Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1434ھ

ہ رسالہ

8 - 16
ادب کی اہمیت
شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان مدظلہ

طریقت و شریعت میں ادب کا بہت بڑا مقام ہے، جس کے بغیر منازل طریقت طے نہیں ہوسکتیں، جتنا ادب کا خیال ہوگا ، اتنا ہی ترقی زیادہ اور پرواز بلند ہوگی اور اگر خدانخواستہ اس میں کمی ہو تو پھر ”خسر الدنیا والاخرة“ کا مصداق تو بن سکتا ہے، لیکن اہل طریق میں سے نہیں ہوسکتا #
        بے ادب را اندریں رہ بار نیست
        جائے او بردار شد در دار نیست

یعنی معرفت کے راستہ میں بے ادب کا کوئی حصہ نہیں ہے، اس کی جگہ تو (تختہ) دار پر ہے ، دار (گھر) میں نہیں ہے ۔اس لیے طالب کو شیخ کے سامنے نہایت ادب سے رہنا چاہیے۔ آپ قرآن کریم میں سورة حجرات کی ابتدائی آیات کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا ادب و احترام کرنے کی کتنی تاکید فرمائی ہے ۔ ارشادہے:

﴿یَا اَیُّہَا الذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ الله وَرَسُوْلِہ وَاتَّقُوْا الله اِنَّ الله َسَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ یَا اَیُّہَا الذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لاَ تَجْہَرُوْا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ ، اِنَّ الذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ الله اُوْلٰئِکَ الذِیْنَ امْتَحَنَ الله ُقُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْویٰ لَہُمْ مَغْفِرَةٌ وَاَجْرٌ عَظیِمْ ٌ، اِنَّ الذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَرَآءِ الحُجُرٰاتِ اَکْثَرُہُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ﴾․
ترجمہ :”اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے پہلے تم سبقت مت کیا کرو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بے شک اللہ تعالیٰ سننے والا ،جاننے والا ہے۔ اے ایمان والو! اپنی آوازیں بلند مت کیا کرو پیغمبر کی آواز سے اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسے ایک دوسرے سے کھل کر بولا کرتے ہو، کہیں تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو ، بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کا الله تعالی نے تقوی میں امتحان لیا ہے، ان لوگوں کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے، بے شک جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ کو پکارتے ہیں ان میں اکثر ناسمجھ ہیں“۔

ان آیات کے نازل ہونے کے بعد صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ ان کی بات سننے کے لیے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ کیا کہا ۔ علماء نے تصریح کی ہے کہ بزرگان دین کے ساتھ بھی یہی آداب برتنے چاہییں اس لیے کہ وہ رسول کے وارث اور نمائندے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ کبھی حضرت ابی رضی الله تعالیٰ عنہ کے گھر جاتے قرآن پڑھنے کے لئے تو دروازہ پر دستک دینے کے بجائے کھڑے ہوجاتے، تاآنکہ حضرت ابی رضی الله تعالیٰ عنہ خود باہر تشریف لاتے۔ ایک مرتبہ حضرت ابی رضی الله تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے ابن عباس ! تم مجھے بلاتے کیوں نہیں ؟ انہوں نے فرمایا : ”اَلْعَالِمُ فِی قَوْمِہ کَالنَّبِی فِی اُمّتہ “ کہ عالم آدمی قوم میں نبی کی طرح ہے اپنی امت میں ۔ اور نبی کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ آپ کو آواز دے کر بلانے کی بجائے صبر کریں کہ آپ خود ان کے پاس جائیں تو بہتر ہے، اس لیے میں بھی انتظار کرتا ہوں۔

خلاصہ ادب
ادب کا خلاصہ اور حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے کسی قول یا فعل سے بزرگوں کو ادنیٰ تکلیف بھی نہ پہنچائے اور ان کے دل کو مکدّر نہ کرے ،ورنہ استفادہ تو کیا بسااوقات سخت نقصان ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ جس طرح شیخ کی شفقت و محبت باعث ترقی ہوتی ہے ،اسی طرح اس کا غصہ بھی سبب محرومی بنتا ہے، اگر جان بوجھ کر اس طرح کا کام کیا جائے تو ظاہر ہے کہ دِل اس سے دکھتا ہے اور اگر بلاارادہ ہو اس سے بھی دِل پریشان ہوجاتا ہے ،جو سبب ہے حرمان و بد نصیبی کا۔

