نومولود سے متعلق شرعی احکام
مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف و استاد جامعہ فاروقیہ کراچی
بال منڈوانے سے متعلق مسائل
اس عمل سے مقصود چوں کہ صدقہ ہوتا ہے ، اس لیے اگر وسعت ہو تو بالوں کے وزن کے برابر چاندی کے بجائے سوناصدقہ کرناچاہیے اور یہ صدقہ طلبا علوم دینیہ پر کرنا زیادہ بہتر ہے۔
اس عمل کا وقت عقیقہ کرنے کے بعد کا ہے،لیکن اگر عقیقہ کرنے کی وسعت نہ ہو تو صرف صدقہ ہی کر لینا چاہیے اور اگر اس وقت صدقہ کرنے کی بھی وسعت نہ ہو تو پھر بعد میں جب بھی توفیق ہو جائے یہ عمل کر لینا چاہیے۔
بال اتروانے کے بعد انہیں کسی محفوظ جگہ دفن کر دینا چاہیے، گندگی وغیرہ کے ڈھیر پر پھینک دینا مناسب نہیں۔
اگر اس عمل سے پہلے ہی بچہ فوت ہو جائے تو اس کے بال نہیں مونڈنے چاہییں۔
نومولود سے متعلق چھٹا حکم: ختنہ کرنا
بچے سے متعلق چھٹا حکم اس کا ختنہ کرنا ہے،ختنہ کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے اور یہ شعائرِ اسلام میں داخل ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس عمل کے اہتمام کی بہت تاکید آئی ہے،فقہائے کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر شہر کے تمام افراد ترکِ ختنہ پر متفق ہو جائیں تو حاکمِ وقت ان سے قتال کرسکتا ہے۔
عن أبي ھریرة رضي اللہ عنہ ،عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال:”خمس من الفطرة: الختان، والاستحداد، وتقلیم الأظفار، ونتف الإبط، وقص الشارب“․(المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الطھارة، رقم الحدیث:2059 ،1/195، دارالسلفیة)
الختان سنة کما جاء في الخبر وھو من شعائر الإسلام وخصائصہ، حتیٰ لو اجتمع أھل بلدٍ علیٰ ترکہ، یحاربھم الإمام، فلا یُترَک إلا للضرورة، وعذرُ الشیخ الذي لا یطیق ذٰلک ظاھرٌ، فیُترک․(البحر الرائق، کتاب الخنثیٰ، مسائل شتّٰی:9/359، دار الکتب العلمیة)
ختنہ کی عمر
ختنہ کس عمر میں کروایا جاتا ہے؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بچہ ختنہ کی تکلیف برداشت کرنے کا متحمل ہو جائے ، اس کا ختنہ کر دینا چاہیے، چاہے، وہ پیدائش کا ساتواں دن ہو، چاہے بلوغت سے پہلے پہلے کوئی بھی وقت،لیکن بغیر کسی عذر یا وجہ کے اس عمل میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس عمل کی تکلیف بھی بڑھتی جائے گی۔
وما یستفاد من حال السلف أنھم کانوا یختتنون عند شعور الصبي، وکانوا یوٴخرون فیہ تاخیرا حسنا․ والأحسن عندي أن یعجّل فیہ، ویختتن قبل سن الشعور، فإنہ أیسر․(فیض الباری، کتاب الاستئذان، باب الختان بعد الکبر، رقم الحدیث:6299،10/214، دار الکتب العلمیة)
بڑی عمر میں ختنہ کروانے کا حکم
احناف کے نزدیک ختنہ کرواناسنت ہے، لیکن بچپن میں ختنہ نہ ہونے کی صورت میں بلوغت کے بعد یا اسلام قبول کرنے کے بعدختنہ کروانا لازم ہے، اس عمل میں اگرچہ شرم گاہ کی طرف دیکھنا لازم آتا ہے، لیکن ختنہ کی ضرورت کی وجہ سے شریعت میں اس کی اجازت دی گئی ہے، اس لیے اس عمل ِ مسنون کی ادائیگی میں ترکِ واجب لازم نہ آئے گا،تاہم اس عمل کے دوران ڈاکٹر پر لازم ہے کہ وہ بلا ضرورت شرم گاہ پر نظرڈالنے سے گریز کرے۔
