Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1434ھ

ہ رسالہ

14 - 16
حقوق الاستاذ
محترم قاری ممتاز احمد ، چمن

جس طرح دینی علوم کا پڑھنا پڑھا نا ضروری ہے اس طرح جس سے دینی علوم پڑھے جائیں اس کے حقوق ادا کرنا بھی ضروری ہے،جس طرح بے علمی کی وجہ سے انسان،انسانیت سے محروم ہوتا ہے اس طرح استاذ کا حق نہ ادا کرنے والا علم کی برکت اور خدمت سے محروم رہ جاتا ہے، استاذ کے ساتھ شاگردوں کا روحانی تعلق ہوتا ہے،جس طرح والدین کے ساتھ جسمانی تعلق اور نسبت کی وجہ سے اولاد کے لیے ان کا حق ادا کرنا واجب ہے ،جواولاد یہ حق ادا نہیں کرتی وہ قرآن و حدیث کی رو سے بد بخت شمار ہوتی ہے، بلکہ والدین کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ بھی ناراض ہوجاتا ہے،اس طرح استاذ و شاگرد کا معاملہ ہے جو شاگرد استاذ کا فرماں بردار ہو تا ہے وہ کام یاب ہوتا ہے، اس سے اللہ دین کی خدمت لیتا ہے اور جو شاگرد نافرمان ہوتا ہے اس سے اللہ ناراض ہوتا ہے ،اس کے علم میں برکت نہیں ہوتی اور نہ وہ دین کی خدمت کر سکتا ہے ۔

جسم کی نسبت سے روح کی نسبت اصل ہے ،کیوں کہ روح جسم کے مقابلے میں اصل ہے،روح ہے تو جسم بھیقائم ہے، روح نہیں تو جسم کی کوئی حیثیت نہیں۔

حدیث نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے، ایک دفعہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھا تمہیں معلوم ہے آدمی کے کتنے باپ ہوتے ہیں،انہوں نے لا علمی ظا ھر کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا آدمی کے تین باپ ہوتے ہیں۔ایک والد جس کے نطفہ سے یہ پیدا ہوا،دوسرا سُسرجس نے اس کو اپنی بیٹی نکاح میں دی اور تیسرا استاذ جس نے اس کو دین سکھا یا،پھر پو چھا کیا تمہیں معلوم ہے کہ ان میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟صحابہ کرامنے لا علمی ظاہر کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فر مایا ان تینوں میں سے استاذ کا حق زیادہ ہے، کیوں کہ اس نے اس کو دینی تعلیم دی اور دین کا تعلق روح سے ہے اور روح جسم کے مقا بلے میں اصل ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ استاذ کا حق والدین سے زیادہ ہے، جب والدین کی ناراضگی اولاد کے لیے تباہی و بربادی کا سبب بن سکتی ہے تو پھر استاذ کی ناراضگی شاگرد کے لیے کیسے دونوں جہانوں کی بربادی کا سبب نہیں بن سکتی؟

حدیث نبوی ہے ”بوڑھے مسلمان ،حافظ قرآن ،عالم دین ،عادل بادشاہ اور استاذ کی عزت کرنا تعظیم خداوندی میں داخل ہے ۔“اکابرین امت، دائمہ دین اور علمائے صالحین نے جو کچھ حاصل کیا وہ اساتذہ کے ادب اور خدمت ہی سے حاصل کیا ۔ابن وھب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے جو کچھ ملا وہ علم کی وجہ سے نہیں، اپنے استاذ امام مالک کے ادب کی وجہ سے ملا۔

امام مالک ر حمةاللہ علیہ کے شاگرد امام شافعی رحمةاللہ علیہ اپنے استاذ کے سامنے کتاب کا ورق بھی آہستہ سے الٹتے، تاکہ اس کی آوازکی وجہ سے استاذ کو تکلیف نہ ہو اور استاذ کے سامنے پانی پینے کی بھی جرأت نہ ہو تی۔

امام احمد بن حنبل رحمةاللہ علیہ ادب کی وجہ سے اپنے استاذ کا نام نہ لیتے تھے، بلکہ ان کا ذکر ان کی کنیت کے ساتھ کیا کرتے تھے ۔امام احمد بن حنبل رحمةاللہ علیہ ایک مرتبہ کسی مرض کی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے ،اثنائے گفتگو میں ان کے استاذ ابراہیم بن طہمان رحمةاللہ علیہ کا ذکر آیاتو ان کا نام سنتے ہی امام صاحب سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ یہ ناز یبابات ہوگی کہ بڑو ں کا نام لیا جائے اور ہم ٹیک لگا کر بیٹھے رہیں۔

شاگرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ استاذ کے سامنے ادب سے دوزانوہوکر بیٹھے،استاذ کے برابر نا بیٹھے،وہ کہے تب بھی نہ بیٹھے،موٴدبانہ گفتگو کرے، زور سے نہ بو لے،استاذ سے فراغت کے بعد بھی ملا قات کرتا رہے، فراغت کے بعد استاذ کو بھول جانا حق تلفی ہے۔

امام حلوانی رحمة اللہ علیہ جس وقت بخارا سے دوسری جگہ تشریف لے گئے تو امام زر نوجی رحمتہ اللہ علیہ کے علاوہ اس علا قہ کے تمام شاگرد سفر کر کے ان کی زیارت کو گئے،مدت کے بعد امام زر نو جی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے غیر حاضری پر افسوس کا اظہار کیا اور کہاکہ ماں کی خدمت کی وجہ سے نہیں آسکا،اس وقت امام حلوانی نے فرمایا تم کو عمر تو ضرور نصیب ہوگی، مگر درس نصیب نہ ہوگا،چنا ں چہ ایساہی ہوا۔

مولانا عبدالر حمن شاہمحدث مظاھر العلوم سہارن پور نے اپنا ایک واقعہ لکھا کہ میں اپنے وطن سے جب سہان پور پڑھنے کے لیے آیا تو ہر استاذ سے مل کر آیا تھا، ایک استاذ جن سے میں نے ابتدائی کتا بیں پڑھی تھیں ان سے ملاقات نا ہو سکی،جب سہارن پور آکر پڑھنا شروع کیا تو کتاب بالکل سمجھ میں نہ آئے، حالاں کہ میں اپنی جماعت میں بہت سمجھ دار سمجھا جاتا تھا،اس کے اسباب پر غور کیا ،اللہ پاک نے راہ نمائی کی اور ان استاذ کی خدمت میں خط لکھ کر معافی مانگی اور ملا قات نہ ہو سکنے کی وجہ لکھی ،انہوں نے جواب میں فرمایا میرے دل میں خیال ہوا تھا کہ مجھے چھوٹا سمجھ کر شاید تم نہیں ملے لیکن تمہارے خط سے معلوم ہوا کہ یہ بات نہیں تھی، اس کے بعد دعائیہ الفاظ لکھے ،میرا ذہن کھل گیا اور سبق سمجھ میں آنے لگا۔

شاگرد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ استا د کی اولاد اور اس کے متعلقین کی بھی تعظیم کرے ۔

تعلیم المتعلم میں لکھا ہے کہ صاحبِ ھدایہ نے ائمہ بخارا میں ایک بڑے عالم کا یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک دن یہ عالم درس میں بیٹھے ہوئے تھے، یکا یک کھڑے ہوگئے ،دریافت کرنے پر فرمایا کہ میرے استاذ کا لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، جب کھیلتے ہوئے مسجد کی طرف آیا تو میں اس کی تعظیم کے لیے کھڑا ہوگیا۔

علا مہ شعرانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو طالب علم بے ادب ہو، استاذ کے سامنے زور سے بولتا ہو،نگاہ نیچی نہ رکھتا ہو،تعظیم نہ کرتا ہو،اس کی غیر موجود گی میں حرمت وعظمت کا لحاظ نہ رکھتا ہو،استاذ کے انتقال کے بعد اس کے وظیفہ یا قیام گاہ کے لیے کوشش نہ کرتا ہو کہ اس کو مل جائے اور اس کی اولاد سے ان امور میں مقابلہ کرتا ہو اور اپنے کو ان سے زیادہ مستحق سمجھتا ہو،استاذ کے کلام کو اپنی فہم نا قص کی وجہ سے یا کسی دوسرے کے کلام سے ردکرتا ہو،استاذ سے علوم حاصل کر کے اس سے بحث مباحثہ کرتا ہو تویہ اس شاگردکی کو تا ہی عمل اور بدبختی کی علامت ہے اور ایسا شاگرد کبھی بھی کام یاب نہیں ہو سکتا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس کا غلام ہوں جس نے مجھے ایک حرف سکھایا،اگروہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو آزاد کردے یاغلام رکھے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے #
        رَأیْتُ اَحَقَّ الْحَقِّ الْمُعَلِّم
        وَاَوْجَبُہ حِفْظًا علٰی کُلِّ مُسْلِم
        لَقَدْ حَقَّ اَنْ یّھدٰی اِلَیْہِ کَرَامَةً
        لِتَعْلِیْمِ حَرْفٍ وَّاحِدٍ اَلْفُ دِرْھِم