مولانا مظہر جان جاناں  کا فرمان
حضرت مرزا مظہر جان جانان کی نازک مزاجی بہت مشہور ہے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ کوئی شہزادہ ان سے ملنے آیا، دوران گفتگو پیاس لگی تو اٹھ کر مٹکے سے پانی پیا اور پیالے کو مٹکے پر ٹیڑھا رکھا ،اسے دیکھ کر مرزا مظہر صاحب کے سر میں درد ہوگیا ،یہ حالت تھی مزاج کی نزاکت کی، حضرت مرزا صاحب رحمہ الله تعالیٰ بہت کم لوگوں سے ملتے تھے ، کسی نے کہا کہ حضرت اگر لوگوں کے ساتھ رابطہ ہو تو خلق خدا کو آپ سے استفادہ کا موقع ملے گا تو حضرت نے فرمایا کہ” لوگوں کو آداب کا کچھ پتہ نہیں اور مجھے اس سے تکلیف ہوتی ہے اور اس کا وبال ان پر پڑتا ہے اس لیے میں لوگوں سے نہیں ملتا“

حضرت حاجی امداد الله کا فرمان
حضرت حاجی صاحب رحمہ الله تعالیٰ کا قول ہے کہ شیخ میزاب رحمت ہے ،جس کے واسطہ سے تم سیراب ہوتے ہو، اس لیے اس میزاب کو صاف و شفاف رکھنے کی کوشش کرواور اس کو مَیلا نہ کرو، ورنہ فیض بھی گدلا ہوکر آئے گا۔

شیخ سے اختلاف کی گنجائش
اس لیے بہت ضروری ہے کہ بزرگوں کی خدمت میں انتہائی عقیدت و احترام لے کر جائیں ، شیخ کے سامنے بلا ضرورت بولنا بھی بے ادبی ہے اور اس کی بات پر اعتماد نہ کرنا تو سراسر خسارہ ہے ، ہاں ! اگر کوئی جید عالم دین ہے اور اس کو کسی شرعی مسئلہ میں شیخ سے اختلاف نظر ہے تو وہ عرض کرسکتا ہے اور وہ بھی ادب و احترام کے ساتھ ۔

حضرت ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی کہ اگر عورتیں تم سے مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو ان کو نہ روکو ،بلکہ اجازت دے دو۔ اس پر ان کے صاحب زادے نے کہا ” و الله لنمنعہن“ خدا کی قسم! ہم تو ان کو روکیں گے۔، تو حضرت ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کو اتنا غصہ آیا کہ انہوں نے فرمایا : میں رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی حدیث سناتا ہوں اور تو اس کی مخالفت کرتا ہے ، بخدا! میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا۔حالاں کہ ان کے صاحب زادے کا مقصد خدا نخواستہ حدیث کی مخالفت نہیں تھا، بلکہ مطلب یہ تھا کہ یہ اس زمانہ خیر کی بات ہے اور اب تو شر و فساد کا زمانہ ہے ، اس لیے مسجد نہ جانا عورتوں کے لیے بہتر ہے ،لیکن چوں کہ انہوں نے عنوان ایسا اختیار کیا جس میں بے ادبی کا شائبہ ہوسکتا تھا، تو حضرت ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ ناراض ہوگئے ۔

یہ حالت تھی صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ کی اور ایک ہم ہیں کہ چوں کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے ساتھ حلم کا معاملہ فرمایا ہے تو کسی چیز کی پروا نہیں کرتے ،حالاں کہ ہر وقت ڈرنا چاہیے ہوسکتا ہے کہ کسی وقت کسی اللہ والے کے دل سے آہ نکلے اور ہم اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجائیں #
        تو مشو مغرور بر حلم خدا
        دیر گیرد سخت گیرد مر تو را