وأما النظر إلی العورة لأجل الختان، فلیس فیہ ترک الواجب لفعل السنة، لأن النظر مأذون فیہ للضرورة․(رد المحتار مع الدرالمختار، کتاب الحج، مطلب في مکة:3/ 505،دار عالم الکتب)
یحل للرجل أن ینظر من الرجل إلیٰ سائر جسدہ إلا ما بین السرة والرکبة إلا عند الضرورة، فلا بأس أن ینظر الرجل إلیٰ موضع الختان لیختنہ ویداویہ بعد الختن․(بدائع الصنائع، کتاب الاستحسان:5/123،دارالکتب العلمیة,الطبعةالثانیة،1406 ھ )
إذا جاء عذر فلا بأس بالنظر إلیٰ عورة لأجل الضرورة، فمن ذٰلک أن الخاتن ینظر ذٰلک الموضع والخافضة کذٰلک تنظر، لأن الختان سنة، وھو من جملة الفطرة في حق الرجال لا یکمن ترکہ․(المبسوط للسرخسي، کتاب الاستحسان، النظر إلیٰ الأجنبیات:10/163، الغفاریة، کوئٹة)
ائمہ اربعہ کے نزدیک ختنہ کا حکم
ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی و امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے نزدیک ختنہ کروانا واجب ہے اور امام ابو حنیفہ و امام مالک رحمہما اللہ ختنہ کے سنت ہونے کے قائل ہیں،تاہم سب کے نزدیک یہ شعائرِ اسلام میں سے ہے۔
الختان واجب علی الرجال والنساء عندنا، وبہ قال کثیرون من السلف، کذا حکاہ الخطابي، وممن أوجبہ أحمد، وقال مالک وأبو حنیفة: سنة في حق الجمیع․(المجموع شرح المھذب، کتاب الطھارة، باب السواک:1/366، دار الفکر،والمغني لابن قدامہ، کتاب الطھارة، فصول في الفطرة، فصل:1/115، دار عالم الکتب، والفتاویٰ الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب التاسع عشرفيالختان:5/357، رشیدیة، والفواکہ الدواني، باب في الفطرة و الختان:2/494،دارالکتب العلمیة)
نو مسلم کے لیے ختنہ کا حکم
اگرکوئی شخص بلوغت کے بعد اسلام قبول کرے تو اس کے لیے ختنہ کروانا لازم ہے، البتہ نو مسلم اگر بڑی عمر والا ہو ، ضعیف و کمزور ہو، ختنہ کی تکلیف برداشت نہ کر سکتا ہو اور کوئی ماہر ،دین دار ڈاکٹربھی اس کے لیے ختنہ کروانے کو جان لیوا قرار دے دے تو ایسے شخص کے لیے ختنہ نہ کروانے کی گنجائش ہے، تاہم ایسے شخص پر قضائے حاجت کے وقت نہایت اہتمام سے صفائی کرنا لازم ہو گا۔
عن قتادة الرھاوي قال: أتیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، فأسلمتُ، فقال لي:”یا قتادة! اغتسل بماءٍ و سدرٍ، واحلق عنک شعرَ الکفر“․ وکان رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یأمر من أسلم أن یختتن، وکان ابن ثمانین سنةً․ (المعجم الکبیر للطبراني، قتادة الرھاوي، رقم الحدیث: 15363،13/344، مکتبہ دارابن تیمیہ)
واعلم أن الاختتان قبل البلوغ، وأما بعدہ فلا سبیل إلیہ، وکان الشاہ إسحاق رحمہ اللہ یفتي باختتان من أسلم من الکفار، ولو کان بالغاً، فاتفق مرَّة أن أسلم کافر کھول، فأمرہ بالاختتان، فاختتن، ثم مات فیہ، فلذا(لا) أتوسع فیہ، ولا آمر بہ البالغ، فإنہ یوٴذي کثیراً، وربما یفضي إلیٰ الھلاک․ أما قبل البلوغ، فلا توقیت فیہ، وھو المروي عن الإمام الأعظم أبي حنیفة․ (فیض الباری، کتاب الاستئذان، باب الختان بعد الکبر، رقم الحدیث:6299،10/214، دار الکتب العلمیة)