سب سے بڑا حق تو استاذ کا ہے، جس کی رعایت تمام مسلمانوں پر فرض ہے،واقعی وہ شخص جس نے تم کو ایک لفظ سکھایااس کامستحق ہے کہ ہزار درھم اس کے لیے ھدیہ کیے جائیں۔ بلکہ اس کے احسان کے مقابلہ میں تو ہزار درہم کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔جو شخص اپنے استاذ کی تکلیف کا باعث ہو وہ علم کی برکت سے محروم رہے گا اور برابر کوششوں کے باوجود علم کی دولت سے منتفع نہیں ہو سکتا ۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے #
        اِنَّ الْمُعَلِّمَ وَالطَّبِیْبَ کِلَا ھُمَا لَا
        یَنْصَحَانِ اِذاَ ھُمَا لَا یُکْرَمَا
        فَاصْبِرْ لدَائِکَ اِنْ جَفَوْتَ طَبِیْباً
        وَاقْنَعْ بِجَھْلِکَ اِنْ جَفَوْتَ مُعَلِّمًا

استاذ اور طبیب کی جب تک تو قیر اور تعظیم نہ کی جائے وہ خیر خواہی نہیں کرتے،بیمار نے اگر طبیب کے ساتھ بدعنوانی کی ہے تو اس کو ہمیشہ بیماری پر قائم رہنا پڑے گا اور شاگرد نے اگر اپنے استاذ کے ساتھ بد تمیزی کی ہے تو ہمیشہ جاہل رہے گا۔

طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ استاذ کا ادب اور خدمت اپنے لیے ضروری سمجھے، بلکہ دونوں جہانوں کی سعادت سمجھے،جو شاگرد اپنے استاذ کی خدمت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دینی ودنیوی ترقی عطا فرماتا ہے، ایسے لوگ دین کی اشاعت کرتے ہیں، جس سے ہزاروں بند گان خدا کوہدایت نصیب ہوتی ہے، وہ زمین پر مانند ستاروں کے ہوتے ہیں،ان کی صحبت میں ایسی تاثیر ہوتی ہے کہ بر سہا برس کا پاپی گناہوں سے توبہ کرکے خداوندتعالیٰ کی معرفت کا نور قلب کے اندر پیدا کرتا ہے،ان کی فراست وذکاوت سے بڑے بڑے پیچیدہ مسائل حل ہوتے ہیں،وہ اساطین امت ہیں جن پر زمین و آسمان فخر کرتے ہیں، وہ جس سرزمین پر قدم رکھتے ہیں گم راہی دور ہو جاتی ہے اور ہدایت کی راہیں کھل جاتی ہیں۔

ہر ایک کو اس کا اچھی طرح تجربہ ہے کہ جس کو جو کچھ ملا استاذ کے ادب اور خدمت اوراس کی عنایت ومہربانی سے ملا،دین ودنیا کی عزت انہیں کی دعاوٴں کا ثمرہ ہے۔

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں تین بچے پیش پیش رہتے، اتفاق کی بات یہ ہے کہ تینوں کا نام عبداللہ تھا،حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم ان تینوں کی محبت اور خدمت کو دیکھتے تو انہیں دعائیں دیتے،دعاوٴں کا نتیجہ یہ نکلا کہ تینوں بڑے ہو کر اپنے اپنے فن کے امام بنے،عبداللہ بن مسعود امام الفقہاء بنے،عبداللہ بن عباس امام المفسر ین بنے اور عبداللہ بن عمر امام المحدثین بنے۔

حماد بن سلمہ کی ہمشیرہ عاتکہ فرماتی ہیں کہ امام ابوحنیفہ ہمارے گھر کی روئی دھنتے تھے اور ہمارا دودھ،تر کا ری خرید کر لاتے تھے اور اس طرح کے بہت سے کام کیا کرتے تھے۔

حضرت حماد،امام ابو حنیفہ کے استاذ ہیں،اس وقت کیا کوئی سمجھ سکتا تھا کہ حماد کے گھر کا یہ خادم تمام عالم کا مخدوم ہو گا؟!!

