Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1434ھ

ہ رسالہ

2 - 16
اسلام میں علم کی اہمیت
محترم عبدالمنان معاویہ، مکہ مکرمہ

علم ہر دین اور مذہب میں ضروری قرار پایا جاتا ہے، کوئی مذہب یا دین علم کی مخالفت نہیں کرتا، بلکہ علم کو انسان کی ضرورت کے ساتھ ساتھ مذہب کے لیے بھی ضروری تصور کیا جاتا ہے، آج دنیا میں جس قدر مذاہب وادیان ہماری معلومات میں ہیں سب کے سب علم کو بقائے مذہب کے لیے اساسِ اول مانتے ہیں، یہود کی توریت ہو یا عیسائیت کی انجیل اور موجودہ توریت، انجیل ،زبورودیگر صحائف ومکاشفات کا مجموعہ یعنی بائبل یا پھر اہل ہند میں وید،گیتا یارا مائن کی داستانیں یا دیگر مذہبی کتب،کنفوشیس کی تعلیم ہو یا بدھ مت کی،بابا گرونانک کا فلسفہ ہو یازرتشت کا،سب میں تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے اور کوئی دین یا مذہب علم کی اہمیت سے انکاری نہیں ہے،علم کے قدر دان سب ہیں، کوئی بھی علم دشمن نہیں ہے، ہاں! کہیں حصول علم کے لیے کاوشیں زیادہ کی جاتی ہیں اور کہیں کم۔لیکن یہ بات یقینی ہے کہ علم کا کلیتاًانکاری ہماری معلومات میں کوئی مذہب نہیں ہے اور اگر کوئی ہے تو ہم اس سے لاعلم ہیں۔

ہاں!عیسائیت نے سائنس کی مخالفت ضرورکی ہے، دراصل پادریوں نے سائنس کو مذہبِ عیسائیت کے لیے نقصان دہ تصور کیا، لیکن یہ بات بھی یقینی ہے کہ بالکل تعلیم کی مخالفت عیسائیت نے بھی نہیں کی تو یہ بات ثابت ہوئی کہ علم ہر مذہب میں اساس کا درجہ رکھتا ہے، اس کے بغیر کوئی مذہب ترقی کی راہ پر گام زن نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اقوام عالم بام عروج حاصل کرسکتی ہیں۔

ان سب کے بر عکس اسلام ایک آفاقی دین ہے، جو قیامت تک آنے والی انسانیت کی فلاح وبہبود کاضامن ہے تو یہ عالم گیر دین کیسے علم کی مخالفت کرسکتا ہے یا کیسے اعلیٰ درجہ کی تعلیم میں باعث رکاوٹ بن سکتا ہے؟