ختنہ کی حکمت و فوائد
اس عمل میں اللہ رب العزت نے شرعی و طبی بہت سارے فوائد رکھے ہیں، جن میں سے چند ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
اس عمل کی ادائیگی پر انسان کو تمام انبیا علیہم السلام کی سنت پوری کرنے کا اجر ملتا ہے، اس لیے کہ یہ تمام انبیا علیہم السلام کی سنت ہے۔
اس عمل کی وجہ سے انسان کامل طہارت اور صفائی حاصل کر سکتا ہے، اس کے بغیر نہیں، اس لیے کہ لٹکی ہوئی کھال مکمل طہارت حاصل ہونے سے مانع ہوتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے غیر مختون کی نماز کے بارے میں عدم قبولیت کا قول ہے:
عن عکرمة عن ابن عباس قال:”لا تقبل صلاة رجل لم یختتن“․(مصنف عبد الرزاق،کتاب الجامع للِامام معمر بن راشد، باب الفطرة والختان، رقم الحدیث:20248،11 /175، المکتب الإسلامی، بیروت)
یہ عمل وظیفہ زوجیت کی ادائیگی میں سہولت اور بہت زیادہ لذت کا سبب بنتا ہے۔
”وختان المرأة لیس سنة، بل مکرمة للرجال“ ْ قال: ابن عابدین تحت قول ”بل مکرمة للرجال“ : لأنہ ألذ في الجماع․زیلعي․(در المختار مع رد المحتار، کتاب الخنثیٰ، مسائل شتیٰ: 10/481 ،دار عالم الکتب، ریاض)
والختان سنة للرجل تکرمة لھا، إذ جماع المختون ألذ․(شرح النقایة، کتاب الطھارة، باب الغسل:1/77،سعید)
ختنہ سے متعلق مسائل
عمل ختنہ ہمارے دیار میں مردوں کے لیے سنت ہے، عورتوں کے لیے نہیں، البتہ اگر عورتیں بھی ختنہ کروا لیں تو ناجائز نہیں ہے؛ بلکہ بعض فقہا نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔
بلوغت سے پہلے پہلے ختنہ کروا دینا چاہیے، اگر کوئی عذر ہو تو بعد میں جیسے ہی اس پر قدرت ہوجائے، تو اس عمل کو کر لینا چاہیے۔
لڑکے کے ختنہ کے لیے کوئی ماہر مرد ہونا چاہیے، اگر ایسا کوئی مرد میسر نہ ہو تو پھر عورت بھی یہ کام کر سکتی ہے، اسی طرح بچی کا ختنہ کوئی ماہر عورت ہی کرے ، البتہ اگر کوئی ماہر نہ ملے تو جو بھی ماہر مرد ملے وہ بھی کر سکتا ہے۔
پیدائشی پیدا ہونے والے مختون کے ختنہ کی ضرورت نہیں۔
ختنہ کا جملہ خرچ بچے کا والد برداشت کرے گا، الا یہ کہ کوئی اور اپنی خوشی سے یہ اخراجات اپنے ذمے لے تو ٹھیک ہے۔
ختنہ کے موقع پر دعوت کرنے یا نہ کرنے میں اختلاف ہے،بعض کی طرف سے ممانعت منقول ہے اور بعض جواز کے قائل ہیں، بہر صورت ان مواقع پر ہونے والی رسوم و رواج اور منکرات سے بچنا از حد ضروری ہے۔
اگر کوئی بچہ ختنہ سے قبل فوت ہو جائے تو اس کا ختنہ نہیں کیا جائے گا۔
الحمد للہ! نومولود کے احکام سے متعلق سارے احکام اجمال کے ساتھ، لیکن مدلل بیان ہو چکے ہیں، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ان احکاماتِ الٰہیہ کو جگہ دیں، اپنی زندگی میں بھی اور بچوں کے اندر بھی یہ صفات پیداکرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانی چاہیے، بوقت ضروت مفتیان کرام اور دیگر تفصیلی و بڑی کتب سے مدد لی جاسکتی ہے، مذکورہ مضمون ان موضوعات کا استقصا نہیں کرتا ، بلکہ ایک حد تک ہمیں ان احکامات سے روشناس کروا سکتا ہے، اللہ رب العزت اس کا نفع عام و تام فرمائے۔آمین.