شاہ اسماعیل شہید رحمہ الله تعالیٰ کے ادب کا واقعہ
پہلے لوگوں کا کیا حال تھا! حضرت سید احمد شہید رحمہ الله تعالیٰ حج کر کے لکھنو واپس آئے ،پہلے حج جانے کے لیے تین راستے تھے،کراچی کا،بمبئی کااور کلکتہ کا راستہ،سیداحمدشہیدرحمہ الله تعالیٰ کلکتہ کے راستے سے واپس آئے، شاہ اسماعیل خادم کی حیثیت سے رفیق سفر تھے، لکھنو میں یہ خبر آئی کہ شاہ عبد العزیز رحمہ الله تعالیٰ کا انتقال ہوگیا ہے۔ شاہ عبد العزیز رحمہ الله تعالیٰ، شاہ اسماعیل کے تایا ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ خبر باعث تشویش تھی اور اس زمانے میں اطلاع کی یہ سہولتیں نہیں تھیں جو آج ہیں، پھر خبر کی تحقیق کیسے ہوگی کہ یہ اطلاع غلط ہے یا صحیح ہے! تو سید احمد شہید رحمہ الله تعالیٰ نے اپنی سواری میں استعمال ہونے والا مخصوص گھوڑا، جو نقرئی رنگ کا تھا ،وہ شاہ اسماعیل رحمہ الله تعالیٰ کو دیا اور کہا اس پر دہلی جاؤ اور معلوم کرو کہ یہ خبر صحیح ہے یا غلط ؟ آپ حیران ہوں گے کہ اگر چہ سید احمد شہید رحمہ الله تعالیٰ، شاہ اسماعیل کے خاندان کے شاگرد ہیں اور ایسے شاگرد ہیں کہ بزرگ استادوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ سے دوسرے طریقے سے کام لے گا اور ظاہری تعلیم ختم کرنے کا مشورہ دیا تو اس خاندان کے شاگرد بھی ہیں اور اس خاندان کے فرزند شاہ اسماعیل رحمہ الله تعالیٰ کے مربی اور شیخ بھی ہیں۔ انہوں نے اپنا گھوڑا شاہ اسماعیل رحمہ الله تعالیٰ کو دیا کہ لکھنو سے دلی جاؤ، لیکن ادب کا یہ عالم ہے کہ شاہ اسماعیل رحمہ الله تعالیٰ اس گھوڑے کے لگام کو پکڑے ہوئے دلی گئے اور اس پر سوار نہیں ہوئے، حالاں کہ فاصلہ اتنا ہے جتنا کراچی سے لاہور تک۔

مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ الله تعالیٰ کاادب
مولانا محمد یعقوب صاحب رحمہ الله تعالیٰ سے کسی نے دریافت کیا کہ مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ الله تعالیٰ کو جو علوم عالیہ عطا ہوئے تھے اس کی کیا وجہ ہے ؟ مولانا نے چند اسباب بیان فرمائے، ان میں سے ایک سبب یہ بیان فرمایا کہ ان میں ادب بہت زیادہ تھا، ایک مرتبہ حاجی صاحب رحمہ الله تعالیٰ نے ایک مضمون نقل کے واسطے مولانا محمد قاسم صاحب کو دیا، اس میں ایک جگہ املاء کی غلطی تھی، جو سہواً لکھی گئی تھی، تو آپ مولانا کا ادب دیکھیں کہ نہ اس لفظ کو غلط نقل کیا کہ یہ تو علم کے خلاف تھااور نہ اس کو صحیح نقل کیا کہ اس میں حاجی صاحب کے کلام میں اصلاح تھی ،بلکہ اس لفظ کی جگہ خالی چھوڑ دی اور حضرت سے عرض کیا کہ یہ لفظ سمجھ میں نہیں آیا ،اس لیے جگہ خالی چھوڑ دی ، حضرت حاجی صاحب رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا :یہ تو غلط لکھا گیا ہے ،حضرت نے اس کو خود ہی درست کردیا ۔