اسلام دین ہے
علم کے اس موضوع کو آگے بڑھانے سے قبل یہ جان لیں کہ اسلام ایک دین ہے، صرف مذہب نہیں کیوں کہ مذہب عبادات اور اعمال کا نام ہے، جب کہ دین انسانی حیات کے ہر شعبہ میں حضرت انسان کی راہ نمائی کرتاہے اسی لیے قرآن حکیم میں ہر مقام پر اسلام کو دین کہا گیا ہے، کہیں بھی مذہب نہیں کیا گیا اور فقہی اصطلاح میں مذہب کی نسبت فقہائے عظام کی طرف ہوتی ہے، جیسے مذہب امام ابو حنیفہ،مذہب امام شافعی، مذہب امام احمد بن حنبل،یا مذہب امام مالک ۔اسی طرح دیگر فقہائے عظام کی جانب مذہب کی نسبت کی جاتی ہے، جن میں مشہور ومعروف امام ابن تیمیہ ،امام ابن حزم اندلسی،امام بخاریکے بھی مذاہب تھے، جو زیادہ دیر نہ چل سکے، لیکن مقبولیت فقہائے اربعہ کے مذاہب کو حاصل ہوئی۔ اسی طرح یہ جان لیں کہ فقہائے عظام  کسی بھی مسئلہ کے موجد نہیں ہوتے بلکہ وہ استنباط کرتے ہیں یعنی وہ مسئلہ”مستنبط“کرتے ہیں، آسان لفظوں میں یہ جان لیں کہ فقہائے عظاممسئلے کو ظاہر کرتے ہیں، خود ایجاد نہیں کرتے اور ان کے اپنے اقوال امت مسلمہ کے دیگر اہل علم کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ اگر ان کا کوئی قول قرآن وسنت کے خلاف ہو تو اس مسئلہ میں ان کے قول کے بجائے قرآن وسنت کی طرف رجوع کیا جائے، جیسا کہ اہل علم سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ احناف کے ہاں کئی مسائل میں امام ابوحنیفہکے قول کے بجائی فتویٰ امام ابو یوسف یا امام محمد بن حسن شیبانیکے قول پر دیا جاتاہے اور ان کا قول امام ابوحنیفہ کے قول کے مخالف ہوتا ہے۔ خیر اس وقت ہمار اموضوع فقہائے عظام نہیں ہیں، بلکہ ہم عرض یہ کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام ایک دین ہے اور لفظ دین کا صحیح مفہوم ہے”مکمل نظام ِحیات“

قرآن حکیم میں قادر مطلق حق جل مجدہ فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَم﴾(آل عمران:19)
اس آیت کریمہ کا مفہوم ہم یوں عرض کرتے ہیں کہ اب”اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بہتر نظام حیات اسلام کا نظام حیات ہے۔تو جب دین اسلام قیام قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہے تو دین اسلام نے بدلتے ہوئے ادوار کے انسانوں کی جملہ ضرورتوں کا حل بھی پیش کرنا ہے، اب سائنس نے ترقی کی اور دنیا ایک گاوٴں کی مانند ہو کر رہ گئی ہے تو اس جدید دور میں انسانیت کو پیش آمدہ مسائل کاحل بھی دین اسلام پیش کرتا ہے۔اور نئے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے ضرورت ہے وسعت علم کی،کیوں کہ جب تک انسان کو علم نہیں ہوگا اس وقت تک وہ اپنے مسائل حل نہیں کرسکتا تو ہم دیکھتے ہیں کہ دین اسلام میں علم کے متعلق کیا فرامین ہیں۔

علم کی اہمیت قرآن حکیم کی نظر میں
قرآن حکیم مسلمانوں کے لیے دستور حیات ہے، قرآن حکیم میں علم کی اہمیت وافادیت سے متعلقہ آیات میں سے چند ملاحظہ فرمائیے۔نبی اکرم صلی الله علیہ وسلمپر جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی، وہ یہ ہے۔

﴿أقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ،خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ،عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَم﴾ (سورةعلق:5-1)
ترجمہ آیات:پڑھیے اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا،جس نے انسان کوخون کے لوتھڑے سے پیدا کیا،پڑھیے آپ کا رب بڑا کرم والا ہے،جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ،جس نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

صحیح بخاری کتاب بدء الوحی میں ہے کہ یہ پہلی وحی تھی جو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر غار حر امیں نازل ہوئی، فرشتہ حاضر ہوا اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا” پڑھیے“۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں اس نے دوبارہ آپ کو پکڑ کر زور سے بھینچااور کہا پڑھیے لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”ماانا بقاری“میں پڑھاہو انہیں ہوں پھر تیسری بار اس نے آپ کو ایسے ہی پکڑ کر بھینچا اور کہا پڑھیے۔

تو اس پہلی وحی سے پتہ چلا کہ دین اسلام کی بنیادہی علم ہے، دین اسلام کا آغاز ہی علم سے ہوا اور فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ اقرأ پڑھیے ۔تو جس دین کی ابتدااس جملہ سے ہوئی، جس میں حکم ہے پڑھنے کا تو یہ دین کیسے تعلیم کی مخالفت کرسکتاہے؟۔