امام فخرالدین رحمة اللہ علیہ کی بادشاہ وقت بہت تعظیم کرتا تھاوہ فرماتے تھے کہ میں نے یہ سلطنت اور عزت محض استاذ کی خدمت کے سلسلہ میں پائی کیو نکہ میں اپنے استاذ قاضی امام ابو زیدد بوسی کی بہت خدمت کیا کرتا تھا، یہاں تک کہ میں نے بیس سال تک متواتران کا کھانا پکایا اور اس میں سے کچھ کھا تانہ تھا۔

حضرت مرزامظہر جان جاناں رحمة اللہ علیہ نے علم حدیث کی سند حضرت حاجی محمد افضل صاحب رحمة اللہ علیہ سے حاصل کی تھی مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ تحصیل علم سے فراغت کے بعد حاجی صاحب نے اپنی کُلاہ جوپندرہ برس تک آپ کے عمامہ کے نیچے رہ چکی تھی،مجھے عنایت فرمائی، میں نے رات کو گرم پانی میں وہ ٹوپی بھگودی،صبح کے وقت وہ پانی اِملتاش کے شربت سے زیادہ سیاہ ہو گیا تھا،میں اس کو پی گیا،اس پانی کی برکت سے میرا دل ودماغ ایسا تیز ہو گیاکہ کوئی مشکل کتاب مشکل نہ رہی۔

مولانا غلام رسول صاحب پونٹویشجاع آباد ملتان کے ایک گاوٴں پونٹہ کے رہنے والے تھے، انہوں نے شیخ الہند مولانامحمودحسن سے دورہ حدیث کیا، ان کی اپنے استاذ شیخ الہند سے بہت زیادہ محبت تھی، جس راستے سے استاذ دارالحدیث میں آیا کرتے تھے یہ رات کو چھپ کراس راستے کو اپنے عمامہ کے ساتھ جھاڑو کیا کرتے تھے، وہ اس لیے چھپتے تھے کہ دوسرے طلبہ ان کو نہ دیکھ لیں ایک مرتبہ شیخ الہند نے ان کو عمامے سے جھاڑودیتے ہوے دیکھ لیا، انہوں نے پوچھا غلام رسول !کیا کررہے ہو ؟با لآخر بتانا پڑا،شیخ نے خوش ہو کر ان کو دعا دے دی بس استاذ کی دعا شاگرد کے کام آگئی، جب یہ فارغ ہوئے تو ان کا علمی فیض خوب چلاشجاع آباد سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ان کا گاوٴں پونٹہ تھا انہوں نے ہی شرح مأتہ عامل پونٹوی لکھی، ان کو پورے ملک کے علما کی طرف سے شمس النحاة کا لقب ملا،طلبہ کا ہجوم ہوتا،طلبہ شجاع آباد شہر میں بس سے اترتے اور تیس کلو میٹر پیدل چل کر اپنا بور یا بستر اور سامان اپنے سروں پر رکھ کر پونٹہ جایا کرتے تھے، ان کے پاس ساڑھے تین سو شاگرد ہوتے تھے،مولانا عبداللہ در خواستی اور مولانا عبداللہ بہلوی انہی کے شاگرد تھے، جن کا علمی وروحانی فیض سارے جہاں میں پھیلا۔

اساتذہ کی ٹوپیا ں اور پگڑیاں اچھا لنے والے اور مدرسہ کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی اسکیمیں کرنے والے اس پر غور کریں کہ استاذ کی عظمت کرنے والوں نے کیا دولت حاصل کی اور پھر انہوں نے دنیا کو کیسا فیض پہنچایا۔

طالب علم کو چاہیے کہ بغیر اجازت استاذ سے بات نہ کرے،اس کے سامنے بلند آواز سے نہ بولے،اس کے آگے نہ چلے،اس کے بیٹھنے کی جگہ پر نہ بیٹھے،اس کی منشامعلوم کرنے کی کوشش کرتا رہے اور اس کے مطابق عمل کرے،اگر کسی وقت استاذ کی طبیعت مکدر ہو تو اس وقت اس سے کوئی بات نہ پوچھے،کسی اور وقت دریافت کرلے،استاذ کو آواز دے کر نہ بلائے، بلکہ اس کے نکلنے کا انتظار کرے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اصحاب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم میں انصار کے پاس سے مجھے زیادہ علم ملا،میں ان کے دروازے پر دوپہر کے وقت گرمی میں پڑرہتاتھا حالاں کہ اگر میں چاہتا تو وہ مطلع ہو نے پر فوراًنکل آتے، مگر مجھے ان کے آرام کاخیال رہتا تھا،جب وہ باہر آ تے اس وقت میں ان سے دریافت کرتا۔

