نصیحت اور خیر خواہی
متعلم مدثرشاہ
”الدین النصیحة، للہ ولرسولہ ولکتاب اللہ ولائمة المسلمین وعامتھم“․(الحدیث)
نصیحت خیر خواہی اور بھلائی کو کہتے ہیں،نصیحت کے معنی اخلاص کے آتے ہیں۔ امام نوویفرماتے ہیں کہ یہ حدیث پورے دین کا خلاصہ ہے۔ کیوں کہ نصیحت کے معنی اخلاص کے ہیں اور تصوف سے مقصود اخلاص ہے، تصوف کہتے ہیں ہر نیک کام خالص الله تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا۔ حافظ ابن حجر اور علامہ عینی فرماتے ہیں یہ حدیث تمام امور دین کو شامل ہے۔ کیوں کہ نصیحت للهِ سے قرآن پاک کے احکام معلوم ہوتے ہیں اور دوسرے جملے ولرسولہسے سنت نبوی اور معاشرتی امور معلوم ہوتے ہیں۔
النصیحةللہاللہ کے لیے نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات ،ہدایات کے مطابق ایمان لانا ،شرک و بدعت اور اس کی تمام انواع و اقسام سے اجتناب کرنا، اطاعت و فرماں نبرداری اختیار کرنا اور اخلاص کے ساتھ تمام اوامربجالانا،نواہی سے مکمل اجتناب کرنا ،انعامات واحسانات خداوندی کا اعتراف کرنا ان پر شکر بجالانا،اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے ساتھ موالات ،صحبت کا تعلق رکھنا،نافرمانوں کے ساتھ معادات (دشمنی) کا تعلق رکھنا ،کسی کی خیرو بھلائی قدرت خداوندی میں نہ کچھ اضافا کر سکتی ہے اور نہ ہی شروفساد اس میں کچھ کمی لا سکتے ہیں، البتہ اس کا فائدہ عامل خیرو شرکوہی پہنچتاہے: حدیث مبارک کے اگلے جملے میں،”النصیحة لکتاب اللہ“ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے لیے نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی ہے، جو نہ تو محلوق کے کلام کے مشابہ ہے اور نہ مخلوق اس طرح کے کلام پر قادر ہے ،اس کے الفاظ وحرو ف کو درست کیا جائے ،محرفین کی تاویلات کا ابطال کیا جائے، زبانِ طعن دراز کرنے والوں کی زبان کو بند کیا جائے ،اس کے بیان کردہ فرائض و سنن و آداب کا علم حاصل کیا جائے، اس میں جو محکمات ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے ،متشابہات کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے ،اس کے مواعظ سے عبرت حاصل کی جائے اس کے وعدہ وعید کی تصدیق کی جائے ۔
علوم قرآن کی تحصیل میں ہر ممکن کوشش کی جائے اور دوسروں تک پہنچانے کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے۔
”ولرسولہ صلی اللہ علیہ وسلم“:رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے لیے نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم جو کچھ لے کر آئے ہیں اس میں آپ کی مکمل تصدیق کی جائے ،آ پ نے جو شرائع و احکام بتائے اور دین کی تشریح فرمائی اس کے مطابق عمل کیا جائے ،آپ نے حق کو تمام مخلوقات کے حق پر مقدم رکھا جائے اور آپ کے طریقہ دعوت کو اختیار کیا جائے ،ہر مسلمان اپنا محاسبہ کرے کہ میں خدا کے لائے ہوئے دین پر کتنا عمل پیرا ہوں اور میری زندگی میں کتنا دین ہے۔
ولأئمة المسلمین :ائمہ مسلمین سے مرد مسلمانوں کے امرا و خلفاء ہیں ان کے ساتھ نصیحت ،خیر خواہی کامطلب یہ ہے کہ معروف کاموں میں ان کی اطاعت کرنا، ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا ،ان کے ساتھ مل کر کفار کے مقابلے میں جہاد کرنا، ان پر خروج بالسیف نہ کرنا، اگرچہآپ کے امرا ظالم ہی کیوں نہ ہوں، غفلت کے مواقع پر ان کو متنبہ کرنا۔ جب حضرت عمر خلیفہ بنے تو فرمایا کہ اگر میں سنت نبوی اور سیرت صدیقی کے خلاف کوئی کام کروں تو مجھے متنبہ کرنا تو مجمع خاموش رہا، یہا ں تک کہ ایک نوجوان کھڑا ہوا اورکہا کہ میں اس تلوار کے ساتھ آپ کی اصلاح کروں گا۔ اس پر حضرت عمر نے الله کا شکر ادا کیا۔جھوٹی تعریفیں کر کے امراء کو دھوکے میں نہ ڈالنا اور ان کی اصلاح و ہدایت کے لیے دعا کرنا۔
لعامة المسلمین:عا مة المسلمین کے ساتھ نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ ان کو دین کی تعلیم ان کی دینی و دینوی مصالح کی طرف راہ نمائی کر نا ،ان کے ساتھ مشقت ومہربانی کا معاملہ کرنا ،ان کو امر بالمعروف نہی عن المنکر کرنا۔ سب سے آخر میں جو رسول اللہ کی امت کے لیے بہت بڑی نصیحت ہے، ویسے تو اور بھی بہت سی نصیحتیں ہیں ،مگر جہاں کسی چیز میں کمی ہوئی تو پہلے اس کمی کو پورا کیا جاتا ہے، آج کل مسلمانوں میں اس کی بہت غفلت پائی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ بڑوں کے ساتھ توقیر اور چھوٹو ں کے ساتھ ترحم کا برتاؤ کرنا ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد” الدین النصیحة“ (کہ دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے )پورے کے پورے دین کا خلاصہ ہے، صدق دل، اخلاص و للہیت کے ساتھ اگر اسی ارشاد نبوی کومشعل راہ بنایا جائے تو انفرادی واجتمائی زند گی کے تمام شعبہ ہائے دین کا احیا یقینی ہے۔ اللہ پاک ہمیں سنت نبوی پر عمل پیراہونے کی توفیق عطاء فرمائے ۔(آمین )