اب ہم کتاب الہٰی کی دوسری شہادت علم سے متعلق پیش کرتے ہیں یہ بھی ملاحظہ فرمالیں۔

قرآن حکیم کے انتیسویں پارہ میں ایک سورت کانام ہے ”سورةالقلم “ لائق توجہ بات یہ ہے کہ جس دین کی بنیادی کتاب جس کے متعلق اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ قرآن حکیم اللہ عزّوجل کا کلام مقدس ہے اور یہ آں حضور صلی الله علیہ وسلم پر عرصہ تئیس سال میں نازل ہوا اور قرآن حکیم کی ایک آیت کا منکر بھی کافر ہے تو اُسی کتاب میں ایک سورت کانام ”القلم ‘ ‘ ہے، جس سے علم کی اہمیت کاپتہ چلتا ہے، کیوں کہ علم کے حصول میں قلم کی افادیت سے کسی بھی ذی شعور کو انکار نہیں ہے۔

قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے: ﴿ن وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُون﴾․ (سورة القلم:1)
ن،قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ وہ(فرشتے)لکھتے ہیں۔

اب ایک بار پھر ہم آپ کو غوروفکر کی دعوت دیں گے کہدیکھیے کہ کلام باری تعالیٰ میں خود باری تعالی عزوجل قسم کھارہے ہیں قلم کی۔تو اللہ تعالی جس شے کی قسم کھائیں اہل اسلام سے کیسے ممکن ہے کہ وہ اس شے کی قدر نہ کریں اور اس شے کی اہمیت وافادیت کے منکر ہوں؟

اور قلم کا کردار علم کے معاملے میں سب سے زائد ہے، اس لیے کہ حصول علم کے ذرائع میں سب سے معتبر ذریعہ قلم کے ذریعہ سے قلم بند کی ہوئی دستاویزات ہوتی ہیں، حافظہ بشریت میں کمزوری ہو سکتی ہے، حافظہ کمزور ہو سکتا ہے، لیکن تحریر کی ہوئی دستاویز محفوظ رہتی ہے ، اس لیے حق جل مجدہ نے قلم کی قسم کھائی ہے، بہر کیف یہ تو انسان کے محدود ذہن کی خامہ فرسائی ہے، قلم کے اس سے بھی زائد فوائد ہیں اور اس کی حقیقت کو حق تعالی ہی بہتر جانتے ہیں۔

قرآن حکیم کی ایک اور آیت کریمہ بھی ملا حظہ فرمالیں:
﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ﴾․ (سورةالجمعہ:2)
وہی(اللہ)ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو انہیں آیات ربانیہ پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور بے شک اس سے قبل کھلی گم راہی میں تھے۔(مفہومِ آیت)

ان آیات ربانی سے جو علمی نکات ایک طالب قرآن خذ کر سکتا ہے، ان سب کو اس مختصر مضمون میں ہم نہیں سمیٹ سکتے، بس اپنے موضوع پر رہتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ اس آیت ربانی سے بھی علم کے حصول کی واضح تعلیم ملتی ہے، بلکہ اہل نظر سے یہ پوشیدہ نہیں کہ آیت الہٰی میں حکم الہٰی اپنے پیارے رسول نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو کتاب الہٰی کی تعلیم دیں، کیوں کہ اب احیائے علم انہی سے ہوگا اور ان کے کردار کو ایسا اُجلا کردے کہ دیکھنے والی آنکھیں صرف کردارِصحابہکو دیکھ کر دنگ رہ جائیں کہ اس مختصر سے عرصے میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم نے انہیں کس طرح باکردار بنادیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک دنیا صحابہ کرام کے کردار کو دیکھ کر دین اسلام میں داخل ہو گئی۔