ہمارے استاذ کے ادب کا حال
ہمارے استاذ تھے، ان کے ادب کا حال یہ تھا کہ ہم نے کبھی ان کو ننگے سر نہیں دیکھا،چاہے سردی ہو یا گرمی ہو، لیکن وہ ٹوپی نہیں اتارتے تھے، دوسری بات یہ کہ ہم نے کبھی ان کو پاؤں پھیلائے ہوئے نہیں دیکھا ، وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پاؤں پھیلا کر لیٹنا ادب کے خلاف ہے، اسی طرح سر سے ٹوپی اتارنا ادب کے خلاف ہے، اس لیے وہ ٹوپی بھی نہیں اتارتے تھے ،حالاں کہ کوئی مضائقہ نہیں ، قرآن میں ہے : ﴿ اَلاَ اِنَّہُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَہُمْ لِیَسْتَخْفُوا مِنْہُ اَلاَ حِیْنَ یَسْتَغْشَوْنَ ثِیَابَہُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ اِنَّہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾
ترجمہ :”یاد رکھو وہ دوہرے کرتے ہیں اپنے سینے، تاکہ چھپائیں اس (الله)سے ، یاد رکھو! جس وقت اوڑھتے ہیں اپنے کپڑے جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں“۔

حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ نے شان نزول یہ بیان کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم جب قضا ئے حاجت کے لیے بیٹھتے تو سینے جھکادیتے یا پردہ ڈال دیتے تھے، محض اللہ تعالیٰ سے حیا کی بنیاد پر تو قرآن نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو چھپانے کے باوجود دیکھ رہا ہے، اس تکلف کی ضرورت نہیں، یہ ضروریات بشریہ میں سے ہیں۔ لیکن اس کے لیے طریقہ ہے،قاعدہ یہ ہے کہ آدمی جب قضائے حاجت کے لئے جائے تو جب بیٹھنے کے قریب ہو ازار کو اس وقت نیچے کرے، اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ بے پردہ نہیں ہوں گے، کھڑے ہونے کی حالت میں ازار کو اپنی جگہ سے نیچے کرنا یہ حیا کے خلاف ہے، اس میں آدمی بالکل ننگا ہو جاتا ہے، باقی یہ نہیں کہ سینہ جھکائے یا اپنے اوپر پردہ ڈالے، اس تکلیف کی ضرورت نہیں ، تو صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کا یہ حال تھا اور ان کو اس طرح بے پردہ ہونا بھی گوارا نہ تھا، لیکن شریعت نے منع کردیا ۔

بہر حال ہمارے استاذ پاؤں نہیں پھیلاتے تھے، یہ ان کا حال تھا اور اچھا حال تھا، لیکن شریعت نے اس کا مکلف نہیں بنایا اور یہ بھی ان کاحال تھا کہ کہیں کاغذ کا پرزہ پڑاہوتا اٹھا لیتے اور فرماتے یہ تحصیل علم کا آلہ ہے اور اس کا احترام کرنا چاہیے، تو اس ادب کا نتیجہ یہ تھا کہ جب استاذ کے ہاں بخاری کا ختم ہوتا تو پچاس ہزار افراد شریک ہوتے اور ایک جم غفیر ہوتا ۔

جمعہ کے روز مولانا کی مجلس ایک گھنٹے کی ہوتی اور اس میں شرکت کے لیے پچاس ، ساٹھ ، ستر میل دور سے لوگ آتے اور مجمع اتنا ہوتا کہ شامیانے لگے ہوئے ہیں، لیکن ناکافی ہیں ۔یہ اس ادب کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے لوگوں کے دِلوں میں ایسی کشش پیدا کی کہ وہ دور دراز سے آتے تھے، ادب سے علم میں برکت ہوگی ، آپ جتنے با ادب ہوں گے اتنی ہی آپ کے علم میں برکت ہوگی اور اللہ تعالیٰ علوم کی فراوانی عطا فرمائیں گے ۔

والدین کا ادب ہو ، کتاب کا ادب ہو، استاذ کا ادب ہو، کاغذ کا ادب ہو، کتابوں میں باہمی رعایت ہو کہ تفسیر پر حدیث کی کتاب نہ رکھی جائے ، حدیث پر فقہ کی کتاب نہ رکھی جائے، فقہ پر منطق کی کتاب نہ رکھی جائے اسی طرح قرآن پڑھنے کے بعد اس کو اپنی جگہ پر رکھیں ، آج کل بیٹے ماں باپ کے نافرمان ہیں، استاذ کا ادب نہیں ، کلاس اور کتاب کا ادب نہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ علم میں برکت نہیں ۔ پہلے زمانے میں اتنے مولوی نہیں ہوتے تھے ،لیکن علم میں برکت تھی ، آج کل تو ٹی وی ہے ، ڈش ہے، مخرّب اخلاق لٹریچر ہے ، جس کی وجہ سے ہر طرف بے حیائی ہے، اگر آپ بازاروں میں جائیں گے تو روحانیت متاثر ہوگی اور اگر آپ ان سے بچیں اور ادب کا اہتمام ہو تو آپ کا فیض عام ہوگا۔

