائب وخسران قومی کامبدائے حقیقی ہے، زمین کی سطح پر مسلمانوں نے اس سے بڑھ کر اور کوئی گناہ نہیں کیا اور خدا نے جس قدر بھی اس وقت ان کو سزائیں دی ہیں وہ سب کی سب اسی بڑے جرم کی پاداش میں“۔
مولانا آزاد کے یہ تازیانے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں، ملت سے مذموم اختلاف اور آپسی نزاع کے خاتمہ کے لیے ہمیں کچھ ٹھوس اقدامات کرنے ہیں اور یہ اقدامات عالمی سطح پر بھی ہونے چاہییں اور ملکی اور علاقائی سطح پر بھی، عالمی سطح پر درجِ ذیل اقدامات پر فوری عمل آوری کی جائے:
عالمی سطح پر مسلم ممالک اور قائدین کے درمیان آپسی تعاون اور ایک دوسرے سے استفادے کی شکلیں ڈھونڈ نکالی جائیں۔ان اسباب کا جائزہ لیا جائے جن کے سہارے صہیونی اور صلیبی طاقتیں مسلمانوں میں انتشار پھیلا ر ہیں ۔عالمی سطح پر مختلف مسلم ممالک کے دانش وروں اور اصحاب علم وبصیرت کا ایک کمیشن تشکیل دیا جائے، جو تفریق بین المسلمین کی صہیونی سازشوں پر نظر رکھیں اور حکم رانوں اور ارباب اقتدار کو رپورٹ دیں۔ عالمی سطح کی سرکاری ونیم سرکاری تنظیموں اور تحریکوں جیسے تنظیم اسلامی کانفرنس، عرب لیگ، رابطہ عالم اسلامی وغیرہ کو مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔مسلم ممالک کے علماء اور اصحاب افتاء کتاب وسنت کی بنیاد پر امت کومجتمع کرنے کی مساعی میں تیزی پیدا کریں۔ ساری امت بشمول قائدین اور عامة المسلمین دعوت دین کو اپنا نصب العین بنالیں، دعوت واحد راستہ ہے جو امت کے تمام طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر لاسکتا ہے۔ مسلمانوں میں ان گروہوں پر نظر رکھی جائے جو انتشار کے لیے کوشاں رہتے ہیں، نیز ایسے لٹریچر کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے جس میں اتحاد کی اہمیت اور افتراق کے نقصانات پر روشنی ڈالی گئی ہو۔نزاع کی صورت میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کے مزاج کو فروغ دیا جائے۔
جہاں تک علاقائی سطح کے اقدامات ہیں تو ان میں چند یہ ہیں:
علماء اور ائمہ اپنے اپنے پیروکاروں کومسلکی مسائل میں اعتدال کی راہ اپنانے کی تلقین کریں، امت کو اختلاف کے باوجود متفق علیہ اور عام ملی مسائل میں اجتماعیت اختیار کرنے پر زور دیں۔ جمعہ کے خطبوں اور عوامی جلسوں میں متنازعہ مسائل کو زیرِبحث لانے سے گریز کریں۔ علمائے امت، داعیان دین اور امت کا باشعور طبقہ ساری توجہ دعوت واصلاح پر مرکوز کرے، اپنوں کی اصلاح کے ساتھ برادرانِ وطن میں دعوت کو اپنا نصب العین بنالیں۔