قرآن حکیم کی ان شہادات کے بعد ہم ارشادات نبوی صلی الله علیہ وسلم پیش کرتے ہیں جن سے علم اور اہل علم کے مقام کا علم ہوتا ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”ان اللہ وملائکتہ واھل السّمٰوٰت والارضین حتّیٰ النّملة فی جحرھا وحتّیٰ الحوت لیصلّون علیٰ معلّم النّاس الخیر “․(جامع ترمذی،ابواب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة)
خیر کی تعلیم دینے والے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ،فرشتے،اہل آسمان،اہل زمین،حتیٰ کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں دعائے خیر کرتی ہیں۔

اس فرمان رسالت میں رسول اعظم صلى الله عليه وسلم نے کسی مخصوص تعلیم کا ذکر نہیں فرمایا، بلکہ سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم نے جملہ”خیر“کا ذکر فرمادیا کہ جو بھی خیر کی تعلیم دے گا وہ اس بشارت عظمیٰ کا یقینامستحق ہوگا۔ ہاں! اگر تعلیم خیر کی نہ ہو، بلکہ اس تعلیم سے انسانیت کو نقصان ہو اور دنیائے علم کو اس علم سے نفع ہونے کے بجائے نقصان سے دوچار ہونا پڑے تو ایسے علم کی اشاعت کرنے والا اس بشارت میں شامل نہیں ہوگا، کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے کہ #
        ہم ایسی کل کتابوں کو قابل ضبطی سمجھتے ہیں
        جنہیں پڑھ کر بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

تو ایسا علم جس سے بڑوں کاادب اور بچوں پر شفقت اور کل انسانیت سے ہمدردی کاجذبہ نہ ابھرے تو میرے خیال میں وہ علم اور اس کے حامل اس بشارت میں شامل نہیں ہوں گے۔واللہ اعلم بحقیقة الحال

دوسرے مقام پر سرور دوعالم ،نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عالم کو قمر سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا
”فضل العالم علیٰ العابد کفضل القمر علی سائر الکواکب، وان العلماء ورثةالانبیاء“(حوالہ سابقہ وسنن ابی داود، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم ،سنن ابن ماجہ،المقدمہ۔یہی روایت اختلاف الفاظ سے”اصول کافی،کتاب العقل والجہل،باب صفة العلم وفضلہ وفضل العلمآء“میں امام جعفر صادقسے بھی نقل کی گئی ہے۔)

عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چاند کی تمام ستاروں پر۔علماء تو انبیائے کرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔
اس فرمان نبوی صلی الله علیہ وسلم سے عالم کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ اسے عابد پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسے کہ چاند کو فضیلت جملہ ستاروں پر ہے اور جیسے چاند تمام ستاروں میں نمایاں ہوتا ہے ایسے ہی عالم تمام انسانوں میں نمایاں ہوتاہے اور اس کویہ فضیلت علم کی بدولت حاصل ہوئی۔

تو اس فرمان نبوی صلی الله علیہ وسلم جہاں عالم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اسی طرح علم کی فضیلت خود بخود ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ عالم کی ارفع شان اس کی ذات کی وجہ سے نہیں، بلکہ علم کی وجہ سے ہے۔ان فرامین رسالت کے بعد نہایت اختصار کے ساتھ تاریخ اسلام میں مختلف ادوار میں خلفائے اسلام کی علم دوستی درج کرتے ہیں، تاکہ قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ خلفائے اسلام کا نہایت روشن کردار بھی آپ کے سامنے آجائے۔ملاحظہ فرمائیے:

خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کے دور مسعود میں جنگ یمامہ میں کثیر تعداد میں حضرات صحابہ کرام شہید ہوئے تو سیدنا حضرت عمر فاروق  کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر اصحاب نبی اسی طرح شہید ہوتے رہے تو قرآن کریم جو ان کے سینوں میں ہے وہ ضائع نہ ہو جائے، اس فکر کے لاحق ہوتے ہی انہوں نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر کو اپنی فکر سے آگاہ کیا۔ اولاً تو سیدنا ابوبکر  نے تردد کیا، لیکن بعد میں اصحاب رسول کے مشورے سے آپ نے جمع قرآن کا سیدنا زید بن ثابت کو حکم دیا تو پہلی علمی کاوش اور ترقی علم کی جانب مسلمانوں کا سفر یہاں سے شروع ہوا، پھر جب تلفظات ِقرآنی کے بدلنے سے معانی قرآن بدلنے کا اندیشہ ہوا تو خلیفہ ثالث سیدنا عثمان ذوالنورین نے قرآن حکیم کو لغت قریش پر مرتب کروا کر تمام بلاد اسلامیہ میں اس کے نسخہ جات ارسال کردیے، اسی طرح خلیفہ رابع سیدنا علی المرتضیٰنے خوارج سے تنزیل القرآن پر جہاد کیا۔ یہ عمل جہاں حفاظت قرآن کریم کے لیے خداوندی تائید ونصرت سے تھا اسی طرح مسلمانوں کے علمی سفر کاآغاز بھی تھا، پھر خلیفةالمسلمین، خال المومنین، سیدنا امیر معاویہ  نے پہلا بحری بیڑا تیار کروا کر قسطنطنیہ کی جانب بھیجا تو گویا علمی ارتقاء میں مسلمانوں کاسائنس کی طرف پہلا قدم تھا محکمہ ڈاک اور جمع تاریخ کا آغاز بھی سیدنا امیر معاویہکے دورِمسعود میں ہوا، پھر یزید بن معاویہکے فرزند جناب خالد بن یزید  پہلے کیمیا دان تھے یہ سائنس کے علوم کی جانب مسلمانوں کا دوسرا قدم تھا، پھر عمر بن عبدالعزیز آئے تو انہوں نے تدوین حدیث کی جانب محدثین کو راغب کیا اور محدث شہاب زہری نے تدوین حدیث کا بیڑا اٹھایا، اس طرح علم کی جانب یہ قدم بھی کار آمد ثابت ہوا کہ اس ایک کاوش سے کئی محدثین نے حدیث نبوی کے ذخیر ے مرتب کیے اور پھر اسماء الرجال کا فن اسی جمع حدیث کی وجہ سے مسلمانوں نے ایجاد کیا ،جس کی وجہ سے تقریباً پانچ لاکھ انسانوں کی زندگی کے حالات قلم بند ہوگئے ہیں ۔اب ذرا آگے چلیے!ہارون الرشید کے نام سے توآپ ضرور واقف ہوں گے، ان کے متعلق تاریخ میں درج ہے۔”قاضی فاضل کہتے ہیں کہ دوبادشاہوں کے سو ا کوئی نہ ہوا جنہوں نے طلبِ علم میں سفر اختیار کیے ہوں ایک ہارون الرشید کہ اس نے اپنے بیٹوں کے ہمراہ موطا امام مالک کی سماعت کے لیے سفر اختیار کیا اور دوسرے صلاح الدین ایوبی تھے، وہ بھی موطا امام مالک ہی کی سماعت کے واسطے اسکندریہ گئے۔“

یہ شوق بادشاہوں کاطلبِ علم کے لیے تھا اور ان مختصر واقعات سے جہاں علم کے ساتھ مسلمانوں کا قلبی لگاوٴ معلوم ہوتا ہے وہیں عروج مسلم کا راز بھی عیاں ہوتاہے، آج اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ مسلمان علم کے فروغ میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ خرچ کریں ۔

اور علم کی ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، کیوں کہ دنیا وآخرت کی ترقی کاراز بھی علم ہی ہے۔

تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی اسلامی ودینی تہذیب وثقافت کو تھام کر علمی منازل طے کریں، تب ہی ہم اس زوال کے دلدل سے نکل کر دوبارہ مسند عزت واقتدار پر براجمان ہوسکیں گے۔ 
Flag Counter