بے ادبی کی نحوست
دار العلوم دیوبند میں ایک طالب علم تھا ،اس کی قابلیت ، ذہانت اور استعداد کا بڑا چرچا تھا، اتنا چرچا تھا کہ ویسے تو وہ سبق میں آتا ہی نہیں تھا اور اگر کبھی آجاتا اور اِرادہ ہوتا کہ آج عبارت پڑھوں گا ،اگر اس کو موقع نہ ملتا اور کوئی دوسرا عبارت شروع کرتا تو وہ کتاب بغل میں اُٹھا کر چلا جاتا تھا ، بے ادبی کی انتہا تھی ، استاذ کی بھی اور کتاب اور ساتھیوں کی بھی ، ایک کام اور کرتا تھا کہ اگر ارادہ کرتا کہ آج سبق نہیں ہونے دینا ہے تو وہ آتا اور اشکال پر اشکال کرتا اور اس طرح گھنٹہ ختم ہوجاتا ، جیسے طلبہ عصر کے بعد نکلتے ہیں ایسے ہی اس کے ساتھی بھی نکلتے، وہ بھی ساتھ ہوتا تھا تو جہاں جاتے کھیت اجاڑ دیتے تھے اور شرارتیں کرتے تھے اور وہ کبھی یہ حرکت کرتا تھا کہ حقہ لیا ہوا ہے ،منہ سے لگا کر دارِ جدید کا چکر لگا رہا ہے ، تو انجام یہ ہو اکہ میزان سے لیکر دورہ تک اسی دار العلوم میں پڑھا، لیکن دورہ کے سال سہ ماہی میں اس کا اخراج ہوگیا، یقینا کوئی ناقابل برداشت حرکت کی ہوگی ، جس کی وجہ سے اخراج ہوگیا، اجلاس صد سالہ کے موقع پر ۱۹۸۱ءء میں دستار بندی تھی، جب ہم اجلاس صد سالہ کے لیے جارہے تھے تو لاہور کے اسٹیشن پر ملاقات ہوگئی وہ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے ساتھ دفن ہوا کہ نام ونشان نہ رہا #
        نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے صفحہ ہستی سے
        تمہارا نام بھی نہ رہے گا داستانوں میں

معلوم ہوا کہ ایک ہائی اسکول میں ٹیچر ہے، لوگ سارے دیوبند جارہے ہیں اور خوش ہیں اور وہ رو رہا ہے تو یہ ہے باادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب۔

کبھی اس پر فخر نہ کرو کہ ہمارا ذہن تیز ہے، حافظہ عمدہ ہے، میں نے دیوبند میں ایسے طالب علم دیکھے کہ قلم برداشتہ قصیدہ عربی کاشروع کیا اور لکھا، لیکن ان میں بھی اساتذہ کا ادب نہیں تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے علم سے نہ ان کو فائدہ ملا، نہ دوسروں نے فائدہ اٹھایا، اس لئے میں عرض کر رہا تھا کہ ادب کا پاس رکھنا بہت ضروری ہے۔

حضرت کشمیری رحمہ الله تعالیٰ کا ادب
ادب کی کچھ اقسام تو وہ ہیں جن کی اہل حال رعایت رکھ سکتے ہیں، مثلاً حضرت کشمیری رحمہ الله تعالیٰ کے بارے میں سنا ہے کہ کتاب کا حاشیہ اونچا نیچا اور ٹیڑھا بھی ہوتا ہے ، تو شاہ صاحب رحمہ الله تعالیٰ اس کے مطالعہ کے لیے اپنی نشست تبدیل کرتے ،کتاب کو نہیں گھماتے تھے، یہ شاہ صاحب کا حال تھا ہر ایک کے بس کی بات نہیں اور ادب کا جو عمومی طریقہ ہے اس کا تو ہر شخص کو خیال کرنا چاہیے۔

وآخردعوانا ان الحمدلله رب العالمین .
Flag Counter