حضرت شیخ الا دب مولانا اعزازعلی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں متعدد حضرات نے بیان کیا کہ کوئی بات دریافت کرنی ہوتی یا کتاب کا مضمون سمجھنا ہوتا تو اپنے استاذ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ کے مکان کے دروازے پر جا کر بیٹھ جاتے، جب حضرت گھر سے باہر نکلتے اس وقت دریافت کرتے اور یہ ان کا معمول تھا۔

طالب علم کو چاہیے کہ دوران درس اور فراغت کے بعد استاذ کے مشورے پر عمل کرے،استاذ کی مرضی کے مطابق عمل کرے، سبق اور کتاب کا انتخاب خود اپنی رائے سے نہ کرے۔

پہلے زمانے میں طلبہ اپنے پڑھنے پڑھانے کا معاملہ استاذ پر معلق رکھتے تھے، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ اپنے مقاصد میں کام یاب ہوتے تھے اور جب خود انتخاب شروع کردیا تو علم سے محروم رہنے لگے۔

امام بخاری رحمةاللہ علیہ نے محمد بن حسن سے کتاب الصلوٰةپڑھنی شروع کی تو ان سے محمد بن حسن نے فرمایا تمہارے لیے علم حدیث کا پڑھنا مناسب ہے، کیوں کہ تمہارے اندر اس علم سے مناسبت پاتا ہوں،امام بخاری نے اپنے استاذ کا مشورہ قبول کیا، دنیا نے دیکھا کہ وہ امیر الموٴمنین فی الحدیث ہوئے،اس سے معلوم ہوا کہ طالب علم کو جس فن سے مناسبت ہو ا س میں زیادہ محنت کرکے مہارت پیدا کرے اور پھر اس کی اشاعت میں لگ جائے ،اس میں خود رائی نہ کرے، بلکہ استاذ سے اس میں مشورہ کر لے۔

قرآن مجید میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو مشورہ کا حکم فرمایا گیا ہے، حالاں کہ آپ سے زیادہ سمجھ دار کوئی نہیں ہو سکتا،چناں چہ آپ صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا کرتے تھے، حتیٰ کہ گھریلو زندگی کے معاملات میں بھی مشورہ کرتے تھے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ‘ فرماتے ہیں کہ کوئی بھی شخص مشورہ کرنے کے بعد ہلاک نہیں ہوا۔یہ مقولہ مشہور ہے کہ انسان تین قسم کے ہوتے ہیں، ایک کامل انسان ،دوسر انصف اور تیسرا لاشے کے درجہ میں۔ مرد کامل وہ ہے جو صاحب رائے ہونے کے باوجود مشورہ کرتاہو۔

اور تیسرا مرد جو بالکل لا شے کے درجہ میں ہے وہ ہے جو نہ درست رائے رکھتا ہوا ورنہ مشورہ کرتا ہو۔

حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے حضرت سفیان ثوری  کونصیحت کی تھی کہ اپنے معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ لیتے رہا کرو جن کے قلوب اللہ کے خوف سے لبریز ہوں۔

جب تمام معاملات میں مشورہ کی ضرورت ہے تو علم جو ایک بلند ترین مقصد ہے اس میں مشورہ کرنا تو زیادہ ضروری ہے اوراستاذسے بڑھ کر اس معاملہ میں کوئی صحیح رائے نہیں دے سکتا،جب تک استاذ کی مرضی اور اجازت نہ ہواستاذ کو چھوڑ کرنہ جائے، جوطلبہ استاذوں کو بدلتے رہتے ہیں،کبھی کسی کے پاس گئے، کبھی کسی کے پاس چلے گئے،اس سے علم کی برکت ختم ہوجاتی ہے، حضرت حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب کی رائے ہوئی کہ دوسرے استاذ کے پاس پڑھنے کے لیے بھیجا جائے،جب مجھے معلوم ہو اتورات بھر نیند نہیں آئی،کھانا نہیں کھایا گیا،گھر کی مستورات نے یہ حال دیکھا تو والد صاحب نے اپنی رائے بدل دی اور میں بدستوراپنے سابق استاذ کے پاس پڑھتا رہا۔پھر دنیانے دیکھا کہ استاذ کی عظمت ومحبت نے کیا رنگ پیدا کیا، اور حضرت سے اصلاح امت کا کتنا بڑا کام ہوا۔ 
Flag Counter